پروفیسر مسعود الرحمان نقیب میرے نہایت پیارے دوستوں میں سے ایک ہیں۔ جولائی 1990ء سے ان سے میرے گہرے دوستانہ مراسم قائم ہیں۔ جس دور میں ان سے دوستی ہوئی تو انہوں نے ازراہ محبت مجھے ’’حیات صحابہ کے درخشاں پہلو‘‘ کتاب کا حصہ اول ہدیۃ عنایت فرمایا۔ کتاب اس قدر دلچسپ ایمان افروز اور اردو زبان و ادب کی چاشنی کو اپنے دامن میں لیے ہوئے تھی کہ میں نے تین چارگھنٹے میں اس کا مطالعہ کر ڈالا۔ اس کے بعد اس کتاب کے مصنف کی جو بھی کتاب اشاعت پذیر ہوئی اس کے حصول اور مطالعہ کی جستجو رہی۔ سن 1999ء کے موسم سرما کی آمد آمد تھی کہ ایک روز دوپہر کے وقت کیا دیکھتا ہوں کہ ایک صاحب مکتبہ کی جانب خراماں خراماں چلے آرہے ہیں۔ نکلتا ہوا قد، کتابی چہری، سفیدی مائل گورا رنگ، خوب صورت داڑھی، سر پر قراقلی کی ٹوپی، شلوار قمیض زیب تن، پائوں میں بند جوتا، دیکھنے میں مردانہ حسن کا خوب صورت پیکر۔ انہیں دیکھ کر میرے دل میں خیال آیا کہ ضرور یہ کوئی اونچی ہستی ہے۔ میں جلدی سے اٹھا ان کے سلام کا جواب دیا اور ان سے مصافحہ و معانقہ کیا اور انہیں کرسی پر تشریف رکھنے کو کہا۔ سلام دعا کے بعد ان سے تعار ف ہوا تو معلوم ہوا کہ یہ بزرگ جماعت اہل حدیث کے عظیم عالم دین، معروف مصنف و مترجم اور مداح صحابہ حضرت مولانا محمود احمد غضنفر صاحب ہیں۔ جن کی کتابیں عرصہ دراز سے میں مطالعہ کرتا آیا تھا۔ ان سے میری یہ پہلی ملاقات تھی جو یاد گار رہی ۔ اس ملاقات سے میرے ان سے دوستانہ مراسم قائم ہوئے۔ گاہے گاہے مولانا محمود صاحب فیصل آباد تشریف لاتے تو راقم کے ہاں مکتبہ پر بھی ضرور آتے اور ان سے خوب مجلس رہتی ۔ مولانا محمود صاحب دلچسپ آدمی ہیں اور اپنی عزوبت لسان اور شرینی گفتار سے خوب محظوظ کرتے ہیں۔ ایک بار تشریف لائے اور میرے استفسار پر فرمانے لگے ’’جنت میں ٹہرا ہوا ہو۔ شام کو مکتبہ سے فارغ ہو کر تشریف لائیں باتیں ہوں گی۔ چنانچہ رات کو میں اور میرے مرحوم دوست علی ارشد چودھری انہیں الجنت ہوٹل میں جا کر ملے۔ انہوں نے چائے اور دیگر لوازمات سے ہماری تواضع کی۔ اس ملاقات میں انہوں نے ایک رجسٹر بھی دکھایا اس میں ’’حیات انبیائ‘‘ کتاب کے ابتدائی مضامین لکھے ہوئے تھے۔ حال ہی میں یہ کتاب نعمانی کتاب خانہ لاہور کی طرف سے بہت خوب صورت انداز میں شائع کی گئی ہے۔

ایک بار راقم کی دعوت پر مولانا محمود صاحب میرے غریب خانہ میں تشریف لائے، علی ارشد چودھری مرحوم بھی ہمراہ تھے، رات کا کھانا کھایا اور دیر تک ان سے مجلس رہی۔ اثنائے گفتگو انہوں نے بتایا کہ ایک بار وہ کویت میں مکتبہ احمد بن حنبل پر کتابیں دیکھ رہے تھے کہ ابن ندیم کی الفہرست پر نظر پڑی۔ اس کتاب کا اردو ترجمہ جو کہ مولانا محمد اسحاق بھٹی صاحب حفظہ اللہ نے کیا تھا کے پاس تھا۔ اصل عربی کتاب میں نے اٹھائی اور اس کا ورق الٹا تو باب القلم کے تحت شعر لکھا تھا۔

ببکاء الاقلام تتبسم الکتب ’’                          قلم کی اشک باری سے کتابیں مسکراتی ہیں۔‘‘

اتفاق سے اس وقت کتابوں کے اسٹال پر مکتبہ کا مالک موجود تھا۔ میں نے اس کے پاس جا کر اسے عربی کا جملہ سنایا، جسے سن کر وہ جھوم اٹھا اور اس نے الفہرست کے اس عربی نسخے پر میرا نام لکھ کر مجھے کتاب ہدیہ کر دی۔ راقم نے یہ واقعہ سن کر مولانا محمود صاحب کی خدمت میں عرض کیا حضرت یہ عربی شعر مجھے لکھ دیں۔ میری ذاتی لائبریری مین ان کے ہم نام علامہ محمود میری پوری (وفات 9 اکتوبر 1988ئ) کے کالموں کا مجموعہ ’’تلخ و شیریں‘‘ موجود تھا۔ مولانا محمود صاحب نے اس کتاب کے شروع میں سادہ صفحے پر مذکورہ شعر اور اس کا اردو ترجمہ لکھ کر نیچے اپنے دستخط کر دیئے۔ میری لائبریری میں یہ کتاب موجود ہے اور اس کے شروع سادہ صفحے پر مولانا کے دستخطوں کے نیچے جو تاریخ رقم ہے وہ 11 مارچ 2001ء ہے۔

مولانا محمود صاحب مروت اور محبت والے علم دوست انسان ہیں۔ کئی سال سے مختلف عوارض نے ان کو گھیر رکھا ہے۔ لیکن اس کے باوجود ان کا قلم تصنیف و تالیف اور ترجمہ کتب میں خوب چل رہاہے۔ اور انہوں نے عزم و ہمت سے کئی کتابوں کو تصنیف کیا اور کئی عربی کتابوں کے اردو ترجمے کر دئے ہیں۔

28 دسمبر 2008ء کو میں ان کے ہاں شیخو پورہ حاضر ہوا تھا۔ بیماری کے باوجود نہایت خلوص، محبت، شفقت اور تپاک سے ملے۔ اس دن ان کے پوتے کا عقیقہ تھا اور ان کے بھائی بھی آئے ہوئے تھے۔ انہوں نے ان سب سے میرا تعارف کرایا اور میری قلمی کاوشوں سے ان کو آگاہ کیا اور ساتھ ہی اچھے الفاظ میں میری حوصلہ افزائی کی۔ پھر کویت میں مقیم اپنے اکلوتے صاحبزادے سے فون پر میری بات بھی کروائی۔ اس مجلس میں انہوں نے بعض ادیبوں، شاعروں اور مصنفوں کے دلچسپ واقعات اور لطائف سنا کر محفل کو خوب گرمایا۔  مولانا حافظ محمد یوسف گکھڑوی مرحوم سے انہوں نے بتایا کہ لاہور کے کشمیری بازار میں اہلحدیث اکادمی جس کے مالک شیخ اشرف تھے۔ وہاں آکر گاہک کتاب مانگتا، اگر مطلوبہ کتاب نہ ہوتی تو شیخ اشرف صاحب کہتے آپ تشریف رکھیں۔ پھر وہ گاہک کا جوتا پہن کر کسی دوسری دکان سے کتاب لینے چلے جاتے ۔ ایسا وہ اس لئیے کرتے کہ گاہک کہیں جانے نہ پائے۔ وہ صحیح معنوں میں کاروباری تھے۔

شیخوپورہ میں مولانا محمود صاحب سے دو گھنٹے مجلس رہی۔ میں اجازت لے کر آنے لگا تو ازراہ کرم انہوں نے اپنی دو کتب ’’گلشن رسالت کی مہکتی کلیاں‘‘ اور اردو ترجمہ ’’شمائل محمدیہ‘‘ اپنے دستخطوں سے مرحمت فرمائیں۔

بلاشبہ مولانا محمود احمد غضنفر عصر حاضر کے بلند پایہ مصنف، ادیب، مترجم، اور مفسر قرآن ہیں۔ ان کی کتابوں میں علمی شان کے ساتھ ساتھ اردو زبان و ادب کی رعنائی بھی عروج پر دکھائی دیتی ہے۔ اور ان کی کتابیں دینی مذہبی، علمی اور ادبی حلقوں میں ذوق و شوق سے پڑھتی جاتی ہیں، قارئین اس انتظار میں رہتے ہیں کہ ان کی کون سے نئی کتاب چھپ کر مارکیٹ میں آئی ہے۔ تمہید ذرا طولانی ہوگئی اب آئیے ان کے ابتدائی حالات اور دینی و تصنیفی خدمات کا کھوج لگانے کی کوشش کریں مولانا محمود احمد غضنفر صاحب یکم جنوری 1945ء میں ہندوستان کے معروف شہر لدھیانہ کے نواحی قصبے میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد کا نام غلام محمد تھا۔ وہ چینی کا کاروبار کرتے تھے اور پوت ضلع لدھیانہ میں گائوں کے کھاتے پیتے لوگوں میں ان کا شمار ہوتا تھا۔ مسلک اہل حدیث سے انہیں والہانہ لگائوں تھا۔ گائوں میں اکثر جماعتی جلسے ہوتے اور مولانا حافظ عبداللہ رو پڑی، حافظ اسماعیل رو پڑی، سلطان المناظرین حافظ عبدالقادر رو پڑی، مولانا یحییٰ حافظ آبادی، مولانا علی محمد صمصامS اور د یگر بہت سے علمائے اہل حدیث ان جلسوں میں تشریف لاتے۔ ان علمائے کرام کے قیام اور کھانے کا انتظام محترم غلام محمد صاحب اپنے گھر میں کرتے تھے۔ مولانا محمود احمد صاحب اس نیک طینت انسان کے بیٹے ہیں۔ تقسیم ملک کے بعد یہ اہل حدیث خاندان لدھیانہ سے نقل مکانی کر کے فیصل آباد (پاکستان) کے نواحی قصبہ (گوادر) میں آباد ہوا۔ مولانا محمود صاحب نے سکول کی ابتدائی چھے جماعتیں پاس کرنے کے بعد دینی تعلیم کے حصول کا آغاز کیا۔ اور آپ 1958 میں جامعہ سلفیہ فیصل آباد میں داخل ہوئے اور 1965 میں سند فراغت حاصل کی۔

انہوں نے جن اساتذہ کرام سے اکتساب علم کیا ان کے نام یہ ہیں۔ مولانا حافظ محمد گوندلوی، مولانا حافظ عبداللہ بڈھیمالوی، مولانا پیر محمد یعقوب قریشی، مولانا حافظ احمد اللہ چھتوی، مولانا محمد علی جانباز، مولانا عبدالغفار حسن، مولانا علی محمد حنیف سلفی، حافظ بنیامین، مولانا کرم الدین اور مولانا گوہر الرحمان

جامعہ سلفیہ سے سند فراغت حاصل کرنے کے بعد مولانا محمود صاحب 1965ء تا 1970ء جامعہ تعلیمات اسلامیہ فیصل آباد میں تدریس پر مامور رہے ۔ ان کی اعلی تدریسی خدمات پر انہیں جامعہ تعلیمات کی طرف ’’اشرف گولڈ میڈل‘‘ سے بھی نوازا گیا۔ 1970ء میں آپ فیصل آباد سے لاہور آگئے اور اس بلدہ علم میں آہنی عزم و ہمت اور ولولے کے ساتھ تعلیم و تعلیم کی سر گرمیاں شروع کیں، وعظ و خطابت کا سلسلہ شروع کیا اور تحریر و نگارش کی بزم سجائی اس شہر میں ان کی آمدان کے لئے مبارک ثابت ہوئی اور وہ آگے ہی بڑھتے چلے گئے اورانہوں نے علمی دنیا میں شہرت کی بلندیوں کو چھو لیا۔ 1970ء کی دہائی میں اقامۃ البحوث العلمیہ والافتاء والدعوۃ والاشاد الریاض سعودی عرب کی طرف سے برائے پاکستان ان کی تقرری عمل میں آئی اور آپ 16 سال اس ادارے کے تحت اپنی مفوضہ ذمہ داریوں کو نبھاتے رہے۔ لاہور میں رہ کر آپ نے جو دینی خدمات سر انجام دی اس کی تفصیل یہ ہے۔

 

 

مساجد کی تعمیر

(1      مسجد مزمل اہل حدیث بندر روڈ لاہور

(2      مسجد ریاض الجنۃ اہل حدیث اعوان ٹائون لاہور

(3      مسجد انوار رحمت اہل حدیث چک 39 ج۔ب تحصیل و ضلع فیصل آباد

(4      مسجد ریاض الجنۃ اہل حدیث شیخوپورہ

(5      مسجد اہل حدیث گرجا کالونی لاہور روڈ شیخوپورہ

 

 

خطابت

مولانا محمود صاحب اچھے خطیب اور مقرر بھی ہیں۔ وہ قرآن و سنت سے مربوط بڑی عمدہ تقریر کرتے ہیں۔ آپ بلا معاوضہ 14 سال مسجد مزمل اہل حدیث بندر روڈ لاہور اور 14 سال مسجد ریاض الجنۃ اہل حدیث لاہور میں خطابت کے فرائض سر انجام دیتے رہے۔

 

 

مدرسہ

مولانا محمود احمد صاحب نے 1982 میں جامعہ الفیصل الاسلامیہ کے نام سے مدرسہ بنایا جس میں تقریبا تین سو فلپائنی طلباء کے علاوہ انڈونیشیا، الجزائر، جزائر قمر، افغانستان اور پاکستان کے طلبہ نے استفادہ کیا۔

 

 

حج

1979 میں حکومت سعودیہ کی دعوت پر آپ نے حج بیت اللہ کی سعات حاصل کی۔ اس سال علامہ احسان الہی ظہیر، مولانا محمد حسین شیخوپوری، مولانا خلیل احمد حامدی، مولانا غلام اللہ راوالپنڈی اور میجر محمد اسلم مرحوم حج میں ان کے ساتھی تھے اور یہ سب اللہ تعالی کو پیارے ہو چکے ہیں۔

 

 

غیر ملکی اسفار

برطانیہ 4 مرتبہ، متحدہ عرب امارات4 مرتبہ، کویت 4 مرتبہ، سعودی عرب 2 مرتبہ، انڈیا 1 مرتبہ، فلپائن 1 مرتبہ، افغانستان 2 مرتبہ۔

 

 

تصنیفی خدمات

مولانا محمود احمد غضنفر حفظہ اللہ کا شمار دور حاضرکے چوٹی کے مصنفین میں ہوتا ہے۔ اور ان کی کتابیں ہر طبقہ فکر کے لوگوں میں پڑھی جاتی ہیں۔ ان کا تصنیفی کام مختلف نوعیت کا ہے۔ (1)اس میں قرآن مجید کا ترجمہ و تفسیر بھی ہے جس کا کافی حصہ لکھا جا چکا ہے اور وہ عنقریب تفسیر ضیاء البیان کے نام سے اشاعت پذیر ہوگا۔ (2) احادیث رسولe کا ترجمہ اور (3) صحاب و صحابیات سے متعلق عربی کتب کے اردو تراجم اور تالیفات.

اب ان کی تصنیفات و تراجم کی تفصیلات ملاحظہ فرمائیں۔

(1      حیات صحابہ رضی اللہ عنہم  کے درخشاں پہلو

(2      حیاتِ صحابیات رضی اللہ عنہن   کے درخشاں پہلو

(3      حیات تابعین کے درخشاں پہلو

(4      جرنیل صحابہ، اردو۔ انگلش (تالیف)

(5      حکمران صحابہ رضی اللہ عنہم

(6      شہسوار صحابہ رضی اللہ عنہم

(7      مبشر صحابہ رضی اللہ عنہم

(8      فقہائے مدینہ (علماء تابعین)

(9      صحابیات مبشرات رضی اللہ عنہن   (اردو، انگلش تالیف)

(10    خواتین اہل بیت رضی اللہ عنہن 

(11    صحابیات طیبات رضی اللہ عنہن 

(12    تجلیات الرسول، گلشن رسالت کی مہکتی کلیاں

(13    مسلم معاشرہ قرآن و سنت کی روشنی میں

(14    رمضان ماہ غفران

(15    زوجات الرسولﷺ

(16    زوجات صحابہ رضی اللہ عنہم

(17    قصص النساء فی القرآن الکریم

(18    ضیاء الکلام شرح عمدۃ الاحکام

(19    عمدہ الاحکام (اردو ترجمہ)

(20    حیات انبیائ علیہم السلام   (تالیف)

(21    کتاب الالمام با احادیث الاحکام (علامہ ابن دقیق العید)

(22    احادیث قدسیہ

(23    احادیث الجہاد

(24    نبیوں کے قصے

(25    کتاب الکبائر

(26    عہد تابعین کی جلیل القدر خواتین

(27    اصول دین

(28    حج و عمرہ قرآن و حدیث کے آئینے میں

(29    عید میلادالنبی کی شرعی حیثیت

(30    دین کے چار بنیادی اصول

(31    عقیدہ طحاویہ

(32    سگریٹ نوشی

(33    غیر شرعی نکاح (وٹہ سٹہ)

(34    میدان عمل میں اختلاط مردو زن کے خطرناک نتائج

(35    سورۃ فاتحہ (ترجمہ وتفہیم)

(36    سورہ یاسین (ترجمہ و تفہیم)

(37    بغداد کا تاجر اور بچوں کی عدالت (تالیف)

(38    فضائل قرآن

(39    مسلمان اور احکام شریعت

(40    شمائل محمدیہ

(41    تفسیر ضیاء البیان (زیر قلم)

(42    عشرہ مبشرہ

 

 

ان کتابوں کے علاوہ مولانا محمود صاحب کے سینکڑوں مضامین پاک و ہند کے اخبارات و رسائل میں اشاعت پزیر ہو چکے ہیں۔ کراچی سے شائع ہونے والے ’’امت اخبار‘‘ نے ان کی کتاب حیات صحابہ کے درخشاں پہلو کو قسط وار مکمل شائع کیا۔ اسی طرح روزنامہ پوسٹ مارٹم لاہور نے ان کی کتاب جرنیل صحابہ کو مکمل شائع کیا۔ کئی سال سے صحیفہ اہل حدیث کراچی تسلسل سے ان کی کتابوں سے مضامین لے کر شائع کر رہا ہے۔ لاہور میں قیام کے زمانے میں 1990ء کی دہائی میں مولانا محمود صاحب نے ’’دعوۃ الحق‘‘ کے نام ایک مجلہ بھی جاری کیا تھا۔ اس کے دو شمارے منظر عام پر آئے۔ کویت نمبر تین سو صفحات پر مشتمل ہے جبکہ ’’نجدو حجاز نمبر ‘‘ پانچ سو صفحات پر محیط ہے۔ یہ دونوں اشاعتیں تاریخی اعتبار سے بڑی اہم اور قابل قدر ہیں۔ 1988ء کے پس و پیش ہفت روزہ اہل حدیث لاہور نے ’’ حرمین شریفین نمبر ‘‘ شائع کیا تھا۔ اس کے مضامین کی جمع و ترتیب اور طباعت و اشاعت کا تمام تر اہتمام مولانا محمود صاحب نے کیا تھا اور یہ اہل حدیث کی خوب صورت اشاعت خاص تھی۔ اس اشاعت خاص کی ادارت کے فرائض مولانامحمد اسحاق بھٹی حفظہ اللہ نے انجام دئے تھے۔

بلاشبہ مولانا محمود غضنفر صاحب حفظہ اللہ  کی تعلیمی، تدریسی، تصنیفی اور دعوتی خدامت کی فہرست بڑی طویل ہے۔ دعا ہے کہ اللہ تعالی انہیں کامل صحت عطا فرمائے اور ان کارواں قلم دین اسلام کی نصرت و تائید میں چلتا رہے۔ آمین

 

 

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے