دین الٰہی کی بنیاد پانچ چیزوں پر استوار ہے جس میں چوتھا نمبرروزے کا ہے ۔ روزہ ایک ایسی عبادت ہے جو فجر سے مغرب تک کھانے پینے اور دیگر جسمانی خواہشات کو ترک کردینے سے ادا ہوتی ہے۔ حقیقی بات یہ ہے کہ اسلام کی جملہ عبادات کا مقصد صرف اور صرف قرب الٰہی ہے۔ ربّ العالمین کی اپنے بندوں سے محبت کا عالم یہ ہے کہ اس نے چھوٹی چھوٹی عبادتیں انسان پر فرض کر رکھی ہیں تاکہ اسے اپنے قریب کرسکے اور وہ بندہ جسے مالک ذوالجلال نے عدم سے وجود بخشا ہے وہ نقاہت وبے بسی کی دنیا سے نوجوانی کی عمر میں قدم رکھتے ہوئے باغی وسرکش نہ بن جائے۔ اور اس کے پیش نظر ہمیشہ یہ خیال رہے کہ جس ذات نے اتنی طاقت وقوت اور توانائی بخشی ہے اور بے بسی ومحتاجی سے نکال کردنیا کے سامنے لاکھڑا کیا ہے وہ قدیر ذات توانائی کو ختم کرکے دوبارہ بڑھاپے اور محتاجی کی زندگی دینے پر قادر ہے۔ پس اگر یہ کہا جائے کہ شریعت اسلامیہ کا مقصد ایک انسان کی جسمانی اور روحانی زندگی کاتحفظ ہے تو بے جانہ ہوگا روزہ بھی قرب الٰہی کا ذریعہ ہے اور اگر صرف یہ کہا جائے کہ روزہ صرف حکم الٰہی ہے اور اس کے فوائد وثمرات پر باکل بات نہ کی جائے تو بھی ایک بندہ کو اپنے مالک کا حکم صرف اس لئے ماننا ہے کہ وہ اس کا مالک ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے روزہ کے ثمرات بھی بیان کردیئے ہیں تاکہ روزہ دار کو اپنے عمل کے ثمرات وفوائد کا علم ہوجائے اور اس کی عبادت میںخلوص کی وہ آہنگ درآئے جو رب ذوالجلال کو مطلوب ہے اس لئے کہ دنیا کے تمام امور کا نتیجہ ان کے ثمرات سے معلوم ہوتاہے بالکل ایک ڈاکٹر کی دوائی کی طرح۔ اگر ڈاکٹر کی تجویز کردہ دوائی سے مریض شفایاب ہوگیا تو کہا جائے گا کہ دوانے اثر کیا ہے تاہم اگر مریض صحت یاب نہ ہوتو کا مقصد یہ ہوا کہ دوائی دی ہی نہیں گئی یا پھر دوائی رائیگاں چلی گئی بعینہٖ یہی معاملہ رمضان کے روزوں کاہے جن کا مقصد انسان کی روحانی وجسمانی آلائشوں کو ختم کرکے اس کو پاکیزہ، طاہر اور معتبر بناناہے۔ اور اس کی سوچ وفکر کو اس نقطے پر لانا ہے کہ اس کی زندگی میں انقلابی طور پر تقوی ،تسبیح وتحلیل وتمجید وتقدیس کے ساتھ ساتھ عملی طور پر ’’اسوئہ حسنہ‘‘ کا رنگ نظر آنے لگ جائے ، تاکہ جسمانی وروحانی طور پر وہ ایک مکمل انسان جو اللہ تعالیٰ کو مطلوب ہے بن سکے۔ تاہم دوسری طرف اگر یہ ثمرات ونتائج روزہ رکھنے کے بعد بھی حاصل نہیںہوتے اور انسانی زندگی میں کوئی تغیر واقع نہیں ہوتا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ صاحب صوم نے صرف فاقے کیے ہیں اور جوع وعطش برداشت کی ہے۔ سرکار دو عالم کا ارشاد گرامی ہے۔ کتنے روزہ دارایسے ہیں جن کو بھوک اور پیاس کے علاوہ کچھ نہیں ملتا اور کتنے تہجد گزار ایسے ہیں کہ رتجگے کے علاوہ کچھ حاصل نہیں کرپاتے۔ (نسائی ، ابن ماجہ)

روزے کا مقصد تب ہی حاصل ہوپائے گا جب انسان جملہ بری باتوں،منکرات، اور لغویات سے محفوظ رہے گا۔

روزے کے مقاصد پر اگر نگاہ رکھی جائے تو حکم صوم کے ساتھ ہی ربّ العالمین نے اس کا مقصد بھی واضح کردیا ہے کہ اس سے تقوی حاصل ہوتاہے اور ایک حدیث میں رسول کریم  صلی اللہ علیہ و سلم  نے ارشاد فرمایا کہ روزہ گناہوں سے بچنے کی ڈھال ہے لہٰذا جب تم روزہ رکھو تو بدزبانی اور فساد سے پرہیز کرو اور اگر تم سے کوئی گالم گلوچ اور جھگڑا کرے تو کہہ دو کہ میں روزے سے ہوں۔

چنانچہ ہمارے پیش نظر دو ہی چیزیں ہیں ایک تقوی کا حصول اور دوسرا گناہوں سے بچنا یہ دونوں چیزیں ایک دوسرے کی مددگار ومعاون ہیں یعنی اگر آپ تقویٰ اختیار کرتے ہیں تو خودبخود گناہوں سے بچ جائیں گے اور اگر آپ گناہوں سے بچنے کیلئے مستعد ہیں تو خودبخود تقوی کا حصول ممکن ہوجائے گا۔ قرآن کریم کے ارشاد کے مطابق’’تقویٰ ‘‘ پر غور کرلیا جائے تو یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ صرف روزہ ہی نہیں بلکہ تمام احکامات الٰہیہ کا مقصود تقویٰ کا حصول ہے تقوی ایسی جامع اصطلاح ہے جو تمام معروفات کو اپنی آغوش میں لے کر اس کی حوصلہ افزائی فرماتی ہے اور جملہ منکرات سے بُعد کراکے اس کی حوصلہ شکنی کرتی ہے لہٰذا یہ بات ثابت ہوئی کہ تمام اچھے کام کرنا اور برے کاموں سے اجتناب کرنا تقویٰ ہے۔ اہل تقوی کیلئے ہی شریعت اسلامیہ ہے اور اہل تقوی ہی شریعت کی مراد ہیں قرآن کریم کی پہلی آیت

 ذٰلِكَ الْكِتٰبُ لَا رَيْبَ     ٻ فِيْهِ   ڔ ھُدًى لِّلْمُتَّقِيْنَ    ۝

 کا مقصود ومطلوب یہ ٹھہرا کہ قرآن بھی صرف متقین کیلئے ہی ہدایت ہے اور اسی ہدایت کاایک پہلو روزہ کے ذریعے حاصل ہوتاہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

( لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ ) روزہ کی دیگر خوبیوں میں جسمانی طور پر صحت وتندرستی ہے جسے حکماء مغرب نے بڑی تفصیل سے بیان کیا ہے اسی طرح بھوک وپیاس برداشت کرکے مساکین وغرباء کی بھوک وپیاس کا احساس دلانا بھی مقصودہے اور ان تمام چیزوں کا مقصد ایک ایسا انسان تیار کرنا ہے جو مطلوب قرآن اور مقصود الٰہی ہو۔

cccc

 

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے