حکومت ، قیادت وسیادت اللہ کی عطاء ہے جس کو انسانیت کی خدمت کے جذبے سے سرشار ہوکر سر انجام دینا چاہیے نہ کہ مال ودولت کے انبار جمع کرنے کیلئے اور نہ ہی ظلم وزیادتی اور لوٹ مار کا ذریعہ بنایا جائے۔ دنیا کی سب سے پہلی فلاحی ریاست کا قیام مدینہ منورہ میں ہوا اس مملکت کے اصول وضوابط روز قیامت تک آنے والے اصحاب حل وعقد کے لئے مشعل راہ ہیں۔ تاریخ شاہد ہے کہ اہل اسلام کے حکمرانوں نے جب بھی ریاستی امور میں تقوی ، للہیت اور اطاعت محمدی کو اپنایا اس کے ثمرات ریاست کی نمو، عوام الناس کی خیر وفلاح کی صورت میں ظاہر ہوئے۔ تاریخ نے اسلاف عظام کے ہزارہا واقعات ریاستی معاملات میں ہماری راہنمائی کے لئے محفوظ کئے ہیں مگرہم ہاتھ پہ ہاتھ دہرے منتظر فردا ہیں۔

خلفاء راشدین کے بابرکت دور میں ریاست کا ہر شہری نصیحت ، بھلائی اور فوز وفلاح کے لئے ولی امر کو مفید طلب مشورے دیتے نظر آتے ہیں۔ سردست معروف کتاب ’’صور من حیاۃ الصحابۃ‘‘ میں سے ایک واقعہ پیش خدمت ہیں جس سے ہمیں حکومتی معاملات میں بالخصوص اور دیگر شعبہ ہائے حیات میںبالعموم مکمل راہنمائی ملتی ہے۔

سیدنا سعید بن عامر رضی اللہ عنہ عہد فاروقی میں سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضرہوکر نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں :اے عمر رضی اللہ عنہ ! میں تمہیں اس بات کی وصیت کرتا ہوں کہ لوگوں کے معاملہ میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہنا اور اللہ تعالیٰ کے بارے میں لوگوں سے کبھی نہ ڈرنا اور یہ کہ تمہارے قول وفعل میں تضاد کبھی نہ ہونا چاہیے ، اس لئے کہ انسان کی بہترین گفتار وہی ہوتی ہے جس کی تصدیق اس کا کردار کرے۔

اے عمر رضی اللہ عنہ ! اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے جن مسلمانوں کا تمہیں نگران بنایا ہے ، ان کے معاملات کی طرف خصوصی دھیان دیتے رہنا ، ان کے لئے وہی پسند کرنا جو خود تمہیں اپنے اور اپنی اولاد کے لیے پسند ہو اور ان کے لئے ہر اس چیز کو ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھنا جو خود تمہیں اپنی ذات اور اپنے اہل وعیال کے لئے ناپسندیدہ ہو۔ مشاکل کا سامنا کرنے سے نہ گھبرانا اور راہ حق پر مضبوطی سے جمے رہنا اور حق کی راہ میں کسی بھی ملامت کرنے والے کی ملامت خاطرمیں نہ لانا ۔

اس مرحلہ پر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے سیدنا سعیدبن عامر رضی اللہ عنہ کو اپنی نصرت وتائید کے لئے دعوت دی اور فرمایا : ’’ اے سعید رضی اللہ عنہ! ہم تمہیں علاقہ حمص کا گورنر مقرر کرتے ہیں۔ انہوں نے اس کے جوا ب میں فرمایا : ’’اے عمر رضی اللہ عنہ ! اللہ کا واسطہ ہے ، مجھے اس آزمائش میں نہ ڈالئے ‘‘ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اس پر خفا ہوکر فرمایا :

’’بڑے افسوس کی بات ہے کہ تم نے خلافت کا بار تنہا میری گردن پر ڈال دیا اور خود اس سے الگ تھلگ ہونے کی کوشش کر رہے ہو ۔ اللہ کی قسم! میں چھوڑنے والا نہیں ‘‘ اس کے بعد آپ نے ان کو علاقہ حمص کا گورنر مقرر کر دیا اور ارشاد فرمایا :’’ کیاہم تمہارے لئے کچھ معاوضہ مقرر نہ کردیں ؟ اس پر سیدنا سعید رضی اللہ عنہ نے کہا :’امیر المؤمنین ! میں معاوضہ لے کر کیا کروں گا۔ بیت المال سے جو کچھ ملتاہے وہ بھی میری ضرورت سے زیادہ ہے۔ یہ فرمایا اور حمص کی طرف چل دئیے۔

کچھ عرصہ بعد اہالیان حمص میں سے قابل اعتماد افراد پر مشتمل ایک وفد امیر المؤمنین سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا۔

آپ نے وفد کو حکم دیا : تم لوگ مجھے ان افراد کے نام لکھ کر دو جو تم میں مفلس ونادار ہیں تاکہ میں ان کی مالی مدد کرسکوں۔ وفدنے آپ کی خدمت میںایک دستاویز پیش کی ۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کیا دیکھتے ہیں کہ اس فہرست میں سیدنا سعید بن عامر رضی اللہ عنہ کا نام بھی درج ہے۔ آپ نے دریافت فرمایا : کون سعید بن عامر رضی اللہ عنہ؟

انہوںنے بتایا : ہمارا گورنر۔ فرمایا : آپ کا گورنر مفلس ہے ؟انہوں نے کہا : جی ہاں ، اللہ کی قسم ! کئی کئی دن ان کے چولہے میں آگ نہیں جلتی۔ یہ سننا تھا کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ بے اختیار روپڑے اور اتنے روئے کہ آپ کی داڑھی مبارک آنسوؤں سے تر ہوگئی۔ آپ اٹھے اور ہزار دینار لئے اور ان کو ایک تھیلی میں بھر کر فرمایا: ان سے میرا سلام کہنا اور یہ پیغام دینا کہ امیر المؤمنین نے یہ تھیلی تمہارے لئے بھیجی ہے تاکہ اس سے تم اپنی ضروریات کو پورا کر سکو۔

یہ وفد سیدنا سعید بن عامر رضی اللہ عنہ کے ہاں تھیلی لے کر آیا۔ آپ رضی اللہ عنہ نے دیکھا کہ اس میں تو دینا ر ہیں تھیلی کو اپنے سے دور ہٹا کر بس یہ کہنے لگے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون

گویا کوئی مصیبت نازل ہوگئی یا کوئی ناگوار واقعہ پیش آگیا۔ یہ کیفیت دیکھ کر آپ کی زوجہ محترمہ گھبرائی ہوئی اٹھی اور کہنے لگی۔

میرے سر کے تاج! کیا سانحہ رونما ہوگیا؟ کیا امیر المؤمنین وفات پاگئے ؟ آپ نے فرمایا : نہیں ، بلکہ یہ بات کہیں زیادہ اہم ہے ۔ اس نے پوچھا : کیا کسی معرکہ جہاد میں مسلمانوں کو کوئی صدمہ پہنچا؟ آپ نے فرمایا : اس سے بھی بڑی بات۔ اس نے عرض کی : بھلا اس سے بڑی بات کیا ہوسکتی ہے؟ فرمایا : میرے ہاں دنیا در آئی تاکہ میری آخرت بگاڑدے۔ میرے گھر فتنہ ابھر آیا۔ اس نے عرض کی : کیوں نہ آپ اس فتنہ سے گلو خلاصی کرلیں ۔ بیو ی کو دیناروں کے بارے میں کچھ علم نہ تھا۔ انہوں نے فرمایا : کیا اس سلسلہ میں میری مدد کروگی؟ عرض کی : جی ہاں ، کیوں نہیں۔آپ نے دینار متعدد تھیلیوں میں بند کئے اور غریب مسلمانوں میں تقسیم کردیے۔

قارئین کرام! اسلاف عظام کا طرز حکمرانی آپ کے سامنے ہے۔ دوسری جانب عہد حاضر کے مسلم حکمرانوں کاشاہانا طرز زندگی، ان کے اثاثہ جات کی تفصیل بھی حاضر خدمت ہے ۔

تیس سال تک مصر پر حکومت کرنے والا آمر مطلق حسنی مبارک جس کے ذاتی اثاثے 75 بلین ڈالر بنتے ہیں جبکہ اس کے بیٹے کے خفیہ اثاثے لندن کے ایک بینک میںہے جس کی مقدار 10.5 بلین پاونڈ بنتی ہے۔ یہ وہی صدرہے جس نے امریکی اشاروں پر اسرائیل جیسے ظالم وجابر ملک کو تحفظ فراہم کیا تھا۔

اور اسی طرح لیبیا کے کرنل قذافی جوکہ اکتالیس سال سے لیبیا میں حکومت کر رہے ہیں یہ ایک ایسا ملک ہے جو کہ تیل کے ذخائر سے مالا مال ملک جس کی ایک تیل کی ایک دن کی آمدنی تین ارب اٹھارہ کروڑ ڈالر بنتی ہے۔

مال ودولت کی فراوانی کے باوجود سلف کی طرز حکمرانی سے روگردانی کی وجہ سے وہ آج حکومت وقیادت سے ہاتھ دھو چکے ہیں۔

یقینا اس عوامی انقلاب میں پاکستان کی قیادت کے لئے بالخصوص اور دیگر مسلم حکمرانوں کے بالعموم کئی دروس پنہاں ہیں۔

احکامات ربانیہ کی تنفیذ عوام کی بے لوث خدمت، عدل وانصاف کی فراہمی اوراعلائے کلمۃ اللہ کے لئے مسلسل جد وجہد میں ہی بقائے قیادت کا راز ہے اور یہی عناصر مطلوب خداوندی ہیں

{الَّذِینَ إِنْ مَکَّنَّاھُمْ فِی الْأَرْضِ أَقَامُوا الصَّلَاۃَ وَآتَوُا الزَّکَاۃَ وَأَمَرُوا بِالْمَعْرُوفِ وَنَھَوْا عَنِ الْمُنْکَرِ وَلِلَّہِ عَاقِبَۃُ الْأُمُورِ}(الحج : ۴۱)

” یہ وہ لوگ ہیں کہ اگر ہم زمین میں ان کے پاؤں جما دیں تو یہ پوری پابندی سے نمازی ادا کریں اور زکاۃ دیں اور اچھے کاموں کا حکم کریں اور بُرے کاموں سے منع کریں تمام کاموں کا انجام اللہ کے اختیار میں ہے۔‘‘

یقینا بلاد اسلامیہ میں رونما ہونی والی یہ تبدیلی امت مسلمہ کی نشاۃ ثانیہ کا پیش خیمہ ثابت ہوگی۔ ان شاء اللہ

اور ایک ایسی صبح کی آرزو کی جاسکتی ہے جس میں عالم اسلام کے امن وسلامتی ، کامیابی وکامرانی ہو۔ اللہ تعالی اور اس کے رسول معظم ﷺ کی خوشنودی حاصل کرنے کا ذریعہ ہوا ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے