ام المومنین سیدہ ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا کو ازواج مطہرات رضی اللہ علیھن میں کئی ایک امتیازی خصوصیات حاصل ہیں:

٭وہ حرمِ نبوی میں آنے والی واحد مصری خاتون تھیں۔

٭ان کا آبائی تعلّق عیسائی مذہب سے تھا۔

٭وہ شاہی گھرانے سے تعلّق رکھتی تھیں۔

٭انہیں ایک بادشاہ نے نبی کریم کی خدمت میں بھیجا تھا۔

٭نہ صرف یہ بلکہ ان کا ذکرِ مبارک اشارے کنایوں ہی میں سہی ’’زبور‘‘میں بھی آیا ۔ چنانچہ نبی کریم کے حوالے سے جومختلف پیشین گوئیاں بائبل کے مختلف مقامات پر آئی ہیں ان میں سے ایک پیش گوئی یہ بھی ہے:

’’تیری معزز خواتین میں شاہزادیاں ہیں۔ملکہ تیرے داہنے ہاتھ اوفیر کے سونے سے آراستہ کھڑی ہے۔‘‘(زبور۴۵:۹-۱۰)

قاضی سلیمان سلمانؔ منصور پوری رحمہ اللہ رقمطراز ہیں:’’داہنے ہاتھ کے الفاظ پر غور کرنا چاہیے یہ ’’ملکِ یمین کا ترجمہ ہے‘‘ سب مؤرخین ماریہ خاتون (رضی اللہ عنہا)کو ملک یمین بتاتے ہیں پیش گوئی بالا میں پہلے بتایا گیا ہے کہ وہ شاہزادی ہونگی اور ان کا آنا ملک یمین کی شان میں ہوگا۔‘‘ ]رحمۃ اللعالمین e :۲/۹۹(حاشیہ) [

زبور کی عبارت سے یہی عیاں ہوتا ہے کہ ایک خاتون جو خانوادئہ شاہی سے تعلّق رکھتی ہونگیں وہ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں پیش کی جائیں گی ۔چنانچہ یہی ہوا شاہِ مقوقس نے نبی کریم کے نام اپنے نامۂ مبارک میں لکھا:

’’ بعثتُ الیک بجاریتین لھما فی القبط مکان عظیم ۔‘‘

’’میں نے دو لڑکیاں آپ() کے پاس بھیجی ہیں۔ جن کامرتبہ قبطیوں میں عظیم ہے۔‘‘

جاریہ کا اطلاق صرف کنیزوں پر نہیں ہوتااور کنیز کے لیے یہ کہنا کہ وہ صاحبِ مرتبہ ہے محض تفنن ہی تو ہے۔پھر معاملے کے سیاسی پہلو بھی پیشِ نظر ہونے چاہئیں۔ایک سربراہِ مملکت دوسرے سربراہِ مملکت کو کنیز روانہ کرے اور وہ اس کنیز کو اپنے لیے مخصوص کرلے یہ ایک عام سی بات ہوسکتی ہے،تاہم ایک عام بادشاہ بھی کنیز کو اپنی ملکہ نہیں بنائے گا۔ مقام نبوت تو اس سے کہیں بلند ہے کہ نبی کریم نہ صرف یہ کہ سیدہ ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا کو ازواجِ مطہرات جتنادرجہ دیں بلکہ فیصلۂ الٰہی بھی یہ قرار پائے کہ کل عرصہ نبوت میں صرف ان ہی کے بطن سے نبی کریم کی اولاد ہو۔

بایں ہمہ اپنااپنا زاویۂ فکر و نظر ہے اگر شاہِ مقوقس کے خط سے کہیں یہ ظاہر ہوتا ہے کہ سیدہ ماریہ ایک کنیز ہیں تو یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ وہ خانوادئہ شاہی کی رکن بھی ہیں جو قبطیوں میں عظیم المرتبہ ہیں۔ان کا شاہزادی بن کر کسی بادشاہ کے حرم میں جانے سے کہیں برتر یہی تھا کہ وہ کنیز بن کر نبی کریم کی خدمت میں حاضر ہوتیں۔لیکن قدرت الٰہی نے نہ صرف انہیں نبی کریم کے حقیقی فرزند کی ماں بنایا بلکہ انہیں مومنین کی ماںکا درجہ بھی عطا فرمایا۔

افسوس تو اس امر کا ہے کہ مسلمان مورخینِ سیرت بھی حضرت ماریہ رضی اللہ عنہا کو محض ایک ’’لونڈی /کنیز‘‘قرار دیتے رہے۔

اس حقیقت سے بھی نظر یں نہیں چرائی جاسکتی کہ اگر سیدہ خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا سیدنامحمد بن عبد اللہ ہاشمی e کے اولاد کی والدئہ مکرمہ ہیں تو سیدہ ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا سیدنا محمد رسول اللہ کے فرزندِ ارجمند کی والدئہ ماجدہ ہیں۔ یہ ایک ایسا شرف ہے جو صرف انہی کو حاصل ہے۔(گو بعض مورخینِ سیرت کی تحقیق کے مطابق سیدہ فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا بعثتِ نبوت کے بعد پیدا ہوئی ہیں تاہم یہ امر مختلف فیہ ہے ۔جبکہ حضرت ابراہیم کا عہدِ رسالت میں پیدا ہونا قطعاً محتاجِ ثبوت نہیں)۔

یہ کس قدر افسوس کی بات ہے کہ مسلمان مصنفینِ سیرت بھی سارا زور سیدہ ماریہ رضی اللہ عنہا کے ’’شرفِ کنیزی‘‘پر لگاتے ہیں۔انہیں معاملے کے دوسرے پہلو نظر نہیں آتے ہیں یا شاید وہ قصداً اعراض کرتے ہیں ۔

حضرت صفیہ، حضرت جویریہ اور حضرت ریحانہ رضی اللہ علیھنَّ یہ تمام ہی مختلف غزاوت میں مغلوب ہوکر آئیں تھیں۔نبی کریم نے انہیں اپنی زوجیت کا شرف بخشا۔تمام مسلمان ہی انہیں ام المومنین کا درجہ دیتے ہیں۔اس کے برعکس یہ خیال رہے کہ ام المومنین ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا کسی غزوے میں قیدی کی حیثیت سے نہیں آئی ہیں۔معلوم نہیں ان کے ساتھ یہ امتیازی سلوک رَوا رکھنے کی کیا وجہ رہی؟

گو مولانا سیّد ابو الاعلیٰ مودودی رحمہ اللہ نے ’’تفہیم القرآن‘‘میں لکھا ہے:

’’حضرت ماریہr سے بربنائے مِلک یمین تمتّع فرمایا، ان کے بارے میں یہ ثابت نہیں کہ آپ ﷺنے ان کو آزاد کرکے ان سے نکاح کیا ہو۔‘‘ ]تفہیم القرآن :۴/۱۱۴[

لیکن کیا نبی کریم کی بقیہ ازواج سے کیے گئے نکاح کی بھی کوئی تفصیل ملتی ہے؟کیا تقاریبِ ولیمہ اوردیگر پیام و قبول کی جزئیات سے بھی آگاہی ہوتی ہے؟

ہمارے نزدیک نبی کریم کا سیّدہ ماریہ قبطیہ کو اپنے حرم میں شامل کر لینا اور ان کے ساتھ بعینہٖ وہی سلوک رَوا رکھنا جو دوسری ازواج کے ساتھ تھا ،انہیں ازواج مطہرات کی صف میں شامل کرنے کے لیے کافی ہے۔

پھر مولانا مودودی کا یہ دعویٰ بھی ہرلحاظ سے کامل نہیں ہے ۔چنانچہ امام حاکم نے اپنی ’’مستدرک‘‘میں مصعب بن عبداللہ الزبیری سے روایت کیا ہے :

’’ ثم تزوج رسول اللّٰہ ماریۃ بنت شمعون و ھی التی اھداھا الیٰ رسول اللّٰہ المقوقس صاحب الاسکندریۃ ۔‘‘

’’پھر شادی کی رسول اللہ نے ماریہ بنت شمعون سے اور یہ وہی ہیں جن کو ’’رخصت‘‘ کیا تھا مقوقس والیِ اسکندریہ نے رسول اللہ کی طرف ۔‘‘ ] المستدر ک للحاکم:۴/۴۱ [

گو یہ روایت اسناداً موقوف ہے مگر اسے پیش کرنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ یہ دعویٰ کہ سیدہ ماریہ ؓrسے نکاح کا کوئی ذکر کہیں نہیں ملتا، درست نہیں۔

٭…٭…٭

سیدہ ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا کے ’’ شرفِ کنیزی ‘‘کے ثبوت میں سیّدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی یہ روایت بھی خاصی مشہور ہے:

’’ لما ولدت ماریۃ القبطیۃ ابراھیم ابن النبی قال رسول اللّٰہ : أعتقھا ولدھا۔‘‘

’’جب ماریہ قبطیہ سے نبی کریم کے صاحبزادے ابراہیم کی ولادت ہوئی تو رسول اللہنے فرمایا کہ اس کے لڑکے نے اسے آزاد کردیا ۔‘‘

سیدناابن عباس رضی اللہ عنہماکی یہ روایت مختلف کتبِ احادیث میں موجود ہے ۔ جن میں سنن ابن ماجہ، سنن دارقطنی،مستدرک حاکم،سنن بیہقی وغیرہا شامل ہیں۔ امام دارقطنی نے اسے متعدد طرق سے روایت کیا ہے۔تاہم یہ تمام روایتیں محدثین کی جرح سے محفوظ نہیں،بلکہ اسناداً ضعیف ہیں۔امام ابن عبد البر الاندلسی کا فیصلہ ہے کہ ’’ و اسنادہٗ لا تقوم بہ حجۃ لضعفہٗ۔‘‘]الاستیعاب[

اب ان روایتوں کے ضُعف کی تفصیل ملاحظہ ہو:

سنن ابن ماجہ میں یہ روایت کتاب العتق ، باب: الامھات الاولاد میں ہے ۔ ابن ماجہ کی سند کا ایک راوی حسین بن عبد اللہ متکلم فیہ ہے ۔بقول حافظ ابن حجر عسقلانی :’’ ھو ضعیف جداً‘‘] التلخیص الحبیر [ مزید براں شیخ ناصر الدین البانی کی تحقیق کے مطابق یہ روایت ضعیف ہے ۔

امام دارقطنی نے سنن دارقطنی کے کتاب المکاتب میں اس سلسلے کی ۷ روایتیں نقل کی ہیں۔

دارقطنی کی پہلی روایت محدث عظیم آبادی کی ترقیم کے مطابق حدیث نمبر ۴۱۸۸ کے دو راوی ابوبکر بن ابی سبرہ اور حسین بن عبد اللہ ضعیف ہیں۔ اوّل الذکر پر وضع حدیث کا الزام ہے ، امام بخاری نے اسے منکر الحدیث قرار دیا ہے امام نسائی کے نزدیک متروک ہے ۔

دارقطنی کی دوسری روایت نمبر ۴۱۸۹ کی سند میں بھی حسین بن عبد اللہ ہے ۔

دارقطنی کی تیسری روایت نمبر ۴۱۹۰ کی سند میں ابن ابی سارہ مجہول ہے ۔

دارقطنی کی چوتھی روایت نمبر ۴۱۹۲ کی سند میں حسین بن عبد اللہ ہے ۔

دارقطنی کی پانچویں اور چھٹی روایت نمبر ۴۱۹۳ اور ۴۱۹۴کی سند میں ابوبکر بن ابی سبرہ ہے ۔

دارقطنی کی ساتویں روایت نمبر ۴۱۹۵ کی سند میںحسین بن عبد اللہ ہے ۔

مستدرک حاکم کی کتاب البیوعمیں سیدہ ماریہ رضی اللہ عنہا کی بحیثیت امّ ولد والی روایت موجود ہے تاہم بقول حافظ الذہبی اس کا ایک راوی حسین متروک ہے ۔

سنن بیہقی میں اس سلسلے کی دو روایتیں ہیں تاہم ان کی اسناد میں بھی ایسے راوی ہیں جو خود امام بیہقی کی تصریح کے مطابق ضعیف ہیں۔

٭…٭…٭

اس بات سے تو یقینا کسی کو انکار نہ ہوگا کہ سیدہ ماریہ رضی اللہ عنہا کو نبی کریم e نے پردے میں رکھا ۔اُس معاشرے میں پردہ شرف و بزرگی کی کیسی علامت تھی ؟ اس سلسلے میں بخاری کی ایک اہم روایت ،جس کا تعلّق گو کہ سیدہ ام المومنین صفیہ رضی اللہ عنہا سے ہے ،کا اہم ترین حصہ پیش کیا جاتا ہے ۔

’’ فقال المسلمون : احدیٰ امّھات المؤمنین ، أو ممّا ملکت یمینہٗ ؟ فقالوا : ان حجبھا فھی من امّھات المؤمنین ، و ان لم یحجبھا فھی ممّا ملکت یمینہٗ ، فلمّا ارتحل وطّالھا خلفہٗ و مدّ الحجاب بینھا و بین النّاس ۔‘‘]صحیح بخاری ، کتاب النکاح ، باب: اتخاذ السّراری و من اعتق جاریتہٗ ثمّ تزوّجھا [

’’بعض مسلمانوں نے پوچھا کہ حضرت صفیہ امہات المومنین میں سے ہیں ( یعنی آپ نے ان سے نکاح کیا ہے ) یا لونڈی کی حیثیت سے ہیں۔ اس پر کچھ لوگوں نے کہا کہ اگر آنحضرت ان کے لیے پردہ کا انتظام فرمائیں تو وہ امہات المومنین میں سے ہیں اگر ان کے لیے پردہ کا اہتمام نہ فرمائیں تو وہ لونڈی کی حیثیت سے ہیں۔ پھر جب کوچ کا وقت ہوا تو آنحضرت نے ان کے لیے اپنی سواری میں بیٹھنے کی جگہ بنائی اور ان پر پردہ ڈالا تاکہ لوگوں کو نظر نہ آئیں۔‘‘

امام ابنِ کثیرکی یہ روایت بھی اہمیت کی حامل ہے :

’’ قال یونس بن بکیر عن محمد بن اسحاق عن ابراہیم بن محمد بن علی بن ابی طالب عن أبیہ عن جدہٗ علی بن أبی طالب قال : اکثروا علی ماریۃ أمّ ابراہیم فی قبطی ابن عم لھا یزورھا و یختلف الیھا فقال رسول اللّٰہ e خذ ھذا السیف فانطلق فان وجدتہٗ عندھا فاقتلہٗ قال قلتُ یارسول اللّٰہ e أکون فی أمرک اذا ارسلتنی کالسکۃ المحماۃ لا یثنینی شیٔ حتی أمضی لما أمرتنی بہ أم الشاھد یری ما لا یری الغائب فقال رسول اللّٰہ ﷺ بل الشاھد یری ما لا یری الغائب فاقبلت متوشحا السیف فوجدتہٗ عندھا فاخترطت السیف فلما رآنی عرف أنی أریدہٗ فأتی نخلۃ فرقی فیھا ثم رمی بنفسہ علی قفاہ ثم شال رجلیہ فاذا بہ أجب أمسح مالہ مما للرجال لا قلیل و لا کثیر فأتیت رسول اللّٰہ e فأخبرتہٗ فقال الحمد للّٰہ الذی صرف عنّا أھل البیت ۔‘‘ ]البدایۃ و النھایۃ : ۵/۳۰۴[

(خلاصۂ کلام )’’ جب سیدہ ماریہ پر ان کے عمّ زاد برادر مابور کے ساتھ تہمت تراشی کی گئی تو نبی کریم نے سیدنا علی کو بھیجا ، سیدنا علی نے مابور کو نامرد پایااور نبی کریم کی خدمت میں عرض حال کیا۔ جس پر نبی کریم نے فرمایا:سب تعریف اللہ کی ہے جس نے ہم اہلِ بیت سے اس تہمت کو رفع فرمادیا۔‘‘

یہاں سیدہ ماریہ رضی اللہ عنہا کا شمار نبی کریم نے اہلِ بیت میں فرمایا۔

علامہ شبلی نعمانی رحمہ اللہ کی تحقیق کے مطابق :

’’]مقوقس نے [ دو لڑکیاں جو بھیجی تھیں ان میں سے ایک ماریہ قبطیہ تھیں جو حرم نبوی میں داخل ہوئیں ، دوسری سیرین تھیں جو حضرت حسّان کی ملک میں آئیں۔…….. …اس واقعہ کو اس حیثیت سے دیکھنا چاہیے کہ یہ دونوں عورتیں لونڈیاں نہ تھیں اور اسلام قبول کرچکی تھیں اس لیے آنحضرت e نے ماریہr سے نکاح کیا ہوگا نہ کہ لونڈی کی حیثیت سے وہ آپe کی حرم میں آئیں۔‘‘ ]سیرت النبی : ۱/۲۷۳[

علّامہ شبلی ،مقوقس کے خط کی روشنی میں لکھتے ہیں:

’’ ہم نے جاریہ کا ترجمہ لڑکی کیا ہے عربی میں جاریہ لڑکی کو بھی کہتے ہیں اور لونڈی کو بھی ۔ اربابِ سیرت ماریہ قبطیہ کو لونڈی کہتے ہیں لیکن مقوقس نے جو لفظ ان کی نسبت لکھا ہے یعنی کہ ’’ مصریوں میں بڑی عزت ہے ‘‘ یہ لونڈیوں کی شان میں استعمال نہیں کیے جاسکتے ۔‘‘]سیرت النبی : ۱/۲۷۳[

مولانا عبد الرحمان کیلانی رحمہ اللہ کی تحقیق کے مطابق:

’’ یہ دو لڑکیاں جن کا نام ماریہ اور سیرین تھا۔راہ میں ہی حاطب بن ابی بلتعہ کی تبلیغ سے مسلمان ہوگئی تھیں یہ شاہی گھرانے سے تعلق رکھتی تھیں۔ ان میں سے ماریہ سے تو آپ نے خود نکاح کرکے حرم میں شامل کرلیا اور اسی کے بطن سے سیدنا ابراہیم پیدا ہوئے اور سیرین سیدنا حسّان بن ثابت کے حبالۂ عقد میں آئیں اور یہ دونوں حقیقی بہنیں تھیں۔‘‘ ]تیسیرالقرآن : ۳/۶۳۹[

ڈاکٹر حمید اللہ کی تحقیق بھی ملاحظہ ہو:

’’ حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے بخوشی اور برضا و رغبت اسلام قبول کرلیا تھا۔ جس کی بناء پر نبی آخر الزماں حضرت محمد مصطفیٰ نے انہیں اپنی زوجہ ہونے کا اعزاز و افتخار بخشا۔‘‘ ]محمد رسول اللّٰہ مترجم خالد پرویز :۱۸۶،بیکن بکس لاہور ۲۰۰۵ء [

ڈاکٹر صاحب ایک دوسرے مقام پر لکھتے ہیں :

’’ محمد رسول اللہ نے مصری سردار مقوقس کی طرف سے آنے والی لونڈی حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو گھر ہی میں رکھا اور بعدازاں وہ پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفیٰ کے بیٹے حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہٗ کی والدہ بنی مگر آپ کے یہ بیٹے دو سال کی عمر ہی میں اللہ تعالیٰ کو پیارے ہوگئے ۔ حضرت امام زہری رحمۃ اللہ علیہ کی تحقیق کے مطابق محمد رسول اللہ e نے نہ صرف حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہٗ کی آزادی کا حکم دیا بلکہ یہاں تک فرمایا کہ :اگر میرے بیٹے ابراہیم رضی اللہ عنہٗ زندہ رہتے تو میں تمام قبطی عیسائیوں کا جزیہ معاف کردیتا ۔‘‘ ]محمد رسول اللّٰہ :۲۵۳-۲۵۴[

٭…٭…٭

سیدہ ماریہ رضی اللہ عنہا مصر کے علاقہ ’’انصنا‘‘کی بستی ’’حفن‘‘کی رہائشی تھیں۔ سیدنا امیرمعاویہ رضی اللہ عنہٗ نے اپنے عہدِ حکومت میں اس بستی کا خراج سیدہ ماریہ رضی اللہ عنہا کی تعظیم میں معاف کردیا تھا۔]سیرت النبی (از ابنِ کثیر):۳/۲۲۶[

’’حضرت ماریہ ؓ کے والد کانام شمعون ہے،جوکہ ایک مصری قبطی شخص تھے ،جب کہ حضرت ماریہ رضی اللہ عنہا کی والدہ ایک رومن خاتون تھیں۔‘‘]خاندان نبوی e کے چشم وچراغ ترجمہ’’ابناء النبی  ‘‘از شیخ ابراہیم محمد حسن الجمل :۷۸-۷۹ [

سیّدہ ماریہؓ کی والدہ رومن تھیں اوریہ امر قطعاً غیر اہم نہیں ہے۔کیونکہ سیاسی اعتبار سے مصر اس وقت روم کے زیرِ نگیں تھا۔کسی برتر قوم کی عورت کا اپنے باجگزار قوم کے مرد سے نکاح یقینا معاشرتی اعتبار سے خاصی اہمیت رکھتا ہے۔شاہِ مقوقس کے خط سے بھی یہی اندازہ ہوتا ہے کہ سیّدہ ماریہ کے والدِ گرامی بھی مصر کے بااثر شخص تھے۔

۶ ہجری میں نبی کریم نے مختلف ممالک کے اربابِ اختیار کے نام اپنے مکاتیب روانہ کیے۔شاہِ مقوقس (والیِ مصر)کے نام مکتوب سیدحاطب بن ابی بلتہ رضی اللہ عنہ لے کر گئے۔شاہِ مقوقس نے سفیرِ رسولﷺ کا اعزاز و اکرام کیا اوربیش قیمت تحائف نبی کریم ﷺ کی خدمت میں روانہ کیے۔اس کے ساتھ ہی مشہور روایات کے مطابق دو اور ایک غیر معروف روایت کے مطابق تین معزز خواتین کو بھی بھیجا۔انہی معزز خواتین میں سے ایک سیّدہ ماریہ رضی اللہ عنہا بھی تھیں۔

سیّدہ ماریہ رضی اللہ عنہا کو نبی کریم نے اپنی شرفِ زوجیت میں لیا۔ ذی الحجہ ۸ ھ کو سیدہ ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا کے بطن سے حضرت ابراہیم کی ولادت ہوئی ۔حضرت ابراہیم کی رضاعت کا شرف بنو نجار سے تعلق رکھنے والے صحابی براء بن اوس کی اہلیہ ام بردہ خولہ بنت منذر کو حاصل ہوا۔’’ام بردہ رضی اللہ عنہا حضرت ابراہیم کو اپنے بیٹے کے حصہ کا دودھ پلایا کرتی تھیں اور دودھ پلاکر بچہ کو اس کی ماں کے حوالہ کردیتی تھیں۔رسول اللہ نے اَنَّا (مرضعہ)کو کھجور کا ایک درخت عطا کیاتھااور انہیں سات بکریاں بھی عطا کی تھیں تاکہ وہ جب بچہ کی خوراک کو پورا نہ کرسکیں تو ان کے ذریعہ کمی کو پورا کرلیں۔ام بردہ رضی اللہ عنہا بچہ کو مستقل طور پر دودھ پلانے کا انتظام نہ کرسکیں لہٰذا ان کے بعد ام سیف رضی اللہ عنہا نے حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ کو دودھ پلانے کی ذمہ داری سنبھال لی۔‘‘]خاندان نبوی کے چشم وچراغ :۹۱-۹۲ [

نبی کریم e اکثر اپنے صاحبزادے کو دیکھنے کے لیے ام سیف کے گھر تشریف لے جایا کرتے تھے۔

علّامہ سیّد سلیمان ندوی لکھتے ہیں :

’’ قاضی عیاض نے لکھا ہے کہ امّ سیف اور امّ بردہ ایک ہی ہیں۔ یہ تاویل کچھ مستبعد نہیں ، لیکن ان کے شوہر کا نام براء بن اوس بتایا جاتا ہے اور وہ ابو سیف کی کنیت کے ساتھ مشہور نہیں ، امّ سیف حوالی مدینہ میں رہتی تھیں۔ آنحضرت فرطِ محبت سے وہاں جاتے ، حضرت ابراہیم کو گود میں لیتے اور چومتے ، امّ سیف کے شوہر لوہار تھے ۔ اس لیے گھر دھویں سے بھرا رہتا تھا۔ لیکن آنحضرت باوجود نظافتِ طبع گوارا فرماتے ۔

۲/۲۸۰-۲۸۱سیرت النبی

قاضی عیاض رحمہ اللہ کا یہ خیال درست نہیں کہ امّ سیف اور امّ بردہ ایک ہی شخصیت ہیں ۔ حافظ ابنِ حجر العسقلانی رحمہ اللہ کی ’’الاصابۃ فی تمیز الصحابۃ‘‘ سے حقیقت واضح ہوجاتی ہے ۔ امّ بردہ رضی اللہ عنہا کے حالات میں حافظ نے ابو موسیٰ کا یہ قول بھی نقل فرمایا ہے کہ

’’ المشہور انّ التی أرضعتہٗ ام سیف و لعلھما جمیعا ارضعتاہٗ ۔‘‘]الاصابۃ فی تمیز الصحابۃ : ۸/۱۷۵[

’’مشہور یہ ہے کہ ام سیف نے حضرت ابراہیم کی رضاعت کی تھی ، شاید ان دونوں ہی نے رضاعت کی ہو۔‘‘

حضرت ابراہیم علیہ السلام کو جب بیماری نے آگھیرا تو ام المومنین ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا پریشان ہوگئیں’’اپنی بہن سیرین کو مدد کے لیے بلایا،وہ دونوں بچہ کی دیکھ بھال اور تیمارداری کرنے لگیں، اس کے لیے دوائی تلاش کی۔بچہ کو ’’نخیل العالیہ‘‘لے گئے ،لیکن مرض شدت اختیار کرتا گیا۔دوا اور علاج معالجہ کسی کام نہ آیا۔اچانک انہیں بچہ کا سانس اکھڑتا ہو ا محسوس ہوا۔وہ تیزی سے بچہ لے کر حضور کی خدمت میں حاضر ہوئیں۔حضور کو ابراہیم رضی اللہ عنہ کی حالت کی خبر ہوچکی تھی ۔ آپ عبد الرحمان بن عوفt کے کندھے پر سہارے لگائے ہوئے تھے۔ حضور کے چہرے سے شدید غم کے آثار ظاہر ہورہے تھے ،پھر بچہ کی روح قفسِ عنصری سے جدا ہوگئی۔‘‘]خاندان نبوی e کے چشم وچراغ : ۹۳ [

ام بردہ نے حضرت ابراہیم کو غسل دیا، حضورeنے نماز جنازہ پڑھائی ،فضل بن عباس اور امامہ بن زیاد قبر میں اترے اور جنت البقیع میں سیدنا عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہٗ کے قریب جگر گرشۂ رسولﷺ کو مدفون کیا گیا۔

’’محمود فلکی نے ابراہیم رضی اللہ عنہ کی وفات کادن ۲۹ شوال ۱۰ ہجری بمطابق ۲۷ جنوری ۶۳۲عیسوی بتایا ہے،اس دن مدینہ میں مکمل طور پر سورج گرہن ہوا تھا۔‘‘]خاندان نبوی کے چشم وچراغ : ۹۵ [

محرم الحرام ۱۶ھ عہدِ فاروقی میں سیّدہ ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا کا انتقال ہوا ۔ سیدنا فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ نے نمازِجنازہ پڑھایا۔لوگوں کا ایک جمّ غفیر شریکِ جنازہ تھا ۔ جنت البقیع میں مدفون کی گئیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے