قارئین کرام! محترم پروفیسر ڈاکٹر فضل الٰہی صاحب  مسلک اہلحدیث کے معروف علمی ودینی گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کی تصانیف(جن کی تعداد دو درجن سے زائدہے) علمی وتحقیقی حلقوں میں متداول ہیں ۔ باری تعالیٰ نے ان کو تحریر وانشاء کی خصوصی صلاحیتوں سے نوازا ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر فضل الٰہی حفظہ اللہ نے گذشتہ دنوں طلبائے جامعہ کوحصول علم میں مفید طلب تجاویز وآراء سے مطلع فرمایا۔ ان کے خطاب سے قبل جامعہ ابی بکر الاسلامیہ کے سینئر استاذ فضیلۃ الشیخ ابو عبد المجید محمد حسین حفظہ اللہ نے معزز مہمان کی حیات وخدمات بالخصوص تصنیفات وتالیفات کا تعارف پیش کیا اور جامعہ میں تشریف لانے پر ان کا صمیم قلب سے شکریہ ادا کیا ۔ ذیل میں ان کے عالمانہ درس کا ملخص اردو ترجمہ پیش خدمت ہے ۔(م۔ط۔م)

الحمد للہ
والصلاۃ والسلام علی رسول اللہ

عزیز طلباء کرام ومحترم اساتذہ عظام ! میں رب تعالیٰ کی بارگاہ میںسراپہ تشکر وامتنان ہوں کہ جس نے اپنی بے پایاں رحمتوں کے طفیل مجھے وارثان علوم نبوت سے ملاقات کا موقع فراہم کیا۔ آپ لوگ طلب علم کے لئے اپنے گھروں سے نکلے ہیں رسول مکرم eکا ارشاد ہے جو آدمی طلب علم کے لئے رخت سفر باندھتاہے وہ اللہ کے راستے میں نکلتاہے میری گفتگو کا عنوان ’’وارثان علوم نبوت کی خدمت میں چند تجاویز‘‘ ہے ۔ یہ تجاویز آپ کے علمی سفر میں مفید ومعاون ہونگی۔ان شاء اللہ

۱۔ فضیلت علم کی معرفت :

سب سے پہلی چیز یہ ہے کہ آپ لوگ اپنی قدرومنزلت اور بارگاہ الٰہی میں اپنا مقام ومرتبہ پہچانیں ۔ امام ترمذی رحمہ اللہ نے اپنی جامع میں سیدنا انس رضی اللہ کے واسطے سے رسول رحمتe کا یہ فرمان نقل کیا ہے کہ ’

’مَنْ خَرَجَ فِیْ طَلَبِ الْعِلْمِ فَھُوَ فِی سَبِیْلِ اللّٰہِ حَتَّی یَرْجِعَ‘‘(أخرجہ الترمذی)

’’ جو شخص طلب علم کے لئے رخت سفر باندھتا وہ واپس آنے تک اللہ کے راستے میںرہتا ہے۔‘‘

یادرہے کہ طالب علم جس وقت اپنے گھر سے طلب علم کے لئے قدم باہر رکھتاہے اسی وقت سے اس کا شمار فی سبیل اللہ میں ہوتاہے اور جب تک وہ اپنے گھر میں لوٹ نہیں جاتا اس وقت تک وہ اس شرف سے مشرف رہتاہے۔

طالب علم مجاہد فی سبیل اللہ کے درجے اور مرتبے کو کیسے حاصل کرسکتاہے؟ اس کا جواب امام طیبیa نے اپنی کتاب شرح مشکوۃ المصابیح میں دیا ہے وہ رقمطراز ہیں کہ طلب علم کے لئے سفر کرنا دین اسلام کا احیاء، شیطان کی ذلت وناکامی ، نفس کی غذا اور خواہشات کی بیخ کنی ہے ۔ باری تعالیٰ کا یہ بیان بھی اس کی تائید کرتاہے۔

{وَمَا کَانَ الْمُؤْمِنُوْنَ لِیَنْفِرُوْا کَآفَّۃًفَلَولاَ نَفَرَ مِن کُلِّ فِرْقَۃٍ مِنْھُمْ طَائِفَۃٌ لِّیَتَفَقَّھُوا فِی الدِّیْنِ وَلِیُنْذِرُوْا قَوْمَھُمْ اِذَا رَجَعُوْا اِلَیْھِمْ لَعَلَّھُمْ یَحْذَرُوْنَ} (التوبۃ:122)

’’اور ایسے تو نہیں کہ سارے مسلمان نکل کھڑے ہوں، سوایسا کیوں نہ کیا جائے کہ ان کی ہر بڑی جماعت میں سے ایک چھوٹی جماعت جایا کرے، تاکہ وہ دین کی سمجھ بوجھ حاصل کریں، اور واپس آنے پر اپنی قوم کو ڈرائیں ، شاید کہ وہ ڈرجائیں۔‘‘

باری تعالیٰ نے اہل ایمان کو دوگروہوں میں تقسیم کیا ہے ۔

۱)اعلائے کلمۃ اللہ کے لئے برسرپیکار مجاہدین کا مبارک گروہ ۔

۲) فقاہت دین حنیف کے لئے مصروف عمل خوش قسمت جماعت ۔

دونوں گروہ اپنے اپنے مشن کی تکمیل کے لئے مصروف عمل رہیں۔ حصول علم کے لئے کی جانے والی کوشش اور جدوجہد امام ابن القیم اور امام طیبی; کے نزدیک بھی جہاد اکبر ہے۔ ایک دوسری روایت جسے امام مسلم نے اپنی صحیح میں نقل کیا ہے اس میں رسول عربیe کا فرمان عظیم ہے ’’من سلک طریقا یلتمس فیہ علما سھل اللہ بہ طریقا الی الجنۃ ‘‘

’’جو شخص علم حاصل کرنے کے لئے کوئی راستہ طے کرتاہے تو اللہ تعالیٰ اس کے لئے جنت کا راستہ آسان کردیتاہے۔

مذکورہ حدیث مبارکہ کے الفاظ ’’سھل اللہ بہ طریقا الی الجنۃ‘‘ اللہ تعالیٰ اس کے لئے جنت کا راستہ آسان کر دیتاہے ۔ کی تشریح وتوضیح میں امام ابن حجر رحمہ اللہ رقمطراز ہیں :

سہّل(آسان کر دیتے ہیں) سے مراد یہ ہے کہ باری تعالیٰ اس خوش نصیب کو ایسے اعمال صالحہ کی خصوصی توفیق مرحمت فرماتے ہیں۔ جس سے دخول جنت لازم آتاہے۔

امام ابو داؤد نے اپنی سنن میں سیدنا ابو درداء کے واسطے سے رسول عربی کا فرمان نقل کیاہے آپ  نے ارشاد فرمایا

:وإن الملائکۃ لتضع أجنحتہا رضا لطالب العلم ‘‘

’’بلاشبہ فرشتے طالب علم کی رضا مندی کے لئے اپنے پر بچھاتے ہیں۔‘‘

فرشتوں کے پر بجھانے سے کیا مراد ہے ؟ حضرات محدثین رحمہم اللہ نے اس حدیث کے متعدد معانی بیان کیے ہیں جن میں سے اہم ترین معانی درج ذیل ہیں :

۱) فرشتے طالب علم کے لئے تواضع اختیار کرتے ہیں۔

۲) فرشتے اہل علم کی مجلس میں بیٹھتے ہیں۔

۳) فرشتے طالبان علوم نبوت کی معاونت ومساعدت کے لئے کوشاں رہتے ہیں۔

۴) فرشتے طالب علم کے لئے دعا میں مصروف رہتے ہیں۔

۵)اہل علم کی مجالس پر فرشتوں کے پر سایہ فگن رہتے ہیں۔

۲۔نعمت کی قدردانی

علم شرعی کے دنیاوی واخروی فضائل آپ نے ملاحظہ فرمائیں اب اس نعمت خداوندی کی حفاظت کرنا آپ کا شرعی فریضہ ہے۔ اصطلاحات جدیدہ کے نام پر امت کو خیر کثیر سے محروم کرنے کی مذموم کوششیں کی جارہی ہیں۔ مدارس اسلامیہ کی ہئیت کو بدلنے اور نصاب تعلیم میں تبدیلی لانے کیلئے زر کثیر خرچ کیا جارہاہے۔

آپ نے شرعی علم کے حصول کے لیئے اس عظیم علمی دانشگاہ کا انتخاب کیا ہے لہذا اس عظیم علم کو چھوڑ کرصرف علوم عصریہ میں تخصص کے بارہ میں غوروفکر نہ کریں۔

باری تعالیٰ کا فرمان ہے

{اَتَسْتَبْدِلُوْنَ الَّذِیْ ھُوَ اَدْنٰی بِالَّذِیْ ھُوَ خَیْرٌ }(سورۃ البقرۃ:61)

’’بہتر چیز کے بدلے ادنی چیز کیوں طلب کرتے ہو؟۔‘‘

لہذا اس قیمتی متاع(علم شرعی) کو ترک کرکے یا اس کے اوقات میں کمی کرکے دیگر علوم کے حصول میں مشغول مت ہوں۔

۳۔ فضولیات سے اجتناب

تحصیل علم کے دوران فضولیات سے کلی طور پر اجتناب برتیں۔ ہر وہ قول، فعل جو آپ کیلئے حصول علم میں رکاوٹ بنے اس کو ترک کردیں۔ ہمیشہ رسول عربی e کا یہ فرمان اپنے پیش نگاہ رکھیں۔ رسول معظم e نے فرمایا: من حسن اسلام المرء ترکہ مالا یعنیہ۔ (أخرجہ الترمذی وقال حسن)

انسان کے حسن اسلام میں سے یہ بھی ہے کہ وہ ان کاموںکو ترک کردے جن کا کوئی فائدہ نہیں۔

’’امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث اسلام کا مدار ہے۔

امام حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ جب کسی بندے سے اعراض کرتے ہیں تو اس کی علامت اور نشانی یہ ہے کہ اس بندے کو لایعنی أمور میں مشغول کردیتے ہیں‘‘۔

جس آدمی سے رب تعالیٰ اعراض کرلے وہ تو دنیا وآخرت میں ناکام ونامراد ہوجاتاہے۔

اسی طرح جو شخص فضول گفتگو کرتاہے وہ صدق وسچائی سے محروم ہوجاتاہے۔

۴۔ تحصیل علم میں جدوجہد:

حصول علم میں حسب طاقت محنت کریں۔ اللہ تعالیٰ کسی کی محنت کو رائیگاں نہیں کرتا۔

امام مالک a نے اس حقیقت کو بیان کرتے ہوئے کہا :

اے طالب علم !تقویٰ کو اختیار کریں حد سے زیادہ سونے سے پرہیز کریں اورکبھی بھی پیٹ بھر کر کھانا نہ کھائیں۔ زیادہ سونا اور کھانا دونوں چیزیں جدوجہد اور محنت شاقہ میں بنیادی رکاوٹ ہے۔

۵۔ آداب

امام سفیان ثوری رحمہ اللہ نے چند ایک اہم آداب کا تذکرہ کیا ہے جن پر عمل پیرا ہوکر آدمی علم کی منازل بآسانی طے کرسکتاہے یہ آداب حسب ذیل ہیں ۔

الف: الاستماع : درس کو اچھی طرح توجہ کے ساتھ سننا۔

ب: الانصات: دوران سبق خاموشی اختیار کرنا۔

ج: الحفظ: مفوضہ درس کو اچھی طرح حفظ کرنا۔ طالب علم اور عام آدمی کے درمیان اصل فرق حفظ کا ہی ہے۔

د: العمل : علم پر عمل کیا جائے۔

ھ : النشر: حاصل کردہ علم کو عوام الناس کے درمیان عام کرنا۔

و: استاذ کا احترام کرنا۔

سلف صالحین اپنے اساتذہ کا بے انتہا احترام کیا کرتے تھے جس کا اندازہ سیدنا ابن عباس کے طرز عمل سے لگایا جاسکتاہے ۔ آپ رضی اللہ عنہ احادیث کو جمع کرتے وقت اپنے اساتذہ کے گھروں پر تشریف لے جاتے اگر دستک پر دروازہ کھل جاتا تو اس استاذ محترم سے حدیث لیکر واپس آجاتے۔ ایک دفعہ جمع احادیث کے سلسلہ میں ایک محدث کے گھر پر تشریف لے گئے جب سیدنا ابن عباس wکومعلوم ہوا کہ استاذ محترم آرام فرما رہے ہیں تو آپ خاموشی سے دہلیز پر سو گئیتاکہ استاذ محترم کے آرام میں خلل واقع نہ ہو۔ حصول علم کے آداب میں سے یہ بھی ہے کہ آپ اپنے اساتذہ سے اچھے طریقے سے سؤال کریں۔

یادرکھیں! علم اگر خزانہ ہے تو اچھے طریقے سے سوال کرنا اس خزانے کی چابی ہے۔

۶۔ علم برائے عمل

علم میں رسوخ حاصل کرنے کے لئے عمل انتہائی ضروری أمر ہے۔ علم کا حصول فقط برائے عمل ہونا چاہیے۔

سیدنا ابو درداء رضی اللہ فرماتے ہیں ’’ویل للذی لا یعلم مرۃ وویل للذی یعلم ولا یعمل سبعۃ مرات۔‘‘

’’ جو شخص علم حاصل نہیں کرنا اس پر ایک دفعہ ہلاکت ہو اور جو علم کے باوجود عمل نہیں کرتا اس پر سات مرتبہ ہلاکت ہو۔

امام مسلم رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں سیدنا ام حبیبہ رضی اللہ عنہا سے روایت بیان کی ہے کہ رسول عربی ﷺ نے ارشاد فرمایا : جس شخص نے دن رات میں بارہ رکعات(سنن رواتبہ) پڑھیں اس کے لیے جنت میں ایک گھر بنا یا جائے گا۔

اس حدیث کے تمام رواۃ مثلاً ام حبیبہr عیینہ بن ابی سفیان ، عمرو بن اوس ،نعمان بن سالم s وغیرہ فرماتے ہیں کہ ہم نے جب سے یہ حدیث سنی ہے ان رکعات کو ترک نہیں کیا۔

اسی طرح صحیح مسلم میں ہی ایک روایت ہے کہ سیدنا یسار رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں ثابت بنانی رحمہ اللہ کے ساتھ جارہا تھا ان کا گزر بچوں کے پاس سے ہوا تو انہوں نے ان کو سلام کہا اور ثابت بنانی رحمہ اللہ نے حدیث بیان کی کہ وہ سیدنا انس رضی اللہ عنہ کے ساتھ جارہے تھے کہ ان کا گزر بچوں کے پاس سے ہوا تو سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے بچوں کو سلام کیا اور پھر سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے حدیث بیان کی کہ وہ رسول رحمت ﷺ کے ساتھ جارہے تھے جب آپ بچوں کے پاس سے گزرے تو ان کو سلام کیا ۔اس واقعہ سے ہمیں علم پر عمل کرنے میں سلف کے طریق کار کا علم ہوتاہے۔

۷۔ باہمی تعاون

دوران تعلیم اپنے ساتھیوں کے ساتھ علمی تعاون کریں۔ اسباق میں کمزور طلباء کے ساتھ مراجعہ ومطالعہ کریں۔ ان کو سبق یاد کروائیں کسی بھی قسم کی غلطی پر اس کو نصیحت کریںاور نیکی کا اچھے طریقے سے حکم دیں۔ اگر آپ اپنے ساتھی میں کسی قسم کی برائی دیکھیں تو فوراً اس کو اس برائی سے روکیں۔ رسول مکرم ﷺ کی اس عظیم خوشخبری کو ہمیشہ اپنے پیش نظر رکھیں۔

رسول اللہ نے ارشاد فرمایا :واللہ فی عون العبد ما کان العبد فی عون أخیہ (مسلم ، کتاب الذکر والدعاء)

’’اللہ تعالیٰ بندے کی مدد میں (رہتا) ہے جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد میں (رہتا) ہے۔‘‘

اسی طرح رسول عربی e کا دوسرا فرمان بھی سماعت فرمائیں ’ان من أمتی قوماً یعطون مثل أُجُور اوّلھم ، ینکرون المنکر ‘‘ (مسند احمد۴/۶۲ )

’’بیشک میری امت میں کچھ ایسے افراد بھی ہونگے جنہیں پہلے لوگوں کا سا اجر دیا جائے گا وہ، وہ ہوں گے جو برائی کو برا سمجھ کر اس سے روکیں گے۔‘‘

اس لئے ہمیشہ اپنے طالب علم بھائی کی ہر ممکن طریقے سے مدد کرتے رہیں۔

۸۔ ادائے فریضہ

آپ تعطیلات کے دوران یا بعد از فراغت جب بھی اپنے گھروں کی طرف عازم سفر ہوں تو اپنے اہل وعیال، برادری اور محلے والوں کو دین اسلام کی تعلیمات سے روشناس کروائیں کیونکہ حصول علم کا بنیادی مقصد ہی دعوت وتبلیغ ہے۔

صحیح بخاری میں روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس ربیہ قبیلے کا ایک وفد آیا انہوں نے آپ ﷺ سے گزارش کی کہ آپ ہمیں دین کے اوامر بتلائیں تاکہ ہم اپنے پیچھے قبیلے والوں کو ان سے متعلق آگاہی فراہم کریں اور ( اس عمل کے عوض) ہم جنت میں داخل ہوجائیں۔

تو اس حدیث سے ہمیں یہ پتہ چلتا ہے کہ دعوت دین دخول جنت کا بنیادی سبب ہے۔

۹۔ تشکر

حصول علم میں فائدہ دینے والی چیزوں میں ایک چیز محسنین کا شکریہ اداء کرنا بھی ہے ۔ فرمان رسول عربی ﷺ ہے ’’ لا یشکر اللہ من لا یشکر الناس۔ (أبوداؤد:4811)

’’جو شخص لوگوں کا شکریہ اداء نہیں کرتا، وہ اللہ کا بھی شکر گزار نہیں ہوتا۔‘‘

لہذا اس جامعہ کی انتظامیہ، اس کے ساتھ مالی تعاون کرنے والے محسنین بالخصوص بانی جامعہ اور میرے عظیم دوست پروفیسر محمد ظفر اللہ  آپ کے شکریے کے خصوصی مستحق ہیں ان کے لئے ہمیشہ دعا گو رہیں۔ یقینا باری تعالیٰ اس نیکی کے بدلے میں آپ لوگوں کے لئے حصول علم کو مزید آسان کردے گا۔

۱۰۔ اخلاص نیت

میری گفتگو اور تجاویز کا آخری جز اخلاص کے ساتھ تعلق رکھتاہے۔

بڑے سے بڑا عمل اگر اخلاص سے خالی ہوتو وہ بارگاہ الٰہی میں رائی کے برابر بھی اہمیت نہیں رکھتا۔

صحیح بخاری میں روایت ہے کہ رسول عربی e نے ارشاد فرمایا ’إن اللہ لا یقبل من العمل إلا ما کان خالصا وابتغی بہ وجہہ ‘‘

’’باری تعالیٰ صرف وہی عمل قبول کرتاہے جو کہ خالص رضائے الٰہی کے حصول کے لئے ہو‘‘

اس طرح سنن ابن ماجہ میں سیدنا جابر کے واسطے سے رسول معظم e کا فرمان منقول ہے آپ e نے ارشاد فرمایا :’’ لا تعلموا العلم لتباھوا بہ العلماء ولا لِتماروا بہ السفھاء ولا تخیّروا بہ المجالس فمن فعل ذلک فالنار و النار ۔‘‘

’’علم کو

۱۔ علماء پر فخر کرنے

۲۔نادانوں کے سامنے شیخی بگاڑنے

۳۔ اور مجالس میں عزت وقار حاصل کرنے کے لئے نہ سیکھو ایسا کرنے والے کا ٹھکانہ آگ ہے آگ ہے۔‘‘

عزیز طلبائے کرام ! مذکورہ بلا تجاویزپر کاربند رہیں ان شاء اللہ علم میں رسوخ ، عمل میں لذت اور دونوں جہانوں میں کامیابی آپ کے مقدر میں لکھ دی جائے گی۔

میں باری تعالیٰ سے دعا گو ہوںکہ رب رحیم سب سے پہلے مجھے اور آپ سب لوگوں کو ان باتوں پر عمل کی توفیق مرحمت فرمائے۔آمین

وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے