جن امور میں کفار کی مشابہت سے روکا گیا ہے

عامۃ الناس کو چار قسم کے امور میں کفار کی مشابہت سے روکا گیا ہے جو درج ذیل ہیں۔

۱۔ اعتقادی امور:

مشابہت کے باقی ماندہ امورں میں سے یہ معاملہ سب سے زیادہ خطر ناک ہے۔ عقائد میں مشابہت دراصل کفر اور شرک ہے۔ جیسے نیک لوگوں کو مقدس جان کر ان کی تعظیم میں مبالغہ آرائی کرنا۔ اسی طرح اقسام عبادت میں سے کسی کا رخ غیر اللہ کی طرف پھیر دینا یا مخلوق میں سے کسی کو اللہ کا بیٹا یا اللہ کا باپ بنا دینا جیسے عیسائیوں نے سیدنا عیسیٰ علیہ السلام اور یہودیوں نے سیدنا عزیر علیہ السلام کے بارے میں دعویٰ کیا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے بیٹے ہیں۔ دین میں فرقہ بندی( اس سے مراد ہے حق اور اہل سنت کو چھوڑ دینا ورنہ اجتہادی مسائل میں اختلاف اس میں داخل نہیں کیونکہ یہ دین سے علیحدگی نہیں) یا قانون الٰہی کی بالادستی تسلیم کرنے کی بجائے کوئی دوسرا قانون اپنالینا۔ یہ اور اس طرح کے دوسرے کفر وشرک کے جو معاملات ہیں ان سب کا تعلق عقائد سے ہے۔

۲۔ جشن وتہوار:

عید وتہوار اگرچہ عبادات ہی میں داخل ہیں لیکن بعض اوقات ان کا شمار عادات میں ہوتا ہے مگر شریعت نے مختلف دلائل اور قطعی احکام کے ذریعے انہیں خاص کردیا ہے۔

ان کی اہمیت کے پیش نظر خصوصی طور پر ان کے منانے میں کفار کی مشابہت سے روکا گیا ہے اور یہ بھی واضح کردیا گیا ہے کہ مسلمانوں کے لیے سال میں صرف دو تہوار یعنی دو عیدیں ہیں۔ ان کے علاوہ دوسرے تہوار یا جشن جیسے سالگرہ منانا، قومی دن کا انعقاد یا وہ باقاعدہ جشن جن کے لیے سال میں یا مہینے میں کوئی خاص دن مقرر ہو۔ اسی طرح کوئی دن یا ہفتہ جو تکرار سے منایا جائے اور لوگ اس کے منانے کا اہتمام کریں، مشابہت کی ایسی واضح باتیں ہیں جن کے متعلق شرعی نصوص موجود ہیں۔

۳۔ عبادات سے متعلق امور:

نبی علیہ السلام نے اپنے بہت سے فرامین میں تفصیل کے ساتھ عبادات میں کفار کی مشابہت اختیار کرنے سے منع فرمایا اور ان باتوں کا بھی تذکرہ فرمایا جن میں مشابہت ممنوع ہے۔ جیسے مغرب کی نماز میں تاخیر روزہ افطار کرنے میں دیر کرنا، سحری کھائے بغیر روزہ رکھنا اور اس طرح کی کچھ دوسری چیزیں جن کی تفصیل بعد میں آئیگی۔ ان شاء اللہ

۴۔ عادات واطوار اور اخلاق

آخری قسم کا تعلق عادات واطوار اور اخلاق سے ہے۔ جیسے لباس وغیرہ جسے’’ الہدی الظاھر‘‘ سے موسوم کیا گیا ہے۔ (الھدی الظاھر) سے آدمی کی ہیئت کذائی ، ظاہری شکل وصورت، لباس، طور واطوار اور عادات واخلاق وغیرہ مراد ہے۔ ان باتوں میں بھی واضح طور پر کہیں مختصر اور کہیں تفصیل سے مشابہت اختیار کرنے سے روکا گیا ہے۔

مثلاً داڑھی منڈوانے سے روکا گیاہے۔ سونے کے برتن استعمال کرنا اور ایسا لباس پہننا جو کفار کا شعار وامتیاز ہو ممنوع قرار دے دیاگیا ہے بے پردگی، مردوں اور عورتوں کا آزادانہ میل جول، مردوں کی عورتوں سے مشابہت اور عورتوں کی مردوں سے مشابہت اور اسی قسم کی دوسری عادات میں مشابہت سے منع کیا گیا ہے۔

مشابہت کے احکام

مشابہت کے تمام احکام کا مکمل تفصیل کے ساتھ احاطہ ممکن نہیں کیونکہ مشابہت کی تمام صورتوں میں ہر ایک کا حکم جاننے کے لیے ضروری ہے کہ اسے شرعی نصوص کی کسوٹی پر پر کھا جائے ، اہل علم اور فقہاء دین کے بتائے ہوئے شرعی قواعد پر پیش کیا جائے۔ مگر یہاں بعض ایسے عمومی احکام ضرور ہیں جن کے ضمن میں مشابہت کی تقریباً تمام صورتیں آجاتی ہیں جو ذیل میں درج کیے جارہے ہیں:

٭مشابہت کی اقسام میں سے ایک قسم ایسی ہے جس کا اختیار کرنا شرک اور کفر ہے جیسے عقائد وعبادات میں مشابہت اختیار کرنا۔ اسی طرح یہودیوں، عیسائیوں اور مجوسیوں سے ان باتوں میں مشابہت جو عقیدئہ توحید سے متصادم ہیں۔ مثلاً تعطیل کا عقیدہ اختیار کرنا یعنی اللہ تعالیٰ کے اسماء وصفات کا انکار اور ان میں الحاد کی راہ اپنانا۔ اللہ تعالیٰ کا اپنی مخلوق میں حلول کرنا اور اپنی مخلوق کے ساتھ اتحاد کا گستاخانہ عقیدہ رکھنا۔ اسی طرح انبیاء کرام اور صالحین عظام کی تقدیس وتعظیم کے ساتھ ساتھ ان کی عبادت کرنا۔ اللہ کے سوا ان کو پکارنا۔ وضعی قوانین ، انسان کی تخلیق کردہ نظام اور ضابطوں کو ایسے قوانین سمجھ لینا جن کے مطابق فیصلے کئے جائیں، ان سب باتوں کا ارتکاب شرک اور کفر ہے۔

٭ مشابہت میں کچھ چیزیں ایسی ہیں جو کفر یا شرک تک تو نہیں پہنچتیں۔ تاہم وہ فسق وفجور اور گناہ ومعصیت کے زمرے میں ضرور آتی ہیں۔ جیسے بعض عادات واطوار میں کفار کی تقلید وپیروی۔ مثلاً بائیں ہاتھ سے کھانا پینا، مردوں کا سونے کی انگوٹھی پہننا، یا سونے کے دوسرے زیورات استعمال کرنا، داڑھی منڈوانا، مردوں اور عورتوں کا ایک دوسرے سے مشابہت اختیار کرنا اور اسی طرح کی دوسری چیزیں اس قسم میں شامل ہیں۔

٭ مشابہت کے باب میں کچھ چیزیں ایسی ہیں جن کا اختیار کرنا مکروہ ہے اور یہ وہ ہیں جن کا حکم واضح نہ ہونے کی بناء پر حرام اور مکروہ کے درمیان معلق ہے۔ اس سے مراد وہ دنیاوی چیزیں اور عام عادات واطوار ہیں جن کی حرمت واضح نہیں اور وہ کراہت واباحت کے مابین ہیں مگر مسلمانوں کو مشابہت سے محفوظ رکھنے کے لیے ان کا اختیار کرنا مکروہ کے حکم میں آتاہے ۔

یہاں ایک سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ کیا کفار کے کچھ ایسے کام بھی ہیں جو ہمارے لیے مباح ہیں۔ اس کا جواب یہ ہے کہ وہ کام مباح ہیں جو صرف کفار کے ساتھ خاص نہیں اور نہ ان کا طرہ امتیاز سمجھے جاتے ہیں۔ ان کے کرنے سے نہ تو وہ پرہیزگار اور صالح مسلمانوں سے ممتاز ومنفرد نظر آتے ہوں اور نہ وہ ایسے کام ہوں جن کے کرنے سے مسلمانوں میں فتنہ وفساد پھوٹنے کا اندیشہ ہو، یا ان کا کرنا مسلمانوں کے زوال اور کافروں کی ترقی کا سبب بنے۔ مباح کاموں میں سے ایک تو خالص مادی ترقی ہے یا وہ ایجادات وغیرہ ہیں جن میں ان کی پیروی مسلمانوں کے لیے نقصان دہ نہیں۔ اسی طرح وہ خالص دنیاوی علوم جو اسلامی عقائد واخلاقیات سے متصادم نہیں وہ بھی مباح ہی سمجھے جائیں گے یہی نہیں بلکہ بعض اوقات یہ خالص دنیاوی علوم جو کفارکے پاس ہیں ان سے فائدہ اٹھانا مسلمانوں پر واجب ہوجاتاہے اور جب ہم خالص کہتے ہیں تو اس سے ہماری مراد ہے کہ ان میں کوئی ایسی بات نہ پائی جائے جو شرعی اصول وضوابط یا نصوص سے متصادم ہو یا مسلمانوں کی ذلت واہانت اور تحقیر کا سبب بنے۔ لہذا جو علوم ان خطرات سے خالی ہوں گے۔ ان کے حاصل کرنے میں کوئی قباحت نہیں (مسلمانوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ حتی الامکان کوشش کریں کہ وہ کفار کے دست نگرنہ رہیں۔ لیکن اس کوشش میں ایسا نہ ہو کہ بنیادی اور واجب احکام کو پس پشت ڈال دیا جائے۔ جیسے جہاد ، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ، دعوت وتبلیغ اور اقامت دین وغیرہ۔ ان چیزوں کا خیال رکھتے ہوئے کوئی بھی مسلمان شرعی قواعد وضوابط میں رہ کر کسی ملک یا قوم سے دنیاوی فوائد حاصل کرسکتاہے۔ جیسے عام ایجادات وغیرہ سے استفادہ کرنا۔ رسول مقبول ﷺ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور سلف صالحین کا یہی طریقہ رہا۔ صنعت وحرفت اور منفعت وغیرہ میں کفار سے استفادہ کرنے میں کوئی مضائقہ خیال نہ کرتے، جب تک کہ یہ چیز مسلمانوں کی ذلت وکمتری کا باعث نہ بن رہی ہو اور یہ کہنا سوائے مبالغہ آرائی کے اور کچھ نہیں کہ آج کے دور میں مسلمانوں کی ذمہ داریوں میں سے اہم ترین کام فقط مادی ترقی ہی ہے۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ مسلمان پہلے اقامت دین اور شرعی ذمہ داریوں سے عہدہ برآہوں اور پھر مادی برتری کے لئے کوشاں ہوں۔ یہ ایک منطقی امر ہے کہ اقامت دین سے ہی یقینی طور پر دنیاوی ترقی اور برتری کی راہ ہموار ہوگی ۔ واللہ أعلم)

مختصر یہ کہ عقائد وعبادات اور عید وتہوار منانے میں کفار کی مشابہت اختیار کرنا قطعی طور پر حرام ہے، اسی طرح وہ معاملات جن کا تعلق عادات واطوار سے ہے اگر وہ صرف کفار کے ساتھ ہی خاص ہیں تو حرام ہیں ورنہ ان کا حکم حرام ومکروہ کے درمیان معلق ہوگا اور جن باتوں کا تعلق علوم وفنون یا خالص دنیاوی امور سے ہے جیسے صنعت وحرفت اور اسلحہ سازی وغیرہ تو یہ پہلے بیان کردہ شروط کے ساتھ جائز ہوں گی۔

ان لوگوں کی اقسام جن سے مشابہت ممنوع ہے

شرعی نصوص کو جمع کرنے سے ہم ایسے بہت سے لوگوں کی اقسام کو جان سکتے ہیں۔

پہلی قسم … عام کفار:

مجموعی طور پر بلا تخصیص تمام کفار کی مشابہت سے روکا گیا ہے۔ اس ممانعت میں مشرکین، یہودی، عیسائی، مجوسی، صابی، ملحد، بے دین اور دوسرے کفار سبھی شامل ہیں۔ عبادات ، عادات ، لباس اور اخلاق غرض ہمیں ہر اس چیز میں مشابہت اختیار کرنے سے منع کیا گیا ہے جو کفار کے ساتھ خاص ہو۔ رسول اللہ ﷺ نے جب سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو دو زرد رنگ کے کپڑوں میں ملبوس دیکھا تو فرمایا :

اِنَّ ھَذِہِ مِنْ ثِیَابِ الْکُفَّارِ فَلاَ تَلْبَسْھَا‘‘

’’بیشک یہ کفار کا لباس ہے تم اسے مت پہنو۔‘‘

یہ اس بات کی دلیل ہے کہ جو لباس کفار کے خصائص میں سے ہو اس کا پہننا جائز نہیں۔ (آج کے دورمیں جس لباس کو امتیازی حیثیت حاصل ہے اور اس کا شمار کفار کے خصائص میں ہوتاہے وہ پتلون ہے۔ مسلم ممالک میں اس کا پہننا جائز نہیں۔ اگرچہ یہ مغرب زدہ لوگوں میں بہت مقبول ہے اور ایسے لوگوں کی مسلم ممالک میں کثرت ہے مگر معیار تو دین دار اور متقی لوگ ہونگے۔ اور ہم دیکھتے ہیں کہ وہ لوگ تو پتلون وغیرہ نہیں پہنتے۔ ویسے بھی مروجہ پتلون میں انسانی وقار برقرار نہیں رہتا کیونکہ اس میں مکمل ستر پوشی نہیں ہوتی۔ اسی طرح کچھ چیزیں کفار کے مختلف گروہوں میں سے ہر گروہ کی الگ سے علامت سمجھی جاتی ہیں۔ جیسے یہودیوں کا ہیٹ ہے اور عیسائیوں کی صلیب وغیرہ۔ واللہ أعلم)

دوسری قسم … مشرکین :

مشرکین سے عبادات، عید وتہوار اور افعال واعمال میں مشابہت ممنوع قرار دی گئی ہے۔ اسی طرح سیٹیاں بجانا، تالیاں پیٹنا یا اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں سے کسی کو دنیا میں اپنے لیے اللہ کے ہاں سفارشی یا وسیلہ سمجھنا، قبروں پر نذر ونیاز اتارنا، چڑھاوے چڑھانا، قربانی وغیرہ پیش کرنا اور بعض دوسرے مشرکانہ افعال ہیں جن میں مشرکوں کی مشابہت سے منع کیا گیا ہے۔ مشرکین کا ایک طریقہ یہ تھا کہ حج میں میدان عرفات سے سورج غروب ہونے سے پہلے ہی لوٹ آتے۔ ایسا کرنا بھی ان سے مشابہت ہے۔ سلف صالحین مشرکوں کے اعمال وخصائص کو ناپسند کرتے تھے۔

سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کا قول ہے :

’’ مَنْ بَنَی بِبِلاَدِ الْمُشْرِکِینَ وَصَنَعَ نَیرُوزَھُمْ وَمَھرَجَانَھُمْ حَتَّی یَمُوتَ حُشِرَ مَعَھُمْ یَوَمَ الْقِیَامَۃٍ‘‘ (سنن البیھقی ۹/۲۳۴)

’’جس نے مشرکین کے ملک میں گھر بنایا، ان کے نو روز ومہرجان کے جشن منائے اور اسی حالت میں اس کی موت آگئی تو وہ قیامت کے روز انہی کے ساتھ اٹھایا جائے گا۔‘‘

سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ نے مساجد پر برج وغیرہ کی تعمیر کو ناپسند کیا اور کئی مرتبہ اس سے منع فرمایا کیونکہ وہ اسے مشرکین کے صنم کدوں اور ان کی عبادت گاہوں سے مشابہ خیال کرتے تھے۔

تیسری قسم … اہل کتاب :

اہل کتاب سے مراد یہودی اور عیسائی ہیں۔ ہمیں ان تمام اعمال سے منع کیا گیا ہے جو ان کے خصائص اور شعائر کی حیثیت رکھتے ہیں جیسے یہود ونصاریٰ کے عقائد وعبادات، عادات واطوار، ان کا لباس، عید وتہوار ، اسی طرح قبروں پر عمارتیں تعمیر کرنا پھر انہیں سجدہ گاہ بنا لینا ، تصویریں لگانا، عورتوں کے ذریعے فتنہ انگیزی کرنا، سحری نہ کھانا، بڑھاپے کے سفید بالوں کو نہ رنگنا، صلیب اٹھانا، ان کے تہوار خود منانا یا ان کے تہواروں میں شریک ہونا، یہ تمام ایسے کام ہیں جن میں یہودیوں اور عیسائیوں کی مشابہت ممنوع ہے۔

چوتھی قسم …مجوس

مجوسیوں کی عادات وخصائص میں سے ایک آگ کی پرستش ہے۔ اس کے علاوہ اپنے بادشاہوں اور بڑوں کو حد سے بڑھا کر مقدس جاننا، سر کے پچھلی جانب سے بال منڈواکر اگلے حصے کے بال چھوڑ دینا، داڑھی منڈوانااور مونچھیں بڑھانا، سیٹیاں بجانا اور سونے چاندی کے برتن استعمال کرنا، یہ سب مجوسیوں کے اعمال واطوار ہیں جن کا اختیار کرنا ان کی مشابہت ہے جو ممنوع قرار دی گئی ہے۔

پانچویں قسم … اہل فارس اور اہل روم :

روم اور فارس کے لوگ اگرچہ اہل کتاب کے ضمن ہی میں آتے ہیں تاہم علیحدہ سے بھی ایسی باتوں کے اختیار کرنے سے منع کیا گیا ہے جو ان کا امتیاز سمجھی جاتی ہیں۔ جیسا کہ عادات وعبادات اور تمام قسم کے مذہبی رسم ورواج مثلاً اپنے اکابر کی حد سے بڑھی ہوئی تعظیم وتقدیس نیز مذہبی پیشواؤں کی پیروی واطاعت میں ایسی باتوں کو بھی شریعت سمجھ بیٹھنا جنہیں اللہ تعالیٰ نے شریعت کا درجہ نہیں دیا اور اسی طرح دین میں غیر ضروری تشدد اختیار کرنا ان اقوام کے خصائص ہیں۔

چھٹی قسم … غیر مسلم (اعجمی):

غیر مسلم عجمیوں سے مشابہت بھی جائز نہیں۔ اس کی بنیاد نبی علیہ السلام کا یہ فرمان ہے:

نَہَی أَنْ یَجْعَلَ الرَّجُلُ فِیْ أَسْفَلِ ثِیَابِہِ حَرِیْرًا مِثْلَ الأَعَاجِمِ ، أَوْ یَجْعَلَ عَلَی مَنْکِبَیْہِ حَرِیْرًا مِثْلَ الأَعَاجِمِ ۔ (أبو داؤد ، حدیث:4049)

’’آپ ﷺنے اس بات سے منع فرمایا کہ کوئی شخص عجمیوں کی طرح اپنے لباس کے نیچے یا کندھوں پر ریشم کا کپڑا استعمال کرے۔‘‘

آپ ﷺ نے کسی شخص کے لیے تعظیماًکھڑا ہونے سے بھی منع فرمایا بلکہ آپ ﷺ نے اس بات سے بھی روک دیا کہ اگر امام کسی وجہ سے نماز بیٹھ کر پڑھے تو مقتدی پیچھے کھڑے ہوں، اس احتیاط کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ عام دیکھنے والے کہیں یہ نہ سمجھ بیٹھیں کہ کھڑے ہونے والے مقتدی امام کی تعظیم میں کھڑے ہیں۔ حدیث پاک میں اس ممانعت کا سبب یہ بیان کیا گیا ہے کہ یہ طریقہ تعظیم عجمیوں کے انداز سے مشابہت رکھتاہے۔ چونکہ وہ اپنے اکابر ، روساء اور بڑوں کے لیے کھڑے ہوتے تھے اسی لیے یہ عمل مشابہت کی بناء پر ممنوع ٹھہرا۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ عجمی اور مشرکین وکفار جیسا لباس پہننے سے سختی سے منع فرماتے۔ ایسی بہت سی باتوں کی طرف سلف صالحین نے توجہ دلائی ہے۔

ساتویں قسم… جاہلیت اور جہلاء :

جاہلیت کے ان تمام اعمال سے عمومی طور پر منع کردیا گیا ہے جن کا تعلق اہل جاہلیت کے اخلاق وعبادت اور عادات واطوار سے ہے۔ جیسے بے پردگی یعنی عورتوں کا حسن وزینت دکھائے پھرنا۔ اسی طرح جہلاء کی طرح احرام باندھنے کے بعد اپنے اوپر کسی چیز کا سایہ نہ پڑنے دینا، جیسے آج کل روافض کرتے ہیں۔ جسم کی نمائش اور عریانی وفحاشی، قومی عصبیت، حسب ونسب پر فخروغرور ، دوسرے کے نسب ناموں پر طعن وتشنیع ماتم کرنا اور ستاروں کے ذریعے بارش مانگنا۔ رسول مقبول ﷺ نے اسلام کے پیغام کے ساتھ ان تمام جاہلی احوال، افعال، رسم ورواج ، آباؤ اجداد کی تقلید اور ان کے نقش قدم پر چلنا، اور جاہلیت میں قائم ہونے والے بازار سب پر خط تنسیخ پھیر دیا۔ ان چیزوں میں بے پردگی، اختلاط مردوزن اور سود وغیرہ بھی شامل ہیں۔

آٹھویں قسم … شیطان :

شیطان کی مشابہت سے بھی روکا گیا ہے۔ یعنی شیطانی کاموں سے۔ نبیe نے شیطان کے بعض کاموں کا تذکرہ فرمایا اور انکو اختیار کرنے سے منع فرمایا۔ ارشاد فرمایا: ’

’لاَ یَاْکُلَنَّ أَحَدُکُمْ بِشِمَالِہِ وَلاَ یِشْرَبْ بِھَا فَاِنَّ الشَّیْطَانَ یَاْکُلُ بِِشِمَالِہِ وَیَشْرَبُ بِھَا ۔‘‘ (صحیح مسلم، کتاب الأشربۃ، باب آداب الطعام والشراب وأحکامہما حدیث:5367)

’’تم میں سے کوئی بھی اپنے بائیں ہاتھ سے ہرگز نہ کھائے نہ پیئے۔ بے شک شیطان اپنے بائیں ہاتھ سے کھاتا پیتاہے۔‘‘

یہ ایک قابل افسوس امر ہے کہ اب یہ عادت اکثر مسلمانوں میں پائی جاتی ہے۔ اس کا سبب یا تو سستی، تساہل اور بے توجہی ہے یا پھر حق سے روگردانی، تکبر اور شیطان کے دوستوں اور اللہ کے نافرمانوں کی مشابہت۔

نویں قسم… عرب کے وہ گنواربدو جن میں دین راسخ نہیں ہوا :

یہ گنوار لوگ بہت سی ایسی عادات اور رسم ورواج کو ایجاد اختیار کرتے ہیں جن کا اسلام سے دور کا بھی واسطہ نہیں ،عموماً یہ چیزیں جاہلیت کی میراث ہوتی ہیں۔ یہ بدو لوگ اپنی عادات، رسم ورواج اور اصطلاحات کے معاملے میں بہت سخت ہوتے ہیں اگرچہ یہ چیزیں شریعت کے مخالف ہی کیوں نہ ہوں۔ جیسے جاہلی تعصب، حسب ونسب پر فخر، دوسروں کے نسب ناموں پر طعنہ زنی، مغرب کو عشاء کہنا اور عشاء کی نماز کو عتمہ کے نام سے پکارنا۔ طلاق کی قسم اٹھانا یا کاموں کو طلاق سے مشروط کرنا۔ چچا کی بیٹی کو کسی دوسری جگہ شادی کرنے سے روکنا اور اسے اپنے چچا زاد ہی سے شادی کرنے پہ مجبور کرنایہ تمام کام اور اس طرح کی دوسری جاہلی عادات وغیرہ۔ (جاری ہے)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے