قارئین کرام! برصغیر پاک وہند میں تحریکقیام خلافت علی منہاج النبوۃ کے لئے جن مقدس افراد نے قربانیاں دیں ہیں ان میں جماعت مجاہدین کے امیر اور مدرسہ تقویۃ الاسلام اوڈاں والا وجامعہ تعلیم الاسلام ماموں کانجن کے بانی ابو المساکین صوفی محمد عبد اللہ رحمہ اللہ سرفہرست ہیں۔ صوفی صاحب کو اللہ تعالیٰ نے بے انتہاء خوبیوں سے نوازا تھا۔ انہوں نے جماعت کی سرگرمیوں اور جامعہ کی دیکھ بھال کے لئے امانت ودیانت کے مرقع اشخاص کی ٹیم تیار کی۔

مولانا عبد القادر ندوی جنہیں اب مرحوم لکھتے وقت قلم لرزاٹھتاہے کا شمار بھی انہی خوش نصیب اشخاص میں ہوتاہے جن کی تربیت صوفی محمد عبد اللہ a کے مقدس ہاتھوں عمل میں آئی۔

حالات زندگی

مولانا عبد القادر ندوی رحمہ اللہ 1927ء میں حاجی قادر بخش کے ہاں اوڈاں والا میں پیدا ہوئے۔ صوفی عبد اللہ رحمہ اللہ کی خواہش پر ان کو اوڈاں والا مدرسہ میں داخل کروادیاگیا۔ ابتدائی نصاب حضرت مولانا محمد اسحاق رحمہ اللہ سے پڑھا جبکہ تکمیل صحیح بخاری اور منتہی درجے کی کتب استاذ الاستاتذہ حافظ محمد گوندلوی aسے پڑھی۔ منطق وفلسفہ اور کتب فقہ وعربی ادب کے لیے بالترتیب مولانا محمد داؤد رحمانی بھوجیانی اور مولانا محمد عبدہ a کے سامنے زانوے تلمذ طے کیا۔

1946ء میں مولوی فاضل کے امتحان کے بعد دار العلوم ندوۃ العلماء لکھنو میں اپنی خداداد صلاحیتوں کی بنا پر آخری سال میں داخلہ لیا۔

مولانا عبد القادر ندوی   پڑھنے میںانتہائی تیز اور فہم وحفظ کی بہترین صلاحیتوں کے حامل تھے۔ دار العلوم ندوۃ العلماء میں انہوں نے مندرجہ ذیل اساتذہ سے درج ذیل کتابیں پڑھیں۔

۱) تفسیر کشاف ، بخاری شریف، مسلم شریف سید حلیم عطاء شاہ aسے

۲) الاتقان فی علوم القرآن مولانا عمران خان ازہری  سے

۳) حجۃ اللہ البالغۃ مولانا محمد ناظم ندوی اور کچھ حصہ مولانا ابو الحسن علی ندوی a سے ۔

۴) سیاسیات ومعاشیات کے بارہ میں مولانا محمد اسحاق سندیلوی سے استفادہ کیا۔

1947ء میں قبل از فسادات واپس اوڈاں والا میں تشریف لاکر تدریس کا آغاز کیا۔ مدرسے کے انتظامی معاملات میں بھی حصہ لیتے رہے ۔ ذاتی کاروبار کی مصروفیت کی بناء پر تدریس کا سلسلہ زیادہ دیر تک جاری نہ رہ سکا۔

جیسا کہ پہلے ذکر کیا جاچکاہے کہ مولانا عبد القادر ندوی رحمہ اللہ کا شمار صوفی صاحب کے معتمد ترین افراد میں ہوتاتھا۔ اس کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتاہے جب مولانا ندوی a ندوۃ العلماء میں زیر تعلیم تھے اس وقت ان کی غیر موجودگی میں صوفی عبد اللہa صاحب نے ان کو انجمن اہل حدیث لائل پور میں بحیثیت رکن شامل کر لیا۔ صوفی صاحب کی وفات کے بعد اراکین جامعہ نے متفقہ طور پر ندوی صاحب کو جامعہ کا مہتمم وسربراہ مقرر کیا انہوں نے حسنِ عمل،مثالی نظم وضبط سے اس انتخاب کو درست ثابت کردیا۔

یقینا اتنے بڑے ادارے کا انتظام کرنا، اساتذہ سے ان کی علمی اور ذاتی حیثیت کے مطابق پیش آنا، ان کے مقام ومرتبے کو ملحوظِ خاطر رکھنا، طلبا کے ساتھ حسنِ سلوک کا برتاؤکرنا ، ان کی ضروریات کا پورا کرنا، مہمانوں کی خدمت کرنا، جامعہ میں تشریف لانے والے اہل علم کو وقت دینا اور ان کی ذاتی ، ذہنی اور فکری صلاحیتوں کے مطابق ان سے گفتگو کرنا، جامعہ کے اخراجات پورے کرنے کے لیے کوشاں رہنا، اس کے مصارف کو پیش نگاہ رکھنا، عمارت کی مرمت وغیرہ کے سلسلے کی نگرانی کرنا، اس قسم کے بہت سے معاملات ہیں، جن کی انجام دہی بڑی اہمیت کی متقاضی ہے اور ہر وقت غوروفکر کی طالب …! اللہ تعالیٰ ہی اس کی توفیق بخشنے والا اور اس کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے کے لیے مدد کرنے والا ہے۔(ملخص از صوفی محمد عبد اللہ ، مصنف :محمد اسحاق بھٹیd)

اوصاف حمیدہ

ہمارے ممدوح مولانا عبد القادر ندوی رحمہ اللہ کو باری تعالیٰ نے متعدد خوبیوں سے نوازا تھا مثلاً :

۱) مرحوم نے انتہائی سادہ زندگی گزاری ، لباس، خوردنوش اور دیگر معاملات میں سادگی مگر وقار کی روایت کو برقرار رکھا۔

خوراک انتہائی کم اور سادہ کھاتے ۔خشک سالن کو روٹی کے اوپر ڈال کر کھا لیا کرتے تھے۔ گھر میں مالی آسودگی کے باوجود کار یا خصوصی گاڑی میں سفر سے گریز کرتے ۔اوڈاں والا سے فیصل آباد آنے جانے کے لئے پبلک سواری میں سفر کر تے تھے۔

۲) جامعہ تعلیم الاسلام کے ساتھ بے حد محبت وتعلق خاطر تھا۔ جامعہ کے لئے چندے کی فراہمی ودیگر امور میں گہری دلچسپی رکھتے تھے۔فراہمی زرکی سالانہ مہم کا آغاز اپنے خاندان سے کرتے اور سب سے پہلے اپنی جیب خاص سے ایک لاکھ روپے جمع کرواتے۔

جامعہ کے مالی اخراجات میں انتہائی احتیاط برتتے۔ بیماری کے ایام میں ہی اپنے بیٹوں سے کہہ دیا تھا کہ میرے جنازے میں ماموں کانجن سے بس لے کر نہ آئیں۔ جس نے شرکت کرنی ہو اپنے خرچ پر آئے یعنی اپنی ذات کے لئے بیت المال سے تمتع سے احتراز برتتے تھے۔

۳) کتابوں کو جمع کرنے کا اعلیٰ اور معیاری ذوق تھا۔ علمی کتب ہر قیمت پر خریدنے کی کوشش کرتے جامعہ تعلیم الاسلام کی عظیم الشان لائبریری اس کا منہ بولتا ثبوت ہے۔(اس بارہ میں مضمون زیر ترتیب ہے جو اسوئہ حسنہ کی قریبی اشاعت میںشائع ہوگا۔ان شاء اللہ)

۴) گل بانی اور پودوں کی دیکھ بھال خود کیا کرتے تھے۔ جامعہ کے مختلف پلاٹوں میں متعدد قسم کے پھول اور تاریخی جامع مسجد صوفی عبد اللہ رحمہ اللہ کے صحن کاخوبصورت سبزہ زار ان کی ذاتی دلچسپی سے ہی رونق افروز ہے۔

۵) عاجزی وانکساری میں بھی اپنی مثال آپ تھے ۔ تعارفی کلمات میں عبد القادر ندوی سے تجاوزنہ فرماتے مثلاًمولانا ’علامہ‘ صاحب جیسے سابقے اور لاحقے نا پسند کرتے تھے۔

نا معقول!

راقم الحروفنے درس نظامی کی ابتدائی کلاسیں جامعہ تعلیم الاسلام جیسی عظیم الشان علمی دانشگاہ میں پڑھی ہیں۔ میں نے جامعہ میں نیا نیا داخلہ لیا تھا اور مولانا عبد القادر ندوی رحمہ اللہ کو دیکھا نہیںتھا۔ انہی دنوں کسی شخص نے مجھ سے ندوی صاحب کے بارہ میں پوچھا کہ ندوی صاحب کہاں ہیں ؟ ندوی صاحب چونکہ اتنے بڑے ادارے کے مہتمم اور صدر تھے اس لئے میں سمجھ رہا تھا وہ انتہائی جبے قبے والی شخصیت کے مالک ہونگے اور دو چار کاروں کے قافلے میں ہی گھومتے پھرتے ہونگے۔ جب میں نے دفتر کے سامنے گاڑی کو نہ دیکھا تو بے ساختہ جواب دیا ۔ندوی صاحب تو ابھی تک جامعہ میں نہیں آئے۔ قریب ہی پھولوں کی کیاری سے انتہائی سادہ لباس میں ملبوس ’’بابے‘‘ نے باوقار آواز میںکہا : نامعقول !میں ہی توندوی ہوں۔ میں نے تعجب سے اس ’’بابے ‘‘کی طرف دیکھا اور خجالت سے نظریں جھکا دیں۔ اس دن کے بعد ان سے تعارف اور ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رہا۔

آلو کیا ہے ؟

مولانا عبد القادر ندوی a طلباء کے ساتھ انتہائی ادب کے ساتھ ملاقات کرتے تھے۔ دوران گفتگو مشکل صیغوں کے بارہ میں سوالات کرناان کی عادت تھی۔ جس کی بناء پرمجھ جیسے علمِ صرف میں کمزور طلباء ان کا سامناکرنے سے کترا تے تھے ۔

راقم الحروف ابتدائی کلاس کا طالب علم تھا کہ ایک دن جامعہ کے مین گیٹ پر اتفاقاً ان سے ملاقات ہوگئی میں چونکہ لڑکوں کی زبانی ان کی صرفی سوالات کی عادت سے واقف بھی تھا اور علم صرف سے میں ابھی بھی نابلد ہوں۔ اس وجہ سے گھبرا گیا انہوں نے سلام کے فوراً بعد سؤال کیا ۔ جامعہ کے طالب علم ہو ؟ عاجز نے اثبات میں جواب دیا۔ پھر پوچھا ’’آلو‘‘ کیا چیز ہے (ان کا اشارہ باب آلی، یألو کے فعل مضارع متکلم معروف کے صیغہ کی طرف تھا) اس وقت راقم کے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا کہ’’ آلو‘‘ عربی لفظ بھی ہو سکتا ہے اس لئے میں نے برجستہ جواباً کہا ۔ آلو کھانے کی چیز ہے اور جامعہ میں وافر مقدار میں موجود ہے۔ مولانا عبد القادر ندوی نے تبسم فرمایا اور اپنے مخصوص روپڑی لب ولہجے میں کہنے لگے ۔

سبحان اللہ ! آپ لوگوں کو کھانے اور جامعہ کے معاملات میں تنقید کے علاوہ کوئی کام پسند ہی نہیں۔

قارئین کرام! بظاہر تو ان کا جواب تلخ ہے مگر ہمارے احوال کی مختصراً حقیقت بھی یہی ہے۔ مدارس کے اکثر طلباء کرام کھانے کے بارہ میں متفکر رہتے ہیں یا پھرنجی مجالس میں انتظامی امور پر بے جا تنقید میں مصروف عمل ۔ والی اللہ المشتکی

جنازہ

جماعتی جرائد میں ان کی بیماری کی خبریں شائع ہورہی تھی۔ مگر کیا خبر تھی کہ یہ بیماری ان کے لئے موت کا سبب بن جائے گی مگر مشیت الٰہی کے سامنے سبھی بے بس ہیں۔

مؤرخہ7 مارچ 2011 کو بذریعہ فون ان کی وفات حسریات کی خبر موصول ہوئی ۔کراچی سے جامعہ ابی بکر الاسلامیہ کے نائب مدیر فضیلۃ الشیخ قاری عبد الرشید صاحب d اور وکیل جامعہ فضیلۃ الشیخ ضیاء الرحمن المدنی d نماز جنازہ میں شریک ہوئے جبکہ حضرات الامیر ڈاکٹر محمد راشد رندھاوا صاحبd لاہور سے شریک جنازہ ہوئے۔

نماز جنازہ میں پنجاب بھر سے مدارس سلفیہ کے ذمہ داران شیوخ الحدیث سمیت فیصل آباد شہر کی معروف کاروباری سماجی، سیاسی اور مذہبی شخصیات نے شرکت کی۔ نماز جنازہ کی امامت کے فرائض استاذ الاستاتذہ فضیلۃ الشیخ عبد السلام بھٹوی d نے انجام دئیے۔ ان کی تدفین حسب وصیت ملت ٹاؤن فیصل آباد کے قبرستان میںکی گئی۔

مولانا عبد القادر ندوی a کی وفات جامعہ تعلیم الاسلام اور اس سے متعلق احباب کے لئے ہی نہیں بلکہ جماعت اہلحدیث کے لیے بھی کسی سانحہ سے کم نہیں۔

وما کان قیس ھلکہ ھلک واحد
ولکنہ بنیان قوم تھدما

ان جیسی شخصیات کئی ماہ وسال کی گردش کے بعد جنم لیتی ہیں ۔ع

ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے

بڑی مشکل سے ہوتاہے چمن میں دیدہ ور پیدا

باری تعالیٰ سے دعا ہے کہ ان کی بشری لغزشوں سے درگزر فرماکر اعلیٰ علیین میں جگہ دے۔ جامعہ تعلیم الاسلام کو ان کے لئے صدقہ جاریہ بنائے۔ آمین

امید واثق ہے کہ جامعہ تعلیم الاسلام کے جملہ ذمہ داران مرحوم کے بہترین جانشین ثابت ہونگے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے