دوم : آسودگی پانا ، یہ انسان کی طرف اشارہ ہے جیسا کہ سورۃ الضحی میں ہےووجدک عآئلاً فأغنی

اور اسی بات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’ الغنی غنی النفس ‘‘ (بخاری ،احمد)

خلاصۃ القول یہ کہ اللہ تعالیٰ اس کو غنی کردے یا آسودہ حال اور خوش حال کردے یا اس کو اتنے وسائل فراہم کردے کہ وہ کسی کا محتاج نہ رہے۔

الکتاب: جو چیز لکھی جائے ۔ یہاں مراد ہے معاھدہ یعنی تمہارے غلاموں میں سے جو آزادی حاصل کرنے کے لیے معاھدہ کرنا چاہیں تحریر کرلیں۔ ایسے غلام کو مکاتب کہا جاتاہے یعنی وہ غلام جو اپنے مالک سے معاھدہ کرلے کہ میں اتنی رقم جمع کرکے ادا کردوں گا تو آزادی کا مستحق ہوجاؤں گا۔ (اس کی تفصیل آیت کی شرح میں دیکھیں)

البغاء: اس کا مادہ ہے (البغی) جس کا مطلب ہے درمیانہ روی کی حد سے بڑھ جانے کی خواہش کسی پر زیادتی کرنا، ظلم کرنا، دست درازی کرنا۔ (تاج العروس)

اور یہاں اس کا مطلب زناکاری پر مجبور کرناہے۔

تحصناً: کسی چیز کی حفاظت کرنا اسے محفوظ رکھنا ’’حصانٌ‘‘ اس عورت کو کہتے ہیں جو پاک دامن ہو اور اپنی عفت کو محفوظ رکھتی ہو۔ (تاج العروس ،راغب، المحیط)

عورت کی عفت اور پاکدامنی دو طرح سے ہوتی ہے۔

أول یہ کہ : وہ غیر شادی شدہ ہو اور اپنی عفت کو محفوظ رکھے۔

اور دوم یہ کہ : وہ شادی کرکے صرف ایک کی ہو جائے اور اس طرح اس کی عصمت محفوظ ہوجائے۔

ابن المنذر اور ابن ابی حاتم کی ایک روایت میں ہے جوقتادہ سے بیان کی گئی ہے اس کے مطابق ’’تحصناً‘‘سے مراد عفت اور اسلام ہے۔

خیراً: خیر کے عمومی معانی تو اچھائی اور بھلائی کے ہیں لیکن یہاں قوت ،صنعت وحرفت سے معرفت ہے خیر کے دیگر معانی میں سے ۔

۱۔صنعت وحرفت سے معرفت

۲۔مال

۳۔ایفائے عہد

۴۔ صدق وامانت

۵۔ قوت تکسب

مفہوم وتشریح:

ان آیات سے قبل جو آیات تھیں ان میں اللہ تعالیٰ نے تمام ایمان والوں کو اپنی آنکھیں جھکا کر رکھنے کا حکم دیا تھا اور اپنے آپ کو اس نوعیت کی تمام برائیوں سے بچانے کا حکم دیا تھا۔ یہ قرآن مجید کی ایک امتیازی خاصیت ہے کہ اگر اس نے کسی کام سے روکا ہے تو اس کے بعد اس کا مناسب نعم البدل بھی بتا دیا تاکہ راہ حق کا مسافر کسی بھی منزل پر گمراہ نہ ہوبلکہ ہر کام پر وقت مقررہ پراصل ہدف کی طرف رواں دواں رہے۔

پچھلی آیات میں اللہ تعالیٰ نے آنکھیں جھکانے اور شرم گاہوں کی حفاظت کا حکم دیا تو اس آیت میں اس امر کا بیان ہے کہ کوئی مؤمن اپنی جائز جسمانی ضروریات کس طرح پوری کرسکتاہے۔

کیونکہ اسلام نے انسان کی کسی بھی فطری ضرورت اور حاجت پر قدغن نہیں لگائی بلکہ اس کے لیے حالات میسر کردے تاکہ کوئی مشکل نہ ہو بلکہ آسانی ہو کیونکہ اسلام کے احکام آسانیاں پیدا کرنے کے لیے ہیں نہ کہ مشکلات کو جنم دینے کے لیے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : {یرید اللہ بکم الیسر ولا یرید بکم العسر}(سورۃ البقرۃ:۱۸۵)

’’کہ اللہ تعالیٰ کا ارادہ تمہارے ساتھ آسانی کا ہے سختی کا نہیں۔

ان آیات میں جن مسائل پر بحت کی گئی ہے وہ درج ذیل ہیں:

۱۔ غیر شادی شدہ لوگوں کو نکاح کی ترغیب

۲۔ جو لوگ نکاح پر استطاعت نہیں رکھتے ان کو برائیوں سے تحذیر کا بیان

۳۔ آیت مکاتیب

۴۔ کنیزوں کو زنا پر مجبور نہ کرنا

مفہوم وتشریح:

{وأنکحوا الأیامی منکم}

اس آیت میںخطاب اولیاء(سرپرست) سے ہے کہ ایسے مرد وعورت جو بغیر شادی شدہ ہیں ان کا نکاح کراوگو کہ أیامی کا مطلب ایسی عورت جس کا شوہر نہ ہو لیکن اس میں ’’منکم‘‘ اس بات کی وضاحت کررہا ہے کہ اس حکم میںمرد بھی شامل ہیں اور آزاد لوگ شامل ہیں غلام نہیں کہ غلام لوگوں کا حکم آیت کے اگلے حصے میں آرہاہے۔ اگر اس سے مراد صرف عورت ہے تو اس سے ایک لطیف نکتہ أخذ کیاجاسکتاہے چونکہ مخاطب اولیاء سے ہے لہذا عورت اپنا نکاح خود نہیں کرسکتی بلکہ بغیر ولی کی اجازت کے اس کانکا ح منعقد نہیں ہوسکتا کیونکہ حکم نکاح کرانے کا ہے نہ کہ نکاح کرنے کا۔

گو کہ لفظ أمر کا ہے لیکن یہاں حکم وجوب کے لیے نہیں ہے بلکہ یہ حکم مباح اور استحباب کے لیے ہے تاہم استطاعت رکھنے والے کے لیے یہ سنت مؤکدہ ہے بلکہ بعض حالات میں واجب ہے اور اس سے اعراض سخت وعید کا باعث ہے۔

(اور یہ واضح رہے کہ اولیاء کے پس منظر میں کہ اولیاء صرف مرد ہوسکتے ہیں کوئی عورت کسی عورت کی ولی نہیں بن سکتی)

یہ آیت ترغیب کے مقام پر ہے کہ اے ایمان والو ایسے لوگ جو غیر شادی شدہ ہیں اور تمہاری کفالت میں ہیں ان کی شادی کرادو ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو میری فطرت سے محبت کرتاہے اس پر لازم ہے کہ وہ میری سنت کو اختیار کرے اور میری سنت میں سے نکاح بھی ہے۔

لہذا ترغیب کے پس منظر میں مرد اور عورت دونوںہی شامل ہیں۔

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کی ایک روایت جو ابن المنذر اور ابن ابی حاتم میں موجود ہے فرماتے ہیں کہ ’ اللہ تعالیٰ نے نکاح کا حکم دیا ہے اور اس پر ترغیب دلائی ہے اور اس بات کا حکم دیا کہ اپنے آزاد اور غلام کا نکاح کرائیں اور اس ضمن میں فقر کو بھی دور کرنے کا وعدہ فرمایا۔

{والصالحین من عبادکم وإمائکم}

اے ایمان والو ! جو آزاد لوگ تمہاری کفالت میں ہیں ان کے نکاح کرادو اسی طرح وہ غلام اور کنیز یں جو تم لوگوں کی کفالت میں ہیں ان کے بارے میں بھی یہی حکم ہے تاکہ معاشرے میں کسی بھی انداز سے کوئی برائی صادر نہ ہو۔اور ایسا نہ ہو کہ تمہاری زیر کفالت لوگ اپنی جائز ضرورت کو پورا کرنے میں کوئی نہ جائز ذریعہ نہ اختیار کریں تو یہ حکم بھی برائیوں کے سد باب کے لیے دیا جارہاہے۔

{إن یکونوا فقراء یغنھم اللہ من فضلہ}

ان تمام خدشات کو ختم کیا جارہا ہے کہ اگر یہ لوگ فقر اور ناداری کی بناء پر شادی اورنکاح سے گریز کررہے ہیں تو یہ ان کی غلط سوچ ہے بلکہ اللہ تعالیٰ ان کو اپنے نبی کی سنت کو اختیار کرنے کی برکت میں غنی کردے گا اور ان کی حاجات پوری کرے گا اور یہ سب اللہ تعالیٰ اپنے خاص فضل وکرم سے کرے گا۔ اسی بارے میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ :تین لوگ جن کی مد د اللہ تعالیٰ ضرور کرتاہے ۔

ایک وہ مجاہد جو اللہ کی راہ میں ہے

دوسرا وہ شخص جو نکاح کرنا چاہتا ہے عفت اور عصمت کے حصول کے لئے

تیسرا وہ غلام بو آزادی کے لیے اپنے مالک سے معاھدہ کرناچاہتاہے۔

{.4واللہ واسع علیھم }

اے ایمان والو! اگر تم اللہ تعالیٰ کے احکام پر عمل پیرا ہوگے تو وہ اللہ تعالیٰ تمام کے احوال کا جاننے والا ہے اور سب کے ماضی،حال اورمستقبل سے باخبر رہتاہے اور وہ جانتاہے کہ جو لوگ احکام الہیہ پر عمل کریںگے تو اللہ تعالیٰ ان پر اپنا خاص فضل وکرم کرے گا۔

{.4ولیستعفف الذین لا یجدون نکاحاً حتی یغنیھم اللہ}

استعفاف جو کہ عفت سے مأخوذ ہے کی کیفیت سابقہ آیت ’’قل للمؤمنین یغضوا من أبصارھم…‘‘ گزر چکی ہے اور سورت اسراء کی آیت

{ولا تقربوا الزنی إنہ کان فاحشۃ وساء سبیلاً}

اور زنا کے قریب نہ جاؤ بے شک یہ کھلی برائی اور برا راستہ ہے۔‘‘اسی مفہوم میں بیان کی جاتی ہے۔

یعنی وہ لوگ جو نکاح کے وسائل پر استطاعت نہیں رکھتے تو ان لوگوں کے لیے ایک خاص حکم ہے وہ یہ کہ وہ اپنے آپ کو عفت وعصمت کے ساتھ رکھیں اور یہ عفت وعصمت کا تعلق انسان کے روحانی اور ذہنی فکر سے ہے جو کہ صرف تلاوت قرآن مجید اور نماز اور ذکر أذکار اور أہل علم کی مجالست اور صالحین کی صحبت سے حاصل ہوتی ہے ۔ اور یہ تعفف کی کیفیت کا تعلق انسان کے بدن سے بھی ہے جو کہ بعض اوقات سخت جسمانی مشقت اور ریاضت بھی اس میں مددگار ہوسکتی ہے اور ان تمام کیفیات کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے قوم میں اس طرح جمع کیا ۔

’’ یا معشر الشباب من استطاع منم الباء ۃ فلیتزوج ومن لم یستطیع فعلیہ بالصوم فإنہ لہ وجاء۔‘‘

’’ اے نوجوانو! تم میں جس کے پاس قوت ہے وہ نکاح کرلے اور جو کوئی استطاعت نہیں رکھتا تو وہ روزے رکھے کہ یہ روزے کے اس کے لیے ڈھال ہیں۔‘‘

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عفت وعصمت کے حصول کا ذریعۂ اکبر روزہ بیان فرمایا کہ روزہ روحانی علاج بھی ہے اور جسمانی علاج بھی ہے اور ان کی یہ کیفیت بھی مسلسل نہ رہے گی بلکہ اللہ تعالیٰ ان کو بھی غنی وسائل سے مالا مال کر دے گا تاکہ وہ بھی اپنی ضروریات مباح راستوں پر چلتے ہوئے پورا کرسکیں۔

یہاں ایک اور لیطف نکتہ پوشیدہ ہے جو لوگ اس کیفیت(عفت وعصمت) میں کامیاب رہتے ہیں انہی لوگوں کو اللہ تعالیٰ وسائل عطا فرماتاہے تاکہ وہ مسلسل عفت وعصمت کی کیفیت میں ہی رہ سکیں جیسا کہ سطور سابقہ میں گزراکہ عفت وعصمت کی دو صورتیں ہی نکاح سے پہلے اپنی عفت کو محفوظ رکھنا اور دوم نکاح کے بعد ایک کے ساتھ خاص ہوجائے تاکہ یہ عفت قائم ودائم رہے۔

(جاری ہے)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے