عَنْ أَبِي ذَرٍّ، قَالَ: خَرَجَ إِلَيْنَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: “أَتَدْرُونَ أَيُّ الْأَعْمَالِ أَحَبُّ إِلَى اللهِ؟ ” قَالَ قَائِلٌ: الصَّلَاةُ وَالزَّكَاةُ، وَقَالَ قَائِلٌ: الْجِهَادُ، قَالَ: “إِنَّ أَحَبَّ الْأَعْمَالِ إِلَى اللهِ الْحُبُّ فِي اللهِ، وَالْبُغْضُ فِي اللهِ “

تخریج: مسند امام احمد، کتاب مسند الانصار، باب حدیث ابی ذر الغفاری،5/146

راوی کا تعارف:

مکمل نام: جندب بن جنادہ بن سفیان بن عبید  کنیت: ابو ذر غفاری۔ سیدنا عثمان رضی اللہ کے دورِ خلافت میں( ۳۲ھ میں) فوت ہوئے۔      کل مرویات: 281

معانی کلمات:

أتدرون

کیا تم جانتے ہو؟

Do you Knwo

أی

کون سا

Which one

الأعمال

اعمال

Actions/Deeds

أحب الی اللہ

اللہ کے نزدیک زیادہ پسندیدہ

Favorite of Allah

قائل

کہنے والا

Narrator

الصلاۃ

نماز

Prayer

الزکاۃ

زکوٰۃ

Charity

الجہاد

جہاد

fighting

الحب

محبت

Love

البغض

نفرت، بغض

To hate

ترجمہ:

سیدنا ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ہمارے پاس تشریف لائے اور فرمایا: کیا تم جانتے ہو کہ اللہ کے نزدیک پسندیدہ اعمال کون کون سے ہیں؟ ایک شخص نے عرض کیا: نماز اور زکوٰۃ، جبکہ دوسرے نے عرض کیا: جہاد، آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ کے نزدیک (سب سے )زیادہ پسندیدہ عمل یہ ہے کہ (صرف) اللہ کے لئے (کسی سے) محبت کی جائے اور (صرف) اللہ ہی کے لئے (كسي سے)نفرت کی جائے۔

تشریح:

رسول اکرم ﷺ بعض اوقات تعلیم و تدریس کا انتہائی موثر طریقہ یہ بھی استعمال کرتے تھے کہ لوگوں سے خود سوال کرتے، ان کا جواب سنتے اور تصحیح فرماتے، اس حدیث میں آپ ﷺ نے یہی استفہامیہ انداز اختیار فرمایا۔بلاشبہ نماز، زکوٰۃ، جہاد، روزہ، حج، ذکر الٰہی، تلاوتِ قرآن، درس و تدریس وغیرہ مرغوب و محبوب اعمالِ صالحہ ہیں، تاہم ذاتیات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے صرف اللہ کی رضا کے لئے کسی شخص سے محبت کرنا اور اسی کی خاطر کسی سے نفرت کرنا اللہ کے ہاں زیادہ پسندیدہ عمل ہے۔ اللہ کے فرمانبردار، وفادار اور دوست کو صرف اس لئے دوست بنانا کہ میرے مالک کا دوست ہے اور اللہ کے نافرمان، بے وفا اور دشمن و باغی کو صرف اس لئے دشمن سمجھنا کہ یہ شخص میرے مالک کا دشمن ہے، تو میرا بھی کچھ نہیں لگتا۔ اللہ کو زیادہ پسندہوگا۔اسي عقيدے كو’’الولاء والبراء‘‘ بھی کہاجاتا ہے، جو شریعت کے بنیادی اصولوں میں سے ہے۔ ہر معاشرے میں دوست و دشمن کی پہچان کے لئے ایک ہی اصول ہے۔’’دوست کا دوست اور دشمن کا دشمن‘‘ دوست سمجھاجاتا ہےاور ’’دوست کا دشمن، دشمن کا دوست‘‘ دشمن ہی گردانا جاتا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے