اللہ رب العزت نے انسان کو بے حد و حساب صلاحیتوں اور قوت و طاقت سے نوازا ہے۔انسان نے اپنی ذہانت کو بروئے کار لاتے ہوئے ہوائی جہاز بنائے۔ جدید ترین ذرائع مواصلات ایجاد کر لیے۔ انتہائی مہلک اسلحہ تیار کرلیا۔ کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کے ذریعے اس حد تک ترقی کی کہ دنیا ایک عالمی گاؤں کی شکل اختیار کر گئی ہے۔ لیکن اس تمام ترترقی کے باوجود انسان بہت کمزور اور بے بس ہے۔ اس بے بسی کی ایک شکل وبائی امراض ہیں۔ ان دنوں صوبہ پنجاب میں بالعموم اور شہر لاہور میں بالخصوص ڈینگی بخار کی وبا عام ہے۔ہزاروں افراد اس کا شکار ہیں اور درجنوں موت کے منہ میں اُتر چکے ہیں۔

مچھر کی جسامت کیاہے؟

چاول کے دانے کے برابر یہ حقیر سی مخلوق حضرت انسان کو تگنی کا ناچ نچا رہی ہے۔ لوگ اس کے سامنے بے بسی و بے کسی کی تصویر بنے ہوئے ہیں۔ دراصل یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنی مخلوق کے نام ایک پیغام ہے۔ جس میں انسان کو ترغیب دی گئی ہے کہ جلد از جلد اپنے پیدا کرنے والے کی طرف رجوع کرو۔ تم نے اپنے جیسے انسانوں کو حاجت روا، مشکل کشا، بگڑی بنانے والا، پار لگانے والا سمجھ لیا اور اب اس کا نقد نتیجہ دنیامیں بھگتو۔ وہ لوگ اپنے رب کا شکر ادا کریں کہ جنہیں رجوع الی اللہ کی توفیق میسر آئی اور جنہیں ابھی یہ سعادت حاصل نہیں ہوئی وہ اپنی دنیا اور آخرت کی فکرکریں۔

آئندہ سطور میں نبی مکرم e کی صحیح احادیث کی روشنی میں چند دُعاؤں کا ذکر کیا جاتا ہے۔ ان شاء اللہ ان پر عمل کرکے ہر صاحب یقین مسلمان فیض حاصل کر سکتا ہے۔ مصیبتوں، پریشانیوں اور وبائی امراض بالخصوص ان دنوں پھیلے ہوئے ڈینگی بخار سے بچ سکتا ہے۔ بشرطیکہ ہمارا عقیدہ توحید خالص پر مبنی اور ہمارا عمل قرآن وسنت کے عین مطابق ہو۔ ماہرین کے مطابق ڈینگی بخار کا سبب بننے والا مچھر عموماً صبح سورج نکلنے سے پہلے اور شام غروب آفتاب کے قریب حملہ آور ہوتا ہے۔ ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلمنے چند ایسی دعائیں سکھلائی ہیں کہ اگر کوئی صبح پڑھے تو شام تک محفوظ رہے گا اور اگر شام کو پڑھے تو صبح تک محفوظ و مامون رہے گا۔ ان میں سے دو دُعائیں ملاحظہ فرمائیں:

۱: امام ابو داؤد اور امام ترمذی نے سیدنا عثمان بن عفانرضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے کہ انھوں نے بیان فرمایا کہ رسول اللہeنے ارشاد فرمایا کہ کوئی شخص ایسا نہیں کہ وہ صبح و شام تین تین مرتبہ اس دُعا کو پڑھے اور پھر کوئی چیز اسے نقصان پہنچائے، یعنی جو شخص صبح شام اس دعا کو تین تین بار پڑھے گا، اسے کوئی چیز نقصان نہیں پہنچا سکے گی:

بِسْمِ اللہِ الَّذِیْ لَا یَضُرُّ مَعَ اسْمِہٖ شَیْئٌ فِی الْاَرْضِ وَلَا فِی السَّمَآئِ وَہُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْم۔

’’اس اللہ تعالیٰ کے نام کے ساتھ کہ جن کے نام (کی برکت) سے زمین اور آسمان کی کوئی چیز نقصان نہیں پہنچا سکتی اور وہ خوب سننے والے اور خوب جاننے والے ہیں۔‘‘ (سنن ابو داؤد، حدیث: 5077، جامع الترمذی، حدیث: 3612، بحوالہ اذکار نافعہ ص: 130، از پروفیسر ڈاکٹر فضل الٰہی

سوچنے کی بات ہے کہ مچھر کے کاٹنے کے امکانات بھی صبح وشام زیادہ ہیں۔ اب جو شخص پاکیزہ عقیدے اور کامل یقین سے یہ دعا پڑھے گا تو اوّل تو مچھر اسے کاٹے گا ہی نہیں اور اگر ایک چھوڑ ہزار مچھر بھی کاٹ لیں تو اسے ان شاء اللہ کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔کیونکہ یہ کسی بزرگ ، پیر فقیر یا مولوی کی بات نہیں اور نہ یہ مجرب عملیات میں سے ہے، یہ تو آقائے کائناتصلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانِ عالی شان ہے، جو غلط ہو سکتا ہی نہیں۔

۲:امام احمد نے سیدنا ابو ہریرہرضی اللہ عنہ سے یہ روایت نقل فرمائی ہے کہ نبی رحمت e نے ارشاد فرمایا: جو شخص مغرب کے وقت تین مرتبہ درج ذیل دعا پڑھے تو اس رات وہ ہر قسم کے زہریلے جانور کے کاٹنے سے محفوظ رہ جاتا ہے۔ ایسی بلند وبالا شان والی دعا یہ ہے:

اَعُوذُ بِکَلِمَاتِ اللہِ التَّآمَّاتِ مِنْ شَرِّ مَا خَلَق۔

’’میں تمام مخلوق کے شر سے اللہ تعالیٰ کے کامل (تاثیر والے) کلمات کی پناہ لیتا ہوں۔‘‘ (مسند امام احمد حدیث نمبر: 7898 منقول از اذکار نافعہ، ص: 131)

ہم آپ کو ایک مرتبہ پھر غورو فکر کی دعوت دیتے ہیں۔ آپ کس سے خوف زدہ ہیں؟ ایک معمولی سے مچھر سے، جس کی کوئی اوقات ہی نہیں۔ لیکن صرف خوف زدہ ہونے سے کیا ہوتا ہے؟ اپنے رب کی طرف رجوع کیجئے۔ دیکھئے، پھر آپ کے رب کی رحمتیں کس طرح آپ کی منتظر ہیں۔

ڈینگی کے مریض کو دیکھیں تو کیا پڑھیں؟

یہ تو صبح شام پڑھنے والی دُعائیں تھیں کہ جن کی برکت سے انسان اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے ڈینگی مچھر یا کسی اور نقصان پہنچانے والی چیز سے محفوظ رہ سکتا ہے۔ اب آپ ایک اور نہایت قیمتی دعا ملاحظہ فرمائیے کہ جس کے فوائد و ثمرات کی کوئی انتہا نہیں۔امام ترمذی اور امام ابن ماجہ نے سیدنا عمررضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے کہ یقینا رسول اللہ نے فرمایا: ’’جو کسی مصیبت زدہ شخص کو دیکھ کر درج ذیل دعا پڑھے: تو اس کو زندگی بھر کے لیے اس مصیبت سے خواہ وہ کسی نوعیت کی ہو، عافیت دے دی جاتی ہے۔ ‘‘(جامع ترمذی حدیث 3656، سنن ابن ماجہ 3938 منقول از اذکارنافعہ پروفیسر ڈاکٹر فضل الٰہی، ص: 163)

اَلْحَمْدُ لِلہِ الَّذِیْ عَافَانِیْ مِمَّا ابْتَــلَاکَ بِہٖ وَفَضَّلَنِیْ عَلٰی کَثِیْرٍ مِّمَّنْ خَلَقَ تَفْضِیْلًا۔

’’تمام تعریف اللہ تعالیٰ کے لیے، جنہوں نے مجھے اس چیز سے عافیت دی، جس میں تجھے مبتلا کیا ہے اور مجھے اپنی مخلوق میں سے کثیر تعداد پر فضیلت عطا فرمائی ہے۔‘‘

آپ مندرجہ بالا دعا بغور پڑھیں اور ایک سے زائد مرتبہ پڑھیں یہاں تک کہ یہ دعا آپ کے دل پر نقش ہو جائے۔ یہ دعا اپنے اہل خانہ کو بھی یاد کرائیں۔ اگر کوئی شخص اس دعا کی روشنی میں ڈینگی سے متاثرہ کسی مریض کو دیکھ کر یہ دُعا پڑھے تو وہ ضرور ڈینگی بخار سے محفوظ و مامون رہے گا۔(ان شاء اللہ) کیونکہ اس کا وعدہ نبی کریمصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے۔ اور مخلوق میں ان سے زیادہ سچا کون ہوگا؟ کیا ایسی جامع دعا کے ہوتے ہوئے ہمیں ان وبائی امراض سے خوف زدہ ہونے کی ضرورت ہے؟ بات یہ ہے کہ ہمیں نہ اپنے رب پر سچے دل سے یقین ہے اور نہ اس کے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ وسلمکے اوراد و وظائف پر۔ ہم ادھر ادھر ٹامک ٹوئیاں مارتے ہیں۔ دَر دَرکے دھکے کھاتے ہیں۔ مجرب عملیات و تعویذات اور غیر مسنون وظائف کے چکر میں پڑ کر ایمان کی دولت سے بھی محروم ہو جاتے ہیں۔ جبکہ ہمارے پاس نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلمکے سنہرے ارشادات موجود ہیں اور وہ اپنی بہار دکھا رہے ہیں۔ یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم ان سے فائدہ نہیں اٹھاتے اور اندھیروں میں بھٹکتے رہتے ہیں۔

ذرا سوچیے!

کیا ہمارے لیے رسول رحمتصلی اللہ علیہ وسلم کی دعائیں کافی نہیں؟ ہم نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلمکے فرامین کی کیا قدر کی؟ ہم نے اپنے مرشد، اپنے پیر کے سکھلائے ہوئے عمل تو کیے کہ جن اعمال اور وظائف کی کوئی شرعی حیثیت نہیں اور نہ اللہ کے ہاں ان کی قبولیت کی کوئی ضمانت ہے لیکن ہم نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلمکے اوراد و وظائف کو پس پشت ڈال دیا، فراموش کر دیا چنانچہ آج ہمارے رب نے بھی ہمیں فراموش کر دیا۔

ڈینگی بخار کے مریض کی عیادت کو جائیں تو کیا کہیں:

اسلام کامل ضابطہ حیات ہے۔ اس نے ہماری بہترین رہنمائی فرمائی ہے۔ چنانچہ جب ہم کسی ایسے مریض کے پاس جائیں جوکہ ڈینگی بخار میں مبتلا ہو چکا ہو (یا وہ کسی اور مرض میں مبتلا ہو) تو اس کے سرہانے یہ دعا پڑھیں:

أَسْئَلُ اللّٰہ الْعَظِیْم رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیْم اَنْ یَّشْفِیْک

’’میں عظمت والے اللہ تعالیٰ، جو عرش عظیم کے رب ہیں، سے سوال کرتا ہوں کہ وہ تمہیں شفا عطا فرمائیں۔‘‘ (سنن ابو داود حدیث: 3104، جامع ترمذی حدیث: 2165، منقول از اذکار نافعہ، از پروفیسر ڈاکٹر فضل الٰہی، ص: 146)

امام ابو داؤد اور امام ترمذی نے حضرت عبد اللہ بن عباسرضی اللہ عنہم کے حوالے سے نبی کریمصلی اللہ علیہ وسلم سے روایت نقل کی ہے کہ آنحضرتصلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو شخص کسی ایسے مریض کی عیادت کرے جس کا وقت اجل نہ آچکا ہو اور سات دفعہ یہ دعا پڑھے تو اللہ تعالیٰ اس مرض سے اسے شفا عطا فرما دیتے ہیں۔

قارئین محترم!

رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب کوئی شخص اپنے مسلمان بھائی کی عیادت کو نکلتا ہے تو وہ جنت کے باغات میں چلتا ہے۔ حتیٰ کہ وہ تیمار داری کے لیے بیٹھ جاتا ہے۔ جب وہ بیٹھ جاتا ہے تو اسے رحمت (الٰہی) ڈھانپ لیتی ہے۔ اگر صبح کا وقت ہوتا ہے تو شام تک اور اگر شام کا وقت ہو تو صبح تک ستر ہزار فرشتے اس کے لیے دعا کرتے ہیں۔ (صحیح سنن ابن ماجہ، صحیح الترمذی۔ منقول از حصن المسلم طبع مکتبہ قدوسیہ، ص : 105)

شاید کسی کو ستر ہزار فرشتوں کی دعا سے حیرت ہو اور ایک ایسے عمل کے صلے میں کہ جو بہت مشکل نہیں، جسے انجام دینے میں انسان کو بہت زیادہ تگ و دو نہیں کرنا پڑتی۔ لیکن یہ اللہ ربّ العزت کی بے حد و حساب رحمتوں میں سے ہےجو اس نے اپنے بندوں کے لیے مخصوص کی ہیں۔ جب اس کی رحمتوں کی کوئی انتہا ہی نہیں تو ہم اپنے محدود اور ناقص فہم سے اس کا کیسے اندازہ لگاسکتے ہیں۔

اپنے بچوں کو ڈینگی بخار سے اللہ کی حفاظت میں دیں:

بچے کسے اچھے نہیں لگتے؟ ماں باپ کی جان اپنے بچوں میں ہوتی ہے۔ وہ ہر ممکن طریقے سے اپنے بچوں کی فرمائشیں پوری کرتے ہیں۔ انہیں خوش رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔اگر کبھی کوئی بچہ بیمار پڑ جائے تو والدین کے لیے بے حد پریشانی ہوتی ہے۔ اب جو وبا پھیلی ہوئی ہے، اس میں بچوں کی طرف بار بار دھیان جاتا ہے۔ والدین کو چاہیے کہ اس کتابچے میں درج دعائیں خود بھی یاد کریں اور اپنے بڑے بچوں کو بھی یاد کرائیں۔ لیکن چھوٹے بچے کہ جن کے لیے یہ دُعائیں یاد کرنا ممکن نہیں، ان کے لیے سنت نبویصلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ایک دُعا درج کی جارہی ہے۔ سیّدنا عبد اللہ بن عباسرضی اللہ عنہم روایت فرماتے ہیں کہ نبی مکرمصلی اللہ علیہ وسلم حضرت حسن و حسینرضی اللہ عنہم کو ان کلمات سے اللہ کی پناہ میں دیا کرتے تھے:

اَعُوْذُ بِکَلِمَاتِ اللّٰہِ التَّـــآمَّۃِ مِنْ کُلِّ شَیْطَانٍ وَّ ہَامَّۃٍ وَّ مِنْ کُلِّ عَیْنٍ لَّامَّۃٍ۔ (صحیح بخاری،کتاب احادیث الانبیائ، حدیث نمبر:3371)

’’میں تمہیں اللہ تعالیٰ کے مکمل کلمات کی پناہ میں دیتا ہوں ہر قسم کے شیطان، ہرزہریلے جانور اور ہر نقصان پہنچانے والی نظر بد سے۔‘‘

نبی مکرمصلی اللہ علیہ وسلم نے مسکراتے ہوئے فرمایا کہ تمہارے باپ ابراہیمعلیہ السلام انہی کلمات سے اپنے بیٹوں اسحاق اور اسماعیل عليهما السلام کو دَم کیا کرتے تھے۔ اس سے اس دُعا کی اہمیت کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔ ماں اور باپ دونوں کو چاہیے کہ یہ دُعا یاد کریں اور نہایت کثرت سے اپنے بچوں پر اس کا دَم کریں۔ اس دُعا کے بابرکت اثرات سے ہماری اولاد شیطان، زہریلے جانوراور نظر بد سے محفوظ رہے گی۔ ذرا غور کیجئے کہ ہماری اولاد کے لیے یہ تینوں چیزیں کس قدر ضرر رساں ہیں۔ ایک سے بڑھ کر ایک نقصان دہ لیکن ان کے توڑ کے لیے جو نسخہ ہمارے پیارے نبیصلی اللہ علیہ وسلم نے تجویز فرمایا… سبحان اللہ! اس سے زیادہ موثر اور کون سی دُعا ہو سکتی ہے؟ پھر ہم کیوں غیرِ نبی کی طرف رجوع کریں؟

ڈینگی بخار میں مبتلا کیا دُعا کرے؟

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ شخص جو ڈینگی وائرس کا شکار ہو چکا ہے(یا کسی اور مرض میں مبتلا ہے) اس کے لیے کون سا وظیفہ پڑھنا فائدہ مند ہے؟ آیئے! نبی رحمتصلی اللہ علیہ وسلمکی سیرت مبارکہ سے اس سوال کا جواب تلاش کرتے ہیں۔

جب نبی اکرمصلی اللہ علیہ وسلممرض الموت میں مبتلا ہوئے تو آپ کو بخار چڑھا تھا۔ وفات کے وقت بھی آپ کوتیز بخار تھا۔ آپ کی اس کیفیت کو ام المومنین سیدہ عائشہ نے بیان فرمایا ہے۔ کتب احادیث میں آتا ہے کہ آپ بخار کی شدت سے سخت بے چین تھے اور آپ بار بار آخری تین سورتیں یعنی قل ھو اللہ احد، قل اعوذ برب الفلق اور قل اعوذ برب الناس (مکمل) پڑھ کر اپنے ہاتھوں پر پھونک مارتے اور پھر ان مقدس ہاتھوں کو اپنے پاکیزہ وجود پر پھیر لیتے تھے۔ بعد میں جب آپ کے اندر اتنی سکت بھی نہ رہی تو ام المومنین سیّدہ عائشہرضی اللہ عنہما آخری دونوں سورتیں پڑھ کر آپ کے ہاتھوں پر پھونک مارتیں پھر آپصلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ آپ کے جسم پر پھیرتیں۔ اس لیے وہ لوگ جو مشیئت الٰہی سے ڈینگی میں مبتلا ہو چکے ہیں، انھیں چاہیے کہ کثرت سے ان دو سورتوں کا اپنے اوپر دم کریں۔ نیز سورہ فاتحہ کا دم کریں کیونکہ سورہ فاتحہ میں شفا ہے۔ کثرت سے درود ابراہیمی پڑھیں کیونکہ درود شریف پڑھنے والے پر اللہ تعالیٰ کی رحمت نازل ہوتی ہے اور درُود شریف ہر غم سے نجات کے لیے کافی ہے۔

ہمارا المیہ:

ڈینگی کی وبا عام ہونے کے باعث لوگوں میں اضطراب اور بے چینی پیدا ہونا فطری امر تھا۔ خصوصاً جب یہ بخار ہلاکت خیز ہو گیا او ر لوگ مرنا شروع ہو گئے تو خوف و ہراس پھیل گیا۔ اس موقع پر بعض لوگوں نے خصوصًا موبائل پر SMS شروع کر دیے کہ سورۂ تغابن کی فلاں آیات پڑھی جائیں یا دروازے پر لٹکائی جائیں تو یہ مچھر دروازے سے اندر داخل نہیں ہو سکتا۔ اگر سورۂ رحمان کی آیات تلاوت کی جائیں تو یہ مچھر اپنی موت آپ مر جاتا ہے وغیرہ وغیرہ۔

بلاشک و شبہ قرآن کریم میں شفا ہے اور اس کا انکار کرنا صریحاً کفر ہے۔ لیکن سو ال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس کی بعض آیات کو شفا کے لیے مخصوص کرنا سوائے وحی کے کس طرح ممکن ہے؟ اگر کوئی شخص سورۂ فاتحہ کے متعلق کہے کہ ڈینگی کے مریض پر مسلسل اس کا دَم کیا جائے تو بات سمجھ آتی ہے کہ سورۃ فاتحہ کا شفا ہونا کتاب و سنت سے ثابت ہے۔ لیکن دیگر مخصوص آیات یا دعاؤں کے متعلق یہ کہنا کہ ان کے پڑھنے سے ڈینگی حملہ آور نہیں ہو گا، اس کے لیے دلیل درکار ہے اور دلیل قرآن و حدیث کا نام ہے نہ کہ کسی امام، بزرگ ، پیر ، مولوی یا خود ساختہ شیخ الاسلام وغیرہ کے قول کا۔

اس آسان سی بات کی ایک اور زاویے سے وضاحت کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ قرآن کریم اللہ رب العزت کا کلام ہے۔ یہ حضرت جبرائیلعلیہ السلام لے کر نازل ہوئے۔ نبی مکرمصلی اللہ علیہ وسلم کے قلب اطہر پر یہ نازل ہوا۔ جبرائیلعلیہ السلام تو صرف ایک پیغام رساں تھے۔ جو وحی ملی ، لے آئے۔ اس میں کوئی اضافہ کیا نہ کمی۔ اب قرآن کریم کی کسی آیت کے متعلق کوئی حتمی بات اگر مل سکتی ہے تو اس قرآن سے یا نبی مکرمصلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان سے۔ سوال یہ ہے کہ ہم جو قرآن کریم کی مخصوص آیات کے اثرات کا بہت حتمی دعویٰ کررہے ہیں، ہمیں ان کی خبر کس نے دی؟ اگر یہ تجربات کا نتیجہ ہیں تو کیا ان غیر مصدقہ تجربات کے بجائے نبی مکرمصلی اللہ علیہ وسلم کی بتلائی ہوئی دُعائیں، آپصلی اللہ علیہ وسلم کے اذکار، آپ کے وظائف کو اپنا معمول بنانا زیادہ بہتر نہیں؟ ہم جن مصیبتوں اور آزمائشوں میں مبتلا ہیں، جن عذابوں سے دوچار ہیں، ان کا بنیادی سبب رسولِ مکرمصلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین سے ہماری بے اعتنائی ہے۔ کتاب و سنت سے ہماری دُوری ہے۔ کیسی عجیب بات ہے کہ ان مصیبتوں سے نجات کے لیے بھی ہم واضح اور دو ٹوک راستہ ہونے کے باوجود بھول بھلیوں میں پڑ جاتے ہیں۔ اگر کوئی سیدھے راہ کی طرف توجہ دلائے تو اسے بزرگوں کا گستاخ اور اولیا کا منکر کہہ کر بُرا بھلا کہنا شروع کر دیتے ہیں۔ کیا یہ موقع نہیں کہ ہم میں سے ہر شخص نبی مکرمصلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی اپنی محبت اور اپنے قلبی تعلق کا جائزہ لے اور پھر فیصلہ کرے کہ اسے اللہ کے رسولصلی اللہ علیہ وسلم کے اذکار و وظائف اپنا معمول بنانے ہیں یا پاک و ہند کے بزرگوں کے معمولات و مجرب عملیات؟

ایک توجہ طلب نکتہ:

مندرجہ بالا مسنون اوراد وظائف پڑھنے کا مطلب قطعًا یہ نہیں کہ طبی علاج معالجے کو ترک کر دیا جائے۔ بلکہ ان اوراد و وظائف کے ساتھ ساتھ علاج معالجے اور احتیاطی تدابیر کو بھی اختیار کیا جائے۔ کیونکہ اسباب بھی تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہیں اور ہم اسباب کی دنیا میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔ البتہ یہ بات جان لینی چاہیے کہ کامل شفاء مسبب الاسباب کے پاس ہے نہ کہ اسباب میں شفاء ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو ضروری تھا کہ Panadolکھانے والے ہر مریض کو بخار سے آرام آجاتا لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ ایک دواء سے کچھ لوگ شفا یاب ہو جاتے ہیں اور کچھ اسی طرح بیمار رہتے ہیں۔ چنانچہ دوائی کھاتے وقت بھی یہ عقیدہ ہونا چاہیے کہ ہم اسباب کی دنیا میں زندگی بسر کر رہے ہیں اس لیے بطورِ علاج معالجہ یہ دوائی کھا رہے ہیں ورنہ شفاء کا مالک تو صرف اور صرف وہی ہے کہ جو ’’الشافی‘‘ ہے، جس کے علاوہ نہ کوئی شفا دینے والا ہے اور نہ کسی کے دَر سے شفا مل سکتی ہے۔ اللہ رب العزت ہمارے عقاید درست فرما دے اور ہمارے اعمال سنت رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلمکے مطابق کر دے اور ہمیں ہر قسم کی ظاہری، باطنی، جسمانی اور روحانی بیماریوں سے شفاء عطا فرمائے۔

آمین یا رب العالمین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے