اما بعد، اے لوگوں، میں اپنے نفس کو اور آپ کو تقویٰ اختیار کرنے کی وصیت کرتا ہوں۔ اللہ سے ڈرو۔ اللہ آپ پر رحم کرے گا۔ جب اپنے رب کو پہچان لیا ہے تو اس کا حق ادا کرو۔ اس نے تم پر اپنی نعمتوں کی بہتات کر دی ہے۔ اس کا شکر ادا کرو۔ جب آپ نے رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلمسے محبت کا دعویٰ کیا ہے تو اس کی سنت کو لازم پکڑو۔ اپنے رب کی کتاب پڑھی ہے تو اس پر عمل کرو۔ جو جنت کا امیدوار ہوتا ہے، وہ اس کیلئے تیاری کرتا ہے اور جو آگ سے ڈرتا ہے وہ اس سے بھاگنے اور بچنے کے راستے تلاش کرتا ہے۔ جو شیطان کو اپنا دشمن سمجھتا ہے، وہ اس کی راہ سے اجتناب اور دوری اختیار کرتا ہے۔ جو یہ جانتا ہے کہ موت حق ہے، وہ اس کیلئے تیاری کرتا ہے۔ سعادت مند وہ ہے جو دوسروں کی حالت دیکھ کر عبرت پکڑے۔

امام حسنرحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’ہمیں تعجب و حیرت ہے اس قوم پر جنہیں توشہ جمع کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور سفر کے آغاز کی منادی کر دی گئی ہے۔ قافلے کا پہلا فرد آخری کی وجہ سے رکا ہوا ہے اور وہ لوگ بیٹھے کھیل کود میں مصروف ہیں۔ بے خبری اور غفلت میں بھول پن کا شکار ہیں۔

افحسبتم انما خلقنکم عبثا وانکم الینا لاترجعونO (المومنون۱۱۵)

’’کیا تم یہ خیال کرتے ہو کہ ہم نے تم کو بے فائدہ پیدا کیا ہے اور یہ کہ تم ہماری طرف لوٹ کر نہیں آئو گے۔‘‘

اے مسلمانو!        واقعات سے نمٹنا اور ان سے درس عبرت و نصیحت حاصل کرنا دور اندیشی عقل اور احتیاط سے ممکن ہوتا ہے۔ لہذا نت نئے رونما ہونے والے واقعات، اور مسلسل اتار چڑھائوں اور انقلابات میں حکمت مومن کا کھویا ہوا زیور ہوتا ہے۔ نہ تو تقرب ملکوں کا معین و مددگار ہے اور نہ ہی بے چینی امت کی مصلح ہو سکتی ہے۔ محض تنقید سے کوئی بھی پروجیکٹ پایہ تکمیل کو نہیں پہنچتا، اور نہ ہی ری ایکشن کوئی اچھا راہنما ثابت ہو سکتا ہے، اور ہمارے شہر بلد حرمین شریفین دیار مملکت عربیہ سعودیہ کی یہ مبارک سر زمین پر جو اپنے صحرائوں، نرم نرم زمینوں، پہاڑوں وادیوں اور سمندروں سے مالا مال ہے، اسی سرزمین پر اللہ تعالیٰ کا پہلا گھر جو لوگوں کی عبادت کے لئے مقرر کیا گیا ہے موجود ہے۔ اسی سر زمین پر مبعوث ہونے والے نبیصلی اللہ علیہ وسلمسے رسولوں کی رسالت کا خاتمہ ہوا۔ اور سب سے آخری آسمانی کتاب بھی انہی شہروں میں نازل ہوئی۔ ہماری اہمیت ہمارے محل و قوع سے ظاہر ہوتی ہے، ہماری سر زمین کی خصوصیت یہاں سے بھی نمایاں ہوتی ہے کہ اللہ تعالی نے ہمارے لئے مکان نزول وحی، اپنے رسول کی جائے پیدائش، اور آپ کی جائے بعثت اور جائے ہجرت، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلمکی جائے وفات کو ہمارے لیئے منتخب فرمایا۔

ہمارے شہر مسلمانوں کا قبلہ ہیں، ان سے ان کے جذبات اور نشانیاں مربوط ہیں، ہماری اس سرزمین سے صرف ہمارے ہی جذبات و احساسات مربوط نہیں، بلکہ اس سے ہر مسلمان کا تعلق ہے۔ ہمارے علاقوں کا امن تمام مسلمانوں کا امن اورہمارا استحکام تمام مسلمانوں کا استحکام ہے۔

{جَعَلَ اللّہُ الْکَعْبَۃَ الْبَیْْتَ الْحَرَامَ قِیَاماً لِّلنَّاسِ}

’’اللہ تعالی نے عزت کے گھر (یعنی) کعبے کو لوگوں کیلئے قیام کا ذریعہ بنایا ہے۔‘‘ (المائدہ:۹۷)

اللہ تعالی کے حکم کے ساتھ ہماری سر زمین نے ہی تاریخ ایجاد کی، بلکہ دنیاوی تاریخ کا سب سے اہم ترین واقعہ اسی سرزمین پر رونما ہوا، ایسا واقعہ جس سے امتوں اور مملکتوں کے رخ بدل گئے، یہ ملک اپنے نئے دور میں اسی عظیم تاریخی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ اور اسے ہمیشہ کے لئے مبعوث رسالت سے تعلق، شریعت مطہرہ کے نفاذ، اور سیدنا محمدصلی اللہ علیہ وسلمکی اتباع کا مظہر ہے۔

ہماری مملکت کی تاریخ ایک ایسی دینی اور اصولی تاریخ ہے۔ جس پر تمام لوگ متفق ہوتے ہیں، اسے ہر ایک قبول کرتا ااور باعث فخر سمجھتا ہے، تمام لوگ اس کی پیروی کے لئے تیار ہیں۔ ہماری تاریخ کسی قسم کی عصبیت، علاقائیت اور مذہبیت پر قائم نہیں۔ جن افراد نے اس معاشرے کو کھڑا کیا ہے وہ کسی قبیلے یا قوم اور نہ کسی جماعت کے لئے تعصب کرتے ہیں۔

یہ تاریخ دین و ملک اور خاندان و وطن کی تاریخ ہے۔ اس کی بنیاد اسلامی بنیادوں سے جا کر ملتی ہے، اس کی شاخیں سر سبز، پھل آور، اور خوشبودار اور (اس کا درخت) تن آور ہے، اپنے ماحول میں رہنے والی، اور اپنی ہی آب و ہوا اور پنپنانے والی سر زمین ہے۔ (جیسے پاکیزہ درخت) جس کی جڑ مضبوط (یعنی زمین کو پکڑے ہوئے) ہو اور شاخیں آسمان میں ہیں۔

ہمارے اور آپ کے شہر میں کبھی د ین و دنیا کے مابین معرکہ برپا نہیں ہوا، یہاں استحکام، امن، یگانگت، یکجہتی، نیکی اور اصلاح ہی ہے۔ اللہ تعالی کی تعریف، اس کا شکر اور اسی کا احسان عظیم ہے۔

محترم بھائیوں!

ملکوں کا قیام سیاست اور معاشرے کا ایسا ہم ترین مظہر ہیں جسے تاریخ کے صفحات تحریر کرتے ہیں۔ پھر محققین سر جوڑ کر اس کے مختلف عوامل کا مختلف پہلوئوں سے جائزہ لیتے ہیں، اور جو ملک بھی اپنی نشات کے حالات و ماحول میں متمیز اور ممتاز اور اپنے قیام کے عناصر میں منفرد نظر آئے تو وہ اپنی طبیعت، جوہر اور بناوٹی عناصر کے حوالے سے بحث و تحقیق کے زیادہ لائق ہوتا ہے۔

جب معاملہ ایسا ہے تو ہم یہاں اپنے ملک کے چند بڑے بڑے بعض عناصر و عوامل پر ایک طائرانہ نظر ڈالتے ہیں جو کہ اس مملکت کی امتیازات اور اس کے نمایاں جوہر کا حصہ ہیں۔

محترم احباب!

ہمارا ہدف اور مقصد اور غرض و غایت جو کہ ہمارے پرچم سے بھی عیاں ہوتی ہے وہ ہے۔ ’’لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ‘‘، ہمارے ملک نے توحید کے شعار، اللہ تعالی کی حاکمیت، امت واحدہ، اور اخوت ایمانی، اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ دوستی ولی امر کی اطاعت، کتاب اللہ اور سنت رسول پر بیعت، اور امر بالمعروف اور نھی عن المنکر کے شعار اور پرچم کو بلند کیا۔ اسلام اس ملک کا منھج، اور کتاب و سنت اس سرزمین کا دستور ہے۔ دین اور حکومت ہمارے ملک میں دو بھائیوں کی حیثیت رکھتے ہیں۔ نہ یہ ملک اقتصادی میدان میں کمزور اور سست ہوا، نہ ہی سیاسی اصولوں میں، نہ معاشرتی معاہدات میں، بلکہ یہ ملک ایسے منہج پر قائم ہے جہاں دین و دنیا کی سیاست میں ہر چیز کی ترتیب و تنظیم موجود ہے۔

ہمارا ملک اس وقت بلند ہوا جب اس نے دین، علم توحید اور نعرہ وحدت کو بلند کیا۔ اسی بنا پر اللہ تعالی نے اپنے فضل و احسان کے ذریعے ہمارے دین کی حفاظت فرمائی، ہمارے اختلافات کو ختم کیا، غربت اور تنگدستی کے بعد ہمیں فراوانی بخشی، خوف و بدامنی کے بعد ہمیں امن دیا، جہالت کے بعد ہمیں علم سے بہرور کیا، ہمیں صحت و عافیت کے لباس زیب تن کیا، ہر قسم کے فضل کو بڑھایا اور ہمیں اس سے بڑھ کر نصیب فرمایا۔

ہمارا ملک غالب اور باعزت شان و شوکت سے قائم ہے، اللہ تعالی کی مدد اور اس کی توفیق سے   مخالفین کی توقعات اور امیدوں کے برعکس اس نے تاریخی عظمت کے تسلسل کو برقرار رکھا۔

اسلام کا نفاذ ہمارے نزدیک محض ایک پیشہ یا چند اہم سر گرمیوں میں سے کوئی سر گرمی نہیں ہے، بلکہ یہ تو ہماری روح، زندگی اور غرض و غایت اور ہدف ہے، اسلام اس ملک کی شناخت ہے، اور یہی اس کی دوستی اور تعلقات کا معیار ہے۔ جیسا کہ فرمان باری تعالی ہے: {

قُلْ اِنَّ صَلَا تِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَO لَا شَرِیْکَ لَہٗ ج O

’’(یہ بھی) کہہ دو کہ میری نماز اور میری عبادت اور میرا جینا اور میرا مرنا سب اللہ رب العالمین ہی کے لئے ہے۔ جس کا کوئی شریک نہیں۔‘‘ (الانعام: ۱۶۲،۱۶۳)

اس شناخت بنیاد اور اسباب کی حفاظت میں کسی بھی قسم کی کوتاہی اور سستی اور غفلت اور لاپرواہی برتنا گراوٹ اور تنزلی کی طرف پیش قدمی ہوگی۔ ایسی کوتاہی اور لاپرواہی کا پھر نتیجہ نوعیت اور مقدار کے مطابق ظاہر ہوتا ہے۔ لہذا یہاں ڈھانچہ اور نظام و دستور میں تفریق ممکن نہیں ہے۔ کیونکہ یہ دونوں دین بھی ہیں اور مملکت بھی۔ وطن بھی اور قوم بھی۔

ہماری مملکت اسلام سے جڑی ہوئی عربی مملکت ہے۔ اور ایسے اسلام کی پابند ہے جو عربیت میں سمٹا ہوا دین ہے۔ ہمارا دین سلطنت و مملکت، دعوت و ارشاد، اصلاح اور باہمی تعامل، بات چیت، انسانی تجربات کے ساتھ مثبت تعامل والا دین ہے۔ نیز یہ دین تاریخی اسباق سے درسِ و عبرت حاصل کرنے والا دین ہے۔ اس میں یہ حاکم کے نزدیک قرب محکومیت کی قیمت پر ہوتا ہے اور نہ ہی لوگوں سے رکھ رکھائو حق و عدل کی قیمت پر ہوتا ہے۔

مسلمان بھائیوں!

ہماری اس امتیازی مملکت کے بنیادی عناصر میں امر بالمعروف ونہی عن المنکر (نیکی کا حکم اور برائی سے روکنا) شامل ہے، یہ عنصر اس مملکت کے تینوں ادوار کے اہم ستون میں سے ایک بنیادی ستون کی حیثیت سے رائج رہا ہے۔ اور مملکت کے بنیادی نظام میں صراحت سے مذکور ہے، اور انتظامی ترتیبات میں ایک کلیدی جزو کی حیثیت رکھتا ہے۔

اس جزو نے ہمارے ملک کو اور ہمارے معاشرے کو معاشرتی امن و امان، ضابطہ اخلاق، نصیحت و ارشاد و رہنمائی کا منہج اور احتیاطی و حفاظتی تدابیر کے لحاظ سے ایک امتیازی حیثیت سے متعارف کرایا ہے، یہ معاشرہ میں حسی اور معنوی لحاظ سے باہمی تعاون، اور مشترکہ ذمہ داری کے احساس کی جیتی جاگتی مثال ہے۔ جس کا اثر ملکی اور غیر ملکی دونوں پر برابر کا پڑتا ہے۔ یہ طرز عمل اللہ تعالی کے حکم سے تمام افراد کو انتہائی پسندہے، اور لوگوں کو سیدھی راہ سے منحرف کرنے والی فکر سے بچاتا ہے۔

{کُنتُمْ خَیْْرَ أُمَّۃٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنکَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللّہِ}

’’تم بہترین امت ہو جو لوگوں کیلئے پیدا کی گئی ہے تم نیک باتوں کا حکم کرتے ہو اور بری باتوں سے روکتے ہو اور اللہ تعالی پر ایمان رکھتے ہو۔‘‘ (آل عمران :۱۱۰)

{وَلْتَکُن مِّنکُمْ أُمَّۃٌ یَدْعُونَ إِلَی الْخَیْْرِ وَیَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَیَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنکَرِ وَأُوْلَـئِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُونَ}

’’اور تم میں ایک جماعت ایسی ہونی چاہئے جو لوگوں کو نیکی کی طرف بلائے اور اچھے کام کرنے کا حکم دے اور برے کاموں سے منع کرے یہی لوگ ہیں جو نجات پانے والے ہیں۔‘‘ (آل عمران :۱۰۴)

عزیزان گرامی:

ہمارے ملک کی چند مزید خصوصیات میں اس سرزمین کے علماء اور شرعی پاسبان لوگ ہیں۔ جن کا ہمارے معاشرے میں ایک مکان و منزلت اور مرتبہ ہے۔ یہ لوگ علم ، دعوت اور احتساب کے پاسبان ہیں، یہ بات ملک کی ایک طویل تاریخ میں واضح طور پر سامنے آچکی ہے ۔ حاکم ملک ان سے نصیحت کا طلبگار ہوتا ہے اور اسے سنتا اور قبول کرتا ہے۔ عالم اور دین کے محافظین انہیں نصیحت کرتے اور حاکم و محکوم کا احتساب کرتے ہیں ۔ بلکہ اس ملک میں کسی طالب علم سے اس معاملے میں کوتاہی کا تصور بھی نہیں ہو سکتا کہ وہ احتساب، نصیحت اور امر بالمعروف والنھی عن المنکر کو ملکی اور عوامی لیول پر بجا آوری میں کوتاہی کرے۔

اگر اس خاصیت کو مزید نمایاں دیکھنا چاہتے ہیں تو آپ خلافت راشدہ اور قرون مفضلہ کے بعد کے دور پر غور کریں کہ آپ کے سامنے عیاں ہو گا کہ اس دورانیہ میں عالم کے علم اور عوامی احتسابی عمل میں بظاہر کوئی ارتباط و تعلق نظر نہیں آتا۔ اس دور کے طلباء و علماء کی اکثریت علم و تعلیم، درس و تدریس، اور افتاء و قضاء اور تصنیف و تالیف تک محدود تھی۔ ان کے ہاں عوام اور حکمرانوں کا احتساب ایک لحاظ سے تقریبا ناپید تھا۔ بس چند ایک افراد اس فریضے کو ادا کرتے تھے جن کی سیرت اور تراجم میں یہ چیز ملتی ہے۔ اللہ تعالی ان تمام لوگوں کو اجر عظیم سے نوازے ان کی مغفرت کرے، اور اسلام اور مسلمانوں کے لئے پیش کردہ خدمات کا انہیں بہتر اجر اور اچھا بدلہ نصیب فرمائے۔

اے مسلمان بھائیو!

مملکت سعودی عربیہ بلاد حرمین شریفین یہ ہمارا ملک، ہمارا علاقہ، ہمارا گھر اور ہمارا ٹھکانہ ہیں۔ ہماری دوستی اور لگائو دین اسلام کے بعد اس مملکت کے ساتھ ہے۔ وطن اور سر زمین کا امن اور استحکام تمام خواہشات اور مطالبات سے بڑھ کر ہے۔ چاہے یہ امن حاکم سے متعلق ہو یا محکوم سے۔ اور انقلابات اور سختیوں کے وقت یہی وہ سب سے اہم چیز ہے جس کی جانب توجہ کی ضرورت ہے، ان شہروں کی نگہداشت، ان کی حفاظت اور ان سے تعلق اس صورت حال میں مزید پختہ ہونا چاہئے۔ ہمارا باہم کتنا ہی اختلاف کیوں نہ ہو، ہمارے مطالبات ایک دوسرے سے کتنے ہی مختلف کیوں نہ ہوں۔ اور ہماری جائز خواہشات اور امیدیں کتنی ہی ایک دوسرے سے الگ کیوں نہ ہوں۔ مگر ضروری ہے کہ ہم اپنے ملکی معاملات میں بالکل بیدار رہیں۔ کتنے لوگ ہمارے شہروں کو توڑنے، ہماری طاقت و قوت کا شیرازہ بکھیرنے، ہماری وحدت کو پارہ پارہ کرنے، ہمارے ڈھانچہ کو زائل کرنے کے منتظر ہیں۔ بیشک سعادت مند تو وہ شخص ہے جو دوسرے سے نصیحت حاصل کرے۔

اسلام کی عزت اور دین کی حفاظت کے بعد امن اور قومی یکجہتی، معاشرتی اتفاق و یگانگت اور مقدسات کی حفاظت سب سے بڑھ کر اور سب سے قیمتی چیز ہے جس کے ہم مالک ہیں۔ یہ امن جس میں ہم پنپ رہے ہیں، یہ ہمیں اللہ تعالی کے فضل و کرم کے بعد ہمیں اپنے آباء و اجداد کی کاوشوں سے ملا ہے۔ جو انہوں نے مبارک قائد بادشاہ ملک عبدالعزیز کی قیادت میں سر انجام دیں، اور اس کے بعد ان کے بادشاہ بیٹوں نے اس کی حفاظت کی۔ اسی کی حفاظت کے لئے ملکی پولیس اور فوج تمام شعبوں اور مختلف رتبوں میں بر سر پیکار ہیں اور اسی کے لئے تمام قوم بیدار ہے۔ وطن کے بیٹوں میں سے یہ لوگ ہمارے امن، ہماری مقدسات، ہماری سعادت، ہمارے مالوں، جانوں، اور ہمارے خاندانوں کے محافظ ہیں۔

یہ میدان سچے اور مخلص لوگوں کا میدان ہے۔ ملکی تعلق سب سے قیمتی ہوتا ہے اور کسی بھی قائم عدل، صحیح آزادی میں اجتماعی شعور اجاگر ہونا چاہئے تاکہ ہم وطن، املاک اور اپنی آمدن کی حفاظت کر سکیں۔

اور شرعی امارت کے گرد جمع ہو کر، ہر فتنہ، یا مسلک، یا دعوت جو وطن اور اس کی اکائیوں اور معاشرہ کی راہ میں رکاوٹ بنے اسے چیلنج کرے اس کا تعاقب کریں اور خطرے کا باعث بننے والے ہر عنصر کی تاک میں رہیں۔ ہم مل کر اور ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح اس ملک کی ہر ٹیڑھی آنکھ سے دیکھنے والے کے آگے رکاوٹ اور ہر طرح کے دشمن کو رسوا کر دیں۔ چاہے وہ کوئی بھی ہو۔

وبعد:

اللہ تعالی کی حمد و تعریف ہے جو کہ اس نے ہم پر احسانات کئے، اور جو ہم پر انعامات کئے، اور ہم پر نعمتوں اور انعامات کی بہتات کی۔ اس ملک نے اپنے واضح منہج و مسلک، کتاب و سنت اور طریق سلف صالح کو اپنا اصول اور نظریہ بنایا ہے۔ اس کی بنیادیں مضبوط ہیں جس پر ناقدین کی باتیں اثر انداز نہیں ہو سکتیں۔ اور نہ ہی افترا پردازوں کی افترا پردازی اس کو مکدر کر سکتی ہے۔ نہ ہی بہتان والوں کی بہتان بازی کی اس مقبولیت میں کوئی کمی کر سکتی ہے۔ مملکت کے نظام میں شریعت کے نفاذ کی تنصیص اور صراحت موجود ہے، اور اعمال و احکام میں بھی شریعت نافذ العمل ہے۔ وطن میں یکجہتی، اتحاد، اور عصبیت اور تفرقہ بازی سے بیزاری کی فضا قائم ہے۔

وَلَیَنصُرَنَّ اللَّہُ مَن یَنصُرُہُ إِنَّ اللَّہَ لَقَوِیٌّ عَزِیْزٌO الَّذِیْنَ إِن مَّکَّنَّاہُمْ فِیْ الْأَرْضِ أَقَامُوا الصَّلَاۃَ وَآتَوُا الزَّکَاۃَ وَأَمَرُوا بِالْمَعْرُوفِ وَنَہَوْا عَنِ الْمُنکَرِ وَلِلَّہِ عَاقِبَۃُ الْأُمُورِO

’’جو اللہ کی مدد کرے گا اللہ بھی ضرور اس کی مدد کرے گا، بیشک اللہ تعالی بڑی قوتوں والا بڑے غلبے والا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں کہ اگر ہم زمین میں ان کے پائوں جمادیں تو یہ پوری پابندی سے نمازیں قائم کریں اور زکوتیں دیں اور اچھے کاموں کا حکم کریں اور برے کاموں سے منع کریں تمام کاموں کا انجام اللہ کے اختیار میں ہے۔‘‘ (الحج: ۴۰،۴۱)

دوسرا خطبہ

اللہ تعالی کی حمد و تعریف ہے کہ جس نے اہل ایمان کے دل حق و ہدایت کے لئے کشادہ کر دئے۔

{مَن یَہْدِ اللَّہُ فَہُوَ الْمُہْتَدِ وَمَن یُضْلِلْ فَلَن تَجِدَ لَہُ وَلِیّاً مُّرْشِدا}

’’اللہ تعالی جس کی رہبری فرمائے وہ راہ راست پر ہے اور جسے وہ گمراہ کر دے ناممکن ہے کہ آپ اس کا کوئی کارساز اور رہنما پا سکیں۔‘‘ (الکھف۱۸)

اسی پروردگار کی حمد ہے ان بے شمار نعمتوں پر، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالی کے علاوہ کوئی معبود بر حق نہیں ، اس کا کوئی شریک نہیں، وہ ازل سے ابد تک احد فرد اور صمدیت سے متصف ہے۔ اور گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے سردار نبی مکرم محمدصلی اللہ علیہ وسلماللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔ ان کے رب نے انہیں رسالت کے لئے منتخب کیا، تمام انسانیت میں سے آپ کو چنا۔ رحیم نے انہیں اپنا محبوب بنایا،

صلی اللہ وسلم وبارک علیہ، وعلی آلہ واصحابہ انوار الداجی و مصابیح الھدی، والتابعین ومن تبعھم باحسان، وسلم تسلیما کثیرا سرمدا ابدا۔

اما بعد:

اے مسلمانوں! ہمیں ان نعمتوں کا انکار نہیں جو اس پروردگار نے ہم پر اور ہمارے ملک اور شہروں پر کی ہیں، اس میں مالک کی نعمتوں کی بہتات، خیر و بھلائی کی کثرت، آسودہ حالی، جس کی آمد سے ہماری رہائش کا انداز اور زندگی کی طرح بدل گئی ہے۔ اور ہمارے ملک کا تعلق بیرونی دنیا سے جڑا۔ جہاں کی تہذیب کی مثبت اور منفی اثرات سے ہمیں متاثر ہونا پڑا۔

مگر مملکت سعودی عرب نے اپنے مقام و منزلت اور اپنے دینی اعزاز کو برقرار رکھا۔ اس کا دین سے تعلق مستحکم رہا۔ اور اللہ تعالی کی حمد تعریف اور شکر ہے کہ وہ ابھی تک اپنے اصولوں پر مبادی پر قائم ہے، اپنے منہج کی پابندی ہے۔ اور آج بھی اپنی اسی بنیادوں کی پابندیوں پر کھڑی ہوئی ہے جن پر قائم ہوئی تھی۔ اس دینی لگائو میں مملکت کے حکاّم اور عوام برابر ہیں۔ اسی دینی نہج پر اس مملکت کے دیگر ادارے، ملکی سیاست اور تعلیمی مناہج، اداری ترتیبات اور معاشرتی رسم و رواج قائم ہیں۔

اس تمام خیر و بھلائی جس میں ہم پنپ رہے ہیں اور جن فراوانیوں اور نعمتوں سے مستفید ہو رہے ہیں، ہمیں یقینی علم ہونا چاہئے کہ کمال سب سے عزیز چیز ہے۔ ہاں نقص، کمی، کمزوری اور غلطی نفس بشری کا لازمہ ہے اور کام کرنے والوں کا حصہ ہے۔ یہ بھی یقینی علم ہونا چاہئے کہ سفر لمبا ہے اور راستہ کھٹن بھی ہے کیونکہ امتوں کی تحریک اور نسلوں کی تبدیلی عقل حکمت اور بردباری کی متقاضی ہے۔ اور ایسے منصوبوں پر عمل جاری رکھنے کی متقاضی ہے جس میں وقفہ نہ آنے پائے۔ یہ کام حکمت بیداری اور ایسے شعور کا متقاضی ہے جو موجودہ اور پیش آمدہ حالات میں تمیز کرسکے۔ باہوش عقل، فراخ عدل، منظم لشکر، عادلانہ فیصلے، با حکمت سیاست، پاک طینت افراد، ترقی کیلئے مضبوط منصوبہ بندی، اور اس کے ساتھ رحمت شفقت اور احسان کا متقاضی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے