نام : عبد اللہ، کنیت: ابو بکر

نسب : ابو قحافہ عثمان

لقب: صدیق اور عتیق

والدہ: سلمیٰ بنت صخر بن عامر جو کہ أم الخیر کے نام سے موسوم تھیں۔

پیدائش: 37 سال قبل از بعثت (572ء)مکہ

وفات: بعمر تقریباً 63 سال 13ھ 634ء مدینہ منورہ

سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہکا سلسلہ نسب چھ پُشتوں کے بعد امام کائنات کے سلسلۂ نسب سے جاملتاہے آپ عمر میں امام کائنات سے دو سال چھوٹے تھے۔ جب آقا علیہ السلام نے اعلان نبوت کیا تو اس وقت آپ کی عمر 38 سال تھی۔ آپ اپنے قبیلے بنو تیم کے سردار تھے، جس کی بناء پر قریش کے خوں بہا اور تاوان کے فیصلے آپ کے پاس آتے تھے۔ سلیم الفطرت ہونے کی وجہ سے آپ کے تعلقات بچپن ہی سے رسول مکرمصلی اللہ علیہ وسلم سے استوار تھے۔ اور آپ کا ذریعہ معاش تجارت تھا اور قبل از اسلام خوشحالی کی زندگی بسر کرتے تھے۔ یہ امر متحقق ہوچکاہے کہ جب آقا نے نبوت کا اعلان کیا تو مردوں میں سب سے پہلے ایمان لانے والے سیدنا ابو بکررضی اللہ عنہتھے جیسا کہ امام کائنات کا ارشاد ہے کہ میں نے جس پر بھی اسلام پیش کیا۔ اس نے کچھ نہ کچھ تردد کا اظہار کیا۔ سوائے ابو بکررضی اللہ عنہکے جب اسے کہا گیا تو اس نے فوراً اسلام قبول کرلیا۔ اور جب واقعہ معراج ہوا تو قریش نے چاہا کہ سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہکو برگشتہ کیا جائے۔ آپ کو بتایا گیا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے آسمان پر جانے کا دعوی کیا ہے کیا اب بھی آپ اسلام پر قائم رہیں گے؟

آپرضی اللہ عنہنے فرمایا کہ ہم اس سے بڑھ کر چیزوں پر ایمان لا چکے ہیں آپ کا اشارہ ایمانیات توحید،فرشتے،جنت، دوزخ وغیرہ کی طرف تھا۔

آپ کے بارے میں شاعر نے خوب کہا ہے:

اعتبارِ خالق عالم یقین مصطفیٰ

سیدنا صدیق اکبر جانشین مصطفی

افضل المخلوق بعد انبیاء ابو بکرؓ ہیں

ہم مکانِ مصطفی وہم مکینِ مصطفی

آپ کی تبلیغ کے اثرات

آپرضی اللہ عنہکی کوششوں سے آپ کے مخلص ترین دوست سیدنا عثمان بن عفان، ابو عبیدہ بن جراح ، سعد بن ابی وقاص، طلحہ بن عبید اللہ، عبدالرحمن بن عوف، زبیر بن العوام ، خالد بن سعید، ابو سلمہ، عبد اللہ بن عبد الاسدرضی اللہ عنہم مشرف بہ اسلام ہوئے۔ جبکہ آپ کے مالی ایثار سے سیدنا بلال بن رباح، سیدنا عامر بن فہیرہ، سیدنا زنیرہ، لبینہ،نہدیہ اور ان کی صاحبزادی ام عبیسرضی اللہ عنہم آزاد ہوئے۔ آپ کے اس ایثار کے نتیجے میں قرآن حکیم کی درج ذیل آیت نازل ہوئی۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے { وَسَیُجَنَّبُھَا الْاَتْقَی الَّذِیْ یُؤْتِیْ مَالَہٗ یَتَزَکّٰیO وَمَا لِاَحَدٍ عِنْدَہٗ مِنْ نِّعْمَۃٍ تُجْزٰٓیO اِلَّا ابْتِغَآئَ وَجْہِ رَبِّہِ الْاَعْلٰیO وَلَسَوْفَ یَرْضٰیO }(اللیل)

’’اور جو متقی ہے اس سے ضرور (جہنم) کو دور رکھا جائے گا ٭ جو پاک ہونے کیلئے اپنا مال دیتاہے اور اس پر کسی کا کوئی احسان نہیں جس کا بدلہ اسے دیا جائے مگر صرف اپنے رب بر تر کا چہرہ چاہتے ہوئے (مال خرچ کرتاہے) اور یقینا وہ (اللہ) جلد اس سے راضی ہوگا۔‘‘

امام ابن جوزی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ اس پر اجماع امت ہے کہ یہ آیت کریمہ سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہکی شان میں نازل ہوئی ہے۔

قرآن کریم کی روشنی میں:

{وَالَّیْلِ اِذَا یَغْشٰیO وَالنَّھَارِ اِذَا تَجَلّٰیO وَمَا خَلَقَ الذَّکَرَ وَالْاُنْثٰیٓO اِنَّ سَعْیَکُمْ لَشَتّٰیO فَاَمَّا مَنْ اَعْطٰی وَاتَّقٰی وَصَدَّقَ بِالْحُسْنٰی O فَسَنُیَسِّرُہٗ لِلْیُسْرٰیO }(اللیل:۱۔۷)

’’رات کی قسم ہے جب وہ چھا جائے اور دن کی جب وہ روشن ہو، اور اس ذات کی جس نے نر اور مادہ کو پیدا کیا۔ بیشک تمہاری کوشش مختلف ہے پھر جس نے اللہ کی راہ میں دیا اور (عذاب الٰہی سے) ڈرتا رہا اور اس نے نیک بات کی تصدیق کی تو یقینا اسے عنقریب ہم آسان راہ کی توفیق دیںگے۔‘‘

{اِلَّا تَنْصُرُوْہُ فَقَدْ نَصَرَہُ اللّٰہُ اِذْ اَخْرَجَہُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا ثَانِیَ اثْنَیْنِ اِذْھُمَا فِی الْغَارِ اِذْ یَقُوْلُ لِصَاحِبِہٖ لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَاO} (التوبۃ:۴۰)

’’اگر تم اس نبی کی مدد نہیں کرو گے تو تحقیق اللہ نے اس کی اس وقت مدد کی جب کافروں نے اس کو مکہ سے نکال دیا تھا وہ دو میں دوسرا تھا جبکہ وہ دونوں غار(ثور)میں تھے جب وہ نبی اپنے ساتھی (سیدنا ابو بکرؓ) سے کہہ رہا تھا غم نہ کر یقینا اللہ ہمارے ساتھ ہے۔‘‘

واقعہ افک کی وجہ سے سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہنے سیدنا مسطح بن اثاثہرضی اللہ عنہکی مدد روکنے کا ارادہ کیا تو قرآن کی یہ آیت نازل ہوئی ۔

{وَلَا یَاْتَلِ اُولُوا الْفَضْلِ مِنْکُمْ وَالسَّعَۃِ اَنْ یُّؤْتُوْٓا اُولِی الْقُرْبٰی وَالْمَسٰکِیْنَ وَالْمُھٰجِرِیْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَلْیَعْفُوْا وَلْیَصْفَحُوْا اَ لَا تُحِبُّوْنَ اَنْ یَّغْفِرَ اللّٰہُ لَکُمْ وَاللّٰہُ غَفُوْر’‘ رَّحِیْمٌ} (النور:۲۲)

’’اور تم میں سے فضل اور وسعت والے قرابت داروں اور مسکینوں اور اللہ کی راہ میں ہجرت کرنے والوں کو مالی مدد نہ دینے کی قسم نہ کھائیں اور چاہیے کہ وہ معاف کردیں اور درگزر کریں۔ کیا تم یہ پسند نہیں کرتے کہ اللہ تمہاری مغفرت فرمائے اور اللہ بہت بخشنے والا نہایت رحم کرنے والا ہے۔‘‘

احادیث مبارکہ کی روشنی میں:

عن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہقال: قلت یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من أحب الناس الیک قال عائشۃ رضی اللہ عنہاقلت من الرجال قال ابوھا قلت ثم من؟ قال عمر بن الخطاب ۔ (بخاری ومسلم)

’’سیدنا عمرو بن عاصرضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ آپ کے نزدیک تمام لوگوں سے زیادہ کون محبوب ہے؟ فرمایا، عائشہرضی اللہ عنہا۔ میں نے کہا، مردوں میں سے؟ فرمایا، ابو بکر رضی اللہ عنہ۔ میں نے کہا، پھر کون؟ آپ نے فرمایا، عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ۔‘‘

فرمان رسولصلی اللہ علیہ وسلم : ھل انتم تارکون لی صاحبی انی قلت أیہا الناس انی رسول اللہ الیکم جمیعا فقلتم کذبت وقال ابو بکر صدقت۔ (بخاری)

’’کیا تم میرے دوست کا ستانا میری خاطر چھوڑ دو گے میں نے کہا اے لوگو! میں تم سب کے پاس اللہ کی طرف سے رسول بن کر آیا ہوں۔ تم نے کہا، جھوٹ ہے جبکہ ابوبکر رضی اللہ عنہنے کہا، سچ ہے۔‘‘

رسول پاکصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ولو کنت متخذا من أمتی خلیلا لا تخذت أبا بکر ولکن أخی وصاحبی۔ (بخاری)

’’ اگر میں اپنی امت میں سے کسی کو راز داں دوست (خلیل) بناتا تو ابوبکر رضی اللہ عنہکو بناتا لیکن وہ میرے بھائی اور ساتھی ہیں۔‘‘

فرمانِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہے: أنت صاحبی علی الحوض وأنت صاحبی فی الغار۔ (ترمذی)

امام کائناتصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم میرے غار میں بھی اور حوض کوثر پر ساتھی ہو۔‘‘

رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : انک یا أبا بکر اول من یدخل الجنۃ من أمتی ۔ (حاکم ، ابو داؤد)

رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا’’اے ابو بکررضی اللہ عنہ، آپ میری امت میں سے سب سے پہلے جنت میں داخل ہوں گے۔‘‘

اقوال صحابہ کرام:

خلیفہ ثانی عمر بن الخطابرضی اللہ عنہنے فرمایا:

’’ ابوبکر رضی اللہ عنہہمارے سردار ہیں۔‘‘ (بخاری)

علی بن ابی طالبرضی اللہ عنہفرماتے ہیں: خیر ہذہ الأمۃ بعد نبیھا ابو بکر وعمررضی اللہ عنہما

سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے کہ اس امت میں سے نبی کریمصلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ابو بکر اور عمررضی اللہ عنہما سب سے بہتر ہیں۔‘‘

امام سیوطیرحمہ اللہ کا قول ہے کہ امام ذہبیرحمہ اللہ نے اس حدیث کو متواتر لکھا ہے اور شاہ ولی اللہ محدث دہلویرحمہ اللہ کا قول ہے کہ اسی بزرگوں نے اس حدیث کو سیدنا علی سے روایت کیاہے۔

عہد صدیقی کی فتوحات :

امام کائنات کی جب وفات ہوئی تو صحابہ کرامرضی اللہ عنہم فرطِ غم سے انتہائی پریشان تھے۔ سیدنا عمر بن خطابرضی اللہ عنہجیسے جری بزرگ یہ کہتے ہوئے سنائی دئیے کہ جو شخص یہ کہے گا کہ امام کائنات وفات پاگئے ہیں تو میں اس کا سر قلم کردوں گا۔ صدیق اکبر رضی اللہ عنہکو جب ان حالات کا علم ہوا تو آپ حجرۂ عائشہ (جہاں آقا کائنات کی وفات ہوئی ) میں پہنچے آپصلی اللہ علیہ وسلم کے چہرۂ مبارک کا بوسہ لیا اور حاضرین سے مخاطب ہوئے اور قرآن حکیم کی آیت مبارکہ {وَمَا

مُحَمَّد’‘ اِلَّا رَسُوْلٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہِ الرُّسُل اَفَاْئِنْ مَّاتَ اَوْقُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلٰٓی اَعْقَابِکُمْ}

کی تلاوت فرمائی اور کہا لوگو! جوشخص محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کرتا تھا وہ سن لے کہ محمد فوت ہوگئے ہیں اور جو اللہ کی عبادت کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ زندہ اور قائم ہیں۔ آپ کی تقریر کا اثر اتنا ہمہ گیر تھا کہ لوگ متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے اور جب سقیفہ بنی ساعدہ میں جہاں انصار انتخاب خلیفہ کی خاطر جمع ہوئے تھے آپ نے وہاں اس دلنشین طریقے سے مدلل تقریر فرمائی کہ انصار خلافت سے ہمیشہ کیلئے دستبردار ہوئے اور انہوں نے اپنی ہی مجلس میں آپ کو خلیفۃ الرسول مقرر کر لیا۔

امام شافعی رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اصحاب رسول نے آسمان کے نیچے سیدنا ابو بکررضی اللہ عنہسے بہتر کسی کو نہ پایا تو انہوں نے اپنی گردنوں کو ان کے سامنے جھکا دیا اور جب خلیفہ مقرر ہوئے تو ارشاد فرمایا کہ اے لوگو! میں تمہارا امیر بنایاگیا ہوںحالانکہ میں تم سے بہتر نہیں ہوں اگر میں اچھا کروں تو تمہارا فرض ہے کہ میری مدد کرو۔اگر غلط راہ اختیار کروں تو تمہارا فرض ہے کہ تم مجھے سیدھے راستے پر لگاؤ۔اور فرمایا تم میں جو کمزور ہے وہ میرے نزدیک قوی ہے جب تک میں اس کا حق نہ دلوا دوںاور تم میں جو قوی ہے وہ میرے نزدیک ضعیف ہے جب تک میں اس سے حق نہ لے لوں ۔ جب تک میں اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کروں تو تم میرا ساتھ دو۔ اور جب میں اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کروں پھر تم پرمیری اطاعت فرض نہیں ہے۔‘‘

تاریخ شاہد ہے کہ آپ نے مانعین زکوٰۃ، مرتدین اور مدعیان نبوت کے ساتھ کس طرح جہاد کیا چنانچہ اس نازک لمحے میں آپ نے یہ تاریخ ساز الفاظ بیان فرمائے (تم الدین وانقطع الوحی أینقص وأنا حی) دین مکمل ہوچکا ہے اور وحی کا سلسلہ منقطع ہوگیا ہے اور میرے ہوتے ہوئے اس میں نقص پیدا ہوجائے، ممکن نہیں۔‘‘

اور آپ نے جزیرہ نما عرب کو ایک بار پھر ایک کلمے پر متحد کر دیا۔

سیدنا ابو حصین رضی اللہ عنہکا یہ قول صحیح ہے کہ ’’پیغمبروں کے بعد اولاد آدم میں سیدنا ابوبکررضی اللہ عنہسے افضل کوئی شخص پیدا نہیں ہوا۔ ارتداد کی جنگوں میں انہوں نے وہ کام کیا ہے جو ایک نبی کرتاہے۔‘‘

اگر سیدنا ابو بکررضی اللہ عنہوقتی مصلحتوں کا شکار ہوکر (آج کی طرح) زکوۃ کی وصولی میں نرمی سے کام لیتے تو اسلام کے تمام ارکان ایک ایک کرکے موقوف ہوجاتے اور ہمارا حشر دیگر مذاہب سے مختلف نہ ہوتا۔

فتنہ ارتداد سے نپٹ لینے کے بعد اہل روم اور اہل ایران سے آمنا سامنا ہوا کیونکہ انہوں نے ارتداد کی جنگوں میں باغیوں کی پشت پناہی کی تھی۔ عراق پر حملے کیلئے سب سے پہلے سیدنا مثنی بن حارثہ شیبانی اور سیدنا سویدعجلی رضی اللہ عنہمانے مشورہ دیا۔ آپ نے سیدنا مثنی کو ہی عراق پر حملوں کی قیامت سونپ دی اور بعد میں خالد بن ولیدرضی اللہ عنہکو حکم دیا کہ وہ عراق پہنچ جائیں اوربالائی عراق میں سیدنا عیاض بن غنم کو مقرر کیا گیا ان حضراترضی اللہ عنہم نے جنگ ذات السلاسل جنگ قارن جنگ أیس جنگ حیرہ ، جنگ ذات العیون(انبار) جنگ دومۃ الجندل اور جنگ فراض میں ایرانیوں کو شکست دیکر عراق کے بڑے حصے پر قبضہ کرلیا۔

محاذ شام کیلئے سیدنا ابو عبیدہ بن جراح، سیدنا شرجیل بن حسنہ ،سیدنا عمروبن العاص ، سیدنا یزید بن ابو سفیان رضی اللہ عنہمکو بھیجا گیا انہوں نے حمص ،اردن، فلسطین اور دمشق میں رومیوں کو شکست دیکر بہت بڑا علاقہ قبضے میں لے لیا اور رومی شہنشاہ نے کھوئے ہوئے علاقے واپس لینے کی خاطر بہت بڑا لشکر یرموک کی طرف روانہ کیا اور حالات کی نزاکت کے پیش نظر صدیق اکبر رضی اللہ عنہنے سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہکو عراق سے شام کے محاذ پر پہنچنے کا حکم دیا آپ انتہائی دشوار گزار صحرائی راستے سے ہوتے ہوئے شام پہنچ گئے اور رومیوں کے خلاف کئی معرکوں میں حصہ لیا اور عساکر اسلامی اکٹھے ہوکر اسلامی تاریخ کی فیصلہ کن جنگ لڑنے کی تیاری کررہے تھے کہ سیدنا صدیق اکبررضی اللہ عنہکی وفات ہوگئی۔ انا للہ وانا الیہ راجعون

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے