وہ بجلی کا کڑکا تھا یا صوت ہادی

زمین ہند کی جس نے ساری ہلادی

تیرہویں صدی کی تیسری دہائی میں برصغیر پاک وہند کے افق پر ایک تحریک نمودار ہوئی جو ’’تحریک شہیدین‘‘ سے معروف ومشہور ہے۔ یہ تحریک سیداحمد شہیدرحمہ اللہ اور مولانا اسماعیل شاہ شہیدرحمہ اللہ کی زیر قیادت اللہ کے نام پر اٹھی تھی۔ جس کا مقصد اعلاء کلمۃ اللہ، استخلاص وطن اور مسلمانوں کی عظمتِ رفتہ اور شوکتِ گم گشتہ کی واپسی تھا۔ اس تحریک سے وابستہ نفوس قدسیہ سر پر کفن باندھ کر میدان میں اترگئے۔ اپنے مقاصد کے حصول کے لئے دشوار گزار گھاٹیوں، برف پوش پہاڑوں، بے آب وگیاہ صحراؤں، خوف ناک دروں اور مہیب غاروں کو اپنا مسکن بنایا، اور ہمالیہ کی فلک بوس چوٹیوں سے لیکر وادی کشمیر، درہ امبیلاتک ، مدراس سے خلیج بنگال کے کناروں تک کی زمینوں کو اپنے دوروں اور تقریروں سے ہی نہیں بلکہ اپنے خون سے رنگین بنادیا۔

ان کی نیتیں آب زمزم سے دھلی ہوئی تھیں، سب صبغۃ اللہ میں رنگے ہوئے مخلص، قل ان صلاتی ونسکی کے قالب میں ڈھلے ہوئے مومن، قد افلح المؤمنون کے اوصاف سے متصف اور اطیعوااللہ واطیعوا الرسول کے معیار پر کھرے اترنے والے مطیع صادق تھے۔ سیدین شہیدین کی بے مثال ولازوال قربانیاں تاقیامِ قیامت بندگان الٰہی کوراہ الٰہی میں سب کچھ نثار وقربان کردینے کا پیغام دیتی رہیں گی۔

انہوں نے کیا کیا، کون سے کار ہائے نمایاں انجام دیئے اور ان کی دعوت کے ہمہ گیر اثرات کس درجہ نمایاں ہوئے اس کی وضاحت کے لئے چند معروف اہل قلم کے تاثرات ملاحظہ فرمائیں۔

’’انہوں نے عامہ خلائق کے دین، اخلاق اور معاملات کی اصلاح کا بیڑا اٹھایا اور جہاںجہاں ان کے اثرات پہنچ سکے وہاں زندگیوں میںایسا زبردست انقلاب رونما ہوا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے دور کی یادتازہ ہوگئی ۔ (تجدید واحیائے دین ص:۱۰۷، ابو الاعلی مودودی)

’’یہ مسلمانوں کی عظیم الشان تحریک تھی، بنگال کی سر حد سے لیکر پنجاب تک اور نیپال کی ترائی سے لیکر دریائے شور کے ساحل تک اسلامی جوش وعمل کادریا موجیں ماررہا تھا اور حیرت انگیز وحدت کا سماں آنکھوں کو نظر آرہا تھا۔ (مقدمہ سید احمد شہید، مولانا سید سلیمان ندوی )

۱۲۴۶؁ھ میں یہ دونوں بزرگ نہایت پر پیج ، دشوار گزار علاقوں سے گزر کر صوبہ سرحد پہنچے اور کفر واستعمار کے خلاف جہاد اسلامی شروع کردیا، بالآخر ۲۴ ذیقعدہ۱۲۷۶؁ھ کو بالاکوٹ کی زمین میں خاک وخون میں تڑپتے ہوئے مالک حقیقی سے جاملے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون

اس حادثہ جانکاہ کے بعد ان کے جانشینوں نے رخ موڑا ، از سرنو منصوبہ بندی کی اور جہاد کے ساتھ ساتھ دعوت وتبلیغ ، تدریس وتالیف،نشرواشاعت، تنظیم وشیرازہ بندی جیسے مختلف مورچے سنبھالے۔ چنانچہ جہاد کے گرتے ہوئے علم کو مولانا نصیر الدین منگوری اور شیخ ولی محمد پھلتیرحمہ اللہ نے سنبھالا، تو اندورن ملک جہاد کی تنظیم جدید، دعوت وارشاد، فراہمی مالیات کا فریضہ مولانا ولایت علی، مولانا عنایت علی رحمہم اللہ اجمعین جیسے جیالوں نے انجام دیا۔ کتاب وسنت کی تدریس وتالیف کے مسند پر سید نذیر حسین محدث دہلوی ، شیخ حسین بن محسن انصاری، نواب صدیق حسن خاں بھوپالی، مولانا عبد اللہ عظیم آبادی رحمہم اللہ فائز ہوئے اور ربانی ہدایت، خدادادصلاحیت، علمی جواہرپاروں سے گلشن ہند کو زعفران زار بنادیا۔

حادثۂ بالاکوٹ سے تحریک جہاد یقینا متاثر ہوئی اور ایسا کیوں نہ ہو جبکہ سید احمد شہید اور شاہ اسماعیل شہید جیسے قائدین آنکھوں سے دور، جنت کے مہماں بن گئے۔ یہ فطری امر ہے کہ قائد کی موت سے لشکر میں کہرام مچ جاتاہے، ان کے جذبات سرد پڑجاتے ہیں، امیدوں کا چراغ، چراغ سحری میں بدل جاتاہے لیکن ایسا نہیں ہوا کہ ہمیشہ کے لئے جہاد کی شمع گل ہوگئی اور ان کے جانشین اپنے گھروں میں بند ہوکر لذت کام ودہن میں مشغول ہوگئے ہوں۔

یہ ایک تاریخی صداقت ہے کہ امامان شہیدان کے جانباز وسرفروش رفقاء نے آزادی ہند کے خونی انقلاب(۱۳۲۷ھ ۱۸۵۷ء) تک خون جگر سے اس شمع کو فروزاں اور جہاد کاکامیاب اور مفید سلسلہ جاری رکھا۔

آسمان صادقان صادقپور کی لحد پر شبنم افشانی کرے، جنہوں نے پرچم اسلام کو سرنگوں نہیںہونے دیا۔ بقول مولانا مسعود عالم ندوی ’’سید صاحب کی شہادت (۱۲۴۶ھ۱۸۳۱ء) سے لیکر پورے سوبرس تک مسلسل (۱۸۳۱۔۱۹۳۴ء) جس طرح اس خاندان نے جہاد کا علم سربلند رکھا وہ قربانی اور سرفروشی کی تاریخ میں اپنی مثال آپ ہے۔‘‘ (ہندوستان کی پہلی اسلامی تحریک ص۲۵)

اس خاندان نے شاہ اسماعیل شہیدرحمہ اللہ کے جلائے ہوئے چراغ کو فروزاں رکھنے میں اپنا من دھن سب کچھ قربان کردیا اور ہر قسم کے مصائب وشدائد کا خندہ پیشانی سے استقبال کیا۔ تن کے گورے اور من کے کالوں نے قبریں اکھاڑدیں، عالیشان عمارتیں مہندم کردیں، کتب خانوں میں آگ لگا دی، اہل وعیال سے ہزاروں میل دور قید وبند کی اذیتیں دیں، عبور دریائے شور مع ضبطیٔ جائیداد جیسے ظالمانہ فیصلے سنائے، لیکن آزادی کے متوالوں نے سب کچھ گوارہ کرلیا۔

ہندوستان کی تاریخ کی سب سے پہلی، سب سے بڑی اور سب سے زیادہ انقلاب آفریں اسلامی تحریک پر ناکامی کالیبل لگانا یا ’’ناکام بلحاظ ظاہر۔ نہ بلحاظ حقیقت ‘‘ کہنا حقائق کا گلا گھونٹنا ہے۔ اس تحریک نے انقلاب وعزیمت کے حیرت ناک کارنامے انجام دئیے ہیں اور اس کے وابستگان عہد بہ عہد کام کرتے رہے ہیں۔ میدان علم میں دیکھو تو علوم قرآن اور فنون حدیث کے سلسلے میں خصوصاً اور دیگر علوم وفنون میں عموماً اس نے پورے عالم اسلام کو ایک مدت تک کے لئے پیچھے چھوڑ دیا تھا۔

داعیٔ کبیر مولانا سید ابو الحسن علی ندوی رحمہ اللہ رقمطراز ہیں : ’’ ان آخری صدیوں میں ہم کو دنیائے اسلام میں کسی ایسی تحریک کا علم نہیں ہوا جو ہندوستان کی اس تحریک احیائے سنت اور جہاد سے زیادہ منظم اور وسیع ہو، اور جس کے سیاسی اور مذہبی اثرات اتنے ہمہ گیر اور دوررس ہوں۔ ہندوستان کی کوئی اصلاحی اور اسلامی تحریک ایسی نہیں جو اس تحریک سے متاثر نہ ہو اور ہندوستان میں موجودہ اسلامی زندگی، مذہبی اصلاح، مسلمانوں کی بیداری اور ملک میں مسلمانوں کے وجود کی اہمیت اور ان کا سیاسی وزن بڑی حد تک اس طویل جہاد کارہین منت ہے۔‘‘ (سیرت سید احمد شہید صفحہ ۱۷۔۱۸)

مولانا علی میاں ندوی کے رفیق درس مولانا مسعود عالم ندوی کی حقیقت بیانی دیکھیں۔ ’’آج برصغیر ہند وپاکستان میں ایمان وعمل کی جوبری بھلی متاع پائی جاتی ہے وہ انہی مرد ان حق کا فیض ہے اور انہیں کے آفتاب علم وعمل کا پر تو۔‘‘

مولانا ندوی اپنی وقیع تصنیف ’’ہندوستان کی پہلی اسلامی تحریک‘‘ صفحہ ۱۴۷۔۱۴۸۔ میں دو ٹوک موثر انداز میں تحریک کی کامیابی کابرملا اظہار فرماتے ہیں۔ ’’’کیا شاہ ولی اللہ اور ان سے پہلے اسلامی ہند کی جو دینی حالت تھی اس میں شہیدین اور ان کے اصحاب باصفا کی کوششوں اور فداکاریوں سے کوئی فرق نہیں پیدا ہوا؟ کیا آج بھی بیوہ عورتوں کا نکاح ثانی اسی طرح معیوب ومذموم سمجھا جاتاہے؟ کیا اگر ان سب کا جواب اثبات میں ہے تو ہماری سمجھ میں نہیں آتاکہ ناکامی کسے کہتے ہیں اور اگر اس کا نام ’’ناکامی ‘‘ ہے تو ایسی ناکامی پر ہماری ہزاروں کامیابیاں قربان …۔‘‘

حقیقت یہ ہے کہ مجاہدین فی سبیل اللہ کی کوششیں ناکام نہیں ہوتیں وہ بار آور ہوتی ہیں۔ مجاہد دنیا سے رخصت ہوجاتاہے لیکن وہ اپنی یادیں اور تذکرے چھوڑ جاتاہے۔

وصلی اللہ علی خیر خلقہ محمد وآلہ وصحبہ أجمعین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے