اللہ تعالیٰ نے تمام مخلوق میں سے انسان کو شکل و صورت، عقل و شعور اور دیگر تمام خوبیوں کے اعتبار سے افضل و اعلیٰ پیدا کیا ہے۔ اگر انسان اپنے اخلاق و کردار کی صحیح تعمیر کرے تو کائنات اس کے تابع ہوجاتی ہے، ورنہ یہ کائنات کے تابع ہوجاتا ہے۔

ذیل میں تعمیرِ انسانیت کے چند عناصر ذکر کیے جاتے ہیں جن کے اپنانے سے دنیا و آخرت کی کامیابیاں یقینی ہوجاتی ہیں۔

ٹھوس عقیدہ و نظریہ:

انسان کے کردار کی بنیاد عقیدہ و نظریہ پر استوار ہوتی ہے اس لئے یہ صحیح معلومات اور ٹھوس دلائل پر مشتمل ہونا ضروری ہے۔ فقط ماحول اور عارضی مفادات کی ترجیحات پر نہیں ہونا چاہئے۔

اخلاص نیت و عمل:

کسی بھی کام کے لئے نیت صاف ہو، محنت کا رُخ سیدھا ہو اور وفاداری ہو تو مطلوبہ نتائج ضرور حاصل ہوتے ہیں، اگر جلدی نہیں تو کچھ دیر بعد، اگر دنیا میں نہ سہی آخرت کون سی دور ہے۔اخلاصِ نیت کی وجہ سے کبھی آدمی عمل کرنے والے کے درجہ کو پالیتا ہے اگرچہ عمل کرنے کا اسے موقعہ نہ ملے۔ قوم کا حقیقی مصلح وہ ہوتا ہے جو خاموشی سے لگاتار کام میں مشغول رہتا ہے اگرچہ اس کا نام لینے والا کوئی نہیں ہوتا جیسے بنیاد میں مدفون اینٹوں پر تمام عمارت کا بوجھ ہوتا ہے لیکن ان کی مدح کرنے والا کوئی نہیں ہوتا جبکہ ظاہری اینٹوں اور رنگ و روغن کی مدح سبھی کرتے ہیں۔

ایک چینی کہاوت ہے کہ اگر تمہارا منصوبہ سال بھرکا ہے تو فصل اگاؤ، دس سال کا ہے تو درخت لگاؤ، ہمیشہ کا ہے تو انسان تیار کرو۔ آج ہم نے مٹی، لکڑی، اور لوہے پر محنت کرکے قیمتی بنالیا ہے لیکن انسان پر محنت کرکے اسے قیمتی نہیں بنایا۔

استقامت و باقاعدگی:

استقامت و باقاعدگی کے بغیر کوئی کام بھی نفع بخش نہیں ہوسکتا، اس کے بغیر کوئی ایک معمولی سی دکان نہیں چل سکتی، تو انسان کی تعمیر کیسے ہوسکتی ہے؟ ہر اہم کام کے پیچھےمشکلات کا لشکر ہوتا ہے لیکن مشکلات نادان کو برباد کردیتی ہیں اور عقلمند کے لئے ترقی کا زینہ ہوتی ہیں۔ ستارے ہمیشہ اندھیروں میں چمکتے ہیں اور اندھیری رات کے پیچھے روشن صبح یقینی ہوتی ہے اور گھٹن کے بعد بارش آتی ہے اس لئے مشکلات سے گھبرا کر راستہ بدلنے والے کامیابی کی نوید نہیں سنا کرتے۔ جس پودے کو ہر ہفتے نئی جگہ لگادیا جائے وہ خشک ہوجائے گا یا پھل کا بوجھ اٹھانے کےقابل نہ ہوگا البتہ ایک جگہ جم جانے والا پودا ہی ایک دن تنا ور اور پھلدار ہوا کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بھی یہی اصول بیان کیا ہے۔

فَاِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا اِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا

عربی گرائمرکا اصول ہے کہ معرفہ کے تکرار سے ایک چیز مراد ہوتی ہے جبکہ نکرہ کے تکرار سے دوچیزیں مراد ہوا کرتی ہیں اس کے مطابق قرآنی اصول یہ ہوا کہ ایک تنگی برداشت کروگے تو دو آسانیاںحاصل ہونگی۔

صبر و تحمل:

اس دنیا میں بغیر اختلاف کے زندگی ممکن نہیں لیکن اگر کوئی اختلاف لےکر چلنا شروع کردے تو ترقی کا سفر ناممکن ہوجائے گا۔ اس لئے اختلافی و نزاعی باتوں کو اعراض کی نظر کرتے ہوئے تمام قوت عملی تعمیر میں صرف کرنا ضروری ہے۔ بیک وقت تعمیری اور نزاعی دو محاذوںپر چلنا ممکن نہیں ۔ جس طرح درندوں سے اعراض کرناعقلمندی اور ان سے جدال کرنا حماقت ہوتی ہے، وہ اپنی حماقت کی وجہ سے جدال کریں تو انسان کو اپنی شرافت کی وجہ سے ان سے اعراض کرنا چاہئے۔

جس طرح کانٹے دار درختوں سے کبھی کانٹے ختم نہ ہونگے خواہ کوئی ہمدرد جتنے بھی جتن کرے کانٹوں کے ہوتے ہوئے اپنا دامن کو بچا کر گزرجانا ہی کامیابی و دانائی ہے۔ اسی طرح ہر معاشرہ میںکانٹے دار انسان ضرور ہوتے ہیں جو بلاوجہ ہر موڑ پر الجھاؤ کا سبب بنتے ہیں لیکن ایسے لوگوں سے دامن بچا کر اپنے مقصد کی طرف رواں رہنا کامیابی ہے۔ کسی نے پوچھا : آخر کب تک صبر؟ تو دوسرے نے جواب دیا: نماز جب تک۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے نماز کے لئے فرمایا: فَصَلِّ لِرَبِّکَ، اور صبر کے کئے بھی فرمایا: وَلِرَبِّکَ فَاصْبِرْ

احساسِ ذمہ داری:

تعمیر انسانیت، حقیقت میں تعمیرِ شعور کا دوسرا نام ہے۔ شعور کی تعمیر کے بعد ہر چیز اپنے آپ حاصل ہوجاتی ہے۔ اس کے بغیر کوئی چیز حاصل نہیں ہوتی۔ احساسِ ذمہ داری سے مراد یہ ہوتا ہے کہ جو کام ذمہ ہو، اسے کما حقہ ادا کرنا۔ جس معاشرہ کے امیر و غریب اور حاکم و محکوم اپنے حقوق و فرائض صحیح ادا کرنے والے ہوں تو وہاں ترقی کی طنابیں جوزاء کے شانوں پر تن جاتی ہیں ۔

لیکن آج ہم حقوق وصول کرنے والے ہیں، ادا کرنے والے نہیں، ہر ایک نےچند ایسے جملے یاد کرلیے ہیں جن کے ساتھ اپنے آپ کو مظلوم اور دوسروں کو ظالم ثابت کرتا ہے اور ظلم کو حق اور جرم کو استحقاق کا نام دیتاہے۔

آہ ! تم غلطی پر ہو، کہنا کتنا آسان ہے اور میں غلطی پر ہوں یہ کہنا کتنا مشکل ہے۔؟

مثبت اندازِ فکر:

ترقی و کامیابی کے لئے مثبت اندازِ فکر ضروری ہے۔ مثبت اندازِ فکر مایوسی سے بچاتا ہے اور انسان کو قوت و ہمت عطا کرتا ہے۔ مثلا ایک آواز آئی، مثبت اندازِ فکر والا سمجھتا ہے کہ دروازہ کھل گیا اور منفی فکر والا سمجھتا ہے کہ دروازہ بند ہوگیا۔ آدھا گلاس پانی مثبت فکر والے کے نزدیک بھرا ہوا ہے جبکہ منفی فکر والے کے لئے خالی ہے۔

فریڈرک لینگ برج(Frederick Langbridge) نے کہا:

Two men look out through the same bars: One sees the mud and one the stars.

دو آدمی بنگلہ کے باہر دیکھتے ہیں ایک کی نظر کیچڑ پر پڑتی ہے اور دوسرے کی ستارے پر۔

انسان کی زندگی بہت سے مواقع سے بھری ہوتی ہے۔ اگر ایک موقع ضائع ہوجائے تو بہت سے مواقع ابھی باقی ہوتے ہیں۔ محنت و استقامت سے باقی مواقع کو مفید بنانے کی کوشش کرنا کامیابی ہے اور گزرے ہوئے مواقع پر افسوس کرتے رہنا ناکامی ہے۔ عربی کا مقولہ ہے: من قرع الباب الجّ ولجّ یعنی جو شخص دروازہ کھٹکھٹاتا ہے اور کوشش کرتا ہے وہ آخر کار داخل ہو ہی جاتا ہے۔

مفاہمت پیدا کرنا:

ایک جگہ رہتے ہوئے اختلافات کا ہوجانا بعید نہیں، البتہ مخالف افراد سے الجھ کر زندگی گزارنا کامیابی نہیں ہوتی ہر مسئلے میںمحبت و دلیل پیش کرکے اپنے اَنا کا مسئلہ بنالینا درست نہیںہوتا بلکہ جہاں جھکنا پڑے وہاں جھک جانے میں کامیابی ہوتی ہے، طوفان و آندھی کے وقت جھنڈا نیچے کرلینا شکست کی علامت نہیں ہوتی، بلکہ دانائی کی علامت ہوتی ہے ۔ آندھی اور دھماکے کے وقت زمین پر لیٹ جانے والے محفوظ رہتے ہیں اور گردن اکڑاکر چلنے والے تباہ ہوجاتے ہیں۔ کرکٹ کے میدان میں چھکا اچھل کر نہیں بلکہ جھک کر لگتا ہے۔

ہم ہر کام میں دوسروں سے مخالفت والا رویّہ اختیار کرکے ناپسندیدہ افراد میں شامل ہوجاتے ہیں۔ گلاب کا پھول ہر جگہ اور ہر ایک کے لئے محبوب ہے اور سورج و چاند ہر جگہ ہر ایک کے لئے محبوب ہیں کیونکہ ہر ایک کے لئے یکساں رویہ رکھتے ہیں۔ اگر یہ ہر جگہ مفید نہ ہوتے تو ان سے حسد و عداوت رکھنے والے افراد ضرور ہوتے۔ جو فرد اپنے ادارے، محلے والوں اور رشتہ داروں تمام سے خیر خواہی کرتا ہے وہ یقینا تمام کے ہاں پسندیدہ ہوتا ہے اور اس کی خوشی و غمی میں اپنے، پرائے تمام شریک ہوتے ہیں۔تمام ستارے و سیارے اپنے مدار میں گردش کرتے ہیں تو نظام میں امن ہے۔ گاڑیاں اپنی لائن میں چلتی ہیں تو امن ہے اگر دوسرے کے راستے پر دخل اندازی کریں تو فساد و بگاڑ ہے۔ اسی طرح انسان اپنے حقوق و فرائض کے دائرے میں رہیں تو امن ہے ورنہ فساد۔

مقصد متعین کرنا:

با مقصد آدمی کبھی محروم نہیں رہتا، محروم وہ ہوتا ہے جو مقصد سے محروم ہو، جب انسان مقصد متعین کرلیتا ہے تو اس کا حصول آسان ہوجاتا ہے ، جیسے امتحانی کمرہ میں تین گھنٹوں میں طالب علم اتنا لکھ دیتا ہے کہ شاید وہ اتنا تین دنوں میں بھی نہ لکھ سکے کیونکہ کمرۂ امتحان میں مقصد اور وقت دونوں متعین ہوتے ہیں۔

مقصد متعین کرکے صحیح اسباب اختیار کرکے محنت کی جائے تو صلاحیت ضرورپیدا ہوجاتی ہے جس کے نتیجے میں وہ معاشرہ کا بہترین فرد بنتا ہے۔ جس طرح بیج کو مناسب جگہ و ماحول میں بویا جائے تو اس کے اندر پوشیدہ صلاحیتیں ظاہر ہوتی ہیں اور وہ ہردلعزیز پودا بھی بنتا ہے اور پھل بھی دیتا ہے۔

صحیح معلومات حاصل کرنا:

صحیح معلومات حاصل کرنے کے لئے علم کی ضرورت ہے۔ جہالت اندھیرا ہے اور علم روشنی ۔ جس طرح اندھیرے میں پاس پڑی ہوئی چیز کا علم بھی نہیں ہوتا اور اندھیرے میں مفید و غیر مفید چیز کی تمیز بھی نہیں ہوسکتی بلکہ انسان سانپ کو رسی سمجھ سکتا ہے اسی طرح علم کے بغیر مفید اور غیر مفید کا کوئی علم نہیں ہوسکتا۔ حتیٰ کہ علم کے بغیر قرآن جیسی عظیم کتاب سے فائدہ حاصل نہیں ہوسکتا۔ ایک وقت تھا کہ سعودی عرب تیل کے ذخیروں کے اوپر بیٹھے ہیں لیکن تیل دوسروں سے مانگ رہے ہیں لیکن جب علم ہوا تو پوری دنیا کو تقسیم کر رہے ہیں۔

علم کی اہمیت کا اندازہ کیجئے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم پر وحی کا آغاز ہی ’’اقرأ‘‘ سے ہوا اور آپ کو تعلیم دی گئی ہے ہمیشہ’’ربِّ زدنی علماً‘‘ کا وظیفہ کرتے رہیں۔ علم کیو جہ سے سکھلائے ہوئے کتے کا شکار حلال ہوتا ہے۔ جبکہ غیر سکھلائے ہوئے کا حرام، علم صرف کتابیں پڑھنے کا نام نہیں بلکہ کائنات کی ہر چیز کی حقیقت کو جاننا بھی علم ہے۔ حالات و واقعات کا تجزیہ کرنا، ان کے اسباب و نتائج پر نظر رکھنا اور اس کے مطابق لائحہ عمل تیار کرنا بھی علم ہے۔

خوفِ الٰہی:

برے اعمال، حقوق و فرائض کی کمی، بیشی اور وقت کے ضیاع سے محفوظ رکھنے والی سب سے اہم چیز خوفِ الٰہی ہے۔ جب انسان بہت سی گلیوں کے جنجال سے نکل کر صرف ایک سیدھا راستہ اختیار کرلیتا ہے۔ اور صرف ایک ذات کی صحبت حاصل کرنے کا متمنی ہوتا ہے۔ تو منزل مقصول انتہائی آسان ہوجاتی ہے اور اس راستہ کو عبور کرتے ہوئے آنے والی مشکلات کو بھی خندہ پیشانی سے قبول کرتا ہے۔ کیونکہ کامیابی یقینی ہوتی ہے۔

دعا:

مومن کا سب سے اہم ذریعہ اصلاح دعا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی توفیق اور نصرت کے بغیر کسی کی اصلاح ممکن نہیں۔ انبیائے کرام، صحابہ کرام، اور دیگر اسلاف کی دعوت و اصلاح میں مرکزی چیز دعا ہوا کرتی تھی۔ دعا انتہائی عزم و جزم کے ساتھ، بے لوث اور وسعت کے ساتھ ہونی چاہئے،سیدنا سعید بن مسیب رحمہ اللہ کی شہد کی دکان پر ایک بڑھیا پیالی لے کر آئی اور عرض کیا کہ میرا بیٹا بیمار ہے، برائے مہربانی تھوڑا سا شہد دیجئے،انہوں نے غلام کو کہا کہ ایک مٹکا شہد کا بوڑھی اماں کو دے دو۔ غلام نے خیر خواہانہ انداز میں عرض کیا کہ حضرت وہ پیالی میں تھوڑا سا شہد مانگ رہی ہے۔ سیدنا سعید رحمہ اللہ نے فرمایا: وہ اپنے ظرف کے مطابق مانگ رہی ہے اور ہم اپنے ظرف کے مطابق دیں گے۔

تو جب اللہ تعالیٰ سے دعا كریں تو وسعتِ ظرف كے ساتھ تمام انسانیت كیلئے كرنی چاهیے ۔

ایک اعرابی نے دعا میں یہ الفاظ کہے:

اللہم ارحمنی ومحمداً ولا ترحم معنا احداً

اے اللہ! مجھ پر اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم پر رحم فرما، اور ہمارے ساتھ کسی اور کو شریک نہ کرنا۔

تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا

لقد حجرت واسعا

تو نے وسیع چیز کو محدود کردیا ہے۔(بخاری6010)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے