بسم اﷲ الرحمٰن الرحیم

الحمد ﷲ والصلاۃ والسلام علیٰ نبینا محمد وعلیٰ آلہ وصحبہ أجمعین ، وبعد :

تمہید

    جادو اور اس کے بارے میں بات کرنا ایک انتہائی اہم معاملہ ہے ، کیونکہ اس کی انتہائی خطرناکی کے باوجود بہت سے لوگ اس کے خطرے سے ناواقف ہیں۔ اس کے بہت زیادہ پھیلنے کی وجوہات میں سے کچھ یہ ہیں کہ لوگوں کو اس میں بڑے فوائد نظر آرہے ہیں اور شیاطین الانس والجن اس کو پھیلانے میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں، اسی طرح سےایک سبب یہ بھی ہے کہ بعض اوقات لوگ اسے ایسے مختلف (خوشنما) ناموں سے پیش کرتے ہیں جو اس کی اصل حقیقت کے منافی ہیں ۔ پس انہی وجوہات کی بنا پر اس معاملے کی حقیقت بیان کرنے کا خاص اہتمام ہونا چاہیے تاکہ اس خطرناک اور مہلک بیماری کی معرفت حاصل ہوسکے ۔

    جس طرح لوگ جسمانی بیماریوں کے بارے میں آگاہی حاصل کرنے کا اہتمام کرتے ہیں ، اور اس کی تشخیص اور علاج کے لیے دوائیں اور احتیاطی تدابیر اختیار کرتے ہیں ، اسی طرح ان بیماریوں کی تشخیص اور ان کے علاج کا بھی اہتمام سب سے پہلے ہونا چاہیے جن کا تعلق عقیدہ سے ہے اور وہ دلوں کو بیمار کرتی ہیں ، دین میں فساد پیدا کرتی ہیں ، جن بیماریوں کا تعلق دل سے اور عقیدہ سے ہے ان کا خطرہ جسمانی بیماریوں سے بہت زیادہ ہے ، اس لیے کہ جسمانی بیماریوں کا تعلق اس دنیاوی زندگی تک محدود ہے ، جبکہ دل اور عقیدہ کی بیماریوں کا خطرہ محض اس دنیاوی زندگی تک محدود نہیں بلکہ آخرت کی زندگی پر بھی اس کے برے نتائج اثر انداز ہوتے ہیں ۔

جادو کی تعریف

    لغت میں جادو : اس چیز کو کہا جاتا ہے جو پوشیدہ ہو اور اس کے لطیف اثرات ہوں ۔

    جادو اسی لیے کہلایا کہ وہ پوشیدہ ہوتا ہے اور بہت سے لوگ نہ اسے جانتے ہیں اور نہ ہی اسے دیکھ سکتے ہیں ، البتہ وہ کچھ پوشیدہ شیطانی اعمال ہوتے ہیں جسے یہ اعمال کرنے والے ہی جانتے ہیں ، لہٰذا لغت میں جادو اس چیز کو کہا جاتا ہے جو پوشیدہ ہو اور اس کے لطیف اثرات ہوں ۔

    جادو فقہاء اور علماء شریعت کی اصطلاح میں ، شرکیہ دم جھاڑ ، گنڈے ، دوائیں اور دھویں والی چیزوں کو کہا جاتا ہے جن کا استعمال جادو گر اور دھوکہ باز لوگ شیاطین کی مدد سے کیا کرتے ہیں ، اور کسی جادوگر کے لیے یہ ممکن نہیں کہ وہ جادو کرے اور اس جادو کا کوئی اثر ہو مگر شیاطین کے تعاون سے اور اﷲ سبحانہ وتعالیٰ کے ساتھ شرک کرکے ، جب وہ اﷲ تعالیٰ کے ساتھ شرک اور کفر کرتا ہے تو پھر شیاطین انسانوں کو بہکانے پراس کے ساتھ تعاون کرتے ہیں، لیکن اگر وہ اﷲ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراتا ہو اور کفر بھی نہ کرتا ہو تو پھر شیاطین اس کے ساتھ تعاون نہیں کرتے ، لہٰذا ہر جادوگر کافر اور مشرک ہی ہوگا ۔

    چناچہ جادو ، کفر اور شرک آپس میں جڑے ہوئے اور قریبی معاملات ہیں جو ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوسکتے ، کوئی جادوگر ایسا نہیں جو اﷲسبحانہ وتعالیٰ کے ساتھ کفر اور شرک نہ کرتا ہو ، کوئی جادوگر ایسا نہیں جو شیاطین کے ساتھ تعامل نہ کرتا ہو ، اور شیاطین انسانوں کو نقصان پہنچانے کیے لیے اس کی خدمت کرتے ہیں اور اس کے ساتھ تعاون کرتے ہیں اس بات کے بدلے میں کہ وہ اﷲ سبحانہ وتعالیٰ کے ساتھ کفر کرے ، لوگوں کو گمراہ کرے اور نقصان پہنچائے ۔

جادو کی تاریخ

جادو قدیم زمانے سے مختلف امتوں میں رہا ہے ، اﷲ تعالیٰ نے اس کا ذکر فرعون کی قوم کا واقعہ بیان کرتے ہوئے کیا ہے ، کہ اس وقت اس قوم میں جادو کا رواج تھا اور وہ لوگ اس سے بخوبی واقف تھے ، لہٰذا جب موسیٰ .علیہ السلام . اﷲ تعالیٰ کا پیغام لیکر آئے تو ان لوگوں نے انہیں جادوگر کہا ، تاکہ لوگوں کو گمراہ کر سکیں یا پھر ان لوگوں کا عقیدہ ہی یہی تھا کہ وہ جادوگر ہیں ،کیونکہ  ان لوگوں کا گمان تھا کہ اگر کوئی ایسا کام کرے جسے وہ نہیں جانتے ، تو وہ اسے جادوگر سمجھتے تھے ، اسی لیے فرعون اور اس کے حواریوں کا دعویٰ یہ تھا کہ جو کچھ موسیٰ . علیہ السلام. لیکر آئے ہیں وہ جادو ہے ، اور اس نے موسیٰ . علیہ السلام . کا مقابلہ جادو کے ذریعہ کرنا چاہا اور جادوگروں کو جمع کیا :

﴿ قَالَ الْمَلَاُ مِنْ قَوْمِ فِرْعَوْنَ اِنَّ هٰذَا لَسٰحِرٌ عَلِيْمٌ، يُّرِيْدُ اَنْ يُّخْرِجَكُمْ مِّنْ اَرْضِكُمْ ۚ فَمَاذَا تَاْمُرُوْنَ﴾ [الأعراف : 109110]

(قوم فرعون میں جو سردار لوگ تھے انہوں نے کہا کہ واقعی یہ شخص بڑا ماہر جادوگر ہے، یعنی موسیٰ علیہ السلام ، یہ چاہتا ہے کہ تم کو تمہاری سرزمین سے باہر کردے سو تم لوگ کیا مشورہ دیتے ہو )

یعنی فرعون نے ان لوگوں سے مشورہ لیا:

﴿قَالُوْٓا اَرْجِهْ﴾

(انہوں نے کہا کہ آپ ان کو مہلت دیجئے ) اور جلد بازی نہ کریں ،

 ﴿ قَالُوْٓا ٌاَرْجِهْ وَاَخَاهُ﴾

(انہوں نے کہا کہ آپ ان کو اور ان کے بھائی یعنی ہارون علیہ السلام ۔کو مہلت دیجئے )

﴿……… وَاَرْسِلْ فِي الْمَدَاۗىِٕنِ حٰشِرِيْنَ،يَاْتُوْكَ بِكُلِّ سٰحِرٍ عَلِيْمٍ﴾ [الأعراف : 111112]

(اور شہروں میں ہرکاروں کو بھیج دیجئے کہ وہ سب ماہر جادو گروں کو آپ کے پاس لاکر حاضر کر دیں )

     فرعون نے ان کے مشورہ پر عمل کیااور جادوگروں کو ایک جگہ جمع کیا اور موسیٰ علیہ السلام سے پوچھا کہ پہلے وہ جو ان کے پاس ہے پیش کریں گے یا جادوگر پہلے اپنا جادو دکھلائیں ، موسیٰ علیہ السلام نے جواب دیا کہ پہلے تم لوگ پیش کرو جو کچھ تمہارے پاس ہے ، تو جادوگروں نے اپنا جادو پیش کیا جسے دیکھ کر لوگوں کے دلوں میں خوف طاری ہوا ، یہاں اﷲ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کو حکم دیا کہ آپ اپنا عصا (لاٹھی) ڈال دیجئے جو آپ کے ہاتھ میں ہے ، سو عصا کا ڈالنا تھا کہ اس نے ان کے سارے بنے بنائے کھیل کو نگلنا شروع کردیا اور دیکھتے ہی دیکھتے ان کی تمام چیزوں کو نگل لیا اور وہ تمام چیزیں روپوش ہوگئیں ، یہاں جادوگر جان گئے کہ یہ کوئی جادو نہیں ، اس لیے کہ جادو ان کا پیشہ ہے اور وہ اس کی حقیقت سے بخوبی واقف ہیں ، لہٰذا جادوگر اچھی طرح سے جان گئے کہ موسیٰ علیہ السلام جو کچھ لیکر آئے ہیں جادو نہیں ، اور تمام جادوگروں نے اس بات کا اقرار کر لیا ، اور جادوگروں کا اقرار کرنا موسیٰ علیہ السلام کے لیے گواہی تھی کہ جو کچھ وہ لیکر آئے ہیں جادو نہیں بلکہ اﷲ سبحانہ وتعالیٰ کا عطا کردہ معجزہ ہے ، لہٰذا تمام جادوگر ایمان لے آئے اور اﷲسبحانہ وتعالیٰ کے حضور سجدہ ریز ہوگئے ، اپنے گناہوں سے توبہ کی اور اﷲ تعالیٰ سے مغفرت طلب کی ، یہاں فرعون انتہائی غصہ میں آگیا اور غضب ناک ہوگیا اور دھمکی اور طاقت کے استعمال پر اتر آیا ، اس لیے کہ اسے شکست ہوگئی اور اس کی حجت اور دلیل ناکارہ ہوگئی ، اور بالآخر جیسا کہ اﷲ تعالیٰ نے بیان فرمایا ہے کہ فرعون کا انجام شکست اور بربادی پر اختتام ہوا ، اور اﷲ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کو اور ان کے بھائی ہارون علیہ السلام اور ان دونوں کے ساتھ جو لوگ ایمان لائے تھے ان سب کو نصرت اور کامیابی سے ہمکنار کیا ۔

﴿.فَلَمَّآ اَلْقَوْا قَالَ مُوْسٰى مَا جِئْتُمْ بِهِ  ۙ السِّحْرُ   ۭ اِنَّ اللّٰهَ سَيُبْطِلُهٗ  ۭ اِنَّ اللّٰهَ لَا يُصْلِحُ عَمَلَ الْمُفْسِدِيْنَ، وَيُحِقُّ اللّٰهُ الْحَقَّ بِكَلِمٰتِهٖ وَلَوْ كَرِهَ الْمُجْرِمُوْنَ﴾ [ یونس : ٨١ ـ ٨٢ ]

(سو جب انہوں نے ڈالا تو موسیٰ (علیہ السلام ) نے ان سے فرمایا کہ یہ جو کچھ تم لائے ہو جادو ہے ، یقینی بات ہے کہ اﷲ اس کو ابھی درہم برہم کیے دیتا ہے،  اﷲ ایسے فسادیوں کا کام بننے نہیں دیتا ،  اور اﷲ تعالیٰ حق کواپنے فرمان سے ثابت کردیتا ہے گو مجرم کتنا ہی ناگوار سمجھیں)۔

    جب بھی حق اور باطل کا مقابلہ ہوا ہے تو باطل کو ہر زمانے میں اور ہر جگہ شکست ہی ہوئی ہے ، جادو اور موسیٰ علیہ السلام کے معجزہ کا تو کوئی مقابلہ ہی نہیں ، اس لیے کہ أنبیاء کرام کے معجزات تو اﷲ سبحانہ وتعالیٰ کے عطا کردہ ہوتے ہیں اور وہ حق ہوتے ہیں ، اور جو جادوگر لیکر آتے ہیں وہ باطل ہوتا ہے ، اور باطل حق کے سامنے کبھی نہیں ٹھہرسکتا ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :

﴿……اِنَّمَا صَنَعُوْا كَيْدُ سٰحِرٍ  ۭ وَلَا يُفْلِحُ السَّاحِرُ حَيْثُ اَتٰى﴾ [طٰہ : ٦٩]

(…….انہوں نے جو کچھ بنایا ہے یہ صرف جادو گروں کے کرتب ہیں اور جادو گر کہیں سے بھی آئے کامیاب نہیں ہوتا )۔

﴿………اَتَقُوْلُوْنَ لِلْحَقِّ لَمَّا جَاۗءَكُمْ ۭ اَسِحْرٌ هٰذَا  ۭ وَلَا يُفْلِحُ السّٰحِرُوْن﴾ [یونس : ٧٧]

(………کیا تم اس صحیح دلیل کی نسبت جب کہ وہ تمہارے پاس پہنچی ایسی بات کہتے ہو کہ یہ جادو ہے ، حالانکہ جادوگر کامیاب نہیں ہوا کرتے )۔

جادوگر کو ہمیشہ شکست ہوتی ہے ، اور جادو باطل ہے ، لیکن جس کے پاس حق ہو اور اپنے رب کی طرف سے واضح دلائل اور نشانیاں ہوں تو اسے اﷲتعالیٰ کی تائید اور نصرت حاصل ہوتی ہے ، اسی لیے جب جادوگروں کا مقابلہ اہل علم اور اہل ایمان کے ساتھ ہوتا ہے تو شکست ہمیشہ جادوگروں کا مقدر ہوتی ہے،  جادوگروں میں یہ طاقت ہی نہیں کہ وہ اہل حق کے سامنے کھڑے رہ سکیں ، لہٰذا تبلیغ ودعوت دینے والوں پر اور اہل ایمان اور اہل علم پر لازم ہے کہ جادوگروں کا مقابلہ کریں اور ان کے باطل کا پردہ فاش کریں اور ان پر اﷲ تعالیٰ کی حد قائم کریں تاکہ مسلمان ان کے شر سے محفوظ رہ سکیں ، یہ مسلمانوں پر ہر زمانے میں واجب ہے اور ان جادوگروں کے بارے میں خاموشی اختیار کرنا کسی طور سے جائز نہیں ، ان کے معاملہ میں نرمی سے کام لینا بھی جائز نہیں۔

جادوکی حقیقت:

  لہٰذا جادو کی تعریف امام موفق ابن قدامہ “نے اپنی کتاب ’’الکافی ‘‘ میں یہ بیان فرمائی ہے کہ : (جادو کچھ تعویذات اور گنڈوں کا نام ہے ، یعنی شیطانی تعویذات پڑھے جاتے ہیں جوکہ قرآنی آیات نہیں ہوتی بلکہ شیطانی تعویذات ہوتے ہیں ، عجیب اور غریب کلمات ہوتے ہیں ، غیر معروف الفاظ ہوتے ہیں ، اشارے اور رموز انکے اور شیاطین کے درمیان ہوتے ہیں ، جنہیں پڑھا جاتا ہے پھر پھونکا جاتا ہے ، اسکے بعد شیاطین ان کے ساتھ تعاون کرتے ہیں ، اور وہ کمزور ایمان والوں سے یا بیوقوفوں اور ناواقفوں سے اپنے مقاصد حاصل کرلیتے ہیں ، ان تعویذات ، گنڈے ،دھواں ، دوائیں اور حروف مقطعات کا بذات خود کوئی اثر نہیں ہوتا ، بلکہ اسکا جو اثر ظاہر ہوتا ہے وہ شیاطین کے تعاون اور اﷲ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرنے کی وجہ سے ہوتا ہے ، یہ اﷲ تعالیٰ کی طرف سے سزا ہوتی ہے کہ جس کسی نے بھی اس قسم کا کوئی عمل کیا ہو تو اﷲتعالیٰ بطور ابتلاء اور امتحان اس کے ہاتھوں کسی کو نقصان پہنچتا ہے ، جیسا کہ اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے :

﴿وَمَا ھُمْ بِضَاۗرِّيْنَ بِهٖ مِنْ اَحَدٍ اِلَّا بِاِذْنِ اللّٰهِ﴾ [ البقرۃ : ١٠٢ ]

(دراصل وہ بغیر اﷲ تعالیٰ کی مشیئت کے کسی کو کوئی نقصان نہیں پہنچاسکتے )

یہاں اﷲ کی مشیئت سے مراد : کونی مشیئت ہے ، یعنی قضاء اور قدر ، یہاں شرعی اذن (اجازت ) مراد نہیں ، اس لیے کہ اﷲ سبحانہ وتعالیٰ نے جادو کو جائز قرار ہی نہیں دیا اور نہ ہی اس کا حکم دیا ہے ، لہذا مراد کونی مشیئت اور قضاء و قدر ہی ہے ، جوکہ اﷲ تعالیٰ نے اپنی حکمت کے تحت اپنے بندوں کی آزمائش اور امتحان کے لیے ایک طریقہ جاری فرمایا ہے تاکہ بطور سزا بعض کو بعض پر مسلط کردے ۔

جادوکی اقسام:

اور جادو جیسا کہ اہل علم نے بیان کیا ہے : دو قسم کا ہوتا ہے۔

پہلی قسم : حقیقی جادو ، یہ جسم پر بیماری کی شکل میں اثر کرتا ہے ، اس سے موت بھی واقع ہوسکتی ہے ، اور دو محبت کرنے والو ں کو جدا بھی کرسکتا ہے ، اور دو بغض اور عداوت رکھنے والوں میں محبت بھی ڈال سکتا ہے ، یہ ایک ایسی قسم ہے جسے “صرف ” اور “عطف “سے تعبیر کیا جاتا ہے ، یہ حقیقی ہوتا ہے،  اور اسکی دلیل یہ ہے کہ اس جادو کے نتیجہ میں بیماری واقع ہوجاتی ہے ، اور اﷲ کے اذن سے قتل بھی ہوسکتا ہے ، اور دلوں میں جو الفت اور محبت ہوتی ہے اس میں خلل بھی واقع ہوتا ہے ، کسی شخص اور اسکی بیوی کے درمیان علیحدگی بھی ہوجاتی ہے ، یہ حقیقی جادو ہوتا ہے ، اس لیے کہ یہ تمام چیزیں ، قتل ، بیماری ، بغض اور محبت ، سب جادوگروں کے اعمال کے نتائج ہیں ۔

   دوسری قسم :

 خیالی جادو ، اور یہ آج کے دور میں لوگوں کے نزدیک قمرۃ” کے نام سے جانا جاتا ہے ، اور یہ دھوکہ بازی کا نتیجہ ہوتا ہے ، جادو گر کچھ ایسی چیزیں اور اشارے استعمال کرتا ہے کہ لوگوں کو یہ گمان ہوتا ہے کہ فلاں چیز حقیقت ہے جبکہ وہ حقیقت نہیں ہوتی ، بلکہ وہ محض کوئی خیالی چیز ہوتی ہے جو شیاطین کے تعاون کی وجہ سے آنکھوں کے سامنے نظر آتی ہے ، مثال کے طور وہ عجیب و غریب اعمال جو جادوگر کیا کرتے ہیں جیسا کہ اپنے آپ کو چھرا مارنا اور اسکا اس پر کوئی اثر نہ ہونا ، اسی طرح آگ کے شعلوں کو نگلنا اور اسکا اس پر کوئی اثر نہ ہونا ،آگ پر چلنا اور اسے آگ کی گرمی کا محسوس نہ ہونا ، کیونکہ در حقیقت وہ آگ پر چلا ہی نہیں اور نہ ہی اس نے اپنے آپ کو چھرا مارا اور نہ ہی اس نے آگ کے شعلوں کو نگلا ، یہ تمام اعمال صرف ظاہری تخیلات کا نتیجہ ہیں ، باطن میں ایسا کوئی عمل سرزد نہیں ہوا ، در حقیقت اس نے جھوٹ باندھا اور لوگوں کی نظروں کے آگے ایک خیالی عمل پیش کیا ، جیسا کہ اﷲ سبحانہ وتعالیٰ نے ارشاد فرمایا :

﴿ سَحَرُوْٓا اَعْيُنَ النَّاسِ وَاسْتَرْهَبُوْهُمْ وَجَاۗءُوْ بِسِحْرٍ عَظِيْمٍ﴾ [ الأعراف : ١١٦]

(انہوں نے لوگوں کی نظر بندی کردی اور ان پر ہیبت غالب کردی اور ایک طرح کا بڑا جادو دکھلایا)

لہٰذا اس بات سے ثابت ہوگیا کہ فرعون کے جادوگروں نے بھی اس قسم کے جادو کا استعمال کیا تھا جوکہ خیال پر قائم ہوتا ہے ، لوگوں کو یہ تصور پیش کیا جاتا ہے کہ یہ حقیقت ہے جبکہ وہ حقیقت نہیں بلکہ جھوٹ ہوتا ہے ، وہ کچھ لاٹھیاں (اور رسیاں) لیکر آئے تھے جس سے موسیٰ علیہ السلام کو یہ گمان ہوا اور یہ تصور ان کی نظروں کے سامنے آیا کہ یہ ڈنڈیاں (اور رسیاں)حرکت کر رہی ہیں جبکہ وہ حرکت نہیں کر رہی تھیں ، عام سی ڈنڈیاں تھیں اور اس میں انہوں نے یا تو کچھ خفیہ مواد رکھ دیا تھا جو اسے حرکت دیتا تھا ، یا پھر اس پر خیالی جادو کیا گیا تھا ۔

جادوگر آپ کو ایک عام کاغذدیتا ہے اور آپ کی آنکھوں کے سامنے یہ تصور آتا ہے جس سے آپ کو یہ گمان ہوتا ہے کہ یہ عام کاغذ پانچ یا دس ریال کا نوٹ (کرنسی ) ہے ، یا آپ کو لوہے کا ٹکڑا دیتا ہے اور آپ کی آنکھوں کے سامنے یہ تصور آتا ہے جس سے آپ کو یہ گمان ہوتا ہے کہ یہ پاؤنڈ (کرنسی ) ہے اور وہ سونے کا ہے ، اور جب یہ خیال اور تصور آپ سے دور ہوتا ہے تو آپ پر حقیقت منکشف ہوجاتی ہے اور آپ اس چیز کو اپنی اصل حالت میں دیکھ لیتے ہیں ، کبھی یہ جادوگر کچھ کیڑے مکوڑے ، بھنورے اور كھنکھجورے وغیرہ لیتے ہیں اور آپ کی آنکھوں کے سامنے یہ تصور آتا ہے جس سے آپ کو یہ گمان ہوتا ہے کہ یہ بھیڑ بکریاں ہیں جو چل رہی ہیں اور جب یہ خیال اور تصور آپ سے دور ہوتا ہے تو آپ پر حقیقت منکشف ہوجاتی ہے اور آپ اس چیز کو اپنی اصل حالت میں دیکھ لیتے ہیں ۔  اسکی وجہ جادوگر کی موجودگی ہے ، اس لیے کہ وہ ایسے اعمال کر رہا ہے جس کے نتیجہ میں آپ کی آنکھوں کے سامنے یہ تصور پیدا ہورہا ہے ، اور جب یہ تصور (خیالی جادو ) دور ہوتا ہے تو آپ پر حقیقت منکشف ہوجاتی ہے ۔

اور آپ اس چیز کو اپنی اصل حالت میں دیکھ لیتے ہیں ، اگر آپ ان کاغذات کی طرف دیکھیں گے کہ یہ تو عام سے کاغذات ہیں ، اور بھیڑ بکریوں کو دیکھیں گے کہ وہ کیڑے مکوڑے بن گئے ، یعنی اپنی اصل حالت میں آگئے ، اس لیے کہ وہ تصور اور خیال آپ سے دور ہوگیا جو آپ کی آنکھوں کے سامنے کیا گیا تھا، اور یہ خیالی جادو کہلاتا ہے جس کی کوئی حقیقت نہیں ہوتی ، وہ محض نظربندی اور دھوکہ ہوتا ہے ، اسی طرح سرکس وغیرہ میں جو کمالات دکھائے جاتے ہیں ، یہ دھوکہ باز جادوگر آنکھوں کا جادو پیش کرتے ہیں ، آپ کو ایسا نظر آتا ہے جیسے کہ وہ رسی پر چل رہا ہے ، یا پھر چھرے کی دھار پر چل رہا ہے ، یا گاڑی کے نیچے لیٹ جاتا ہے اور گاڑی اس کے اوپر سے چلتی ہے اور اسے کچھ نہیں ہوتا ، یا ہتھوڑے سے اس مارا جاتا ہے ، یہ سب جھوٹ ہوتا ہے جس کی کوئی حقیقت نہیں ، نہ کسی ہتوڑے سے اسے مارا گیا ، نہ کسی چھرے سے ، نہ کوئی گاڑی اس پر چلی ، بلکہ یہ سب آپ کی نظروں کے سامنے جادو کے ذریعہ ایک خیال اور تصور پیش کیا گیا ، جو کہ جھوٹ ہے جس کی کوئی حقیقت نہیں ۔ یہ سب خیالی باطل جادو ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے