اجمالی مفہوم :

گذشتہ آیات میں اللہ تعالیٰ نے اپنے نور کو بیان کیا اور اس کی مثال بھی بیان فرمائی اب اس کے بعد مساجد کا ذکر فرمایا ہے کہ اللہ کے نور کی ہدایت سے فیض یاب ہونے والے لوگ ان گھروں میں پائے جاتے ہیں ۔ ان مساجد کو بلند کرنے اور ان میں ذکر الٰہی کرنے کا حکم دیا گیا۔ وہ لوگ جن کے دل اللہ کے نور سے منور ہیں وہ ان مساجد میں صبح وشام اس کی تسبیح پڑھتے ہیں اس کی پاکی بیان کرتے ہیں اور اس کا نام کثرت سے لیتے ہیں۔

بیوت سے یہاں مراد مسجد ہے یعنی سجدہ گاہ اور پورے قرآن مجید میں سجدہ کا لفظ اپنے معنوی اعتبار سے اطاعت اور فرمانبرداری کے معنوں میں استعمال ہوا ہے اور عملی مفہوم کے اعتبار سے ایک خاص کیفیت کا نام ہے۔ اور اس سجدہ گاہ کے لیے قرآن مجید نے ’’ مسجد‘‘ کی بلیغ اصطلاح استعمال کی ہے جو کہ اللہ کے لیے خاص ہے اور مسجد کے حوالے سے ایک خاص جواب جو عرف عام میں غلط فہمی کو دور کرنے کے لیے ہے کہ اسلام میں مسجد کی عمارت صرف نماز پڑھنے کے کام کے لئے مخصوص نہیں اس میں اسلامی مملکت کے مختلف امور سرانجام دیئے جاسکتے ہیں اور مسجد پر اعتبار سے اسلامی حکومت کا مرکز متصور ہوتی ہے لیکن افسوس آج کے حکمران جن کا مسجد سے تعلق صرف برائے دکھلاوہ رہ گیا ہے۔

اسلام میں مسجد کا تصور عیسائیت یا صوفیاء میں رہبانیت کے تصور کی بھی نفی کرتاہے کیونکہ رہبانیت کا نام ترکِ دنیا، ترکِ لذت وترکِ زیبائش وآرائش اسلام نے مسجد کے ذریعہ اس غلط تصور کی بیخ کنی کی اور واضح لفظوں میں بتایا کہ مسجد اجتماعیت کی علامت ہے آپس میں مل بیٹھنے کا نام ہے بلکہ اطاعت وفرمانبرداری کا اجتماعی محسوس مظہر ہے۔ اور اس طرح ان تمام چیزوں کا غلط مفہوم ختم کیاگیا۔ دنیا کے مسخر شدہ وسائل اور انعامات سے مستفید نہ ہونا اللہ کے فضل وکرم کی توہین ہے اور ان کا چھوڑنا گناہ اور بدعت ہے؟

مساجد میں ایک بات خاص طور پر مدنظر رکھی جائے کہ اس کو نقش ونگار سے سنوارنا اور مختلف زیب وآرائش سے خوبصورت بنانا اس سے منع فرمایا گیاہے۔ اسلام نے اپنے تمام مظاہر میں سادگی کا حکم دیا ہے اور جو حسن سادگی میں ہوتاہے وہی حسن اصل ہوتاہے جبکہ مذکورہ بالا اشیاء سے شئے کی اصل حقیقت کا حسن چھپ جاتاہے اور اس بے جا ریب وآرائش اور نقش ونگار کو ایک حدیث میں تو قرب قیامت کی علامت میں سے بتایا گیاہے۔(ابوداؤد ، کتاب الصلاۃ باب فی بناء المساجد)

لہٰذا مساجد میں کئے جانے والے اعمال کا مرکزی خیال ’’اللہ کی رضا کا حصول‘‘ خواہ اس کا تعلق دین سے ہو یا دنیا سے اگر ان اعمال کا محور اللہ کے علاوہ کوئی اور ہے تو واضح شرک ہے جیسا کہ قرآن حکیم میں ہے:

وَّاَنَّ الْمَسٰجِدَ لِلہِ فَلَا تَدْعُوْا مَعَ اللہِ اَحَدًا  (الجن:۱۸)

’’اور یہ کہ بلاشبہ مساجد اللہ کے لیے ہیں، پس اللہ کے ساتھ کسی کو مت پکارو۔‘‘

اور مساجد میں ذکر الٰہی اور دیگر امور کی انجام دہی کا تعلق کسی خاص وقت سے نہیں بلکہ قرآن مجید نے ’’ الغدو والآصال‘‘ کے ذریعے دن اور رات دونوں کو اس میں شامل کردیاہے کہ اہل ایمان جن کے دل اللہ کے نور سے منور ہیں اور وہ ایمان وہدایت سے فیض یاب ہوچکے ہیں وہ صبح وشام اللہ کی رضا کے حصول کے لیے اللہ کا ذکر کرتے ہیں اور نماز پڑھتے ہیں اور اس کی عبادت کرتے ہیں اور ان تمام کیفیات کو ’’تسبیح‘‘ سے تشبیہ دی گئی ہے کہ ذکر الٰہی ، نماز، عبادت ودیگر امور سب نیکی میں شمار ہوں گے بشرطیکہ وہ اللہ تعالیٰ کے لیے ہوں۔

فوائد :

۱۔مساجد ، اللہ کے ذکر کے لیے ہیں۔

۲۔ چونکہ مساجد اللہ کے لیے ہوتی ہیں لہذا ان کو صاف رکھنا بھی مسلمانوں کی ذمہ داری ہے۔

۳۔مساجد میں نقش ونگار اور مختلف آرائش وزیبائش بنانے سے گریز کرنا چاہیے۔ا ور مساجد کو اگر سادہ رکھا جائے تو یہ فعل عین سنت ہے۔

۴۔اسلام میں مساجد تمام امور کا مرکز متصور ہوتی ہیں۔

۵۔مساجد میں اللہ تعالیٰ کے ذکر کا بیان کسی خاص وقت میں مقید نہیں ہوتا بلکہ صبح وشام سے دونوں وقت مرادہیں۔

۶۔ مساجد کے وجود سے وہی لوگ مستفید ہوسکتے ہیں جو گذشتہ آیات کے مطابق اپنے دلوں کے نور الٰہی سے مستفیض کرچکےہیں۔

۷۔مساجد کو آباد رکھنا صرف اہل ایمان کا کام ہے یعنی وہ لوگ جو صبح وشام اللہ کا ذکر کرتے رہتے ہیں۔

۸۔ مساجد کو ایسی تمام اشیاء سے محفوظ رکھنا جن سے مسجد کی حرمت پر حرف آتاہو یا نمازیوں کو اذیت ہو ۔

۹۔ مساجد میں ایسے تمام امور کی ممانعت جو اللہ کے ذکر سے غافل کردیں۔

۱۰۔مساجد میں بے مقصد آوازیں بلند کرنا منع ہے ایسی تمام حرکات مساجد کے احترام کی منافی ہیں۔

۱۱۔ مساجد میں سونا جائز ہے۔ (بخاری)

۱۲۔ مسجد میں داخل ہوتے وقت دعا پڑھنا :

اللَّہُمَّ افْتَحْ لِى أَبْوَابَ رَحْمَتِکَ۔  (ابوداود)

اور نکلتے وقت بھی دعا پڑھنا:

اللَّہُمَّ إِنِّى أَسْأَلُکَ مِنْ فَضْلِکَ  (ابوداود)

۱۳۔ مسجد میں داخل ہونے والااگر وہاں قیام کرنا چاہتا ہے تو اس پر لازم ہے کہ تحیۃ المسجد یعنی دو رکعت نماز مسجد کے احترام میں ادا کرے۔ (مسلم)

۱۴۔ مساجد میں ضرورت کے وقت چراغ جلائے جا سکتے ہیں۔ (ابن ماجہ)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے