نورِ الٰہی سے مستفیض لوگ:

رِجَالٌ لَّا تُلْهِيْهِمْ تِجَارَةٌ وَّلَا بَيْعٌ عَنْ ذِکْرِ اللہِ وَاِقَامِ الصَّلٰوۃِ وَاِيْتَاۗءِ الزَّکٰوۃِ   ۽ يَخَافُوْنَ يَوْمًا تَتَقَلَّبُ فِيْهِ الْقُلُوْبُ وَالْاَبْصَارُ ؀ڎ لِيَجْزِيَهُمُ اللہُ اَحْسَنَ مَا عَمِلُوْا وَيَزِيْدَهُمْ مِّنْ فَضْلِهٖ  ۭ وَاللہُ يَرْزُقُ مَنْ يَّشَاۗءُ بِغَيْرِ حِسَابٍ   ؀

ایسے لوگ جنہیں تجارت اور خریدو فروخت اللہ کی یاد سے اور اقامتِ نماز و ادائے زکوٰۃ سے غافل نہیں کر دیتی۔ وہ اس دن سے ڈرتے رہتے ہیں جس دن بہت سے دل اور بہت سی آنکھیں الٹ پلٹ ہوجائیں گی۔تاکہ اللہ ان کے اعمال کی بہترین جزا ان کو دے اورانہیں اپنے فضل سے مزید نوازے ،اللہ جسے چاہتا ہے بے حساب دیتا ہے۔

معانی الکلمات:

تلھیھم:

لفظ لھو سے ماخوذ ہے اور لھو کا معنیٰ ایسے امور ہیں جو انسان کو اہم کاموں سے باز رکھیں۔ (راغب)

اور ابن فارس سے اس کے دو بنیادی معنیٰ بیان کئے ہیں کسی چیز کے ذریعے دوسری چیز سے توجہ ہٹ جانا، کسی چیزکو ہاتھ سے چھوڑ دینا۔

اس لئے اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں دنیاوی زندگی کو لھو قرار دیا ہے۔ یعنی فوری، عیش اور مفادات عاجلہ کی  زندگی اس سے الھی، یلھی کے معنیٰ ہونگے مصروف رکھنا، مشغول کردینا، مقصد کو نگاہوں سے اوجھل کرکے دوسری باتوں سے لگا دینا اس لفظ کو مکمل سمجھنے کے لئے  ایک اور لفظ ’’لعب‘‘ بھی ہے ان دونوں لفظوں کو ایک ساتھ رکھا جائے تو مکمل مفہوم سامنے آتا ہے۔ یعنی لہو حق سے روگردانی اور غفلت کو کہتے ہیں۔ جبکہ لعب باطل کی طرف متوجہ ہوجانے کو کہتے ہیں۔

تجارت:

خرید و فروخت، سوداگری، کاروبار کو کہتے ہیں۔ امام راغب رحمہ اللہ تجارت کے معنیٰ نفع کمانے کے لئے راس المال کاروبار لگانا بتاتے ہیں۔صاحب محیط نے اس مال کو بھی تجارت کہا ہے جس سےتجارت کی جائے۔

قرآن مجید نے ایمان و اسلام کو بھی ایک قسم کی تجارت قرار دیا ہے جس میں خرید و فروخت کا معاملہ ہوتا ہے۔ تفصیل کے لئے دیکھیں سورۃ توبہ آیت 111 سورۃ الصف آیت نمبر 10-11

قرآن مجید نے معاشیات کا مخصوص پسِ منظر بتایا جس کے لئے دو لفظ استعمال کئے ہیں۔ (بیع، تجارت)

بیع:

کسی چیز کو فروخت کردینا یا خریدلینا دونوں معنوں میں آتا ہے۔ سورۃ البقرۃ میں ہے ’’یوم لابیع فیہ‘‘ جس دن کوئی خرید و فروخت نہ ہوگی،اس سورت میںبیان کیا گیا ہے ’’و احل اللہ البیع وحرم الربوٰ‘‘ اللہ نے بیع کو حلال قرار دیا ہے اور ربوٰ کو حرام ٹھہرایا ہے۔ تجارت اور بیع میں فرق ہے یعنی بیع تو عام خرید و فروخت کو کہتے ہیں جبکہ تجارت پیشہ ورانہ سوداگری کو کہتے ہیں اور بیع میں عام تبادلہ اشیاء آجائے گا۔

اسلام کے معاشی اصول کے تحت کوئی بھی تاجر رأس المال، محنت کے برابر منافع لے سکتا ہے۔ اس لئے سود کو حرام قرار دیا ہے کیونکہ بیع میں سرمایہ محنت ہوتی ہے اور سود میں فقط سرمایہ ہوتا ہے بیع میں محنت کا معاوضہ لیا جاتا ہے۔بیع کا مطلب باہمی معاہدہ بھی کیا جاتا ہے۔

 ذِکرُ اللہ:

ذکر کا مطلب ہے کسی چیز کو محفوظ کرلینا، کسی بات کا دل میں حاضر کرلینا، یہ لفظ ’’نسی‘‘ کے مقابلے میں آیا ہے، نسی کا مطلب ہے کہ کسی بات کا بھلا دینا اور ذکر کا مطلب ہے کسی بات کا یاد کرنا۔ (محیط)

قرآن مجید میں کتاب اللہ یعنی قرآن کو بھی ذکر کہا گیا کیونکہ یہ انسان کو اصلی مقام اور اصل ہدف کی یاد دہانی کرواتا ہے اور جو اللہ تعالیٰ کو یاد کریگا تو ربِّ کریم اس کو یاد کریگا۔

فَاذْكُرُوْنِيْٓ اَذْكُرْكُمْ وَاشْكُرُوْا لِيْ وَلَا تَكْفُرُوْنِ   ؁

اس لئے تم میرا ذکر کرو میں بھی تمہیں یاد کروں گا، میری شکر گزاری کرو اور ناشکری سے بچو (البقرہ۱۵۲)

ذکرِ الٰہی میں قرآن مجید کی تلاوت، ادعیہ ماثورہ، اور مسنون اذکار کا پڑھنا شامل ہے اور ایک مومن کو انہی اذکار سے دل کا سچا اطمینان حاصل ہوتا ہے۔

اَلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَتَطْمَىِٕنُّ قُلُوْبُهُمْ بِذِكْرِ اللّٰهِ ۭ اَلَا بِذِكْرِ اللّٰهِ تَـطْمَىِٕنُّ الْقُلُوْبُ    ؀

جو لوگ ایمان لائے ان کے دل اللہ کے ذکر سے اطمینان حاصل کرتے ہیں۔ یاد رکھو اللہ کے ذکر سے ہی دلوں کو تسلی حاصل ہوتی ہے (الرعد:۲۸)

اطمینان کے ساتھ سچے کی تخصیص اس لئے کی کہ جھوٹا اطمینان انسان کو ہر طرح سے حاصل ہوسکتاہے اگر جھوٹا اطمینان حاصل نہ ہو تو لوگ باطل مذہب پر کس طرح جمے رہیں؟ سچا اطمینان علی وجہ البصیرت حاصل ہوتا ہے اور اس کا ذریعہ ایک ہی ہے اور وہ کائناتی سچائیوں اور اپنی ذات پر ایسا غور و فکر جو کہ انسان کو وحدانیت الٰہی تک لے جائے جھوٹا اطمینان اپنے آپ کو فریب دینے سے حاصل ہوتا ہے سچا اطمینان مومنین کو میدانِ بدرمیں حاصل ہوا تھا جب انہیں اپنے سے تین گنا فوج پر عظیم فتح حاصل ہوئی تھی۔ ( اٰل عمران125)

یہ اطمینان حجروں، خانقاہوں، رہبانیت یا ترکِ دنیا سے نہیں ملتا، بلکہ ذکر ِ الٰہی کے ذریعے ملتا ہے اس سے  ایمان کو استقامت ملتی ہے اور اس ذکر کےمختلف مظاہر ہیں جس میں تلاوتِ قران، نماز، جہاد، روز مرہ زندگی کے مسنون اذکار وغیرہ نمایاں ہیں۔

اقام الصلاۃ:

اقامۃ الشیٔ کا مطلب ہے کسی چیز کا پورا پورا حق ادا کردینا اور کبھی استقامت کے مفہوم میں بھی آتا ہے یعنی کسی فعل پر جم جانا اور اس پر مداومت اختیار کرنا۔

اقامۃ الصلاۃ کا مطلب ہے نماز کو قائم کرنا اور نماز کو قائم کرنے سے مراد ہے کہ نماز کو اس طرح ادا کرنا جس طرح ادا کرنے کا حق ہے اور اس میں پیروی اور اطاعت اللہ تعالیٰ کے محبوب نبی کی ہے اور کوئی شخص ’’صلّوا کما رأیتمونی اُصلی‘‘ کے بغیر نماز قائم کرنا چاہے تو یہ ناممکن العمل ہے اس میں طہارت، شروط، فرائض اور اوقات کا خیال رکھنا سب ہی آجاتا ہے۔ واضح رہے کہ نماز پڑھنے کا حکم قرآن مجید میں غالبا ایک یا دو  مقامات پر آیا ہے ورنہ قرآن نے اس بارے میں نماز قائم کرنا کی جامع اصطلاح استعمال کی ہے۔ 

اور یہ بنیادی طور پر وہ پانچ نمازیں ہیں جو امت اسلامیہ پر فرض کی گئی ہیں۔ فجر، ظہر، عصر، مغرب اور عشاء

ایتاء الزکوٰۃ:

ایتاء کا مطلب ہے کہ کسی چیز کو دینا، امام راغب رحمہ اللہ نے مفردات میں لکھا ہے کہ قرآن مجید میں صدقات وغیرہ کے لئے ایتاء کا لفظ آیا ہے اعطاء کا نہیں۔ گو کہ کتب لغات میں ایتاء اور اعطاء میں فرق بیان کیا گیا ہے، لیکن وہ کوئی حتمی قاعدہ نہیں بلکہ قرآن مجید نے ان دونوں لفظوں کو مترادف معانی میں بھی استعمال کیا ہے۔ صاحبِ تاج العروس نے لکھا ہے کہ ایتاء کے معنیٰ یہ ہیں کہ جسے کچھ دیدیا جائے وہ اس تک پہنچ جائے اور وہ اس کو قبول بھی کرلے۔

اور زکوٰۃ لفظ ’’ز  ک  و ‘‘ سے ماخوذ ہے جس کا لغوی مطلب ہے نشو و نما پانا، بڑھنا، پھولنا، پھلنا (راغب، تاج العروس)

اس کے علاوہ زکوٰۃ کے معنیٰ پاکیزگی کے بھی آتے ہیں۔ زکاۃ کا اصطلاحی مفہوم :

سال گزر جانے کے بعد جو حصہ بطورِ فرض ادا کیا جاتا ہے۔ چونکہ شریعت نے زکوٰۃ مالداروں پر فرض کی ہے، تاکہ ان کے مال کا کچھ حصہ ہر سال غرباء ومساکین کی ضروریات پر صرف کیا جاسکے، لہٰذا ہر قسم کے مال سے زکوٰۃ کا نصاب مقرر کیا گیا ، یعنی بہائم(جانور)، سونا، چاندی، نقود، تجارتی مال، زمین کی پیداوار اور مصارف زکوٰۃ سورۃ التوبہ کی آیت نمبر 60 کے مطابق یہ ہیں فقراء، مساکین، زکوٰۃ وصول کرنے والے عاملین، نو مسلموں کی تالیف قلبی، غلاموں کو آزاد کروانا، قرض داروں کے لئے، مجاہدین کے لئے اور مسافروں کے لئے، یہ کل آٹھ مصارف ہیں۔

یخافون:

یخافون کامطلب ہے وہ ڈرتے ہیں جو کہ خوف سے ماخوذ ہے، خوف کا مطلب ہے کسی آنے والے خطرہ سے ڈرنا اس کے بالمقابل حزن کا لفظ ماضی کی کوتاہیوں اور نافرمانیوں کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے اہلِ ایمان کو ایک بہت بڑا ایمان(لاخوف علیہم ولا ھم یحزنون) کی صورت میں دیا ہے۔ یعنی اتباع ہدایت کا لازمی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اس کو خوف اور حزن نہیں رہتا۔ اس لئے مومن اور خوف  باطل دو متضاد چیزیں ہیں۔ لفظ مومن کا مادہ ہی امن ہے پھر اسے باطل سے خوف کیوں؟

ایک مومن اپنے زندگی کے شب و روز میں صرف ایک اللہ سے ڈرتا ہے لہٰذا اس کے علاوہ کسی اور سے ڈرنا چہ معنیٰ دارد ؟

القلوب:

قلوب ، قلب کی جمع ہے جس کا مطلب ہے دل ۔ ابن ھشام نے قلب کے چار معانی بیان کئے ہیں:

دل، عقل، ہرچیز کا خلاصہ، ہر چیز کا بہترین حصہ

اور صاحب کتاب الاشتقاق نے بھی ہر چیز کے خالص حصہ کو قلب کہا ہے۔

قرآن مجید نے اس مفہوم میں دو لفظ استعمال کئے ہیں قلب، فوأد، قلب، فہم و بصیرت، اور عقل و فکر کا سرچشمہ ہے اور فوأد، جذبات سوز و گداز کا منبع، لیکن قرآن مجید نے ان دونوں الفاظ کو مرادف معانیٰ میں بیان استعمال کیا ہے۔

الابصار:

بصر کی جمع ہے۔ جس کے معنیٰ بینائی کے ہیں۔

اجمالی مفہوم

 گذشتہ آیات میں نورِ الٰہی اور مساجد کے آداب پر مبنی تعلیمات کے بعد اللہ تعالیٰ نے ان آیات سے ان لوگوں کا تعارف کروایا ہے جو کہ نورِ الٰہی سے اپنے قلوب کو منور کرچکے ہیں اور جن لوگوں نے اس نورِ الہٰی کی برکات کے سبب مساجد کو آباد کیا اور ان کا حق ادا کیا اب ان افرادکی کچھ صفات کا تذکرہ کیا جارہا ہے کہ وہ لوگ صبح و شام یعنی دن بھر ساراد ن اور ساری رات  جب بھی وقت ملے گا اللہ کی تسبیح بیان کرتے ہیں اور ان کو انکی خرید و فروخت اور تجارت اللہ کی یاد سے، نماز اور زکوٰہ سے غافل نہیں کرتی اور ان کے دنیاوی مشاغل ان کو اس نورِ الہٰی سے مستفیض ہونے سے نہیں روکتے کیونکہ وہ اس دن سے ڈرتے ہیں جس میں ہر انسان کو اپنی ہی پڑی ہوگی اور ان کے دل مضطرب ہونگے، اسی دن کا خوف و اضطراب ہر کسی کو پریشان کرےگا لیکن وہ اس خوف کے ساتھ اللہ کی مغفرت کے بھی امیدوار ہیں، اسی لئے کہ مومن ہمیشہ خوف اور امید کی درمیانی شاہراہ پر سفر کرتا ہے اور ایمان کی درست کیفیت بھی یہی ہے۔

اس آیت میں نماز اور زکوٰہ کا ذکر آیاہے، کیونکہ یہ اسلام کے دو بنیادی فرائض ہیں اور ان پر ہی اسلام کی پوری عمارت استوار ہے اور جو لوگ ان دو فرائض کو ادا کریں گے تو اس دن ان کی غافل لوگوں کی طرح حالت نہ ہوگی جن کے دل خوفزدہ، دہشت زدہ ہونگے اور ان کی یہ بد حواسی ان کی نگاہوں سے بھی ظاہر ہوتی ہے اور وہ دینی فرائض کی انجام دہی کے بعد اللہ کے فضل و کرم کے بھی طلب گار ہوتے ہیں۔ اور ایسے ہی لوگوں کو اللہ تعالیٰ اپنےفضل و کرم اور رحمت سے نوازے گا اور اس طرح نوازے گا کہ ان کے وہم و گمان میں بھی نہ ہوگا۔

رِجَالٌ لَّا تُلْهِيْهِمْ تِجَارَۃٌ وَّلَا بَيْعٌ عَنْ ذِکْرِ اللہِ :

ابن ابی حاتم، ابن مردویہ، الدیلمی، الطبرانی، الحاکم میں مختلف صحابہ سے احادیث مروی ہیں جس میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ ان لوگوں کا مصداق وہ لوگ ہیں جو کہ زمین میں اللہ تعالیٰ کا فضل تلاش کرنے کے لئے مسافتیں طے کرتے ہیں۔ اور ابن عباس رضی اللہ عنہما کی ایک روایت کے مطابق وہ لوگ جو فرض نمازیں جماعت کے ساتھ ادا کرتے ہیں۔

یوما:سے مراد قیامت کا دن ہے۔

مذکورہ بالا آیات میں ایک اہم اصول بتایا گیا ہے جو کہ قرآن مجید میں ایک اور مقام پر وضاحت اور صراحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے جس میں ایمان والوں کی صفات بیان کی گئی ہے:

ویرجون رحمتہ و یخافون عذابہ:

یعنی رحمت کے امیدوار اور عذاب سے خوف زدہ کہ کسی سے کوئی امید نہیں رکھتے اور نہ ہی اس کے علاوہ کسی سے ڈرتے ہیں اور خوف و رجاء مسلمان کی عبادت کے دو اہم ترین امور ہیں جس کے بغیر عبادت مکمل نہیں ہوتی اور ان دونوں کے درمیان توازن ہی اسلام کو مطلوب ہے۔

خوف مسلمان کو مکمل حریت سے روکتا ہے اور رجاء اس کو مایوس نہیں ہونے دیتا۔

مسائل:

مسئلہ نمبر۱: بیوت سے کیا مراد ہے؟

مفسرین کی اکثریت متفق ہے کہ بیوت سے مراد مساجد ہیں، چونکہ ذکرِ الٰہی ، تسبیح اور نماز جیسے امور کا انعقاد صرف مساجد میں ہی ہوسکتا ہے۔ اور اس میں مساجد کی کوئی تخصیص نہیں ہے وہ سب مساجد ہیں جن میں یہ تین خوبیاں ہوں۔

مسئلہ نمبر۲: ذکر سے کیا مراد ہے؟

ذکر کے معانی میں علماء کے مختلف اقوال ہیں

جن کے مطابق اس کے ممکنہ مفاہیم عمومی ذکر، نماز، تلاوت قرآن یا فرائض اسلامہ کی ادائیگی ہوسکتے ہیں اور یہ تمام مفاہیم ایک ہی مقصد کی طرف اشارہ کرتے ہیں لہٰذا یہ سب مفاہیم ایک ساتھ بھی مراد لئے جاسکتے ہیں۔

مسئلہ نمبر۳: آیت میں صرف رجال یعنی بندوں کا ذکر کیا ہے اور عورتوں کا ذکر نہیں ہے؟

عمومی طور پر تجارت میں مرد ہی سامنے آتے ہیں اور عورتیں خال خال نظر آتی ہیں گو کہ عورتوں کو تجارت کی ممانعت نہیں۔ حجاب کی لازمی شروط کو پورا کرتے ہوئے کوئی بھی عورت تجارت کرسکتی ہے۔ اور کہا گیا ہے کہ مردوں کا ذکر من باب تغلیب کیا گیا ہے اور عورتیں بھی اس حکم میں شریک ہیں۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ چونکہ بات مساجد کے پس منظر میں ہورہی ہے اور عورتوں کے لئے مسجد میں جاکرنماز پڑھنا ضروری نہیں ہے اور اس کی نماز گھر میں بہتر اور افضل ہے ، لہٰذا ان پر نہ تو جمعہ فرض ہے اور نہ ہی باجماعت نماز۔

مسئلہ نمبر۴: اقامۃ الصلاۃ اور ایتاء الزکوٰۃ سے کیا مراد ہے؟

اقامۃ الصلاۃ سے مراد فرض نماز ہے اور اس  سے مراد نفلی نمازوں کو بھی لیا جائے تو کوئی حرج نہیں۔

اور ایتاء الزکوٰۃ سے مراد زکوٰۃ مفروضہ ہے نہ کہ نفلی صدقات وغیرہ۔

فوائد

1 دنیاوی مشاغل میں بڑی مصروفیت جو کہ ذکرِ الٰہی میں حائل ہوسکتی ہے وہ تجارت ہے۔

2مومن کی ایک علامت یہ بھی ہے کہ وہ ہر حال میں ذکر الٰہی میں مصروف رہتا ہے اور اس کو اس امر میں کوئی مصروفیت آڑے نہیں آتی خواہ وہ تجارت یا یا کوئی اور لین دین۔ 

3  اگر تجارت و خرید و فروخت ذکرِ الٰہی میں حائل نہ ہوں تو یہ جائز بلکہ مستحب ہیں۔

4ذکرِ الٰہی سےمراد عمومی اذکار ہیں کیونکہ نماز کا ذکر کے بعد خصوصی طور پرذکر کردیا گیا ہے۔اور اس میں وہ اذکار شامل ہیں جو قرآن و احادیث سے منتخب کئے گئے ہوں۔

5معاشرے میں جاری امور کی انجام دہی مردوں کے ہاتھ میں ہوتی ہے نہ کہ عورتوں کے ہاتھ میں اور عورتوں کے لئے بہترین جگہ ان کا گھر ہے۔

6عورتوں کے لئے نماز کی بہترین جگہ ان کا گھر ہے۔

7ا ہل ایمان اپنے اقوال و اعمال میں آخرت کو ہمیشہ مدنظر رکھتے ہیں۔

8اہل ایمان ہمیشہ خوف و رجاء کے درمیان رہتے ہوئے زندگی گزارتے ہیں۔

9اہل ایمان کا خوف الہی ان کو ایسی حریت سے روکتا ہے جو ان کو حدود اللہ سے باہر لے جائے اور رحمت الہی کی امید ان کو مایوسی اور قنوطیت سے دور رکھتی ہے۔

0جو لوگ دین کے ان بنیادی تصورات کو مکمل کرتے ہیں اللہ تعالیٰ کا ان پر اپنا فضل و کرم نازل کرتا ہے اور بے حساب رزق عطا فرماتا ہے۔

(جاری ہے)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے