1-  داعی اور اس کا مقام

دعوت دین کے عناصر میں سب سے زیادہ اہم عنصر ’’داعی‘‘ ہے۔یہ دعوتِ دین کی بنیاد ہے، اس کا مقام ومرتبہ انتہائی اہم اور نازک ہے۔ وہ کائنات کا عظیم ترین پیغام پہنچانے میں انبیاء کا نائب ہے ۔اسے عظیم ترین کام کے لئے ایک عظیم ہستی نے بھیجا ہے پھر اس کا مقام بلند کیوں نہ ہو اس کی شان عظیم کیوں نہ ہو۔

داعی کی اہمیّت کا راز یہ ہے کہ وہ مدعوّین کے لئے نمونہ ہے ۔اکثر مدعوّین بات کی بجائے عمل سے متأثر ہوتے ہیں اور ان میں سے زیادہ تر سننے کی بجائے دیکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ رسالت کی ذمہ داری ایسے شخص کو دیتے ہیں جو صداقت اور اخلاق میں سب سے افضل ہو اور سب انسانوں میں قربانی دینے اور عقل وفہم میں برتر ہو۔

فرمانِ ربّ العزت ہے  :

  {وَرَبُّکَ یَخْلُقُ مَا یَشَاءُ وَیَخْتَارُ }  [القصص:۶۸]

’’اور تیرا ربّ جو چاہتاہے پید ا کرتا ہے اور جو چاہتاہے پسند کرتاہے‘‘۔

یعنی جو وقت ، جو جگہ اور جو اشخاص چاہتاہے منتخب کرتاہے۔ ارشادِ ربّ العالمین ہے  :

{اَللہُ یَصْطَفِیْ مِنَ الْمَلٰٓئِکَۃِ رُسُلًا وَّمِنَ النَّاسِ }     [الحج:58]

’’ اللہ فرشتوں میں سے بھی اپنے پیغام بر چنتاہے جس طرح انسانوں میں سے چنتاہے ‘‘۔

لغت میں ’’اصطفاء‘‘ کا معنی منتخب کرناہے اور انتخاب ہمیشہ پسندیدہ چیز کا ہوتاہے۔

مشہور مفسّر ابنِ سعدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ فرشتوں اور انسانوں میںسے ایسے افراد کو پیغامبر منتخب فرماتے ہیں جو اپنی نوع میں پاکیزہ ترین ہوں۔ صفاتِ کمال سے موصوف اور لائق انتخاب ہوں۔ لہذا تمام رسول پوری مخلوق میں سے منتخب کردہ ہوتے ہیں۔

 اللہ تعالیٰ ان سے صادر ہونے والے عملوں کو بھی ان کی رسالت کا تکملہ بنادیتاہے اور لوگوں کو ان کی اِقتداء کا حکم دیتاہے۔

{لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِی رَسُوْلِ اللَّہِ أُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ }   [الأحزاب:۲۲]

’’ اور تمہارے لئے اللہ کے رسول کی زندگی میں بہترین نمونہ ہے‘‘۔

نیز فرمایا  :

{ فَبِھُدَاھُمُ اقْتَدِہِ }    [الأنعام:۹۰]

’’تم بھی انہی کے طریقے کی پیروی کرو‘‘۔

اس لئے انبیاء oکے تمام کام وحی کا حصہ اور اس کا تکمیلی جز ہیں۔انبیاء کو داعی بنا کر ان کی اقتداکا اس لئے حکم دیا گیا ہے کہ داعی کی شخصیت ، اس کی خوبیوں اور اُسلوب کا مدعوّین پر گہرا اثر ہوتاہے ۔لوگ داعی کی شخصیت، اُسلوب، اخلاق اورلین دین سے اس کے علم اور تبلیغ کی نسبت کہیں زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ اکثراوقات یہی تاثر انہیں اس کے افکار کو تسلیم کرنے اور کسی اعتراض اور لیت ولعل کے بغیر اس کی دعوت قبول کرنے کے لئے مجبور کرتاہے۔

داعی جس قدر اچھی خوبیوں سے موصوف ہوگا اسی قدر اس کی دعوت زیادہ مؤثر اور لوگوں میں اس کی پذیرائی زیادہ ہوگی۔ داعی کے لئے ضروری ہے کہ اس کی کچھ خاص خوبیاں اور کچھ امتیازات ہوں، وہ مخصوص عادات کا پابند ہو اور قابلِ قدر تصرّفات کا حامل ہو، تاکہ وہ مدعوّین کو متاثر کرے اور اس کی دعوت بار آور ثابت ہو وگرنہ عملِ دعوت پر اس کے منفی اثرات مرتّب ہوں گے۔ آئندہ سطروں میںداعی کی اہم خوبیاں بیان کی جارہی ہیں۔

 – 2داعی کی خوبیاں

۱۔ اِخلاص وتقویٰ

دین کی دعوت کوئی عام دعوت نہیں ہے کہ انسان اس پریقین رکھنے، اس کے ساتھ مخلص ہونے اور صدقِ دل سے اس پر عمل پیرا ہوئے بغیر اس پر گفتگو کرتا چلا جائے۔ یہ تو اہلِ دعوت کے لئے تقویٰ ، اخلاصِ نیت اور صداقت کو شرط قراردیتی ہے تاکہ وہ اپنے مِشن میں کامیاب بھی ہوں اور اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کا ثواب بھی حاصل کریں۔اسلام کے ہر عمل میں یہ باتیں شرط ہیں ان عملوں میں سرِفہرست کارِدعوت ہے۔

اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا  :

{أَ لَا لِلَّہِ الدِّیْنُ الْخَالِصُ }    [الزمر:۳]

’’یادرکھو کہ اطاعتِ خالص کے لائق اللہ تعالیٰ ہی ہے‘‘۔

نیز فرمایا  :

{قُلْ إِنِّیْٓ أُمِرْتُ أَنْ أَعْبُدَ اللہَ مُخْلِصًا لَّہُ الدِّیْنَ }

’’کہہ دو کہ مجھے تو حکم ملا ہے کہ میں اللہ ہی کی بندگی کروں اسی کی خالص اطاعت کے ساتھ ‘‘۔[الزمر:۱۱]

داعی کے لئے تقویٰ اتنا ہی ضروری ہے جتنا کہ درخت کے لئے پانی اور جسم کے لئے روح۔تقویٰ یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے دین پر ظاہر وباطن دونوں طرح عمل پیرا ہو۔ بالخصوص اپنی دعوت کے نکات پر عمل کرے ۔اگر کوئی شخص اپنی دعوت پر خود عمل نہیں کرتا تو وہ اللہ کی توفیق سے محرومی اور عمل کی ناقبولیت ہی کے لئے لائق ہے۔ارشاد ربّانی ہے  :

{إِنَّمَا یَتَقَبَّلُ اللہُ مِنَ الْمُتَّقِیْنَ}     [المائدۃ:۲۷]

’’اللہ تو صرف اپنے متقی بندوں سےقربانی قبول کرتاہے‘‘۔

تقویٰ کی اہمیت کے پیش نظرسورئہ احزاب کے آغاز میں سالارِقافلہ دعوت کو اسے اپنانے کا الگ سے حکم دیاگیا ہے۔

{یٰٓا أَیُّھَا النَّبِیُّ اتَّقِ اللَّہَ وَلَا تُطِعِ الْکَافِرِیْنَ وَ الْمُنَافِقِیْنَ إِنَّ اللَّہَ کَانَ عَلِیْمًا حَکِیْمًا }

’’اے نبی! اللہ سے ڈرو اور کافروں اور منافقوں کی باتوں پرکان نہ دھرو، بے شک اللہ علم والا اور حکمت والا ہے‘‘۔[الاحزاب:۱]

اگرچہ یہ ساری اُمّت سے مطلوب ہے لیکن کلام کا رخ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف ہونے سے یہ بات معلوم ہورہی ہے کہ یہ آپ سےبطور خاص مطلوب ہے۔

تقویٰ ہی کے ذریعے گفتار وکردار کی اصلاح کی توفیق نصیب ہوتی ہے ۔ خالقِ کائنات ارشادفرماتاہے  :

{یٰٓا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا اتَّقُوْا اللَّہَ وَقُوْلُوْا قَوْلًا سَدِیْدًا یُصْلِحْ لَکُمْأَعْمَالَکُمْ وَیَغْفِرْ لَکُمْ ذُنُوبَکُمْ وَمَنْ یُّطِعِ اللَّہَ وَرَسُوْلَہُ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِیْمًا       }      [الأحزاب:۷۰۔۷۱]

’’ اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور درست بات کہو اللہ تمہارے اعمال سدھارے گا اور تمہارے گناہوں کو بخشے گا اور جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے رہیں گے انہوں نے بہت بڑی کامیابی حاصل کی ‘‘۔

تقویٰ کے ذریعے اللہ تعالیٰ داعی کو حق وباطل میں امتیاز کا ملکہ عطا فرماتے ہیں اس کے ذریعے اسے دعوتی تنگنائیوں سے چھٹکارا ملتاہے، اس کی لغزشوں سے درگزر اور گناہوں کو معاف کیا جاتاہے۔

ارشادِ ربّ العزت ہے  :

{یٰٓا أَیُّھَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا إِنْ تَتَّقُوْا اللَّہَ یَجْعَلْ لَّکُمْ فُرْقَانًا وَّیُکَفِّرْ عَنْکُمْ سَیِّئَاتِکُمْ وَیَغْفِرْ لَکُمْ وَاللَّہُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِیْمِ  }                                            [ الأنفال:۲۹ ]

’’اے ایمان لانے والو! اگر تم اللہ سے ڈرتے رہو تو وہ تمہارے لئے فرقان نمایاں کردے گا اور تم سے تمہارے گناہ صاف کر دے گا اور تمہاری مغفرت فرمائے گا اور اللہ بڑے فضل والا ہے‘‘۔

ان تمام چیزوں کے ساتھ ساتھ تقویٰ کا مدعوّین پر بھی گہرا اثر ہوتاہے ۔لوگوں کی فطرت یہ ہے کہ وہ سچّے آدمی کی بات مانتے ہیں اور جھوٹے سے نفرت کرتے ہیں جبکہ ان کے ہاں سچ اور جھوٹ کا معیار داعی کے عمل کے علاوہ کچھ اور نہیں ہوتا ۔ داعی کی دعوت پر عمل کرنے سے لوگوں کو دعوت کے صحیح اور داعی کے سچّاہونے کا سبق ملتاہے اور وہ ان کے ہاں مقبول ہوجاتاہے۔

جبکہ داعی کے بے عمل ہونے سے لوگوں کے دلوں میں دعوت کے غلط ہونے اور داعی کے جھوٹا ہونے کا خیال آتاہے اور یہ چیز ان کے دِلوں میں نفرت اور حقارت پیدا کرتی ہے۔ انبیاء علیہم السلام اس چیز کا بہت زیادہ خیال رکھتے تھے ۔ دیکھئے حضرت شعیب u اپنی قوم سے کہہ رہے ہیں

{وَمَا أُرِیْدُ أَنْ أُخَالِفَکُمْ إِلَی مَا أَنْھَاکُمْ عَنْہُ }  [ ہود :۸۸ ]

’’اور میں یہ نہیں چاہتا کہ تمہاری مخالفت کرکے وہی چیز خود اختیار کروںجس سے میں تمہیں منع کرتا ہوں‘‘۔

تمام انبیاء ورسل بعثت سے پہلے ہی صداقت سے موصوف ہوتے تھے۔ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو لقب’’امین‘‘ کے ساتھ بعثت سے پہلے ہی یاد کیا جاتا تھا،اور یہ عرب سے مخفی نہیں تھا۔

اسی طرح قومِ صالح کا  ان سے طرزِ کلام بھی اس بات کی غمازی کرتا ہے۔

{یَا صَالِحُ قَدْ کُنْتَ فِینَا مَرْجُوًّا قَبْلَ ھَذَا }[ ہود:۶۲ ]

’’وہ بولے کہ (اے)صالح! اس سے پہلے تم ہمارے ہاں بڑی اُمیدوں کے مرکز تھے ‘‘۔ یہ دشمنوں کی طرف سے ان کی صداقت اور قبل از بعثت بلندمرتبہ ہونے کی گواہی ہے۔ یہ چیزیں تو مدعوّین کی طرف سے حاصل ہوتی ہیں جبکہ اللہ کے ہاں دعوت کے مطابق عمل کرنے والے داعی کے لئے بہت زیادہ اجر وثواب ہے۔

جہاں اللہ ربّ العزت نے دعوت کے مطابق عمل پیرا ہونے کو کہا ہے وہاں اس کی خلاف ورزی اس پر عمل نہ کرنے سے بچنے کی تلقین بھی کی ہے۔

ارشادِ ربّ العالمین ہے  :

 {یَا أَیُّھَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لَا تَفْعَلُوْنَ  کَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللَّہِ أَنْ تَقُوْلُوْا مَا لَا تَفْعَلُوْنَ    }

’’اے ایمان والو! تم وہ بات کہتے کیوں ہو جو کرتے نہیں ،اللہ کے نزدیک یہ بات زیادہ غصّے کی ہے کہ تم وہ بات کہو جوخود کرتے نہیں‘‘۔ [  الصّف:۲۔۳  ]

نیز آپ  صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے :’’کہ ایک آدمی کو قیامت کے دن لایا جائے گا اسے دوزخ میں پھینک دیا جائے گا اس کی آنتیں باہر آجائیں گی اور وہ ایسے چکر کاٹے گا جیسے گدھا چکی لیکر گھومتاہے ۔دوزخی اس کے آس پاس جمع ہوکر اس سے پوچھیں گے ۔ ارے بھائی! تمہیں کیا ہوگیا؟ تم تو نیک کام کرنے اور برے کاموں سے بچنے کی تلقین کرتے تھے وہ کہے گا میں تمہیں نیکی کی تلقین کرتا تھا لیکن خود نیک کام نہیں کرتا تھا اور تمہیں برائی سے روکتا تھا اور خود اس میں ملوّث تھا۔

داعی کو پرہیز گار ہونا چاہیے تاکہ لوگ اس کی دعوت قبول کریں اور اللہ تعالیٰ اس کے عمل کو قبول کرے۔ اگر داعی پرہیز گار نہ ہواور لوگ اس کی بات سن کر عمل بھی کرلیں تو اسے دعوت سے کیا فائدہ ہوگا ؟جب وہ قیامت کے دن خالی ہاتھ آئے گا اللہ نے اس کے عمل کو برباد کردیا ہوگا۔ کیونکہ اس میں اخلاص اور تقویٰ نہیں تھا۔

اس کے علاوہ تقویٰ اختیار کرنے سے نیکی کی مزید توفیق اور اللہ تعالیٰ کے ہاں ثواب بھی ملے گا۔ کٹھن اور مشکل اوقات میں ثابت قدم رہنے کیلئے تقویٰ بہت بڑا معاون اور دشمنوں کے چُنگل سے بچنے کے لئے داعی کی مضبوط ترین زِرہ ہے۔

فرمانِ ربّ العزت ہے : {وَإِنْ تَصْبِرُوْا وَتَتَّقُوْا لَا یَضُرُّ کُمْ کَیْدُھُمْ شَیْئًا}[آل عمران:۱۲۰]

’’اور اگر تم صبر کروگے اور تقویٰ اختیار کروگے تو ان کی چال تمہیں کوئی نقصان نہ پہنچا سکے گی‘‘۔

نیز فرمایا  :

{لَتُبْلَوُنَّ فِیْ أَمْوَالِکُمْ وَأَنْفُسِکُمْ وَلَتَسْمَعُنَّ مِنَ الَّذِیْنَ أُوتُوْا الْکِتَابَ مِنْ قَبْلِکُمْ وَمِنَ الَّذِیْنَ أَشْرَکُوْا أَذًی کَثِیْرًا وَّإِنْ تَصْبِرُوْا وَتَتَّقُوْا فَإِنَّ ذَلِکَ مِنْ عَزْمِ الْاُمُوْرِ}          [ آل عمران:۱۸۶ ]

’’تمہارے مال اور تمہاری جان میں تمہاری آزمائش ہونی ہے اور تمہیں ان لوگوں کی طرف سے جنہیں تم سے پہلے کتاب ملی، اور ان لوگوں کی طرف سے جنہوں نے شرک کیا بہت سی تکلیف دہ باتیں سننی پڑیں گی اوراگرتم ثابت قدم رہے اور تم نے تقویٰ کو ملحوظ رکھاتو بے شک یہ چیز عزیمت کے احوال میں سے ہے‘‘۔

اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ نے صبر اور تقویٰ کو فتنوں کا مقابلہ کرنے اور حق پر ثابت قدمی کے لئے داعی کا اہم ترین اسلحہ قراردیا ہے۔

   ۲   :  مضمونِ دعوت کو اچھی طرح سمجھنا

دین کے داعی کے لئے از حد ضروری ہے کہ وہ جس مضمون کو پیش کررہا ہو اس سے متعلق بطورِ خاص اور دیگر مضامین کے بارہ میں تمام معلومات رکھتاہو۔

ارشادِ ربّ العزت ہے  :

{قُلْ ھٰذِہِ سَبِیلِیْ اَدْعُوْ إِلَی اللَّہِ عَلَی بَصِیْرَۃٍ اَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِیْ وَسُبْحَانَ اللَّہِ وَمَا اَنَا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ }

’’کہہ دو !یہ میری راہ ہے میں اللہ کی طرف پوری بصیرت کے ساتھ بلاتاہوں میں بھی اور وہ لوگ بھی جنہوں نے میری پیروی کی ہے، اور اللہ پاک ہے اور میں مشرکوں میں سے نہیں ہوں‘‘۔[ یوسف:۱۰۸ ]

بصیرت عام معلومات سے ہٹ کر ایک خاص چیز ہے اس میں دلیل ، گہرا اِدراک ، فہم وفراست ،بات کے واضح ہونے اور اس پر یقین ہونے کے اضافی معنی شامل ہیں۔

بصیرت کا ایک پہلو یہ ہے کہ داعی انجام ہائے کارسے آگاہ ہو ،کہی جانے والی باتوں اوراپنے تصرّفات کے نتائج سے غافل نہ ہو۔

امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں : علم ،نرمی اور صبر یہ تین چیزیںداعی کے لئے ازحد ضروری ہیں۔ دعوت سے پہلے علم، دعوت دیتے وقت نرمی اور اس کے بعد صبر۔

اگرچہ یہ تینوں چیزیں کچھ صورتوں میں ایک ساتھ بھی رہتی ہیں۔

قاضی ابو یعلی رحمہ اللہ نے سلف صالحین میں سے کسی کافرمان ذکر کیاہے جسے کچھ مصنفین سیدنا محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف بھی منسوب کرتے ہیں’’ امر بالمعروف ونہی عن المنکر کاکام صرف وہی شخص کرے جو تلقین کئے جانے والے نیکی کے کام اور روکے جانے والے برائی کے کام کی کامل بصیرت رکھتاہو۔ دونوں صورتوں میں نرم مزاج اور بردبار بھی ہو‘‘۔(اس حدیث کی کوئی بھی سند ان الفاظ کے ساتھ صحیح نہیں ہے)

 لہذا امر بالمعروف ونہی عن المنکر سے پہلے بصیرت حاصل کرنا دعوت إلی اللہ کی یہ بنیادی شرط ہے۔ داعی کا اوّلین فریضہ یہ ہے کہ وہ اپنی دعوت سے بخوبی آگاہ ہو، فہم وفراست سے مزّین اور یقین سے مسلّح ہو۔ اپنی دعوت میں ثابت قدم ہو ، دعوت مدعوّین میںسے دوست ودشمن اور اپنے اردگر دپیش  آمدہ واقعات سے پو ری طرح آگاہ ہو، بصیرت کا اطلاق ان سب باتوں پر ہوتاہے اور اسے اللہ تعالیٰ نے دعوت کے لئے شرط قرار دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دعوت إلی اللہ کے لئے ضروری ہے کہ مسلمان عملِ دعوت کے لئے بقدرِ کفایت علم وفہم سے بہرہ ور ہو  تاکہ اس کیلئے راستہ روشن اور واضح ہو۔ علم اسے صحیح راہ دکھائے گا اور فہم اس کی بصیرت بڑھائےگا۔ علم کے بغیر دعوت دینے سے داعی میں انحراف آجاتاہے اور بصیرت کے بغیر وہ لغزش کاشکار ہوجاتاہے۔

علاوہ ازیں بصیرت کے بغیر دعوت دینا گناہ ہے کیونکہ اس میں اللہ تعالیٰ کے حکم کی مخالفت ہے ۔علم وفہم کے بغیر نہ صرف وہ خود کوبھٹکائے گا بلکہ اپنے ساتھ دوسرے لوگوں کو بھی گمراہ کرے گا۔

{وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یُّجَادِلُ فِی اللَّہِ بِغَیْرِ عِلْمٍ وَّیَتَّبِعُ کُلَّ شَیْطَانٍ مَّرِیْدٍ }

’’اورکچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو بغیر کسی علم کے اللہ کی توحید کے باب میں کٹ حجتی کرتے اور ہرسرکش شیطان کی پیروی کرتے ہیں‘‘۔[ الحج:۳ ]

ہوسکتاہے کہ وہ امر کو نہی ، نہی کو امر، معروف کو منکر ،منکر کو معروف ، سنّت کو بدعت اور بدعت کو سنّت قرار دے دے۔

ممکن ہے کہ وہ دین کے نام پر ناجائز کام کی دعوت دینے لگ جائے۔ جیسے کچھ لوگ نافرمان حکمرانوں کے خلاف بغاوت کردیتے ہیں اور خارجی، معتزلی، غالی صوفیاء اور شیعہ دین کے نام پر بدعت وگمراہی کی دعوت دیتے ہیں۔ ان جیسے لوگوں سے بچنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے یہ ارشاد فرمایا   :

   {وَإِنَّ کَثِیْرًا لَّیُضِلُّوْنَ بِاَھْوَائِھِمْ بِّغَیْرِ عِلْمٍ}

’’اور بے شک بہت سے لوگ ایسے ہی ہیں جو کسی علم کے بغیر اپنی بدعات کے ذریعے سے گمراہ کررہے ہیں‘‘۔ [ الانعام : ۱۱۹ ]

نیز فرمایا :

{وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّشْتَرِیْ لَھْوَ الْحَدِیْثِ لِیُضِلَّ عَنْ سَبِیْلِ اللَّہِ بِغَیْرِ عِلْمٍ} [  لقمان : ۶ ]

’’اورکچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو فضولیات کو ترجیح دیتے ہیں تاکہ لاعلمی کے ذریعے اللہ کی راہ سے گمراہ کریں‘‘۔

اللہ نے تو علم کے بغیر کی جانے والی ہر بات کو ’’خودساختہ‘‘ کہاہے اور اگر یہ دین یا دعوتِ دین ہوتو اس کا اندازہ خود ہی لگا لیں۔

ارشاد ِ باری تعالیٰ ہے  :

{وَلَا تَقْفُ مَا لَیْسَ لَکَ بِہِ عِلْمٌ}    [ الإسرائ:۳۶ ]

’’اور جس چیز کا تمہیں علم نہیں اس کے درپے نہ ہوا کرو‘‘۔

کافروں کے کچھ کفریہ اقوال وافعال شمار کرنے کے بعد ارشاد فرمایا ہے   :

{قَدْ خَسِرَ الَّذِینَ قَتَلُوا أَوْلَادَھُمْ سَفَھًا بِغَیْرِ عِلْمٍ وَحَرَّمُوْا مَا رَزَقَھُمُ اللَّہُ افْتِرَاء ً عَلَی اللَّہِ قَدْ ضَلُّوْا وَمَا کَانُوا مُھْتَدِیْنَ }                                            [ الأنعام:۱۴۰ ]

’’وہ لوگ نا مراد ہوئے جنہوں نے محض بے وقوفی سے بغیر کسی علم کے اپنی اولاد کو قتل کیا اور اللہ نے انہیں جو روزی بخشی انہوں نے اسے اللہ پر افترا کرکے حرام ٹھہرایا۔ یہ گمراہ ہوئے اور ہدایت پانے والے نہ ہوئے‘‘۔

ربّ تعالیٰ کا فرمان ہے  :

{قُلْ إِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّیَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَھَرَ مِنْھَا وَمَا بَطَنَ وَالْإِثْمَ وَالْبَغْیَ بِغَیْرِ الْحَقِّ وَأَنْ تُشْرِکُوْا بِاللَّہِ مَا لَمْ یُنَزِّلْ بِہِ سُلْطَانًا وَّأَنْ تَقُوْلُوْا عَلَی اللَّہِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ }                                                 [  الأعراف:۳۳ ]

’’ کہہ دو ! میرے ربّ نے حرام تو بس بے حیائیوں کو ٹھہرایا ہے خواہ کھلی ہوں ، خواہ پوشیدہ اور حق تلفی اور ناحق زیادتی کو اور اس بات کو حرام ٹھہرایا ہے کہ تم اللہ کا کسی چیز کو شریک بنائو جس کی اس نے کوئی دلیل نہیں اتاری اور یہ کہ تم اللہ پر کسی ایسی بات کا بہتان لگاؤ جس کا تم علم نہیں رکھتے‘‘۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے بھی حدیث کو سننے کے بعد پہنچاتے وقت اچھی طرح یادکرنے کا حکم دیا ہے اور ارشاد فرمایا ہے   :

’’نَضَّرَ اللّٰہُ امْرَء اً سَمِعَ مِنَّا شَیْئاً فَبَلَّغَہٗ کَمَا سَمِعَ ،فَرُبَّ مَبَلَّغٍ اَوْعیٰ مِنْ سَامِعٍ‘‘                          ۔

’’اللہ تعالیٰ اس شخص کو خوش وخرم رکھے جس نے ہم سے کوئی بات سنی پھر اسے لوگوں تک ویسے پہنچایا  جیسے اسے سنا ،جن تک بات پہنچائی جاتی ہے ان میں سے بہت سے لوگ خود سننے والے سے زیادہ یاد رکھتے ہیں‘‘۔ [الترمذی:۲۶۵۷]

اسی چیزکی اہمیّت کے پیشِ نظر امام بخاری رحمہ اللہ  نے الجامع الصحیح میں ان الفاظ میں عنوان قائم کیا ہے ’’بات کہنے اور عمل کرنے سے پہلے علم حاصل کیا جائے‘‘ کیونکہ علم ہی بات میں درستی اور عمل میں راست بازی پیدا کرتاہے۔ امام عسقلانی رحمہ اللہ نے شرح صحیح بخاری میں ، ابن المنیر کے الفاظ میں اس کی تشریح اس طرح کی ہے کہ ’’امام بخاری رحمہ اللہ  یہ عنوان قائم کرکے بتلانا چاہتے ہیں کہ قول وعمل کی صحّت کے لئے علم شرط ہے اس کے بغیر یہ دونوں ناقابل اعتبار ہیں اور یہ ان دونوں سے مقدّم ہے‘‘ ۔ ) فتح الباری : ج۱ : ص ۱۶۰)

ابو حیان اندلسی رحمہ اللہ  فرماتے ہیں کہ ’’نیکی کی دعوت اور امر بالمعروف ونہی عن المنکر کے قابل وہی شخص ہے جو معروف اور منکر کو جانتاہو جو اسے نافذ کرنے اور اس پر عمل پیرا ہونے کے طریقے سے آشنا ہو، جاہل تو ممکن ہے کہ برائی کرنے اور نیکی سے رُک جانے کی دعوت بھی دینے لگ جائے ، نرمی کی جگہوں میں شدّت اور اس کے برعکس رویہّ اختیار کرلے‘‘۔(تفسیر البحر المحیط: ج۳: ص ۲۰)

یہاں میں اہل علم کو دوباتیں بتانا چاہوں گا۔

۱۔ کسی چیز کو یاد کرلینااسے سمجھنے سے مختلف ہے، اسی طرح بصیرت حاصل کرنا کسی چیز کو معلوم کرنے سے بالاتر درجہ ہے۔ اکثر لوگ سمجھتے ہیں کہ صرف یاد کرلینے سے علم حاصل ہوجاتاہے، یہی وجہ ہے کہ وہ عالم ہونے کا دعویٰ کرنے لگ جاتے ہیں اور ایسی باتیں اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کرتے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے فرمائی نہیں اور ایسے مسائل بیان کرتے ہیں جن کی اللہ تعالیٰ نے کوئی دلیل نازل نہیں فرمائی ۔ وہ محض حفظ کرلینے کے بعد خود کو عالم بلکہ علّامہ سمجھنے لگتے ہیں۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ  فرماتے ہیں  : ’’کچھ لوگ علم کے ابجد حفظ کرتے ہیں ان میں قرآنِ مجید کے عالی مرتبت ابجد بھی شامل ہیں لیکن انہیں فہم واِدراک نہیں ہوتا‘‘۔ ( الفتاوی : ج۱۱: ص ۳۹۷)

 ہر صاحبِ علم فقیہ اور صاحبِ بصیرت نہیں ہوتاہے۔ علم حاصل کرنا اس کا فہم حاصل کرنے سے مختلف ہے اور اسے کارآمد لانے کی بصیرت ایک دوسری چیز ہے۔

۲۔کسی چیز کا علم ہونے اور علم ظاہر کرنے میں اسی طرح عالم وخود نما عالم، میں فرق کرنا ہوگا یہ چیز دروس ، خطابات اور باہمی مکالمہ جات میں انتہائی ضروری ہے ۔ اکثر داعی جو خود گمراہ ہوتے ہیں اور گمراہی پھیلاتے ہیں وہ خود کو عالم سمجھتے ہیں حالانکہ وہ خود نما عالم ہوتے ہیں۔ یہ چیز علم اور اظہارِ علم میں فرق نہ کرنے کی بناپر ہے۔

خارجی ، معتزلی، جہمی اور دیگر فرقوں میں سے ان کے ہم نشین لوگوں کی یہی صورتِ حال ہے۔ علماء کو اپنے دروس میں علم اور اظہارِ علم ، عالم اورخودنما عالم میں فرق ضرور بیان کرنا چاہیے۔اکثر سامعین نیک نیّت ہوتے ہیں ممکن ہے وہ اس سے سبق حاصل کرلیں۔ اس بات کے اختتام سے پہلے یہ ذکر کرنا مناسب ہوگا کہ علم کی شرط عام نہیں ہے کہ ہر داعی کے لئے تمام علوم سے بہرہ ور ہونا ضروری ہو، ہرگز نہیں ۔شرط صرف یہ ہے کہ داعی کو اپنی دعوت سے متعلق معلومات ہوں تاہم داعی جتنا بڑا عالم ہو اتنا ہی زیادہ بہترہے۔ بہت سے مبلّغ جو اپنی دعوت پر بصیرت رکھتے ہیں اپنے سے بڑے ایسے عالم سے بہتر ہوتے ہیںجو بصیرت سے محروم ہو۔ یہاں علم سے مراد شریعت کا علم ہے جس کی طرف شروع میں بھی اشارہ کیا گیا ہے یعنی اس کے پاس توحید، اس کی اقسام، ارکانِ ایمان ، ارکانِ اسلام ، دین کی مبادیات ، اس کے عام اُصول ،سنن اور بدعات کا علم ہو۔ عبادت، اس کی اقسام ، فرض اور نفل ہونے کے لحاظ سے اس کی شرعی حیثیّت ، احکامِ خمسہ ، فرض ، مستحب ، حرام ، مکروہ، جائز اور اس جیسی دیگر معلومات سے بہرہ ور ہو۔

جب ایک مسلمان پر نیکی کاکام کہنے ، نصیحت کرنے، برائی سے روکنے کی ذمہ داری آجائے اور وہ اس کے بارہ میں علم بھی رکھتا ہوتو بقدرِدانست اس امانت کو ادا کرنا اس پر فرض ہوجائے گا۔ ایسے میںداعی کا عالم مطلق ہونا شرط نہیں اور نہ سابقہ تفصیلات جاننا شرط ہے۔

(جاری ہے)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے