حج بیت اللہ کا موسم اپنے فضائل و برکات کے ساتھ مسلمانانِ عالم کے لئے نویدِ جانفرا لے کر آیا ہی چاہتا ہے۔ جس میں اسوۂ ابراہیمی کی پیروی میں حصول تقویٰ کے لئے قربانی کا عظیم فریضہ بھی شامل ہے۔ جو سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی حیاتِ طیبہ کے بعض واقعات کی یادگار کے طور پر ادا کیا جاتا ہے۔ حج اور قربانی دونوں آپ علیہ السلام کی ذاتِ عالی کا مرکز و محور ہیں۔

سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی پوری زندگی ابتلاء و آزمائش کی داستان ہے۔ آپ کی پوری حیاتِ طیبہ میں ابتلاء و آزمائش کا سورج نصف النہار پر رہا۔ قرآن حکیم میں اس کیفیت کو چند الفاظ میں سمویا گیا ہے۔

ارشادِ ربانی ہے:

’’اور جب ابراہیم کو ان کے رب نے کئی باتوں میں آزمایا تو آپ ان میں پورے اترے‘‘۔(البقرہ124)

ازروئے قرآن حکیم انسان کی اس دنیوی زندگی کی اصل غرض و غایت ہی امتحان اور آزمائش ہے۔

ارشادِ خداوندی ہے۔

’’(اللہ)وہی ہے جس نے موت اور زندگی کو اس لئے پیدا کیا کہ تمہیں آزمائے کہ تم میں کون بہتر عمل کرتا ہے‘‘(الملک2)

اسی حقیقت کو ایک دوسرے مقام پر یوں فرمایا:

’’ہم نے انسان کو (مرد اور عورت) کے مخلوط نطفے سے پیدا کیا تاکہ ہم اسے آزمائیں، پھر اسے سننے والا اور دیکھنے والا بنادیا۔‘‘(الدھر2)

اس کائنات میں انسان کی فوز و فلاح اور نجاتِ اخروی، اللہ تعالیٰ کی حقیقی معرفت، اور رضا و خوشنودی اور اس کی سرشاریٔ محبت پر منحصر ہے۔ چنانچہ اسی کے حصول کے لئے ایک طرف انسان کی عقل و فہم کا امتحان لیا جاتا ہے تو دوسری طرف اس کی فطرت سلیمہ کو پرکھا اور جانچا جاتا ہے۔ انسان کی باطنی کیفیت کے بارے میں نبی مکرم ﷺ کا ارشادِ پاک ہے:

’’ہر بچہ فطرت سلیمہ پر پیدا ہوتا ہے، پھر اس کے والدین اسے یہودی، مجوسی اور نصرانی بنادیتے ہیں۔‘‘(بخاری حدیث1385، ابوداؤد ، حدیث:4714)

چنانچہ یہی وہ فطرت سلیمہ ہے جس کی صحت کا امتحان مطلوب ہوتا ہے، اور انسان کی عقل و خرف اس امتحان کے لئے ممد و معاون ہوتی ہے۔ چنانچہ انہی دو زاویوں سے انسان کے حوصلہ و ہمت، اس کی عزیمت اور سیرت و کردار کی پختگی کا جائزہ لیا جاتا ہے۔

سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو سب سے پہلے اسی فطرت سلیمہ اور قلب سلیم کی آزمائش کے کٹھن مراحل سے گزارا گیا۔ آپ نے جس ماحول میں آنکھ کھولی وہاں شرک و کفر کی مکمل تاریکی چھائی ہوئی تھی۔ کہیں بتوں اور مورتیوں کی پرستش ہورہی تھی تو کہیں ستاروں، سیاروں اور چاند و سورج کو پوجا جارہا تھا۔ پھر ملک پر ایک مطلق العنان مشرک اور جابر بادشاہ مسلط تھا، جو خدائی کا دعویدار تھا، گویا شرک اعتقادی اور شرک عملی دونوں عروج پر تھے۔ نورِ الٰہی کا کوئی ٹمٹماتا ہوا دیا بھی کہیں نظر نہ آتا تھا۔ اسی فسق و فجور کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے اپنی فطرت سلیم اور عقل صحیح کی روشنی میں ایک نعرۂ رندانہ لگایا کہ

’’بلاشبہ میں نے یکسو ہوکر اپنا چہرہ اس کی طرف پھیرلیا ہے، جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور میں مشرکین میں نہیں ہوں۔‘‘(الانعام79)

اس نعرہ کی گونج اس معبود باطل کے ایوانوں سے ٹکرائی تو ایک ہلچل مچ گئی، کفر و الحاد کے اس بحر مردار میںجواربھاٹا آگیا۔ جبکہ دوسری طرف سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے اس قلبِ سلیم اور فطرت سلیم کی طہارت اور پاکیزگی کی صفات اللہ تعالیی نے تحسین کے کلمات ارشاد فرمائے۔ جب آیا وہ(ابراہیم علیہ السلام) اپنے رب کے پاس ایک قلب سلیم کے ساتھ،(الصّافات84)

گویا عقل و فہم اور معرفت رب کے اس کٹھن امتحان میں نمایاں کامیابی حاصل ہوگئی۔ اب دوسرے مرحلہ امتحان کی شروعات ہوئی جو صبروثبات، استقامت، صعوبتوں، کٹھنائیوں اور غیر متزلزل عزم و ارادہ کا امتحان تھا۔ چشم تصور سے دیکھئے ! ایک طرف ایک یک و تنہا نوجوان ہے، اور دوسری جانب گمراہیوں اورشرک کی کثافتوں میں لتٹھری ہوئی پوری سوسائٹی اور ایک پورا نظام کار فرما ہے۔ جس کی جڑیں پوری قوم کی فکر و نظر میں پیوستہ ہیں۔

لیکن یہ نوجوان عزم و ہمت کے تمام مراحل طے کرتا، صبر و ثبات کی تنگ گھاٹیاں عبور کرتا، حوصلہ مندی، تحمل و برداشت اور ایثار و قربانیوں کے کوہ گراں کو توڑتا اور ریزہ ریزہ کرتا ہوا اپنی منزلِ مقصود کی جانب خراماں خراماں گامزن رہا۔ محبت الٰہی کے اس سودائی نے اپنی مضبوط قوت ارادی کا مظاہرہ کرکے پوری قوم کو غیض و غضب کی آگ میں جھلسا دیا۔ چنانچہ اس ذلت آمیز شکست پر پورے نظام باطل کے علمبرداروں اور سوسائٹی کے سورماؤں نے پیچ و تاب کھاتے ہوئے سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو آگ کے ایک بڑے الاؤ میں ڈالنے اور جلاکر بھسم کردینے کا حتمی فیصلہ کرلیا۔ لیکن یہ ہولناک خبر سن کر بھی آپ علیہ السلام کے پائے استقلال میں کوئی ضعف واقع نہ ہوا۔ عشق کی اس بلند پروازی اور جذب و آگہی کے اس مظاہرہ پر عقل بھی انگشت بدنداں رہ گئی۔

بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق

عقل ہے محوِ تماشائے لب بام ابھی

محبت حقیقی اور معرفتِ الٰہی کی برکات جلوہ کناں ہوئیں اور آگ کا دھکتا ہوا الاؤ ٹھنڈک اور سلامتی والا چمن زار بن گیا۔ اور بدن کو حیاتِ نو حاصل ہوگئی تو محبوبِ الٰہی کی زبان سے یہ کلمات ادا ہوئے۔

’’میں اپنے رب کی طرف ہجرت کر رہا ہوں، یقیناً وہ مجھے راہ یاب کرےگا۔‘‘(الصافات99)

اور یوں سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے اپنے وطن مالوف، گھربار کو خیرباد کہا اور اپنے آباؤ و اجداد کی سرزمین کو حسرت و یاس سے دکھتے ہوئے ایک ان دیکھی منزل اور انجانی راہوں پر چل پڑے۔ اگر کوئی سہارا تھا تو اسی وحدہٗ لاشریک کا جس کے لئے ساری دنیا کو تج دیا تھا۔

سیدناابراہیم علیہ السلام کی ہجرت کی یہ داستاں مسلسل مسافرت اور مہاجرت سے عبارت ہے۔ آج شام میں ہیں تو کل مصر میں، شرقِ اردن میں اگلے روزِ حجاز میں۔ بس ایک ہی سودا ذہن میں سمایا ہوا ہے کہ توحید کا کلمہ چہار دانگ عالم میں بلند ہو اور دعوتِ توحید کے مراکز جابجا قائم ہوجائیں۔ جب بڑھاپے کے آثار کچھ زیادہ ہی نمایاں ہونے لگے تو فکر دامن گیر ہوئی کہ میرے بعد اس مشن کو کون سنبھالے گا یہ سوچ کر بے اختیار یہ دعا زبان پر آگئی ! پروردگار! مجھے نیک وارث عطا فرما!

دعاکو شرفِ قبولیت حاصل ہوا اور ستاسی برس کی عمر میں اللہ نے ایک ایسا بیٹا عطا کیا۔ جسے خود اللہ نے غلامٌ حلیمٌ قرار دیا۔ لیکن ابھی عشق کے امتحان اور بھی ہیں۔ کے مصداق بیٹا جوان ہوا اور اس قابلِ ہوا کہ باپ کا دست و بازو بن سکے حکم الٰہی ہواـ: ’’اپنے بیٹے کو قربان کردو‘‘ حکم سنتے ہی باپ کو یوں محسوس ہوا کہ گویا کائنات کی نبضیں ڈوبنے لگی ہوں وقت کی رفتار یکایک تھم گئی ہو بام و درلرزنے لگے ہوں۔ مگر جس نے اپنی پوری زندگی آزمائشوں کی چکیوں میں پستے ہوئے بسر کی ہو، بھلا اس کے پائے ثبات میں کوئی لغزش کیسے آسکتی ہے؟ دوسری طرف بیٹا انتہائی سعادت مند اور صبر و استقامت کا پیکر تھا۔ حکم خداوندی کے سامنے سرِ تسلیم خم کرتے ہوئے باپ سے کہا: ابا جان ! کر گزرئیے! جو کچھ آپ کو حکم دیا جارہا ہے ۔ بوڑھےباپ نے جواں سال اکلوتے بیٹے کو زمین پر لٹایا اور بے دریغ گلے پر چھری پھیردی، رحمت الٰہیہ جوش میں آئی اور بیٹے کی جگہ مینڈھا ذبح ہوگیا۔ مقصود بیٹے کی جان لینا نہیں تھا بلکہ بوڑھے باپ کا پیرانہ سالی میں آخری اور کڑا امتحان لینا مطلوب تھا۔ یہ کیسا امتحان تھا؟ جس میں ممتحن کو خود ہی بس کرنا پڑی؟ بیٹے کی جگہ مینڈھے کی قربانی بطورِ فدیہ قبول ہوئی اور اس کی یاد گار کے طور پر رہتی دنیا تک کے لئے جانوروں کی قربانی کا یہ سلسلہ دراز کردیاگیا۔ یہ تھی ایک سچے اور محبّ الٰہی کی زندگی کی ایک تصویر اور ایمان حقیقی اور تصدیق بالقلب کی صحیح تعبیر۔ بقول مولانا محمد علی جوہر

یہ شہادت گہہ الفت میں قدم رکھنا ہے

لوگ آساں سمجھتے ہیں مسلماں ہونا

سورۃ الحج میں دو ہی بنیادی ارکان کا ذکر ہے۔ ایک اللہ کے نام پر جانوروں کی قربانی اور دوسری طرف بیت اللہ اور ان میں بھی زیادہ زور اور اصرار قربانی پر ہے۔ رسول اکرم ﷺ سے زید بن ارقم رضی اللہ عنہ ایک روایت نقل کرتے ہیں کہ آپ ﷺ سے دریافت کیا گیا: اے اللہ کے رسول ! ان قربانیوں کی نوعیت کیا ہے؟ آپ نے جواب میں ارشاد فرمایا: یہ تمہارے باپ ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے۔(مسند احمد، ابن ماجہ)

گویا جانوروں کی یہ قربانیاں اصلاً علامت ہیں امت کی اطاعت و فرماںبرداری اور تسلیم و انقیاد کی۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن حکیم میں ارشاد ہوا

اللہ تک نہیں پہنچتا ان قربانیوں کا گوشت یا خون، ہاں! اس تک تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے۔(الحج37)

ہماری قوم کا المیہ یہ ہے کہ ہم نے اس مقدس فریضہ کو بھی محض رسم بناکر رکھ دیا ہے۔ اس میں بھی ریاکاری، دکھاوا، اور لوگوں کی تعریف و توصیف سے خوش ہونا، ہمارا مزاج بن گیا ہے۔ جبکہ للّٰہیت اور اخلاص ہماری قربانیوں میں مفقود ہے۔ بقول اقبال

رگوں میں وہ لہو باقی نہیں ہے

وہ دل، وہ آرزو باقی نہیں ہے

نماز و روزہ و قربانی و حج

یہ سب باقی ہیں تو باقی نہیں ہے

ہر سال لاکھوں مرد و خواتین حج بیت اللہ کی سعادت حاصل کرتے ہیں اور کروڑہا جانوروں کی قربانی دی جاتی ہے۔ لیکن روح تقویٰ کہیں نظر نہیں آتی جو اصلاً مطلوب ہے جس کی رسائی بارگاہِ الٰہی تک ہے۔ اللہ تعالیٰ کے لئے کئے ہوئے جس عمل میں اخلاص، نیک نیتی اور حبّ الٰہی کا جذبہ نہ ہو، ایسا کوئی عمل اللہ کے ہاں معتبر نہیں کیونکہ نیت کی تبدیلی سے شریعت کے اصول بدل جاتے ہیں اور انسان کا بڑے سے بڑا عمل صفر ہوجاتا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے