کوئی بھی چیز اپنی حد سے تجاوز کرجائے تو ہلاکت کا موجب بن جاتی ہے کہ یہی فطرت کا قانون ہے۔

ہم اس وقت جس معاشرے میں زندگی گزار رہے ہیں ، وہ بد مزاج، چڑچڑے، غصہ ور اور جھنجھلاہٹ کا شکار لوگوں کا معاشرہ ہے ، ہر شخص دوسرے کے لیے اپنے دل میں غصہ، کدورت اور نفرت کا الاؤ دہکائے پھرتاہے۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر چراغ پا ہوجانا، سودا سلف خریدتے ہوئے گاہکوں اور دکانداروں کی تو تکار ، سفر کےدوران مسافروں اور کنڈکٹروں کا دست وگریباں ہونا۔ سب سے زیادہ تشویشناک امر یہ ہے کہ ازدواجی تعلقات میں بھی حساسیت اتنی شدت اختیار کرچکی ہے کہ معمولی معمولی باتوں پر نوبت طلاق تک جا پہنچتی ہے۔ گزرے وقتوں کی بات ہے کہ اگر خاندان میں کسی لڑکی کو طلاق ہوجاتی تھی تو لوگوں کی آنکھیں پھٹی اور منہ حیرت سے کھلے رہ جاتے تھے ، اور بزرگ مرد وخواتین کانوں کو ہاتھ لگا کر سرگوشیوں میں یہ بری خبر ایک دوسرے کو سناتے تھے مگر آج یہی طلاق گڑیا گڈے کا کھیل بن گئی ہے اور اسی پر کیا منحصر ہے۔ ہمارا معاشرہ تو بے حسی کا انمول شاہکارہے۔ شہر میں روزانہ قتل ہونے والوں انسانوں کی تعداد اس طرح معلوم کرتے ہیں جیسا کہ سبزی کے دام معلوم کررہے ہوں۔ اگر غصہ آتاہے تو صرف اپنی ذات کے حوالے سے آتاہےکہ اپنی ناک پر کہیں مکھی نہ بیٹھ جائے۔

غصہ دراصل ایک نفسیاتی اورہیجانی کیفیت کا نام ہے۔اس میں کچھ شک نہیں کہ وطن عزیز کے دگرگوں حالات وواقعات نے عام آدمی کی زندگی سے چین سکون چھین لیاہے۔ ہر وقت انجانے سے خوف کے مہیب سائے حواس پر سوار رہتے ہیں، پھر معاشی حالات کا بحران اس قدر شدید ہے کہ عوام الناس کی حیثیت حیوانوں سے بدتر ہوکر رہ گئی ہے۔ کمر توڑ مہنگائی ، بجلی،پانی، گیس کی عدم دستیابی، اس پر مستزاد بھاری بھر کم یوٹیلیٹی بلز کا عذاب ، کولہو کے بیل کی طرح سارا دن جتے رہنے کے باوجود بھی بنیادی ضروریات کا حصول جوئے شیر لانے کے مترادف ہے جبکہ دوسری جانب ملک کا دولت مند طبقہ مزید دولت مند ہوتا جارہاہے۔ غریب کی اولاد کا پیٹ نہیں بھرتا اور ان بے فکروں کی اولادیں شہزادوں کی سی زندگی گزار رہی ہیں۔ یہ اندھیر نہیں تو کیا ہے ۔ اب ان روح فرسا حالات میں غریب اور مفلوک الحال آدمی غصہ ہی کرسکتاہے۔ پیچ وتاب کھاتا ہے اور اندر ہی اندر گھٹتا رہتاہے یاپھر کسی کا غصہ کسی پر اترتاہے۔ دودھ میں ابال آتے وقت اگر چولھا بند نہ کیاجائے تو وہ برتن سے باہر نکل جاتاہے۔ بپھرے ہوئے سمندر کی موجیں ساحل پر بیٹھے کھلونوں سے کھیلتے معصوم بچوں کو بھی بہالے جاتی ہیں۔ اس لیے کہ

ان نا مساعد حالات کے بارے میں شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ :

’’ سونے چاندی کے انباروں سے زیادہ خطر ناک وہ طرز معاشرت ہے جو امیر غریب میں امتیاز قائم کرکے غریب کے دل میں سرمایہ کاری کی ہوس اور شاہ پرستی کا شوق پیدا کرتی ہے۔ سونے چاندی کے برتن، زرق برق ریشمی لباس، فیشن اور تکلفات، دولت مندوں کے دماغوں میں کبر وغرور اور تصور میں برتری پیدا کرتے ہیں۔ یہ طرز معاشرت ناداروں کے دلوں میں حرص وطمع کی خواہش پیدا کرتی ہے ، جو ان کو زیادہ رشوت ستانی چوری وخیانت، استحصال بالجبر اور عصمت فروشی پر آمادہ کردیتی ہے ۔ ( شعور وآگاہی از مولانا عبید اللہ سندھی)

انسان کا احساس محرومی، سیاسی اور معاشی جبر، اس کے غصہ اور نفرت میں بتدریج اضافہ کا سبب ہے۔ ظاہر بات ہےکہ ہر شخص کی قوت برداشت کا ایک مخصوص پیمانہ ہوتاہے ، جب وہ آخری کنارے تک بھر جائے تو چھلک پڑتاہے، جس طرح دل پر گہری ضرب لگنے سے آنکھیں چھلک پڑتی ہیں۔ یہ صورت حال پیدا ہوجائے ، تو پھر نہ رشتوں کا تقدس قائم رہ سکتاہے نہ انسانیت کا بھرم۔ پھر اپنی اپنی ڈفلی اور اپنا اپنا راگ والا معاملہ ہوجاتاہے پھر کسی فرد سے اچھے برتاؤ اور تحمل مزاجی کی توقع عبث ہے۔ مولانا رومی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : اگر انگور پک جائے تو اسے واپس کچے پن پر لوٹایا نہیں جاسکتا۔

غصہ، نفرت اور باہمی تعلقات میں خلیج کا ایک بڑا سبب انسان کے باطن میں کھوٹ ہونا ہے ، وہ ہے اس کی اناپرستی کا شاخسانہ۔ ہر شخص اپنی بات، اپنی رائے اور صرف اپنی ذات کی برتری چاہتاہے ۔ ’’ جو میں کہہ رہا ہوں صرف اسی کو مانا جائے۔ کیونکہ اس میں سب کی فلاح اور بھلائی ہے۔‘‘ اور جب یہ نہیں ہوتا توپھر غصہ سر چڑھ کر بولنے لگتاہے۔ متعدد گھرانوں میں مزاج کے ٹکراؤ اور ہم آہنگی نہ ہونے کی وجہ سے مسائل جنم لے رہے ہیں حالانکہ مکمل ذہنی ہم آہنگی تخلیق کے مقاصد ہی میں نہیں ہے ۔ ہر دماغ کو قدرت نے مختلف لائحہ عمل دے کر دنیا میں بھیجا ہے، جس کے تحت وہ عمل کرتاہے۔

گلہائے رنگ رنگ سے ہے زینت چمن

اے ذوق ! اس جہاں کو ہے زیب اختلاف سے

انسان کی اس معکوس سوچ کی اصل وجہ اس کی فکری اور نظری اٹھان ہے۔ یہ اس ماحول اور تربیت کا اثر ہے جس میں اس نے آنکھ کھولی اور جن خطوط پر اس کی نشوونما کی گئی۔

اب سوال یہ ہے کہ ان ناموافق ، غیر متوازن اور مایوس کن حالات کی درستگی کے لیے کیا لائحہ عمل اختیار کیا جائے۔ اس کا بس ایک ہی حل ہے کہ تمام معاملات اور تعلقات کا مرکز محور صرف اللہ کی ذات کو بنایا جائے۔ اگر اللہ سے تعلق درست ہے تو دیگر تعلقات بھی از خود درست ہوجائیں گے۔ اگر اللہ سے رشتہ کمزور یا FAIR نہیں تو دوسرے تعلقات بھی کشیدہ منتشر اور پراگندہ رہیں گے۔

سقراط نے کہا تھا : ایک نیک آدمی کو شر کبھی نقصان نہیں پہنچا سکتا، نہ اس دنیا میں اور نہ اُس دنیا میں ، اور نہ ہی کبھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کے معاملات نظر انداز کیے جاتے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے