اللہ تعالی نے اسلام کو دائمی دین کی حیثیت دی اس اعتبار سے ابدی نجات کا انحصار دین اسلام کی تعلیمات پر عمل کی صورت میں ہی ممکن ہے اور دین اسلام کی تعلیمات پر عمل اسوہ حسنہ کو اختیار کیے بغیر ناممکن ہے اور آپ ﷺکے اسوہ حسنہ کو بنی نوع انسان تک پہنچانے کا اہم ترین فریضہ کائنات میں انبیاء کے بعد مقدس ترین گروہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے انجام دیا۔گویا کہ اسلام کی عمارت صحابہ کرام کے خوبصورت کردار پر تعمیر ہے جو کہ تاقیامت انسانیت کے لیے مشعل راہ بن چکے ہیںاس کی صرف ایک ہی وجہ ہے اور وہ یہ کہ ان لوگوں نے دین متین کی نشرواشاعت اور تحفظ و تقویت کے لیے جو قربانیاں دیں وہ ان خوبصورت وجودوں کے اخلاص ،اسلام کی حقانیت اور اس کے دوام کا بین و واضح ثبوت ہے ۔

اس مقدس جماعت کی فضیلت قرآن مجید ، احادیث نبوی اور اجماع امت سے ثابت ہے کیونکہ یہ وہ جماعت ہے جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زیر سایہ تربیت پائی ہے اور آپ کے انفاس قدسیہ کی پاکیزگی و حرارت کو براہ راست محسوس کیا ہے انہیں کے ذریعے کتاب و سنت اور اسوہ نبویہ کا تحفظ ہوا اور یہ امانت آئندہ نسلوں تک پہنچی اسلام کی پہلی صدی کی تاریخ اس امر پر گواہ ہے ۔

تاریخی روایات کی رو سے صحابہ کرام کے مابین کچھ ایسے واقعات رونما ہوئے جن سے انہیں معصوم عن الخطا نہیںسمجھا جا سکتا اور اگرکسی کو استبعاد ہو اور آج کوئی ان واقعات کی بنیاد پر ان کے اخلاص پر شبہ کرے اور انہیں دنیا کا طلبگار بتائے تو اس سے بڑا ظلم کیا ہو سکتا ہے ؟

صحابہ کرام کے مابین رونما ہونے والے ان واقعات کے بارے میں کچھ بھی لکھنے سے قبل مناسب معلوم ہوتا ہے کہ خطیب بغدادی رحمہ اللہ کا اپنی معروف تالیف ’’الکفایہ‘‘ میں اور ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ کا اپنی معروف تالیف ’’الاصابہ‘‘ میں صراحتا موقف بیان کر دیا جائے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علہیم اجمعین کی عدالت کا ثبوت فرمان باری تعالی اور ارشادات نبوی سے ہوا ہے اس لیے اس میں کسی شک اور شبہ کی کوئی گنجائش نہیں ۔

تفصیل کے لیے سورۃ آل عمران آیت نمبر ۱۱۰، سورۃ بقرۃ آیت نمبر ۱۴۳، سورۃ الفتح آیت نمبر ۱۸اور ۲۹، سورۃ الحشر آیت نمبر ۸ اور ۹ وغیرہ ملاحظہ کی جا سکتی ہیں واضح رہے کہ یہ بطور مثال ہیں ورنہ قرآن مجید کی آیات کی بہت بڑی تعداد صحابہ کرام کی فضیلت پر بین گواہ ہے۔

خطیب بغدادی رحمہ اللہ لکھتے ہیں : صحابہ کرام کی فضیلت سے متعلق احادیث کا سلسلہ وسیع ہے اور ان سب کی قرآن مجید سے بھی تائید ہوتی ہے اور صحابہ کرام کی عدالت و پاکیزگی کا ثبوت ملتا ہے اور اس تعدیل کے بعد پھر کسی انسان کی طرف سے تعدیل کی ضرورت نہیں رہ جاتی لیکن بالفرض اگر صحابہ کے بارے میں اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے تعریف وارد نہ ہوتی تو ہجرت ، جہاد ،دین کی مدد، جان و مال کی قربانی ، مشرک آباء و اولاد کا جہاد میں قتل ، دین کی راہ میں خیر خواہی اور ایمان و یقین کی قوت وغیرہ ایسے اوصاف ہیں جو ان کی عدالت و پاکیزگی کے لیے کافی ہیں اور وہ اس طرح سب سے بہتر قرار پاتے ہیں۔

بلکہ امام ابو زرعہ الرازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : جب تم کسی شخص کو صحابہ کرام کی نشان میں تنقیص کرتے ہوئے دیکھو تو یقین کر لو کہ وہ بے دین یعنی زندیق ہے کیونکہ ہمارے نزدیک رسول اللہﷺ اور قرآن مجید دونوں برحق ہیں اور قرآن و سنت کو ہم تک پہنچانے والے یہی صحابہ ہیں اور زنادقہ یہ چاہتے ہیں کہ صحابہ کرام کو مجروح کر کے کتاب وسنت کو باطل ٹھہرا دیں۔

صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے حوالے سے اہل سنت و جماعت کا موقف کیا ہونا چاہیے اس بارے میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اپنی مشہور و معروف تصنیف ـ’’ العقیدہ الواسطیہ‘‘ میں رقم طراز ہیں :

اہل سنت و جماعت کے اصول میں یہ امر بھی شامل ہیں کہ وہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں کسی بھی نازیبا بات سے اپنے دل اور زبان کو محفوظ رکھتے ہیں جیسا کہ درج ذیل آیت میں اللہ تعالی نے ان کی یہ صفت بیان کی ہے :اللہ تعالی فرماتے ہیں : اور جو ان کے بعد آئے ہیں جو کہتے ہیں کہ اے ہمارے رب تو ہمیں بخش دے اور ہمارے ان بھائیوں کو بھی جو ہم سے پہلے ایمان لا چکے ہیں اور ہمارے دلوں میں ان کے تعلق سے کوئی بغض نہ رکھ اے ہمارے رب بیشک تو بڑا مہربان اور رحم کرنے والا ہے (سورۃ الحشر آیت نمبر ۱۰)

نیز اہل سنت و الجماعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس حکم کی تعمیل کرتے ہیں : میرے صحابہ کو گالی مت دو اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے تم میں سے اگر کوئی احد پہاڑ جتنا سونا خرچ کرے تو ان کے ایک مد یا نصف مد کی فضیلت کو نہیں پا سکتا ۔(بخاری ۳۷۶۹، مسلم۲۴۴۶ )

اور اسی باب میں فرماتے ہیں کہ : اہل سنت و الجماعت شیعوں کے طور و طریقہ سے براء ت کا اعلان کرتے ہیں جو کہ صحابہ کرام سے بغض رکھتے ہیں اور انہیں سبّ و شتم کرتے ہیں ۔

اور سب سے خوبصورت بات آپ نے صحابہ کرام کے باہمی اختلافات کے بارے میں اہل سنت و جماعت کا عقیدہ بیان کرتے ہوئے لکھی:

کہ اہل سنت وجماعت صحابہ کرام کے مابین پیش آمدہ اختلافات کے سلسلہ میں توقف اختیار کرتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ ان کے مثالب میں جو روایات مروی ہیں ان میں سے کچھ کی حیثیت تو صرف کذب و بہتان کی ہے اور بعض میں کمی و بیشی کر کے انہیں اصلی حقیقت سے پھیر دیا گیا ہے اور جو صحیح روایات مروی ہیں ان کے تعلق سے صحابہ کرام معذور ہیں وہ اس طرح کہ انہوں نے حق تک پہنچنے کے لیے اجتہاد کی تو کسی کا اجتہاد درست نکلا اور کسی کا غلط۔

لیکن اس کے باوجود اہل سنت یہ عقیدہ نہیں رکھتے کہ ہر صحابی تمام چھوٹے بڑے گناہ سے معصوم و محفوظ ہے بلکہ عمومی طور پر ان سے گناہ سرزد ہو سکتے ہیں لیکن انہیں میں سے بعض کووہ فضیلت و برتری حاصل ہے کہ ان سے اگر کسی قسم کا گناہ سرزد ہو بھی جائے تو فضیلت وبرتری باعث مغفرت ہو گی بلکہ ان کی وہ لغزشیں بخش دی گئی جو ان کے بعد کے لوگوں کے لیے قابل معافی نہیں کیونکہ ان کے پاس گناہوں کی مغفرت کے لیے اعمال تھے جو بعد میں آنے والوں کو حاصل نہیں ہو سکتے ۔

اور کچھ سطور کے بعد لکھتے ہیں کہ :ساتھ ہی یہ بھی ملحوظ خاطر رہے کہ بعض صحابہ کرام کی جو غلطیاں گنوائی جاتی ہیں وہ ان کے فضائل و محاسن یعنی ان کے ایمان باللہ ،ایمان بالرسول ، اللہ کی راہ میں ہجرت و جہاد ، نصرت دین ، علم نافع اور عمل صالح کے مقابلہ میں انتہائی تھوڑی اور معمولی ہیں۔(العقیدہ الواسطیہ)

صحابہ کرام رضوان اللہ علہیم اجمعین کے اختلافات کے حوالے سے امام ابن العربی رحمہ اللہ کی معرکۃ الآراء تصنیف ’’العواصم من القواصم ‘‘ کا مطالعہ از مفید ہو گاجو کہ محب الدین خطیب کے حواشی کے ساتھ چھپ چکی ہے اور اس کا اردو ترجمہ بھی ہو چکا ہے ۔

ا س تمہید کے بعد ہمیں یہ بات کہنے میں کوئی حرج نہیں کہ علوم اسلامیہ کی تدوین و تشکیل صحابہ کرام رضوان اللہ علہیم اجمعین اور ان کے مایہ ناز تلامذہ کے ہاتھوں ہوئی ۔انہی علوم میں سے ایک علم ’’علم تاریخ‘‘ بھی ہے ۔علم تاریخ بھی ایک امانت ہے اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ اس کے ماننے والے علمی مسائل میں انصاف و دیانت کے جذبات کا دامن ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔محبت یا نفرت کے جذبات سے مغلوب ہو کر کسی معاملہ کی اصل حقیقت پر پردہ ڈالنے کی کوشش نہ کریں ۔اور اسلام کی رائے میں یہ احتیاط صرف دینی امور ہی میں ضروری نہیں بلکہ تمام قسم کے علمی مسائل اور جملہ معاملات میں انصاف و احتیاط مطلوب ہے اور اسلام ہمیشہ اس سوچ کی مذمت کرتا ہے کہ کسی بھی متعصبانہ مفاد کی وجہ سے واقعات کو توڑ مروڑ کر پیش کیا جائے۔

محدثین کرام رحمہم اللہ کی مخلص جماعت نے اسلامی تعلیمات کی روشنی میں واقعات و روایات کو پرکھنے کے لیے انتہائی مفید اور نتیجہ خیز اصول و ضوابط وضع کیے ۔اور انہی اصول و ضوابط کی روشنی میں احادیث نبویہ کو پرکھنے کا عظیم ترین کارنامہ انجام دیا گیا۔لیکن افسوس صد افسوس ان اصولوں کو تاریخی روایات اور اس سے متعلقہ علوم پر منطبق نہیں کیا گیا جس کا سب سے پہلا نتیجہ یہ نکلا کہ اہل اھواء اور اعداء باطنیہ و خارجیہ نے ان روایات میں انتہائی نامناسب تصرفات کیے بلکہ ذاتی محبت و نفرت یا باطل نظریات کی تائید کے لیے بے شمار روایات وضع کی گئی ۔ اور واقعات کو بیان کرتے ہوئے الحاق و اضافہ جات کے ذریعے مدعا کو ثابت کرنے کی کوششیں کی گئی لازمی طور پر تحریف و تاویل کی ان منفی کوششوں کا براہ راست اثر تاریخی روایات پر پڑا چنانچہ تاریخی روایات کے ذخیرہ میں ہر قسم کا رطب و یابس موجود ہے بلکہ جماعت اسلامی کے بانی ابو الاعلی مودودی اپنی متنازعہ ترین کتاب ’’خلافت وملوکیت ‘‘ میں ایک مقام پر لکھتے ہیں :

کہ اگر تاریخی روایات کو علم حدیث کے اصولوں پر پرکھا جائے تو ہماری ۹۰ فی صد تاریخ دریا برد کرنی پڑے گی۔(خلافت وملوکیت)

بلکہ تاریخ میں پہلی کتاب تاریخ طبری جس میں واقعات سند کے ساتھ مذکور ہیں لہذا ان روایات کی چھان بین آسان اور ممکن ہو جاتی ہے ۔ اس کتاب کو گہری نظر سے دیکھنے والا قاری بآسانی اس حقیقت تک پہنچ سکتا ہے کہ تاریخ طبری میں روایات کی ایک خاصی معقول تعداد( یعنی تقریبا سات سو سے ایک ہزار تک ) ایک روای لوط بن یحیی ابو مخنف سے مروی ہے اور تاریخ طبری میں مذکور اکثر متنازعہ واقعات اسی راوی سے بیان کیے گئے ہیں ۔ اگر میں یہ کہوں کہ تو مبالغہ نہ ہو گا کہ تاریخ طبری میں سے ابو مخنف کی مرویات کو حذف کر دیا جائے تو اسلامی تاریخ کے چہرے سے بہت سے بد نما داغ دور ہو جائیں گے۔ گو کہ ایسے واقعات کے بیان کرنے میں ابو مخنف اکیلا نہیں بلکہ اس کے ساتھ واقدی جو ثقہ نہیں ہیں (تھذیب التھذیب ۹؍۳۶۳، میزان الاعتدال۳؍۶۶۲)،سیف بن عمر التمیمی جو متروک اور متھم بالکذب ہے (تھذیب التھذیب ۴؍۲۹۵، میزان الاعتدال۲؍۵۵) ،محمد بن سائب کلبی جو کہ کذاب ہے۔ (میزان الاعتدال ۳؍۵۵۶)

اور سب سے حیران کن امر جس کی وجہ آج تک سمجھ میں نہیں آسکی کہ علوم اسلامیہ کی تدوین و تشکیل کے دوران تما م علوم کے اصول و ضوابط وضع کیے گئے بلکہ بعض علوم کی جزئیات تک کے بھی اصول وضع کیے گئے ہیں اصول تفسیر ، اصول حدیث اور اصول فقہ اس کی زندہ مثالیں ہیں لیکن علم تاریخ کے آج تک اصول و ضوابط مدون نہیں کیے گئے ۔تاریخ کی جتنی کتب موجود ہیں یوں محسوس ہوتا ہے کہ بطور تبرک چند باتیں لکھ دی گئی ہیں ان کی عملا تطبیق کہیں نظر نہیں آتی یہی وجہ ہے کہ مقدمہ ابن خلدون اور تاریخ ابن خلدون میں واضح اور بین فرق نظر آتا ہے کہ ابن خلدون نے جن اصولوں اور ضوابط کا ذکر مقدمہ میں کیا ہے جب تاریخ لکھی تو ان کی تطبیق کہیں بھی نظر نہیں آتی۔

اور ایک دوسری مثال’’تاریخ خلیفہ بن خیاط‘‘ کی ہے ۔ امام خلیفہ بن خیاط امام بخاری رحمہ اللہ کے اساتذہ اور معتبر محدثین میں شمار کیے جاتے ہیں خلیفہ بن خیاط حدیث کو بیان کرنے کے لیے سند کا بطور خاص اہتمام کرتے ہیں لیکن تاریخی روایات کو بیان کرتے وقت سند کے ذکر میں تساہل پسندی سے کام لیتے ہیں کیونکہ حدیث کی اہمیت زیادہ ہے اور احکام کا تعلق بھی حدیث سے ہے جبکہ تاریخی روایات پر احکام کا عمل دخل نہیں لہذا اپنی تاریخ میں ایسی روایات بھی بیان کر دیں جن کی اسناد میں انقطاع یا ارسال پایا جاتا ہے اور اس حوالے سے انہوں نے بعض ایسے مجروح رواۃ سے بھی روایات بیان کی جن کی احادیث محدثین کے نزدیک غیر مقبول ہوتی ہیں۔

سچ تو یہ ہے کہ تاریخی روایات کا تعلق بھی اسی مبارک ہستی سے ہے جس کے فرامین ہمارے لیے قابل اتباع ہیں حیران کن امر تو یہ ہے کہ جس مبارک ہستی صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال ہمارے لیے حجت ہیں ان سے متعلق روایات کے بیان کرنے میں تساہل پسندی اور لاپرواہی یا ان دونوں میں فرق کرنا سمجھ میں آنے والی بات نہیں کیا اسوہ حسنہ کا تعلق صرف احکام سے ہے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مکمل حیات مبارکہ کو بیان کرنے والی روایات ۔اور اس تفریق کا سب سے حیران کن پہلو کہ ایک راوی جو حدیث میں ضعیف ہوتا ہے لیکن تاریخ میں امام ہوتا ہے ایسی مثالیں ایک سے زائد پیش کی جا سکتی ہیں جو ہمارا موضوع نہیں۔

حقیقت تو یہ ہے کہ تاریخ ہمیں ایسے ہی پڑھنی چاہیے جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کو پڑھا جاتا ہے کیونکہ جب ہم کوئی حدیث پڑھتے ہیں تو اس امر کی تحقیق کرتے ہیں کہ یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت بھی ہے یا نہیں تو ہمیں تاریخی روایات کو بھی اسی طرح پرکھنا چاہیے لیکن مشکل یہ ہے کہ تاریخ میں بہت سی ایسی روایات ملتی ہیں جن کی سند ہی نہیں اور سند ملتی بھی ہے تو اس کے رواۃ غیر معروف اور مجہول الحال جس کی وجہ سے یہ پتہ ہی نہیں چلتا کہ اہل علم نے ان کی مدح کی ہے یا مذمت۔

لہذا تاریخ کا معاملہ حدیث سے بھی زیادہ دشوار ہو گیا لیکن اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ ہم اس میں تساہل سے کام لیں اور بلا تحقیق تاریخی روایات کو قبول کرتے چلے جائیں ۔اس مرحلے پر سب سے بڑا سوال یہ ہمارے سامنے آجاتا ہے کہ اس طرح تو ہماری تاریخ کا بہت بڑا حصہ ضائع ہو جائے گا۔اول تو یہ مفروضہ ہی صحیح نہیں لیکن بفرض محال اگر ایسا ہے بھی تو ہمارے لیے دین اسلام کی مبارک ہستیوں کی عفت و عصمت اہم ہونی چاہیے یا ان ضعیف روایات کا وجودکا باقی رہنا۔لیکن ایسا نہیں ہو گا اس تحقیقی عمل کے بعد ہماری تاریخ نکھر کر سامنے آ جائے گی۔

تاریخی رویات کی پرکھ میں اصل معیار کو ہر صورت میں مدنظر رکھنا ہے اور اس اصل کا تعلق صحابہ کرام رضوان اللہ علہیم اجمعین سے ہے اور وہ یہ کہ اللہ تعالی اور اس کے مقدس رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کی جو توصیف بیان کی اس کا ماحصل یہ ہے کہ صحابہ کرام عادل ہیں ۔ اب کوئی ایسی روایت ملے جس میں اصحاب رسول پر حرف آتا ہو تو اصول تو یہ ہے کہ اس کی سند دیکھی جائے اگر سند صحیح ہے تو اس کا صحیح مطلب و توجیہہ تلاش کی جائے اور اگر سند ہی ضعیف ہے تو الحمدللہ ۔لیکن اگر اس کی سند نہیں ملتی تو ہمارے پاس ایک اصل موجود ہے اور وہ ہے صحابہ کرام کا عادل ہونا جو کتاب و سنت سے ثابت ہے۔

اس کی ایک واضح مثال سیدنا علی و معاویہ رضی اللہ عنہم کے مابین رونما ہونے والے اختلافات کے حوالے سے بیان کردہ واقعات میں سے ایک مشہور واقعہ تحکیم بھی ہے جس کے مندرجات صراحت کے ساتھ قرآن مجید کی توہین پر مبنی ہیں اس کے باوجود ہم اس واقعہ سے متعلق روایات کا رد کرنے پر تیار نہیں کم از کم اردو میں جتنی بھی کتب لکھی گئی ان سب میں واقعہ تحکیم کم و بیش ضعیف تاریخی روایات سے ماخوذ ہے جس میں صحابہ کرام رضوان اللہ علہیم اجمعین (نعوذ باللہ و استغفراللہ من ھذہ الہفوات)میں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تربیت یافتہ افراد ایک دوسرے کو دھوکہ دیتے ہوئے اور سب و شتم کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔جبکہ قرآن مجید نے صراحت کے ساتھ اعلان کیا :محمد اللہ کے رسول ہیں اور ان کے ساتھ جو لوگ ہیں وہ کفار پر شدید ہیں اور آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ محبت کرنے والے ہیں(سورۃ محمد)

اس طرح کی مثالیں لکھی جائیں تو کتابوں کی کتابیں بھر جائیں گی لیکن مثالیں ختم نہیں ہوں گی ۔ لہذا یہ کہا جا سکتا ہے کہ آج تک ایسی کوئی جامع کاوش نہیں ہوئی جس کے تحت مسلمانوں کی تاریخ کو حشو و زوائد سے پاک کیا جا سکے ایک یہی طریقہ کار ہے جوہمیں اعداء باطنیہ و خارجیہ کی دسیسہ کاریوں سے محفوظ رکھ سکتا ہے ۔

ہماری تاریخ میں ایک غالب عنصر جو اکثریت سے نظر آتا ہے وہ اموی دشمنی پر مبنی ہے یعنی خاندان بنو امیہ کے افراد کی تنقیض کا پہلو عمومی طور پر اس طرح بیان کیا جاتا ہے جیسا بنو امیہ باطل کی اکیلی علامت ہو جس کی بنیاد اموی اور ہاشمی خودساختہ منافرت پر رکھی گئی ہے ۔یہی وجہ ہے اموی خاندان بطور خاص سید نا ابو سفیان رضی اللہ عنہ اور ان کا خانوادہ ہر برائی کا مرکز بنا دیا جاتا ہے گویا کہ ان کا اسلام وقتی جذبات کا نتائج تھا یا مفاد پرستانہ تھا۔اوران سے متعلقہ تاریخ کو اس طرح پیش کیا جاتا ہے جیساکفر و اسلام کی جنگ۔

اور افسوس تواس وقت ہوتا ہے ایسی کتب جو تاریخ پر لکھی گئی ہوں جہاں بھی سید نامعاویہ اور سید نا ابو سفیان رضی اللہ عنہم کا نام نامی آتا ہے تو کوئی دعائیہ سابقہ یا لاحقہ نظر نہیں آتا اور اسی کتاب میں دیگر صحابہ کے ناموں کے ساتھ باالاہتمام دعائیہ کلمات کا سابقہ نظر آتا ہے ۔اموی دشمنی کے پیچھے اصل سبب روافض اور تشیع ہے جن کے اسلامی تاریخ پر اثرات سے کوئی بھی انکار نہیں کر سکتا۔اللہم احفظنا من کیدھم

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے