میری جامعہ ابی بکر الاسلامیہ میں آمد کا بنیادی سبب میرے والد محترم رحمہ اللہ کی اس خواہش کا نتیجہ ہے جو کہ میرے حوالے سے دیکھے گئے خوابوں کی تعبیر کہی جا سکتی ہے ۔میری جامعہ آمد تقریبا ۱۹۸۵م کے لگ بھگ ہے یہ وہی سال ہے جس میں میرے ممدوح محترم استاد الشیخ محمد ظفر اللہ شہید رحمہ اللہ جامعہ الامام ملک سعو د سے M.A کر نے کے بعد واپس آئے تھے۔ایک طویل وقت ان کے ساتھ گزارا جس میں زیادہ تر یادیں جامعہ ابی بکر الاسلامیہ کراچی کی ہیں اور کچھ باتیں شہر نبوت مدینہ المنورۃ کے حوالے سے ہیں اور آخر میںختامہ المسک کے تحت محترم استاد الشیخ محمد ظفر اللہ شہید رحمہ اللہ کی تربیت جس شخصیت کے ہاتھوں ہوئی ان کا ایک واقعہ شامل مطالعہ ہے جس سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ محترم استاد الشیخ محمد ظفر اللہ شہید رحمہ اللہ نے اپنی تربیت کو سچ کر دکھایا۔

محترم استاد الشیخ محمد ظفر اللہ شہید رحمہ اللہ کی شخصیت اتنی جامع اور باکمال تھی کہ ایک مختصر تحریر میں ان کے حسن کردار کا مکمل احاطہ مجھ جیسے عاجز کے قلم کے بس کی بات نہیں بلکہ میں تو ان کی شخصیت کے ان پہلوؤں پر بات کروں گا جو وقتا فوقتا میرے سامنے آئے۔

میں اپنی یادوںکا آغاز شہر نبوت میں پیش آنے والے کچھ واقعات سے کروں گا۔محترم استاد الشیخ محمد ظفر اللہ شہید رحمہ اللہ ذاتی طور پر ہر قسم کے تصنع و بناوٹ اور تکلفات سے کوسوں دور تھے سادگی ان کے مزاج کا خاصہ تھی جس کا مشاہدہ ان کے ہر رفیق نے ہی کیا ہو گا۔

جامعہ اسلامیہ میں میرا زمانہ طالب علمی کا آغاز ۱۹۹۳ سے ۱۹۹۷ تک ہے اس چار سالہ دور میں محترم استاد الشیخ محمد ظفر اللہ شہید رحمہ اللہ ایک سے زائد بارمدینہ منورہ تشریف لائے۔ ایسے ہی ایک مرتبہ میں ساتھی طلباء کے ساتھ مسجد نبوی کے دروازے باب الرحمت پر کھڑا دیگر ساتھیوں کا انتظار کر رہا تھا۔کیونکہ اس دروازے کے سامنے کچھ فاصلے پر یونیورسٹی کی گاڑیاں ہمیں جامعہ لے جانے کے لیے کھڑی ہوتی تھیں ۔اچانک اسی دروازے سے محترم استاد الشیخ محمد ظفر اللہ شہید رحمہ اللہ باہر نکلے اور میں انہیں اچانک اپنے سامنے دیکھ کر حیران رہ گیا بہرحال ایک بات تو طے تھی کہ محترم استاد الشیخ محمد ظفر اللہ شہید رحمہ اللہ ہمیشہ سلام میں پہل کرتے تھے لہذا ابھی بھی ایسا ہی ہوا۔ میں نے ان سے دریافت کیا کہ شیخ آپ یہاں باب الرحمت پر ؟ فرمانے لگے مجھے اندازہ تھا کہ آپ لوگ اسی دروازے سے باہر نکلتے ہیں اور میں نے نماز فجر کے بعد قصیم نکلنا ہے لہذا ملاقات کے لیے یہی وقت مناسب ہو سکتا تھا ۔یہی باتیں ہو رہی تھیں کہ طلباء نے محترم استاد الشیخ محمد ظفر اللہ شہید رحمہ اللہ کو اپنے حلقے میں لے لیا اور اس کے بعد محترم استاد الشیخ محمد ظفر اللہ شہید رحمہ اللہ نے طلباء کو قیمتی نصائح کے ساتھ اپنے وقت کو طلب علم میں گزارنے کی تلقین کی۔اور کہنے لگے آپ لوگوں کا وقت بہت قیمتی ہے لہذا اب جامعہ جائیں ۔اللہ حافظ فی امان اللہ۔

آج ایک طویل عرصہ بعد جب یہ واقعہ میرے سامنے آیا تو میں سوچنے پر مجبور ہو گیا کہ ایک عالم دین اور دین کے طالب علم کے لیے سب سے قیمتی چیز اس کا وقت ہوتا ہے جس کا مظہر اس وقت ہم نے محترم استاد الشیخ محمد ظفر اللہ شہید رحمہ اللہ کے مذکورہ بالا واقعہ میں کیا۔اور یہ ایک واقعہ ہی نہیں بلکہ میں نے ان کی سادہ مزاج زندگی کا کئی مرتبہ مشاہدہ کیا کہ ان کی زندگی ، زندگی برائے زندگی نہ تھی بلکہ زندگی برائے دین اسلام تھی۔اسی لیے انہوں نے اس مختصر وقت میں وہ کام بھی کر لیے جو بڑی بڑی جماعتیں بھی نہیں کر پاتیں۔

اور ایک بات جو صراحتا کہی جا سکتی ہے کہ جو وقت کی قدر نہیں کرتا تو وقت بھی اس کی قدر نہیں کرتا اور عظیم کام کرنے والے تمام لوگوں کی زندگیاں وقت کی قدر سے تعبیر ہیں۔

اسی طرح ایک مرتبہ ہم مسجد نبوی شریف میں نماز تراویح کے بعد فارغ ہوئے تو وہاں محترم استاد الشیخ محمد ظفر اللہ شہید رحمہ اللہ سے ملاقات ہو گئی سلام مسنون اور خیر وعافیت کے بعد میںنے عرض کی کہ شیخ صاحب آج افطاری تو یہاں ہوگئی ہے۔ لہٰذا سحری بھی مدینہ میں ہمارے ساتھ ہو جائے تو ہمارے لیے حوصلہ افزائی ہو گی تو فرمانے لگے کہ بوجہ سفر تھکان کی وجہ سے چند گھڑیاں آرام کرنا چاہتا ہوں اور جامعہ اسلامیہ کے ہاسٹل میں یہ ممکن نہیں کیونکہ وہاں طلباء کرام کی آمد مسلسل بغرض زیارت ہو گی اور مجھے یہ گوارا نہیں کہ کوئی مسلمان بالخصوص دین کا طالب علم میری زیارت کے لیے آئے اور میں اس سے مل نہ سکوں۔لہذا ایسا ہے کہ میں ہوٹل میں آرام کروں گا اس جواب پر ہم نے ان سے کہا کہ ہم بوقتِ سحری آپ کو ہوٹل سے لے لیں گے۔ اور سحری ایک ساتھ ہو جائے گی۔ہمیں اس ملاقات میں محترم شیخ محمود الحسن حفظہ اللہ کی ضیافت کا موقع بھی ملا۔

اس واقعہ سے میں نے عمومی طور پر شیخ صاحب کا دین کے طلباء کے احترام کا عالم دیکھتا تھا کہ ابتدائی درجے کا بھی طالب علم ہو اسے شیخ صاحب کہہ کر مخاطب کرتے تھے۔اور جب بھی مدینہ آمد ہوتی تھی طلباء سے ملاقات کے لیے وقت ضرور نکالتے تھے۔اور ہر ملاقات میں وقت کی قدر کرنےکی نصیحت ضرور کرتے تھے۔

محترم استاد الشیخ محمد ظفر اللہ شہید رحمہ اللہ کے حسن کردار او ر اخلاق سے متاثر ہو کر شرک و بدعات سے تائب ہونے والے محترم عبد الخالق جو کہ مدینہ منورہ میں ہی بغرض ملازت مقیم تھے ان سے نماز مغرب کے بعد ملاقات ہوئی اور ان کا حسب معمول سب سے پہلا سوال محترم استاد الشیخ محمد ظفر اللہ شہید رحمہ اللہ کے بارے میں ہی ہوتا تھا سو انہوں نے محترم استاد الشیخ محمد ظفر اللہ شہید رحمہ اللہ کے بارے میں پوچھا تو میں نے کہا کہ محترم استاد الشیخ محمد ظفر اللہ شہید رحمہ اللہ پرسوں سے آئے ہوئے ہیں ۔۔ ابھی میری بات پوری ہی نہیں ہوئی تھی کہ انہوں نے التجائی انداز میں کہا کہ افتخار بھائی میں انکی دعوت کرنا چاہتا ہوں ۔اس پر میں نے کہا عبد الخالق بھائی ان سے ملاقات کو غنیمت جانیں ہمیں یہاں آئے ہوئے ڈھائی تین سال ہوئے ہیں ہمیں دو تین سے زائد مرتبہ یہ موقع نہیں ملا۔ لیکن ان کا اصرار تھا کہ افتخار بھائی وہ ہمارے محسن ہیں انہوں نے ہماری اصلاح کی ورنہ ہم تو قبر پرستی میں مبتلا تھے ۔اور شیخ محمد ظفر اللہ رحمہ اللہ تو ہمیشہ میری دعاؤں میں ہوتے ہیں میرے لیے تو بہت بڑی سعادت ہو گی۔میں نے کہا کہ میں کوشش کر وں گا ۔رابطہ کرنے پر معلوم ہوا کہ محترم استاد الشیخ محمد ظفر اللہ شہید رحمہ اللہ اگلے ہفتہ مدینہ منورہ تشریف لا رہے ہیں ۔اور میں نے اس بارے میں عبدالخالق بھائی کو بھی بتا دیا اب وہ روزانہ ملنے کے بعدمحترم استاد الشیخ محمد ظفر اللہ شہید رحمہ اللہ کے بارے میں دریافت کرتے ۔آخر چند دنوں بعد محترم استاد الشیخ محمد ظفر اللہ شہید رحمہ اللہ مدینہ تشریف لے آئے۔ان کے آنے پر بے شمار لوگوں نے جن میں مختلف طلباء اور شہر نبوت کے ساکنین شامل تھے جس میں شیخ صاحب کے قریبی ساتھی شیخ علی سلطان الحکمی رحمہ اللہ بھی شامل تھے ،محترم استاد الشیخ محمد ظفر اللہ شہید رحمہ اللہ کو دعوت دی۔لیکن محترم استاد الشیخ محمد ظفر اللہ شہید رحمہ اللہ نے سب کو ایک بات کہی کہ میں ایک ساتھی کے ہاں مدعو ہوں لہذا سب سے معذرت کی ۔یہ بات واضح رہے کہ محترم استاد الشیخ محمد ظفر اللہ شہید رحمہ اللہ نے اس سے قبل عبد الخالق بھائی سے ملاقات پر ان کی دعوت قبول کر لی تھی۔

وعدہ کی پاسداری اور لوگوں کے ساتھ ان کے حسن معاملات کی یہ ایک ادنی سی مثال ہے ورنہ عمومی طور پر اس درجہ کے لوگ اپنے مرتبہ کے اہل لوگوں سے ہی تعلقات رکھتے ہیں۔ میں نے محترم استاد الشیخ محمد ظفر اللہ شہید رحمہ اللہ کوکبھی ایسا کرتے ہوئے نہیں دیکھا۔آپ رحمہ اللہ نے کبھی بھی یہ نہیں دیکھا کہ مخاطب دنیاوی اعتبار سے کم تر ہے آپ کے پیش نظر صرف اور صرف یہ ہوتا تھا کہ مخاطب اگر ان سے کسی بھی اعتبار سے مستفید ہو سکتا ہے تو اچھی بات ہے۔

محترم استاد الشیخ محمد ظفر اللہ شہید رحمہ اللہ کی جہود کا مظہر اکبر جامعہ ابی بکر الاسلامیہ کی صورت میں ہمارے سامنے ہے جس میں ایک مؤسس کی حیثیت سے محترم استاد الشیخ محمد ظفر اللہ شہید رحمہ اللہ نے اپنا زیادہ تر وقت جامعہ کو دیا غالبا نہیں یقینا جتنا وقت اپنے گھر کو دیا ہو گا اس سے زیادہ وقت جامعہ کو دیا کیونکہ جامعہ کو صرف ایک دینی تعلیمی ادارہ نہیں سمجھتے تھے بلکہ ان کے نزدیک یہ ایک عظیم مشن تھا ۔

اور اس حوالے سے جب بھی کوئی طالب علم جامعہ ابی بکر داخلے کے لیے آتا ان کے لیے وہ اپنی اولاد کی طرح ہی ہوتا تھا جیسا کہ مجھے آج بھی یاد ہے کہ میرے والد صاحب پنجاب سے کچھ سامان لے کر آئے تو اتفاقا جامعہ میں داخل ہوتے ہی ان کی محترم استاد الشیخ محمد ظفر اللہ شہید رحمہ اللہ سے ملاقات ہو گئی سلام دعا کے بعد محترم استاد الشیخ محمد ظفر اللہ شہید رحمہ اللہ نے والد صاحب سے پوچھا کہ یہ کیا ہے اور ابھی والد صاحب جواب دینے ہی نہیں پائے تھے کہ پھر گویا ہوئے کہ یہ صرف آپ کا ہی بیٹا نہیں میرا بھی فرزند ہے۔

میری سماعت میں آج بھی ان کے اس جملے کی مٹھاس اس طرح تازہ ہے جیسے کل کی ہی بات ہو مجھے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے یہ جملہ انہوں نے صرف میرے بارے میں ہی کہا ہوگو کہ میں واقف ہوں کہ وہ ہر طالب علم سے اتنی ہی محبت کیاکرتے تھے۔

معہد ثانوی کے تیسرے سال میں ان کے پاس تزکیہ لینے گیا تو انہوں مجھ سے کہا کہ پہلے تعلیم مکمل کرو پھر میں تمہارے کاغذات خود لے کر جاؤں گا اور اس طرح کتنے طلبا ء کرام کے کاغذات وہ خود لے کر گئے ایسا ہی ایک واقعہ مجھے عزیز ساتھی شاہ فیض الابرار صدیقی جو ابھی جامعہ میں استاد ہیں انہوں نے بھی سنایا۔

اور ختامہ المسک کے تحت میں ان کا ایک ذاتی واقعہ درج کرنا چاہوں گا جس میں اہل مدرسہ علماء حضرات کے لیے بھی درس ہے اور عام لوگوں کے لیے بھی   بہت بڑا سبق ہے ۔

محترم استاد الشیخ محمد ظفر اللہ شہید رحمہ اللہ کے والد محترم عقیدہ توحید پر بہت راسخ تھے اور رزق حلال ان کے لیے کسی بھی عبادت سے بڑھ کر تھا انہوں نے اپنے بیٹے کی تربیت کس طرح کی اور تا وقت وفات کس طرح مصروف عمل رہے اس کا اندازہ اس واقعہ سے ہو سکتا ہے۔

عرصہ دراز کے بعد محترم استاد الشیخ محمد ظفر اللہ شہید رحمہ اللہ کی اہلیہ کے اصرار کی وجہ سے بچوں کے ہمراہ سیر کا پروگرام بنا ۔خلاف توقع بچوں کی خوشی دیکھ کر دادا ابو رحمہ اللہ کو بھی اطلاع ملی عصر کے بعد بچے سیر کو جائیں گے۔نماز عصر کے بعد محترم استاد الشیخ محمد ظفر اللہ شہید رحمہ اللہ کے والد محترم نے ان سے پوچھا کہ کہ تم بچوں کے ساتھ سیر و تفریح پر جا رہے ہو۔محترم استاد الشیخ محمد ظفر اللہ شہید رحمہ اللہ نے جواب دیا جی ابا جی ۔ پوچھا کیسے جاؤ گے ؟ فرمایا گاڑی میںاور ابا جی پٹرول میں اپنے پیسوں سے ڈلواؤں گا اس پر محترم استاد الشیخ محمد ظفر اللہ شہید رحمہ اللہ کے والد محترم کے کلمات ہر مسلمان کے لیے قابل اتباع ہیں کہ رزق حلال کا مطلب کیا ہے۔ محترم استاد الشیخ محمد ظفر اللہ شہید رحمہ اللہ کے والد محترم نے کہا : اور گاڑی تمہارے باپ کی ہے ۔مسجد میں چند لمحات کے لیے خاموشی سی چھا گئی تھی اور پھر کہنے لگے کہ میری طرف سے کوئی اجازت نہیں جاؤ جامعہ کے کام کرو۔محترم استاد الشیخ محمد ظفر اللہ شہید رحمہ اللہ نے ہمیں بتایا کہ میں جامعہ آگیااور رات بچوں کے سونے کے بعد گھر واپس لوٹا۔

کیا تربیت کا یہ انداز مثالی نہیں ہے اس سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ محترم استاد الشیخ محمد ظفر اللہ شہید رحمہ اللہ کی تربیت کن ہاتھوں نے کی ہے جو ایک ایک لمحہ میں حلال اورحرام کی تفریق رکھتے اور شبہات سے بچتے ہیں۔

محترم استاد الشیخ محمد ظفر اللہ شہید رحمہ اللہ کا ایک واقعہ مجھے بطور خاص یاد ہے جس میں حرمین کمپلیکس کی مسجد کی تعمیر شروع ہوئی تو آپ نے وہاں موجود چٹانیں مشین سے تڑوائی اور اس کے بعد پتھر ہٹانے کا مرحلہ درپیش تھا اس حوالے سے محترم استاد الشیخ محمد ظفر اللہ شہید رحمہ اللہ جامعہ سے چھٹی کے بعد بڑے طلباء کو اپنے ساتھ لے جاتے تھے اور سب سے پہلے خود پتھر اٹھانا شروع کیا اور ہمارے اذہان میں سیرت طیبہ کا ایک خوبصورت باب جو تعمیر مسجد نبوی سے متعلق تھا آگیا کہ واقعی محترم استاد الشیخ محمد ظفر اللہ شہید رحمہ اللہ ایک سچے متبع رسالت تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی مسجد نبوی کی تعمیر میں صحابہ کرام کے ساتھ باقاعدہ شریک ہوئے تھے اور یہاں ایک امتی اسی نقش قدم پر چلتا ہوا پھر ایک مسجد کی تعمیر میں اپنے طلباء کے ساتھ شریک تھا۔

رحمہ اللہ رحمۃ واسعۃ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے