پہلا تعارف:

بیت اللہ میں حافظ فتحی مرحوم کی جگہ سلفی پاکستانیوں کا مرکز تھا، 1982؁ وہیں ایک روز ایک ہستی نے پوچھا آپ کا نام سید عبد الحنان ہے، میں نے جواب میں کہاجی ہاں ، پھر پوچھا اسی سال فارغ ہوئے ہو، جواب میں کہا ہاں، پھر پوچھا کوئٹہ بلوچستان سے تعلق ہے؟ جواب میں کہا ہاں۔ کہنے لگے مجھے معلوم ہوا ہے کہ آپ رابطہ عالم اسلامی میں تقرری کے لئے کوشش کر رہے ہو؟ اگر کام بن جائے تو بہتر ورنہ کوئٹہ اپنے گھر جانا ہمیں کوئٹہ میں کام کرنے کے لئے دعاۃ کی ضرورت ہے۔ آپ کی کفالت جامعہ ابی بکر کرے گا۔

یہ مختصر سی پہلی ملاقات تھی، جس کے بعداس ہستی کے بارے میں سوچنے پر مجبور ہوگیا جس نے ایک منٹ کی ملاقات کے دوران مجھے اپنا ہمدرد، ہمنوا اور ہمیشہ کا ساتھی بنادیاتھا۔ وہی شاہینوں کی جماعت کے عظیم سپوت تھے جنہوں نے بر صغیر میں پہلی مرتبہ اعلائے کلمۃ اللہ کی بنیاد پر خلافت راشدہ کے بعد علی منہاج النبوۃ اسلامی نظام کی بنیاد ڈالی تھی۔ اس جماعت کے لوگ جس گلی ، علاقے سے گزرتے وہاں اپنے گہرے نقوش چھوڑ جاتے جن کے اثرات آج بھی نظر آتے ہیں۔ فضیلۃ الشیخ علامہ پروفیسر ظفر اللہ رحمہ اللہ نے بھی بعینہ ان کے نقش قدم کو اپنایا اور پورے پاکستان کے علماء ، خطباء ، طلباء ان کے گرویدہ تھے۔

علامہ پروفیسر شیخ محمد ظفر اللہ رحمہ اللہ سے ملاقات کے بعد چند روز سعودیہ میں ٹھہرا ، رابطہ عالم اسلامی کی جانب سے میری کوئٹہ میں تقرری ہو گئی ۔ کراچی پہنچتے ہی سب سے پہلے پروفیسر صاحب سے ملنے کی خواہش تنگ کر رہی تھی ۔ ذہن میں تأثر تھا پروفیسر کراچی یونیورسٹی ومدیر جامعہ ابی بکر الاسلامیہ کراچی میں کسی بڑی حویلی کے مالک ہونگے۔

گھر کے ڈرائینگ روم میں داخل ہوا تو دیکھا کہ جس کھڑکی پہ پردہ لٹکا ہوا ہے تو اس کی گرل نہ تھی جس کھڑکی پہ گرل لگی ہے توپردہ سے عاری تھی۔ سادہ سا ایک بیڈ کوئی کارپٹ قالین نام کی چیز نہ تھی۔ بچے انتہائی مؤدب اور تربیت یافتہ ، تفصیلی ملاقات اور بلوچستان میں کام کرنے کے بارے میں بہت قیمتی ہدایات لے کر کوئٹہ پہنچ گیا ۔ کچھ ماہ بعد ہی کوئٹہ میں جامعہ ابی بکر الاسلامیہ کی جانب سے علماء اور جامعہ ابی بکر الاسلامیہ کے شیوخ اساتذہ کے دورہ جات شروع ہوگئے ۔ پھرہر ایک دو ماہ کے بعد ایک عالم دین کوئٹہ پہنچ جاتا کبھی مولانا عبد اللہ ناصر رحمانی صاحب ، کبھی مولانا عبد الغفار اعوان صاحب کبھی حافظ مسعود عالم صاحب ، خلیل الرحمن لکھوی ، صوفی عیش محمد صاحب غرض دعوت وتبلیغ کے سلسلے میں مستقل علماء کی آمد رہی یہاں تک کہ جہاد افغانستان کا سلسلہ شروع ہوگیا اور حضرت غازی عبد الکریم اور مولانا عائش محمد صاحب کی قیادت میں ایک عرصہ تک علماء ، طلباء اور عامۃ الناس تک دعوت وتبلیغ کا سلسلہ جاری رہا جسے میں الفاظ میں لکھنے سے قاصر ہوں غرض قلیل مدت میں وہ کام ہوتےجو بیان سے باہر ہیں۔

جامعہ سلفیہ دعوۃ الحق جس کی بنیاد حاجی نور محمد سلفی شہید نے رکھی تھی ایک کمرے سے دعوت حقہ کا آغاز ہوا اور تھوڑے سے عرصہ میں ایک عظیم الشان ادارے کی صورت اختیار کر لی۔ اس ادارےکی آبیاری کرنے میں بھی علامہ پروفیسر شیخ محمد ظفر اللہ رحمہ اللہ کی دلی کوششوں اور اخلاص کا دخل ہے کہ آج یہ ادارہ بلوچستان کے طول وعرض سے آئے ہوئے۔ طلباء کی علمی پیاس بجھا رہا ہے اور ہزاروں طلباء پاکستان اور افغانستان میں دعوۃ الی اللہ کا کام کر رہے ہیں ا س ادارے کی جانب سے سیکڑوں کی تعداد میں طلباء سعودی یونیورسٹیز میں تعلیم حاصل کررہے ہیں۔ ہر ادارے کے مدیر ، مہتمم ، سرپرست کو اپنے ادارہ کی ضروریات ، مصروفیات اور ترجیحات سے وقت نہیں ملتا مگر اس عظیم شخصیت نے بلوچستان میں ہی نہیں پورے پاکستان میں ہر ادارے کو جامعہ ابی بکر الاسلامیہ سے زیادہ اہم سمجھا فیصل آباد ماموں کانجن جامعہ تعلیم الاسلام کی ترقی و خیرو برکت کے لیے ہر وقت ان کا دل دھڑکتا تھا۔ ڈیرہ غازی خان کلیۃ البنات ،مدرسہ عمار بن یاسر انہیں کی محنتوں کاوشوں کا نتیجہ ہے۔ مرکز ابن قاسم ملتان ، کوٹ ادو، ساہیوال، خانیوال ، خانپور جامعہ محمدیہ رحیم یار خان ، داد فتیانہ ،بہاولنگر وغیرہ کئی بار ساتھ جانے کا اتفاق ہوا جس ادارے میں جاتے ایسے معلوم ہوتا جیسے ان کا اپنا ادارہ ہے۔ آخر معلوم ہوتا کہ کسی نہ کسی درجے میں کفالت کا ذمہ لیا ہوا ہے۔ جامعہ میں پروگرام ہو یا سفیرادارہ ہو مجھے فون کرکے بلاتے ۔میں بلوچستان کوئٹہ کا ذکر کر رہا تھا اللہ تعالیٰ مرحوم کو کروٹ کروٹ جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے ۔ دکتور شرہان کو جامعہ سلفیہ دعوۃالحق میں وزٹ کرنے کے لیے مجبور کرنے کی ایک لمبی داستان ہے۔

اس طرح شیخ عدنان عرعور ، شیخ صالح الضیف ، شیخ عقیل اور شیخ صالح الحصین مدیر شؤون الحرمین جیسی شخصیات کے ساتھ خود کوئٹہ بار بار آئے اور انہیں جامعہ سلفیہ دعوۃ الحق کی اہمیت اور بلوچستان میںسلفی تحریک کی جلد کامیابی کی تعبیر میں یقین کے ساتھ ذکر کرتے کہ اس خطے میں زمین بہت زرخیز ہے اگر محنت کی جائے تو بہت جلد کامیابی ہوگی۔

ایک دفعہ کوئٹہ سے چمن کا سفر کررہے تھے بندہ بھی ساتھ تھا کوئٹہ سے ڈیرھ گھنٹہ کی مسافت پہ سرنان ہے اس کے آگے اور پیچھے ہزاروں ایکڑ اراضی بنجر اور میدانوں کی صورت میں پڑی ہے۔ دو تین جگہ راستے میں اترے اور وہاں کی مٹی اٹھا کر اسے مسلا اور سونگھا اور کہنے لگے اگر اس زمین پہ کاشت کی جائے تو بہت عمدہ زمین ہے وہیں بیٹھ گئے اور حساب لگانا شروع کیا کہ ایک سوایکڑ زمین میں اگر ایک ٹیوب ویل لگے تو اس علاقے میں اتنے ٹیوب ویل کی ضرورت ہے میں دل ہی دل میں سوچ رہا تھایہ کس طرح کے منصوبے بناتے ہیں اور یہ شخصیت ایسے ضرب تقسیم کر رہی ہے۔جیسے ایک دو روز میں کام شروع کرنا ہے۔ بہر حال امت مسلمہ خصوصاً سلفی تحریک کو زندہ کرنے کی خواہش مند ہیں۔

ڈیرہ غازی خان ادارہ عمار بن یاسر کی بنیادوں کا کام شروع تھا میں اس سفر میں ساتھ تھا ۔ پروگرام بنا رہے تھے مغربی طرف سے چار ایکڑ زمین اس کے ساتھ اور خریدی جائے وغیرہ میں نے کہا حضرت آپ کراچی میں ہیں اور یہاں ادارہ کون چلائے گا اور نگرانی کرے گا۔ کہنے لگے شاہ جی آپ کو نہیں معلوم یہ کتنا اہم پوائنٹ ہے۔

یہ علاقہ چاروںصوبوں کا سنگم ہے مستقبل میں اس علاقے کی بہت اہمیت ہوگی اس لیے میں نے اس جگہ کا تعین کیا ہے۔

بہاونگر کے قریب دریائے ستلج دونوں طرف زمین خریدنے کا پروگرام بنا ۔بندہ اس سفر میں بھی کئی بار ساتھ تھا۔ دو تین مرتبہ دریائے ستلج کو پیدل پارکیا جبکہ ناف سے اوپر سینے تک پانی ہوتا ۔ میں نے کہا شیخ صاحب زمین تو آپ لے رہے ہیں دریا کو کیا کریں گے کہنے لگے دو تین کشتیوں سے کام چل سکتاہے۔ طلباء چھٹیوں میں آیا کریں گے تربیت بھی ہوگی کھلی فضا ہے ، وغیرہ تفصیل ذکر کرنا مناسب نہیں ادارے کی آمدن کا ذریعہ ہوگا کوئی پتہ نہیں کہ کس وقت باہر سے چندوں کا سلسلہ بند ہوجائے ہمیں اپنے پاؤں پہ کھڑا ہونا چاہیے۔

کوئٹہ میں ملک مقصود عالم مرحوم کے ہاں ناشتہ تھا حضرت غازی عبد الکریم صاحب ، پروفیسر شیخ محمد ظفر اللہ رحمہ اللہ ، مولانا عائش محمد صاحب اور بندئہ عاجز ساتھ تھے ناشتے کے بعد ملک صاحب کہنے لگے کہ حضرت صاحب میں نے ایک پلاٹ ساتھ ہی لیناہے دعا کے لیے چلیں ۔ قریب ہی پٹیل باغ میں ایک خالی پلاٹ کی ملک صاحب نے نشاندہی کی حضرت غازی صاحب نے مولانا عائش محمد صاحب سے کہا کہ آپ دعا کروائیں۔ ہاتھ اٹھائے چاروں پانچوں افراد کھڑے ہوگئے۔ پہلے مولانا نے دعا کی پھر شیخ ظفر اللہ صاحب نے دعا کروائی۔

قریب سے گزرنے والے لوگوں کا خیال تھا کہ یہ مولوی حضرات شاید کسی کی قبر ہےجو اتنی لمبی دعا مانگ رہے ہیں۔ پندرہ بیس منٹ کی دعا میں تکرار کے ساتھ یہ دعا تھی اے اللہ یہاں مجاہدین کا مرکز بنے یہاں سے قافلے جائیں۔ اور یہاں آکر دیکھیں..

آخر میں ملک صاحب کے لیے ایک جملہ کہا : اے اللہ یہ پلاٹ ملک صاحب کو عطا کر اور جس کا پلاٹ ہے اسے اس سے بہتر عطا کر آخر میں میرا بھی دعا میں ذکر ہوا۔ الحمد للہ آج اسی علاقے میں اللہ نے ادارہ جس میں اس وقت تقریباً پانچ سو بچیاں زیر تعلیم ہیں اور ساتھ مسجد لائبریری ہے اس کے ساتھ ہی میرا اور ملک مقصود عالم مرحوم صاحب کا گھر ہے۔

دعا ہے کہ باری تعالیٰ محترم الشیخ محمد ظفر اللہ رحمہ اللہ کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ آمین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے