اللہ تعالیٰ کی ذات لافانی ہے بس اُسی کو بقا ء ہے یا جسے وہ خود فنا کے مرحلے سے گزار کر ایسی عزت و شان عطا فرمائے کہ دُنیا سے مادّی وجود کے مٹ جانے کے بعد بھی اُس کا نام ،کام،یادیں،باتیں ،عزائم اور حوصلے ضرب المثل بن جائیں،تاریخ اُس کے تذکرہ کے بغیر نامکمل ہو ۔حال،اس کی فکری مہک سے معطر ہو اور مستقبل اُس کے خوابوں کی تعبیر بن جائے۔

قرآن کریم نے اپنے انداز میں وَأَمَّا مَا يَنْفَعُ النَّاسَ فَيَمْكُثُ فِي الْأَرْضِ کہ جو انسانیت کے لئے نفع بخش ہوا کرتا ہے وہ زمین پر باقی رکھا جاتا ہے ،کہیں رسول اکرم ﷺکی دعا کسی خوش بخت کے حق میں قبول ہو کر اُسے تروتازہ و سرسبز و شاداب رکھتی ہے کہ نَضَّرَاللّٰہ عَبْدًا سَمِعَ مَقَالَتِیْ ثُمَّ …………الخ دنیا کا ایک دستور رہا ہے کہ وہ شاہوں کے قصیدے اُن کی زندگیوں میں پڑھتی اور زوال اقتدار کے بعد اُن جھوٹے قصیدوں کاابطال کرتی ہے لیکن اللہ والوں کے ساتھ معاملہ عموماً یہ رہا کرتا ہے کہ

جیتے جی کچھ قدر ہوتی نہیں انسان کی

یاد آتی ہیں اُسکی وفائیں اُسکے مرنے کے بعد

نبی کریم ﷺکے فرمان کہ اذکروا محاسن موتاکم کے باوصف استاذی و مرشدی فضیلۃ الشیخ پروفیسر محمد ظفر اللہ رحمۃ اللہ علیہ کا تذکرہ جمیل تو ان کے معاصرین علمائے کرام کے ذریعہ ہی ممکن ہے لیکن چند خوشگوار یادیں ایسی ہیں جو ناچیز کے احاطہ ذہن میں بھی ہیں ۔حضرت شیخ رحمہ اللہ کے بارے میں یہ بات سبھی جانتے ہیں کہ وہ قول سے زیادہ عمل کے دھنی تھی ،سچائی اور سادگی اُن کی ذات کا لازمی حصہ تھی یہ سادگی بناوٹی یا ظاہری نہ تھی قدرتی اور فطری تھی وہ جس بات کو درست سمجھتے اُس کا برملا اظہار کر دیتے اُن کے اکثر دوستوں کو اُن کے اس بے ساختہ پن سے شکوہ بھی رہتا لیکن شاید وہ طبیعتاً غیر سیاسی تھے اس لئے مداہنت اور مصلحت پسندی جیسی اصطلاحات انہیں پسند نہ تھیں۔

دوسری طرف اُن کی ہر لعزیزی کا یہ عالم تھا کہ ہر کس و ناکس انہیں اپنا دوست تصور کرتا تھا ۔یہ سن 80-1979ء کی بات ہے میرے والد محترم ڈاکٹر خورشید احمد شیخ صاحب نے ایک عام سے بے علم شخص کو شیخ ظفر اللہ صاحب کے ساتھ اس طرح بے تکلف دیکھا کہ انہیں شیخ رحمۃ اللہ علیہ کی ملنساری اور خاکساری کا انداز ہ ہو گیا ۔اسی دوران کی بات ہے جب شیخ ،ریاض یونیورسٹی میں داخلے کی تیاری کر رہے تھے ،انہوں نے والد محترم کے تعلیمی کاغذات بھی اپنے ہمراہ لئے ۔بعد میں والد محترم کی دہران میں آرامکو کمپنی میں ملازمت ہو گئی ۔شیخ نے والد محترم کو بتایا میرے ساتھ آپ کا داخلہ بھی ہو گیا ہے میں آپ سے رابطہ کرتا رہا بعد میں پتہ چلا کہ آپ دہران چلے گئے ہیں۔

بہت سی شخصیات ایسی ہوتی ہیں جنہیں اپنی ذات میں انجمن کہا جاتا ہے لیکن ہوتا یوں ہے کہ ان شخصیات کے چلے جانے سے وہ انجمن اور تحریکیں بھی ختم ہو جاتی ہیں، شیخ صاحب کا معاملہ اس سے مختلف ہے کہ عالم اسلام کے قلعہ پاکستا ن میں ایسے عظیم تعلیمی ادارے کی بنیاد رکھی جہاں اطراف و اکناف عالم سے علم دین کے جویا اپنی پیاس بجھانے کے لئے کشاں کشاں کھنچے چلے آئے۔

شیخ صاحب نے بہت نفع کا سودا کیا تھا کہ ایسے عظیم صدقے اور کار خیر کے لئے خود کو وقف کیا جو رہتی دنیا تک جاری رہے گا۔(ان شاء اللہ العزیز)

سن 90-91ء میں عاجز کو بھی حضرت شیخ رحمۃ اللہ علیہ کی زیر سر پرستی آنے کا موقعہ ملا ،آپ سے براہ راست کچھ پڑھا تو نہیں لیکن بہت کچھ سیکھنے کی کوشش کی ہے۔ان میں علم دوستی اور اخلاص کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا ایک ایک پیسہ انہوں نے جامعہ پر لگایا ،اپنے لئے کچھ بنانے کے بجائے جامعہ کی کفالت کے لئے زمینیں اور جائیدادیں بنائیں ،رجال کار تیار کئے۔

سن 93ء میں کراچی میں ایک فرقہ پرست تنظیم ، اہلحدیث مساجد پر حملوں اور قبضوں کے لئے شر انگیزی کر رہی تھی ایسے میں کراچی کے اہلحدث افراد نے شیخ صاحب کی توجہ اس جانب مبذول فرمائی کہ آپ اس حوالے سے اجلاس بلانے کی کوششوں کریں سر پرستی فرمائیں تو آپ نے ایک لمحہ توقف کے بغیر آمادگی کا اظہار فرمایا اور پھر آپکی میزبانی میں ہم نے کل کراچی منتظمینِ مساجد اہلحدیث کا بھر پور نمائندہ اجلاس جامعہ میں منعقد کیا۔

تقریباً 2سے 3 مرتبہ شیخ کے گھر کھانے پر جانے اور تفصیلی ملاقاتوں کی سعادت بھی حاصل ہوئی ،پہلی مرتبہ جب میں شیخ کے گھر پہنچا تو وہاں مجھے سادگی اور تکلف سے پاک ماحول دیکھ کر انتہائی خوش کن حیرت ہوئی کہ اتنے بڑے اور اپنی مثال آپ جامعہ کے بانی اور مدیر کا گھر اور اسقدر سادگی۔ میں بہت دیر تک سوچتا رہا کہ مال و دولت کی اس آزمائش سے اللہ تعالیٰ نے شیخ کو کس طرح سرخرو رکھا ہے ۔

شیخ صاحب ،حضرت صوفی محمد عبد اللہ صاحب کی جماعت مجاہدین کے نائب امیر تھے جس کے ڈانڈے تحریک سیدین شہیدین سے ملتے ہیں وہ عملی طور پر مجاہد تھے اور وجاھدھم بہ جہاداً کبیرا کے تحت جہاد بالقلم میں لگے رہے۔

وہ کراچی یونیورسٹی میں زمانہ تدریس کے دوران طلبہ و طالبات اور اساتذہ میں بہت مقبول تھے جس کا اظہار ایک روز یونیورسٹی میں شعبہ قرآن و سنہ کی استاد، پروفیسر ڈاکٹر شہناز غازی فرما رہی تھیں کہ ہم نے تفسیر کے اسباق شیخ ظفر اللہ صاحب سے پڑھے تھے اُن کی تدریس کا انداز منفرد اور نکات انتہائی قیمتی ہوتے۔

یہ ہی نہیں بلکہ سیکٹروں ،ہزاروں علماء اور شیوخ پاکستان بھر اور دنیا کے مختلف خطوں میں شیخ صاحب کے لئے صدقہ جاریہ بنے ۔تقریر،تحریر ،تدریس اور افتاء کے مناصب پر اپنی ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں۔عاجز خود شیخ صاحب کے جامعہ کے تحت حاصل کردہ پلاٹ پر قائم جامع مسجد ابراہیم خلیل اللہ ،نارتھ کراچی میں عرصہ 12سال سے اعزازی طور پر خطیب کا فریضہ سر انجام دے رہا ہے۔ اللہ سے دعا ہے کہ وہ شیخ ضیاء الرحمن حفظہ اللہ سمیت ہم سب (روحانی اولاد) کو شیخ رحمۃ اللہ علیہ کے لئے صدقہ جاریہ بنائے اور اُن کے نقشِ قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے