گذشتہ دنوںمیں نے جب فضیلۃ الشیخ جناب ڈاکٹر مقبول احمد مکی صاحب کودیکھا کہ آپ ایک انقلابی شخصیت فضیلۃ الشیخ پروفیسر ظفرا للہ رحمہ اللہ کی حیات وخدمات پر خاص نمبر کی اشاعت کے حوالے سےسرگرداں تھے ۔مدیر مجلہ ڈاکٹر مقبول احمد صاحب کو جب بڑی ہی جانفشانی اور انتھک محنت سے لوگوں سے ملتے ،رابطے کرتے ، معلومات جمع کرتے اور انٹرویو کرتے دیکھا ۔ تو دل میں سوچا کہ ڈاکٹر صاحب کو اگر جناب پروفیسر ظفرا للہ رحمہ اللہ کی اپنی انقلابی زندگی کے نشیب وفراز انہی کے ہاتھ سے لکھے مل جاتے تو شیخ کی خوشی اس وقت دیدنی ہوتی۔ لیکن خیر شیخ صاحب نے تو اپنی ٹیم کے ہمراہ ایک بڑا معرکہ سر کر لیا ۔ مگر مجھ ناچیز کے دل میں یہ خیال موجزن ہوا کہ کیوں نہ ایک تحریر تیار کی جائے جس میں تراجم کی اہمیت اور سرگزشت کی افادیت پر ذرا روشنی ڈالی جائے ۔ کہ اگر ایک طالب علم ایک عالم دین اور ایک انقلابی اداری شخص اگر اپنی آپ بیتی اور اپنے تجربات اپنے ہاتھ سے تحریر فرمادے تو بعد میں ان کی حیات پر کام کرنے والوں کے کتنے عقدے حل ہوتے چلے جاتے ہیں اور تاریخی حقائق کی ترتیب کتنی ہی موثوقہ انداز میں ممکن ہوجاتی چلی جاتی ہے ۔ اور اگر بنظرِ افادہ عامہ اور النصح والتذکیر سے دیکھا جائے تو یہ کوئی ریا کاری یا دکھلاوا نہیں ہے بلکہ اس مختصر سی کاوش سے بہت لوگ مستفید ہوتے ہیں اس لئے ہر اس طالب علم وشیخ فاضل ایک انقلابی اداری شخص کو چاہئے کہ کم ازکم وہ اپنی خدمات اور ان کی راہ میں پیش آنے والے مسائل کو انہوں نے کیسے حل کیا ۔مختصرا تحریر فرمادیں کیونکہ کچھ پتہ نہیں یہ جسدِ خاکی کب رب کی ندا پر لبیک کہہ جائے ۔ تاکہ ان کی خدمات سے استفادہ کیا جاسکے ۔

عالم عرب کے ممتاز عالم دین بکر ابو زید اپنی کتاب النظائر میں فرمان باری تعالیٰ : وعلم آدم الأسماء کلھا ۔ کے تحت لکھتے ہیں کہ :

ومن ھنا انتزع أولو النھیٰ شرف العلم بأسماء الرجال ومصاحبۃ أنفاسھم بذکر سیرھم وأخبارھم للاقتداء بصالح اعمالھم ۔ ( النظائر لبکر ابو زید ، ص ۲۱)

اہل عقل ودانش نے علم اسماء الرجال کی فضیلت اور ان کے حالات وواقعات کی تدوین اور ان جیسے اعمال صالحہ کرنے کا آیت مذکورہ سے استنباط کیا ہے۔

تراجم کی تدوین کے کئی ایک طریقے ہوتے ہیں ۔ جیسا کہ بیٹا اپنے والد ، یا کوئی نسبی یا سببی رشتہ دار وقریب اپنے قریب کے تراجم تحریر کردیتا ہے ۔ یا شاگرد اپنے شیخ یا اخلاف اپنے اسلاف کے کارنامے حیات وخدمات کو بطون کتب سے چھان کر جمع کر دیتے ہیں ۔ان ہی طرز ہائے تألیف ِتراجم میں ایک طرز اور طریقہ آپ بیتی یا خوردو نوشت کا بھی ہے جس میں ایک عالم دین یا کوئی منتظم اپنی زندگی کے اہم واقعات وکھٹن تجربات بدست خود تحریر فرماتا ہے۔ جس کا مقصد ریا کاری نہیں بلکہ اپنا تجربے کا نچوڑ اپنے اخلاف واقران کو دینا ہوتا ہے ۔ یہ ایک بیش بہا خزانہ ہے جس کی افادیت سے انکار ممکن نہیں ۔ اور جب صاحب واقعہ اپنا واقعہ یا اپنے عصر کا کوئی واقعہ بقلم خود محفوظ کرتا ہے تو اس کےوثوق کا عالم کچھ اور ہی ہوتا ہے ۔ لہٰذا کسی بھی تحریکی ، علمی ، اور انتظامی امور سے متعلق اہم شخصیت کو چاہئے کہ وہ سچائی وامانت صراحت وتثبت کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے اپنے اور اپنے عصر کے اجمالی حالات خود تحریر فرمادے تاکہ ان کی زندگی سے فائدہ اٹھایا جا سکے ۔

بعض اہل علم تراجم کے بارے میں کہتے ہیں کہ : یہ دفتر الحسنات والسیآت ہیں ۔

امام بخاری رحمہ اللہ اپنی صحیح میں باب رفع العلم وظھور الجھل میں : ربیعہ کا قول نقل کرتے ہیں کہ

( قال ربیعہ : لا ینبغی لأحد عندہ شئ من العلم أن یضیع نفسہ )

ربیعہ فرماتے ہیں کہ : کسی بھی اس شخصیت کے لائق یا روا نہیں کہ جسے اللہ تعالیٰ نے علم کی دولت سے نوازا ہے وہ اپنے آپ کو ضائع کرے ۔

حافظ ا بن حجر رحمہ اللہ نے فتح الباری میں اس قول کی مختلف توجیہات بیان کی ہیں جن میں ایک یہ بھی کہ :

أن یشھر نفسہ ویتصدی للأخذ عنہ لئلا یضیع علمہ ) ( فتح الباری ج ۱، ۱۷۸)

کہ اسے چاہئے کہ وہ خود سے متعلق لوگوں کو آگاہ کرے تاکہ اس کا علم ضائع نہ ہوجائے ۔

اپنی خدمات اور تجارب وتراجم بدست خود تحریر کرنے کے فوائد :

۱ : نئی نسل کو اپنے تجارب سے فائدہ پہنچانا ۔

 

۲ : بسا اوقات اگر وہ علمی شخصیت کا تعلق مصنفین سے ہے اور کتاب کی نسبت محل نظر ہے تواگر کوئی شخصیت اپنی خوردونوشت تحریر کرتی ہے اور اپنی چھوٹی بڑی تصنیفات کا ذکر کردیتی ہے تونسبۃ الکتاب الی المؤلف کا اشکا ل دور ہوجاتا ہے ۔

 

۳ : دیگر طلباء ومنتظمین اداروں سے متعلق لوگوں کو اس سیرت سے اسباق حاصل ہوتے ہیں ۔ کتنے ایسے لوگ ہیں جنہوں نے انقلابی شخصیات سے متعلق پڑھا اور پھر اپنی زندگی کو مفید بنانے کیلئے کمر بستہ ہوگئے ۔

 

۴ : کچھ واقعات ایسے ہوتے ہیں جن کا انسان عینی شاہد ہوتا ہے ۔لیکن لوگ نسل در نسل ان واقعات کو غلط نقل کرتے آتے ہیں ۔اگر وہ شخصیت یہ واقعہ اس کے اصل حقائق اپنے ہاتھ سے قلمبند کردے تو یہ چیز اس اہم واقعہ یا حادثے کی صحیح نوعیت کے ادراک میں ممد ومعاون ہوتی ہے ۔

 

۵ : انساب کی تصحیح : جیسا کہ ابن جوزی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ’’ لفتۃ الکبد ‘‘ میں اپنا نسب نامہ تحریر کیا ہے ۔

وغیر ذلک من الفوائد الکثیرۃ العظیمہ

آپ ﷺ نے اپنی زندگی کے بیشتر واقعات صحابہ سے بیان فرمائے ۔ جس میں اپنے پیشے سے متعلق اور اپنی زندگی سے متعلق چند اہم واقعات وتجربات کا ذکر کیا جیسا کہ آپ ﷺ نے اپنی تجارت ، بکریوں کا چرانا ۔ اپنے اوپر پتھروں کا سلام کہنا ودیگر اہم واقعات خود بیان فرمائے ۔ اور اپنا نسب اور اس کی شرف ومنزلت بیان فرمائی۔

ذیل میں چند بلند پایہ محدثین وفقہاء ومفسرین کے نام پیش کئے جاتے ہیں جنہوں نے اپنے تراجم خود تحریر فرمائے ۔

 

۱ :حافظ ابن حجر نے اپنا ترجمہ : اپنی کتاب ( الدرر الکامنہ ) ( رفع الاصر ) (انباء الغبر ) ( المعجم المفہرس ) وغیرہ میں ذکر کیا ہے ۔

 

۲ : ثعالبی : بڑے معروف مفسر ہیں ،مالکی المذھب ہیں ۔ انہوں نے اپنا ترجمہ اپنی کتاب ( الجامع ) میں تحریر کیا ہے ۔

 

۳ : برھان الدین البقاعی: معروف محدث ہیں ۔ انہوں نے اپنا ترجمہ اپنی کتاب ( عنوان الزمان فی تراجم المشایخ والأقران ) میں تحریر کیا ۔ لیکن یہ کتاب مخطوط ہے ابھی تک طبع نہیں ہوئی ۔

 

۴ : محمد بن عبدالرحمٰن السخاوی : معروف محدث ہیں ۔ انہوں نے اپنے حیات سے متعلق معلومات اپنی کتاب ( الضوء اللامع لأھل القرن التاسع) میں تحریر کی ہیں ۔

 

۵ : معروف محدث محمد بن محمد العوفی المزی :نے اپنے واقعات حیات ایک مستقل کتاب میں جمع کئے ہیں ۔

 

۶ : جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ: جنہوں نے اپنی حیات سے متعلق معلومات اپنی کتاب ( حسن المحاضرۃ فی أخبار مصر والقاھرۃ ) میں تحریر فرمائے ہیں ۔ بلکہ انہوں نے اپنی زندگی کے نشیب وفراز وحالات واقعات پر ایک مستقل رسالہ بھی تحریر فرمایا جس کانام ( التحدث بنعمۃ اللہ تعالی ) رکھا ۔ نیز آپ نے اپنی ایک اور کتاب ( طبقات النحاۃ الوسطی ) میں بھی اپنا ترجمہ ذکر کیا ہے ۔ اور ذکر کرتے وقت فرماتے ہیں :

وقد أردت أن یکون لاسمی ذکر فی ھذا لکتاب تبرکا واقتداً بصنیع السلف ممن ذکر اسمہ فی تألیفہ ۔۔۔’’ الخ ( الفلک المشحون ، لابن طولون ص ۶ )

میں نے ارادہ کیا کہ اس کتاب میں میرے نام کابھی ذکرآئے جوکہ تبرکا اور سلف صالح کے اس عمل کی اقتدا میں کیا گیا ہے جنہوں نے اپنا نام ( ترجمہ) اپنی تألیفات میں تذکرہ کیا ہے ۔

نیز اس کے علاوہ بھی نامور محدثین فقہاء ومفسرین رحمہم اللہ نے اپنی زندگی سے متعلق تراجم اپنی تصانیف کے ضمن میں ذکر کئے ہیں ۔ جن میں قابل ذکر ۔ امام ذھبی ۔ شوکانی ۔ آلوسی ۔ نواب صدیق حسن خان ۔ غماری ۔ وغیرھم خلق کثیر

الغرض یہ شواھد ذکر کرنے کا مقصد یہ تھا کہ ۔ اپنی حیات اور اپنے تجربات ، اپنی علمی خدمات کو عام کرنا بنیت الأفادۃ کوئی محظور اور ممنوع نہیں بلکہ مستحسن اور مطلوب ہے ۔ تاکہ تاریخی ورثہ بھی محفوظ رہے ۔ اور اخلاف اپنے اسلاف اور اقران اپنے احباب کی زندگی سے فائدہ بھی اٹھا سکیں ۔

مَثلُ القومِ نَسُوا تأریخھم
کَلَقِیط عيَّ في الناسِ انتساباً
أو کمغلوبٍ علی ذاکرۃٍ
یشتکی من صِلۃ الماضي القضابا

تاریخ کو بھلا دینے والی قوم معاشرے میں اپنی قدروقیمت کھو بیٹھی ہے اور اس کی پہچان ختم ہوجاتی ہے۔

وہ یہ حواس شخص کی مانند ہوتی ہے جو ماضی سے اپنے متعلق کے انقطاع پہ شکوہ کناں ہو۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے