سعودی عرب کے ولی عہد ،نائب وزیراعظم اور وزیرداخلہ امیر نائف بن عبدالعزیز کی وفات نے لاکھوں لوگوں کو سوگوار کردیا۔میں 16جون 2012ء ہفتہ کے روز مکہ مکرمہ میں ہی تھا۔ظہر کی نماز سے پہلے عمرہ سے فارغ ہوا، نمازظہر ادا کی تو میرا رخ امام کعبہ فضیلۃ الشیخ عبدالرحمان السدیس حفظہ اللہ کے دفتر کی طرف تھا، جہاں ان سے ملاقات طے تھی۔ میں ابھی صدر دفتر کے درواز ے پر تھا کہ عزیزی عبدالغفار مجاہد کا فون آیا کہ ولی عہد مملکت امیر نائف بن عبدالعزیز انتقال کرگئے ہیں، اِنا للہ واِنا الیہ راجعون

الشیخ عبدالرحمٰن السدیس حفظہ اللہ کو یہ افسوسناک خبر پہلے ہی مل چکی تھی۔ وہ یہ اندوہناک خبر سنتے ہی دفتر سے اٹھ کر جاچکے تھے۔ ان کے دفتر پر سوگ کا عالم طاری تھا۔ وہاں موجود ہر فردکی زبان پرشہزادہ نائف کے محاسن اور کارناموں کا تذکرہ تھا۔دفتر میں موجود افراد شہزادہ نائف بن عبدالعزیز کے ان اقدامات کی تعریف کررہے تھے جو انھوں نے سعودی عرب کو فلاحی ریاست بنانے، مثالی امن وامان قائم کرنے، دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ کر تشدد کے خاتمے اور عوام کی فلاح وبہبود کے لیے اٹھائے تھے۔

امیر نائف بن عبدالعزیز طویل عرصے تک سعودی عرب کے وزیرداخلہ کے اہم عہدے پر فائز رہے۔ گزشتہ 30برسوں سے حج کمیٹی کے سربراہ بھی تھے۔ ان کے علاوہ بھی وہ متعدد اہم عہدوں اور ذمہ داریوں پر فائز رہے۔مرحوم شہزادہ نائف کی زندگی پر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے بے شمار ذمہ داریاں نبھائیں، اپنی قوم اور عالم اسلام کی بے پناہ خدمت کرتے ہوئے ایک نہایت بھرپور زندگی گزاری ہے۔ وہ بلاشبہ اپنی ذات میں ایک انجمن تھے۔ 1934ء میں طائف میں پیدا ہونے والے نائف بن عبدالعزیز نے زندگی کی 78 بہاریں دیکھیں۔ انھوں نے سعودی عرب کے عوام کی ترقی کے لیے انتھک جدوجہد اور محنت کی۔ بدوؤں کو آپس میں جوڑنا ،ان کے اختلافات ختم کرانا، باہم متحارب قبائل کو آپس میں شیروشکر کرنا، یہ کوئی آسان کام نہیں تھے،مگر انھوں نے اپنے والد شاہ عبدالعزیز سے بہت کچھ سیکھااور انھی کی سیاست اپناتے ہوئے زبردست کامیابیاں حاصل کیں۔مرحوم شہزادہ نائف نے اپنی بہترین صلاحیتوں کو استعمال کرتے ہوئے حوصلے، دانش مندی اور زبردست حکمت عملی کی بدولت مملکت سعودی عرب کو امن کا گہوارا بنادیا۔جس خوبصورتی اور دانش مندی سے انھوں نے مملکت میں امن وامان قائم کیا اور امن تباہ کرنے والے مفسدین کو جس عمدہ طریقے سے کنٹرول کیا وہ انھی کا حصہ تھا۔

میں حرم کعبہ میں اس عظیم شخصیت کے جنازے کو دیکھ رہا تھا جسے ان کے بیٹوں نے کندھوں پر اٹھایا ہوا تھا اور آہستہ آہستہ محب سنت کا جنازہ آخری آرام گاہ کی جانب لے جارہے تھے۔ ایک ایسے شخص کا جنازہ جو سلفی اقدار کا پاسدار تھا ۔ شہزادہ نائف کے بے شمار کارنامے ہیں جن پر یقینا علماء،صلحاء ،اخبار نویس اور کالم نگار لکھتے رہیں گے مگر میرے نزدیک ان کی زندگی کا ایک روشن پہلو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے ساتھ شدید محبت اور لگائو تھا۔ انھوں نے ایک مدت پہلے امیر نائف سنت ایوارڈ کا اعلان کیا تھا۔ راقم الحروف کی مرحوم شہزادہ نائف بن عبدالعزیز سے پروفیسر ساجد میر صاحب کے ساتھ متعدد ملاقاتیں ہوئیں۔ چار سال قبل رمضان المبارک میں مکہ مکرمہ میںان کی رفاقت میں ہونے والی وہ ملاقات بڑی تاریخی اور یاد گار تھی جو کم وبیش 90 منٹ جاری رہی تھی۔ میں ان کے ساتھ والی کرسی پر بیٹھا ان کی گفتگو کو قلم بند کررہا تھا۔ اس ملاقات میں سب سے زیادہ گفتگو مرحوم شہزادہ نائف بن عبدالعزیز نے ہی کی۔ انھوں نے بہت واضح الفاظ میں کہا:

’’ ہمارا ملک اور ہماری قوم سلفی منہج کی سختی سے پابند ہے اور رہے گی۔ ہمیں دنیا بھر کے سلفی حضرات اور سلفی اداروں سے دلی محبت ہے۔‘‘ دورانِ ملاقات میں سوچتا رہا کہ غالباً دنیا کا سب سے قوی وزیرداخلہ جو گفتگو کر رہا ہے وہ کسی عالم دین کی گفتگو سے کم نہیں۔ہوسکتا ہے یہاں قارئین کی اکثریت کے لیے یہ ایک انکشاف ہو کہ مرحوم کا مطالعہ نہایت وسیع تھا۔وہ دنیا بھر کی سیاسی، سماجی اور مذہبی تنظیموں کے بارے میں مکمل آگاہی رکھتے تھے۔ اس روز بڑی تفصیل سے انھوں نے سعودی عرب اور اس کے اردگرد ممالک میں مختلف تحریکوں کا بڑا بہترین تجزیہ کیا۔ان کی گفتگو کا محور سلفی دعوت تھی۔ وہ اس دعوت کے محاسن بیان کرتے رہے ۔ ان کے نزدیک اس امت کی فلاح اور کامیابی کا راز اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ کو اپنانے میں ہے۔وہ پاکستان کے زبردست خیر خواہ اور مخلص دوست تھے۔ انھوں نے پاکستان میں جاری دہشت گردی پرنہایت دکھ اور افسوس کا اظہار کیا ۔وہ بار بار یہ تذکرہ کرتے رہے کہ سعودی عرب بھی دہشت گردی کا شکار ہوا ہے، تاہم پاکستان میں اسلام اور پاکستان دشمن قوتوںنے بہت خطرناک جال پھیلایا ہوا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ پاکستان سعودی عرب کے تجربات سے فائدہ اٹھاسکتا ہے۔ پاکستان دیکھے کہ ہم نے دہشت گردی کے عظیم فتنے کو کس طرح ختم کیا۔

امیر نائف بن عبدالعزیز نے 1423ھ میں ’’خدمت سنت ایوارڈ‘‘ کا اعلان کیا اور اس موقع پر انھوں نے کہا: ’’ہم یہ ایوارڈ کسی قسم کی شہرت کے حصول کے لیے جاری نہیں کررہے بلکہ آخرت میں اپنے نامۂ اعمال میں نیکیوں میں اضافے کی خواہش رکھتے ہوئے محض اللہ کی رضا کے لیے یہ کام کررہے ہیں۔‘‘ پھر ہم نے دیکھا کہ اس ایوارڈ کے تحت نوجوان نسل میں حفظ حدیث کا غلغلہ برپا ہوتا ہے۔ بے شمار طلبہ وطالبات اور عام لوگوں نے احادیث رسول ﷺکو حفظ کیا۔ مقابلے میں حصہ لیا اور اللہ ہی جانتا ہے کہ اس دوران کتنے ہزار لوگوں نے احادیث حفظ کیں۔ انھوں نے ایوارڈ کے صدر دفتر کے قیام کے لیے مدینۃ الرسول کا انتخاب کیا ۔

ایوارڈ کا اعلان ہوتے ہی دنیا بھر میں بہت سارے علمائے کرام اور ریسرچ سکالرز نے حدیث رسول پر ایک نئے اندازمیں کام شروع کیا ۔ یہ حدیث نبوی کی خدمت کا ایک منفرد انداز تھا۔ مجھے وہ دن اچھی طرح یاد ہے جب 1430ھ میں ریاض کے انٹر کانٹی نینٹل ہوٹل میں ہمارے پاکستانی دوست حافظ ڈاکٹر عبدالقادر گوندل کو امیر نائف بن عبدالعزیز کے ہاتھوں ’’خدمت سنت ایوارڈ‘‘ کا پہلا انعام پانچ لاکھ ریال، توصیفی سند اور سونے کا تمغہ ملا تھا۔اس کے علاوہ دو اور انعامات بھی تھے جن میں سے ایک مصر کے عالم دین اور ایک سعودی سکالر کو ملا۔ میں خود بھی اس تقریب میں شریک تھا، تقریب میں مرحوم امیر نائف نے جو تقریر کی وہ یقیناً ان کے دل میں موجود اسلام اورسنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے سچی محبت کی غمازی کررہی تھی۔ بجا طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ مرحوم شہزادہ نائف بن عبدالعزیز خادم قرآن وسنت تھے ۔ انھیں اسلام، اور عقیدہ توحید کے ساتھ بے حد محبت تھی اور وہ اس کا برملا اظہار بھی کیا کرتے تھے۔

ایک زمانے میںسعودی عرب کے ادارہ الامر بالمعروف والنہی عن المنکر پر بڑا مشکل وقت آیا۔الحاد کے بعض علمبرداروں اور بزعم خود روشن خیال دانشوروں نے ادارے کی سرگرمیوں پر شدید اعتراضات کیے۔ایسا لگتا تھا کہ خدا نخواستہ کہیں یہ ادارہ بند ہی نہ ہوجائے ،مگر شہزادہ نائف نے اس ادارے کی سرگرمیوں کا مکمل دفاع کیا۔ ان کے کام کی تعریف کی۔ اس ادارے میں خود تشریف لے گئے اور کہا: ’’یہ ادارہ ہمارے ملک کی مضبوطی اور استحکام کا ضامن ہے۔‘‘ ان کے اس واضح اور دو ٹوک موقف نے مخالفین کے سارے عزائم ناکام بنادیے۔

شہزادہ نائف اپنے رب کی طرف لوٹ گئے ہیں۔ انھوں نے وصیت کی تھی کہ ان کا جنازہ حرم مکی میں ادا کیا جائے اور تدفین بھی مکہ مکرمہ میں ہی ہو۔مرحوم شہزادہ نائف بن عبدالعزیز نے کچھ عرصہ قبل اپنی قوم سے مخاطب ہو کر کہا تھا: ’’ ہمیںدین اسلام کو مضبوطی کے ساتھ تھامنا ہوگا۔ دین کا مکمل دفاع کرنا ہوگا۔ لوگ ہمارے عقیدے اور وطن کو نشانہ بنائے ہوئے ہیں۔ ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے عقیدے اور وطن کی حفاظت کریں۔‘‘ انھوں نے اپنے نوجوانوں، علماء، خطباء اور دعاۃ سے کہا: ’’اب یہ آپ حضرات کی ذمہ داری ہے کہ آپ اپنے عقیدے،وطن اور قوم کی حفاظت کریں۔ ان کا دفاع کریں اور اپنی آنے والی نسلوں کوفتنوں اور گمراہیوں سے محفوظ بنائیں۔‘‘

بلاشبہ اسد السنۃ امیر نائف بن عبدالعزیز کی فکراور سوچ کا محور اسلام ہی تھااورعقیدہ توحید پر ان کی بہت توجہ تھی۔اس کے لیے وہ ساری زندگی جدوجہد اور کوشش کرتے رہے۔ ان کی وفات صرف سعودی عرب کے عوام کے لیے ہی صدمہ نہیں بلکہ پوری دنیا کے موحدین کے لیے عظیم صدمہ ہے۔

سعودی عرب میں مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے لوگ جن میں پاکستانی کمیونٹی پیش پیش ہے، اس عظیم قائد اور مدبر کو زبردست خراج تحسین پیش کرتے ہیں اور خادم الحرمین الشریفین شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز، شاہی خاندان کے تمام افراد، مرحوم کے صاحبزادگان، اعزہ واقارب اورسعودی عوام کے ساتھ دلی تعزیت کا اظہار کرتے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے