قرآن حکیم نے انسان کا ایک متحرک تصور پیش کیا ہے جو کائنات کے بے کراں وسعتوں کو مسخر کرنے کی پوری اہلیت اور صلاحیت رکھتا ہے۔ اور وہ اپنی قدرتِ مدرکہ (faculty of Perception) سے کائنات کے سربستہ رازوں کو افشاء کرنے کی دھن میں غلطاں و پیچاں رہتا ہے۔ اسی قوت مدرکہ کو ہی وجدان کہتے ہیں ۔ اوریہی انسان کو اپنی ذات کی معرفت کرواتا ہے۔ جبکہ اپنی ذات کی شناخت ہی کٹھن مرحلہ ہے۔ انسان کے جسدِ خاکی میں ایک عالم پنہاں ہے۔ جس میں روح و بدن کی بقا کے لئے مکمل لوازمات بھی ہیں اور خیر و شر کی معرفت کا فہم بھی بالقوہ (Potentioally) موجود ہے۔ جس طرح آم کی گھٹلی میں آم کا پودا درخت، اپنی جڑوں اور شاخوں سمیت موجود ہوتا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

اور نفس انسان کی اور اس ذات کی قسم، جس نے اسے ہموار کیا اور پھر اس کی بدی اور اس کی پرہیزگاری اس پر الہام کردی۔ (الشمس7-8)

قرآن کا مطلوب یہ سیماب صفت انسان ہی ہے، جو اپنی ذات میں جھانک کر اپنے وجود کی گہرائیوں میں اتر کر قدرت کی ودیعت کی ہوئی خفتہ صلاحیتوں کی پہچان حاصل کرلیتا ہے۔ اور زندگی کے محرک تصور سے روشناس ہوتا ہے۔ جب کہ خالق کائنات کا منشاء بھی یہی ہے۔ بقول اقبال:

اپنے من میں ڈوب کے پاجا سراغِ زندگی

قرآن حکیم نے نفس انسان کے تین ارتقائی درجات (Evolutionary Degrees )بیان کئے ہیں ۔ پہلا درجہ نفس امارہ :

جب انسان اپنے مادی اور خاکی وجود کی سیوا میں لگ جاتا ہے ، دنیا و مافہیا سے بے خبر ہوکر اپنی ہی ذات کا طواف کرنے لگتا ہے تو اس کی روح مضمحل ہونے لگتی ہے۔ کیونکہ جب جسمانی لذات و شہوات اس کا مطلوب و مقصود بن جائے تو انسان کا روحانی ترفع رک جاتا ہے۔

اسی کیفیت کو قرآن حکیم نے اِنَّ النَّفْسَ لَاَمَّارَۃٌ بِالسُّوْٓءِ کےالفاظ سے بیان کیا ہے۔

دوسرا درجہ نفس لوامہ :

اور یہی وہ درجہ ہے جب نفسانی اور حیوانی تقاضوں تلے سسکتی روح کی آبیان کا پاکیزہ جذبہ انسان کے اندر انگڑائی لے کر بیدار ہوتا ہے اور اپنے خالق و مالک کی طرف اس کے میلانِ طبع کا سفر شروع ہوتا ہے۔ اس مقام پر پہنچ کر انسان نفس لوامہ کے حصار میں آجا تا ہے۔ چنانچہ جب بھی نفس امارہ اسے برائی کی طرف رغبت کرتا ہے تو یہی نفس لوامہ اس کے سامنے ڈھال بن جاتا ہے۔ پھر اس کی کیفیت کچھ یوں ہوتی ہے کہ

ایماں مجھے روکے ہے جو کھینچے ہے مجھے کفر

اسی ایمان اور مادیت کی کشمکش میں جب انسان کے عقائد و نظریات پر اور اس کے فکرو عمل پر قوت ایمان غالب آجاتی ہے۔ تو اس کو وہ مقام و مرتبہ حاصل ہوجاتا ہے جو انسانیت کی معراج ہے۔ جسے قرآن حکیم نے نفس مطمئنہ کے الفاظ میں بیان کیا ہے۔ ارشادِ الہٰی ہے:

’’ اے ایمان پانے والی روح ! اپنے پروردگار کی طرف لوٹ چل، تو اس سے راضی، وہ تجھ سے راضی(الفجر28-27)

مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی ؒ ’’اخلاق اور فلسفہ اخلاق‘‘ میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا قول نقل کرتے ہیں کہ آپ؄نے فرمایا: انسان کے دل میں ایمان شروع میں ایک سفید نقطے کی طرح ظاہر ہوتا ہے۔ اور جوں جوں ایمان میں ترقی ہوتی جاتی ہے سفید نقطہ آہستہ آہستہ پھیلتا جاتا ہے۔ اور جب کامل ہوجاتا ہے تو انسان کا تمام قلب نورانی اور روشن ہوجاتا ہے۔

انسان کی اسی ترفع، بڑائی اور مقام فضیلت سے ابلیسی قوتیں اسے شرف انسانیت سے نکال کر قعر مذلت میں دھکیل دینا چاہتی ہیں ۔ ان سِفلی قوتوں کا پہلا وار انسان کے قلب پر قنوطیت (Pessimism)کی صورت میں ہوتا ہے۔ جو اس کی قوت محرکہ غیر فعالی بنا دیتا ہے۔ قنوطیت انسان کو فراء(Flee) کی راہ سمجھاتی ہے۔ قنوطیت کی بہترین مثال آرتھ شوپن پائز کا فلسفہ حیات ہے جو زندگی کو ایک اذیت اور کرب(Agony)تصور کرتا ہے اس کٹھن مقام پر بھی قرآن حکیم انسان کی بھرپور رہنمائی کرتا ہے۔ ارشادِ ربانی ہے۔

اے میرے بندو ! جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے، اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہونا۔ اللہ تو سب گناہوں کو بخش دیتا ہے اور وہ تو بخشنے والا ، مہربان ہے۔ (الزمر53)

انسان اور حیوان میں بنیادی فرق یہی ہے کہ حیوان محض اپنی جبلت(Instinck)کے تحت عمل کرتا ہے۔ اس کا دیکھنا، سننا، محسوس کرنا، غیر شعوری طور پر جبلی تقاضوں (instinctive) کی تکمیل ہوتا ہے۔ اس کے برخلاف انسان کا ہر عمل ارادی طور پر، خود شعوری اور خود آگہی کے بھرپور احساس کے ساتھ ظہور پذیر ہوتا ہے۔ قرآن حکیم نے اگر ایک طرف انسان کی مثالی(Out stranding) اور قابلِ غور شخصیت کے مثبت پہلوؤں کو اجاگر کیا ہے تو دوسری طرف اس کے سلبی رخ کی انتہا لرزادینے والے الفاظ میں نقشہ کشی کی ہے۔

فرمانِ الہٰی ہے:

ان کے دل ہیں ، لیکن ان سے سمجھتے نہیں ، ان کی آنکھیں مگر ان سے دیکھتے نہیں ، ان کے کان ہیں مگر ان سے سنتے نہیں ۔ یہ لوگ (بالکل)چوپایوں کی مانند ہے بلکہ ان سے بھی زیادہ گئے گزرے۔ یہی وہ لوگ ہیں جو غفلت میں پڑے ہوئے ہیں ۔ (الاعراف179)

قرآن حکیم بنی نوعِ انسان کے لئے زندگی کا ایک مکمل لائحہ عمل پیش کرتا ہے۔ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے۔ زندگی کے ہر پہلو پر رہ نمائی اور دستگیری کے لئے یہ ہدایت نامہ ہے۔ جو مطلوب ایمان کامل کے حصول کے لئے ایک روشن شمع اور ایک زبردست وقت محرکہ ہے۔ اس حوالے سے غور طلب پہلو یہ ہے کہ اگر شاہراہِ حیات پر چہار سو ان گنت شمعیں فروزاں ہوں اور پھر بھی انسان کو سیدھا رستہ سمجھائی نہ دے تواس کو کوتاہِ نظری ہے۔ جسے قدرت نے سجود ملائکہ کے اعلیٰ مرتبہ پر فائز کیا ہو۔ وہ خود ہی اپنی حقیقت سے آشنا نہ ہو تو اس کی حیثیت برسات کے اس پہلے قطرے کی مانند ہے۔ جو سیپ کے منہ میں گرتا تو ضرور ہے مگر قطرہ سے گہر ہونا اس کے نصیب میں نہیں ہوتا۔

نہ ہو نو مید، نومیدی زوالِ علم و عرفاں ہے

امید مردِ مومن ہے خدا کے راز دانوں میں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے