تفسیر سورۃ النور

( قسط نمبر31 آیات57 تا 60)

لَا تَحْسَبَنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا مُعْجِزِيْنَ فِي الْاَرْضِ ۚ وَمَاْوٰىهُمُ النَّارُ ۭ وَلَبِئْسَ الْمَصِيْرُ ؀ۧ يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لِيَسْتَاْذِنْكُمُ الَّذِيْنَ مَلَكَتْ اَيْمَانُكُمْ وَالَّذِيْنَ لَمْ يَبْلُغُوا الْحُلُمَ مِنْكُمْ ثَلٰثَ مَرّٰتٍ ۭ مِنْ قَبْلِ صَلٰوةِ الْفَجْرِ وَحِيْنَ تَضَعُوْنَ ثِيَابَكُمْ مِّنَ الظَّهِيْرَةِ وَمِنْۢ بَعْدِ صَلٰوةِ الْعِشَاۗءِ   ڜ ثَلٰثُ عَوْرٰتٍ لَّكُمْ ۭ لَيْسَ عَلَيْكُمْ وَلَا عَلَيْهِمْ جُنَاحٌۢ بَعْدَهُنَّ ۭ طَوّٰفُوْنَ عَلَيْكُمْ بَعْضُكُمْ عَلٰي بَعْضٍ ۭكَذٰلِكَ يُبَيِّنُ اللّٰهُ لَكُمُ الْاٰيٰتِ ۭ وَاللّٰهُ عَلِيْمٌ حَكِيْمٌ ؀ وَاِذَا بَلَغَ الْاَطْفَالُ مِنْكُمُ الْحُلُمَ فَلْيَسْتَاْذِنُوْاكَمَا اسْتَاْذَنَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ ۭ كَذٰلِكَ يُبَيِّنُ اللّٰهُ لَكُمْ اٰيٰتِهٖ ۭ وَاللّٰهُ عَلِيْمٌ حَكِيْمٌ؀ وَالْقَوَاعِدُ مِنَ النِّسَاۗءِ الّٰتِيْ لَا يَرْجُوْنَ نِكَاحًا فَلَيْسَ عَلَيْهِنَّ جُنَاحٌ اَنْ يَّضَعْنَ ثِيَابَهُنَّ غَيْرَ مُتَبَرِّجٰتٍۢ بِزِيْنَةٍ ۭوَاَنْ يَّسْتَعْفِفْنَ خَيْرٌ لَّهُنَّ ۭ وَاللّٰهُ سَمِيْعٌ عَلِيْمٌ   ؀

آپ کافروں کے متعلق یہ خیال نہ کیجئے کہ وہ زمین میں(اللہ کو) عاجز کردینے والے ہیں (کہ وہ انہیں عذاب نہ کرے) ان کا ٹھکانا جہنمہے اور وہ سب ہے برا ٹھکانا ہے۔اے ایمان والو! تمہارے غلاموں اور ان لڑکوں پر جو ابھی حد بلوغ کو نہ پہنچے ہوں، لازم ہے کہ وہ (دن میں) تین بار اجازت لے کر گھروں میں داخل ہوا کریں۔ نماز فجر سے پہلے اور ظہر کے وقت جب تم کپڑے اتارتے ہو اور عشاء کی نماز کے بعد یہ تین اوقات تہارے لئے پردہ کے وقف ہیں۔ ان اوقات کے علاوہ (دوسرے وقتوں) میں ان کو بلااجازت آنے جانے سے نہ ان پر کچھ گناہ ہے اور نہ تم پر، تمہیں ایک دوسرے کے پاس بار بار آنا ہی پڑتا ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ تمہارے لئے اپنے ارشادات کی وضاحت کرتا ہے اور وہ سب کچھ جاننے والا حکمت والا ہے۔

اور جب لڑکے سن بلوغ کو پہنچ جائیں تو وہ بھی اس طرح اذن لیا کریں جیسا کہ ان سے پہلے (ان کے برے) اجازت لیتے رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اسی طرح تمہارے لیے اپنے احکام کھول کر بیان کرتا ہے اور اللہ سب کچھ جاننے والا حکمت والا ہے۔اور جو عورتیں جوانی سے گزری بیٹھی ہوں اور نکاح کی توقع نہ رکھتی ہوں وہ اگر اپنی چادریںاتار کر (ننگا سر) رہا کریں تو ان پر کچھ گناہ نہیں بشرطیکہ زیب و زینت کی نمائش کرنے والی نہ ہوں۔ تاہم اگر وہ (چادر اتارنے سے) پرہیز ہی کریں تو یہی بات ان کے حق میں بہتر ہے اور اللہ سب کچھ سنتا، جانتا ہے۔

معانی الکلمات:

يَسْتَاْذِنْكُمُ :

اِذن سے ماخوذ ہے، جس کا مطلب اجازت، اعلان، علم سے ہیں اور استئذان کا مطلبہے اجازت طلب کرنا۔ لام، لامِ امر ہے

اَلْحُلُمُ :

الحلُمُ، الحُلْم خواب(تاج العروس) جمع أحلام، خواب میں جماع اور چونکہ یہ کیفیت بالغ ہونے کی دلیل ہے، اس لئے سنِ تمیز و بلوغت کو بھی الحُلْم کہتے ہیں۔ (تاج العروس)، احتلام۔ چونکہ سن تمیز کے ساتھ عقل و تمیز بھی آجاتی ہے، اس لئے الِحلم متانت، وقار و سکون، عقل ، تدبر اور ضبط نفس کے معنوں میں بھی استعمال ہونے لگا ۔

اور اَلْحُلُمُ کے معنیٰ ہیں طبیعت پر ایسا ضبط رکھنا کہ غیظ و غضب کے موقع پر انسان بھڑک نہ اٹھے، (راغب اصفہانی)

اَلْفَجْرِ:

الفجر کے اصل معنیٰ پھاڑنے اور شق کردینے کے ہیں۔ اور الفجرصبح کی روشنی جو تاریکی کو پھاڑ کر باہر نکل آتی ہے اور اصطلاحاً اس کا اطلاق صبح کی نماز پر ہوتا ہے۔

الظَّھِیْرَۃِ :

ظھر سے ماخوذ ہے، اس کا مطلب ہےہر چیز کا بیرونی اور بالائی حصہ اس لئے انسان کے جسم کا شانوں سے لیکر سرین کے اوپر تک کا حصہ، پیٹھ، پشت کو بھی کہتے ہیں۔

ظھر الشیء چیز نمایاں اور ظاہر ہوگئی، ابھر کر سامنے آگئی، واضح ہوگئی۔(تاج العروس)

اس سے الظہر زوال آفتاب، کا وقت جو کہ ظہیرۃ الشمس سے ماخوذ ہے، (دھوپ کی سخت تپش اور حرارت)کیونکہ وہ سخت گرمی کا وقت ہوتا ہے اور اس سے زوال آفتاب کے بعد جو نماز پڑھی جاتی ہے اس کو ظہر کہاجاتا ہے۔

العِشَاءِ :

العشاء آنکھوں کے سامنے اندھیرا آجانا، اندھا ہوجانا۔ (تاج العروس، المحیط)

العشاء کا اطلاق مختلف اوقات پر ہوتا ہے، مثلاً ابتدائی تاریکی، مغرب سے عشاء تک کے وقت۔

زوال آفتاب سے طلوعِ فجر تک کے وقت۔

دن کا آخری حصہ، مغرب سے عشاء تک کے وقت ، مغرب اورعشاء کی نماز کو عشاءان بھی کہتے ہیں۔ (تاج العروس، محیط، معجم)

سورۃ یوسف میں خالی عشاء آیا ہے، اس سے مراد پچھلا پہر شام کا وقت یا رات کا وقت لیا جاسکتا ہے، یہاں اس مفہوم میں ہوا ہے۔

عَوْرَات:

عورۃکی جمع ہے، یہ امر جس سے شرم کی جائے، انسان کے اعضاء جن کو حیا سے چھپایا جاتا ہے۔ اور اسی لئے صنف نازک کو عورۃ کہا گیا اور قرآن مجید میں ہے کہ:

الَّذِيْنَ لَمْ يَظْهَرُوْا عَلٰى عَوْرَاتِ النِّسَآءِ (النور31)

یعنی وہ لوگ جو خواتین کے پردے کی باتوں سے مطلع نہیں

اور ثلاث عورات: یعنی تین اوقات جو پردگی اور پردے کے ہوتے ہیں جس میں انسان ایسی حالت میں ہوتا ہے کہ وہ پسند نہیں کرتا کہ کسی اور پر ظاہر ہو۔

طوافون:

طوافکے معنیٰ گھومنے اور چکر لگانے کے ہیں۔ طاف، استطاف، تطوف، طوف ، گھومنا، چکر لگانا۔(تاج العروس) کسی چیز کے اردگرد و بکثرت چلنا (محیط) اسی لئے کوتوال اور چوکیدار دونوں کو ’’الطائف‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔(ابن فارس)

الطائفہ: لوگوں کی جماعت جو ہم آہنگی فکر و خیال یا اشتراک عقیدہ کی بناء پر متحد ہے اور اس سبب سے دوسروں سے ممتاز ہو۔

الطوافایسا خادم جو نہایت نرمی اور عنایت سے خدمت کرے۔ (محیط)

یعنی ایسے خدام جو تمہارے گھروں میں خدمت کے لئے معینہ اوقات کے علاوہ داخل ہوتے ہیں یا باہر نکلتے ہیں اس میں کوئی جرم نہیں ہے۔

بلغ:

پہنچ جانا، کسی مقصد کا حاصل ہوجانا، مقررہ ھدف تک پہنچ جانا۔

الاطفال:

طفلکی جمع ، ہر نزم و نازک چیز کو کہتے ہیں۔ طَفُلَ، طَفَالَۃ، طَفُولۃ نزم و نازک ہونا۔

الطفل ہر چھوٹی چیز۔ بچہ،راغب اصفہانی نے لکھا کہ بچہ کو اس وقت تک طفل بولا جاتا ہے جب وہ نزم و نزک ہو۔ (راغب، تاج العروس، ابن فارسی)

القواعد:

القعودبیٹھنا، جو کہ قاعد کی جمع ہے۔ قعود اور جلوس ہم وزن لفظ ہیں۔ گھر کی بنیادوں کو قواعد البیت کہا جاتا ہے۔ القاعدۃ وہ جڑ جس پر عمارت کی بنیاد رکھی جاتی ہے۔ زجاج نے لکھا کہ ان ستونوں کو کہا جاتا ہے جن پر عمارت استوار کی جاتی ہے۔(تاج العروس، راغب، محیط)

قرآن مجید میں القاعدون کا لفظ المجاہدون کے مقابلے میں استعمال ہوا ہے۔

القاعد من النساء: اس معمر عورت کو کہتے ہیں جو اولاد، حیض، اور شوہر سے مایوس ہوچکی ہے۔ اس کی جمع القواعد من النساء ہے۔

غَیر مُتَبَرِّجَاتٍ:

زینت کو نمایاں نہ کرنے والیاں

تبرج کے معنیٰ ہیں عورت نے اپنی زینت اور محاسن کو مردوں کے سامنے ظاہر کیا اس طرح کہ اس کی آنکھوں میں شوخی جھلک رہی تھی۔(تاج العروس)

نواب صدیق حسن خان نے لکھا ہے کہ جن الفاظ میں باء اور راء ساتھ آئیں ان میں اظہار کا مفہوم مضمر ہوتا ہے، جسے بَرَجَ ظاہر ہوگیا، اسی سے تَبَرُّج ہے۔(العلم الخفاق)

ابو اسحاق نے کہا کہ تَبَرُّج اس اظہار کو کہتے ہیں جو مردانہ شہوت کی انگیخت کا ذریعہ بن جائے، (تاج)

صاحبِ محیط نے لکھا کہ تبرج مٹک مٹک کر چلنے کو کہتے ہیں۔

راغب نے لکھا کہ عورت کے تبرج کے معنیٰ یہ ہیں کہ وہ اپنے محل سے باہر نکل آئی۔(راغب)

اجمالی مفہوم:

آیات سابقہ میں آداب استئذان کا ذکر کیا گیا تھا، وہاں گھروں میں داخل ہونے کے لئے اجازت لینے کی جو شرط لگائی ہے، اس سے غلاموں اور نابالغ بچوں کو مستثنیٰ رکھا تھا، ان آیات کے ذریعے ان پر بھی پابندی لگادی گئی تھی، ان تین اوقات میں وہ اجازت لیا کریں کہ یہ اوقات بے تکلفی اور بے پردگی کے ہیں۔ ان اوقات کے علاوہ کوئی آنا چاہے تو کوئی جرم نہیں ، لہٰذا اس حکم کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے تربیت اخلاقت کردار کی طرف ایک بار پھر توجہ دی ہے اور ان پر اصولوں کو بیان کیا ہے جن پر عمل کرنے سے اخلاق و کردار سنور جاتے ہیں اور جس طرح کسی مسلمان کا کردار ہونا چاہئے ہوجاتا ہے، واضح رہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کے واضح اور روشن احکامات ہیں اور ان پر عمل میں مسلم معاشرے کا بہت بڑا فائدہ ہے، اور یہ فائدہ کسی ایک پر ختم نہیں ہوتا، بلکہ معاشرے میں موجود تمام افراد اس سے مستفید ہوتے ہیں۔

اور ان احکام کو بیان کرتے وقت کوئی پہلو ادھورا، نہ چھوڑا بلکہ مزید تاکید کے طور پر یہ ارشاد فرمایا کہ جب بچے بڑے ہوجائیں اور سنِ بلوغت تک پہنچ جائیں تو یہی پابندی ان کے لئے بھی ہے، اور پردے کے ان احکامات سے بوڑھی عورتیں مستثنیٰ قرار دی گئی ہیں جو اپنی جوانی کی عمر سے گزر چکی ہیں اور نکاح کرنے کی خواہش نہیں رکھتی، وہ اگر چاہیں تو اپنی چادریں اتارسکتی ہیں لیکن یہ زیب و زینت کی نمود و نمائش کی خاطر نہ ہو۔

لیکن ساتھ میںیہ بھی فرمادیا کہ اگر یہ بوڑھی عورتیں ایسا نہ کریں تو افضل ہے اور ان کے حق میں بہتر ہے کہ اس ضعیفی میں بھی پردہ کی پابند رہیںکہ اللہ سب کو سننے والا اور جاننے والا ہے۔

(جاری ہے)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے