قرآن مجید کی پہلی آیت ہے: الحمد للہ رب العالمین ’’ہر طرح کی تعریف اسی اللہ کو سزاوارہے جو تمام عالموں کا آقا ہے۔‘‘

انسان اللہ تعالیٰ کا خلیفہ، انسانوں میں مسلمان خیر امۃ اور اللہ تعالیٰ کے دین و مذہب کے پیروکار ہونے کے مدعی ہیں تو آنکھیں یہ دیکھنے کی اور کان یہ سننے کے منتظر تھے کہ دنیا کی آقائی مسلمان ہی کر رہے ہوں گے۔ اگر ایسا نہ ہو تو دعوی غلط ہے یا اسلام کے مدعی احکام اسلام پر عامل نہیں ہیں۔ اس کے علاوہ کوئی تیسرا امکان ہی نہیں۔

تاریخ دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ دعوے میں کوئی مبالغہ یا غلطی نہیں ہے۔ عہد نبوی میں وطن سے بے وطن ہونے کے بعد جب   ۱ھ؁ میں شہر مدینہ کے چند محلے اسلامی مملکت کہلانے لگے تو اس میں دس سال تک اوسطاً روزانہ ۲۷۴ مربع میل کی بے نظیر سرعت سے اضافہ ہوتا رہا اور جب ۱۱   ؁ھ میں رسول کریمe نے اس دنیاوی زندگی سے علیحدگی اختیار فرمائی تو پورے دس لاکھ مربع میل یعنی تقریباً ہندوستان کے برابر علاقہ مسلمانوں کی آقائی میں آچکا تھا اور ابھی رسول اللہe کی وفات کو پندرہ سال بھی نہیں ہوئے تھے کہ احکام اسلام پر عمل کرنے کے باعث مسلمان ایشیاء، یورپ اور افریقہ کے تین براعظموں پر چھا گئے۔ یہ سیدنا عثمانt کا زمانہ تھا جب ایک طرف اسپین میں مسلمانوں نے قدم جما لئے اور دوسری طرف قسطنطنیہ کا بحری محاصرہ کر لیا۔ قریب تھا کہ اسپین اور قسطنطنیہ دونوں طرف کی فوجیں آگے بڑھتی ہوئی یورپ کے وسط میں کسی جگہ باہم ملی جاتیں اور دوسری طرف ترکستان سے گزر کر چین کے مغربی صوبوں پر قبضہ کرتی ہوئی اسلامی فوجیں چین کو چیرتی ہوئی بحرالکاہل تک پہنچ جاتیں، اور سیدنا عمرt کے زمانہ میں صوبہ بمبئی پر جو چڑھائی ہوئی تھی وہ جلد صوبہ بنگال تک اتر آتی…. لیکن عین اسی وقت مسلمانوں میں اندرونی خلفشار اور خانہ جنگی شروع ہوگئی۔ اور ’’مشارق الارض و مغاربھا‘‘ کی تعبیر اتنی جلدی آنکھوں کے سامنے نہ آئی۔ پھر بھی ترکستان سے تیونس اور اسپین کے بعض ساحلی علاقوں تک مسلمان اس پہلے ہی ہلے میں چھا گئے۔

جب یہ تاریخی اور ناقابل تردید واقعات ہیں تو ماننا پڑتا ہے کہ ’’اسلام‘‘ اور ’’دنیا کی آقائی‘‘ لازم و ملزوم ہے۔ جو اصولِ اسلام پر عمل کرے گا وہ غالب اور جو ان سے غفلت کرے گا مغلوب بلکہ نابود ہوگا۔

یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ اسلام حقیقت میں رسول عربیe کی سیرت ہی کا دوسرا نام ہے۔ اس لئے اگرکوئی یہ معلوم کرنا چاہتاہے کہ اصولِ اسلام کیا ہیں تو اسے رسول عربیe کی سوانح عمری، آپ کا عمل اور آپ کی تعلیم …ان ہی تین چیزوں کو دیکھنا ہوگا او ریہ اس غرض کے لیے کافی ہیں۔

قرآن مجید نے ایک اہم مظہرِ قدرت کو بڑے دلچسپ انداز میں بیان کیا ہے۔

’’آدمی کیا ہے؟ اولاً ایک ضعف و کمزوری اور بے بسی کا نام ہے۔ پھر قوت (جوانی) آتی ہے اور قوت کے بعد پھر کمزوری یعنی بڑھاپا چھا جاتا ہے۔‘‘

دوسرے الفاظ میں کچھ کرنے کا زمانہ اور ان دو ’’کمزوریوں‘‘ کا درمیانی مختصر وقفہ یعنی جوانی ہی ہے۔ یہی دن ہیں جب آدمی کو آخرت کا توشہ کما لینا چاہیے اور تاریخ بتاتی ہے کہ یہی وہ زمانہ ہے جب بڑی شخصیتوں کے بڑے کارنامے انجام پائے۔ کسی بچے یا بوڑھے کھوسٹ نے آج تک نہ تو کوئی کارنامہ دکھایا اور نہ آئندہ اس کی کوئی توقع ہے۔ اسی اصول کے تحت رسول کریمe کی سوانح عمری کا وہ باب جو آغاز تا انتہا جوانی سے متعلق ہے، یہاں زیر بحث آتا ہے۔

انسان کی کوتاہ نظری کو کیا کیجئے کہ وہ بڑے شخص کو تو بڑا مان لیتا ہے لیکن کسی ہونیو الے بڑے شخص کو پہچان نہیں سکتا۔ بڑے شخص عموماً غیر متوقع مقام اور ماحول سے ابھرتے ہیں۔ ان کے ساتھیوں اور ہمسایوں میں کسی کو خیال آتا ہے، نہ پرواہ ہوتی ہے کہ ان کے حالات تفصیل سے قلمبند کرتے جائیں۔ اور جب یہ جاڑوں کا سورج افق سے ابھرنے کے بعد دھند اور کہر کو ا پنے راستے سے صاف کر کے یک بیک آفتاب عالم تاب بن کر جگمگانے لگتا ہے تو اس وقت لوگوں کو معلوم ہوتاہے کہ سورج نکل چکا ہے مگر کس طرح نکلا کتنی دشواری پر کس کس طور سے غالب ہوا، اس کے جاننے والے بہت کم ہوتے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ بڑے لوگوں کے بچپن اور آغاز جوانی کی مکمل سوانح عمری نہیں ملتی اور خود ایسے بڑے اور اتنے خود نما کبھی نہیں ہوتے کہ بعد میں ان چیزوں کو خود مرتب کرائیں۔ رسول کریمe اس سے کیسے مستثنیٰ ہو سکتے تھے۔ پھر بھی جو چند باتیں آپ کی ابتدائی عمر کے منتشر سالوں سے متعلق تاریخ نے محفوظ کی ہیں، وہ کافی سبق آموز ہیں۔

یتیم پیدا ہونے والے ملکی رواج کے تحت آیاکے ساتھ اس کے گھر (ایک جنگل میں) جا رہنے کے متعدد اثرات کسی بچے پر پڑ سکتے ہیں۔ والدین کا لاڈ پیار اور چوچلے نہیں ملتے ۔ بڑے شہر کے مخلوط اور کاروانی اسیٹشن ہونے کے باعث ہر روز بدلنے والی آبادی کے برے اثرات، دولت، آرام طلبی، سہولت بخش اسباب زندگی مضر تفریحات ناچ گانا، عیاشی، شراب خوری، بیسیوں رذائل سے بچہ بچ جاتا ہے۔ صحرائی زندگی جفاکش محنت اور سادگی پسند ہوتی ہے۔ مصنوعاتِ انسانی کی جگہ مناظرِ قدرت سے لگائو اور محبت، ستاروں، کارتیوں، چشموں، سوتوں، شہابیات، سموم اور دیگر ہوائوں اور اسی طرح کے انتظامات فطرت کے کارآمد قواعد سے واقفیت آئندہ زندگی میں مفید ثابت ہوتی ہے۔ بڑے اور ہونہار لوگوں کی باتیں عامیوں کو بڑی عجیب لگتی ہیں مگر بڑے لوگ خود بھی تو عجیب ہی انسان ہوتے ہیں۔ کہتے ہیں رسول کریمe اپنی آیا کا صرف ایک طرف دودھ پیا کرتے تھے اور اس کا دوسرا دودھ اپنی دودھ بہن کے لئے چھوڑ دیا کرتے تھے۔

ہونہار بچوں میں کم عمری میں بھی چلبلا پن اور شوخی ہوتی ہے۔آپe کی دودھ شریک بہن کا بیان ہے کہ جب وہ آپ کے ساتھ بچپن میںکھیلا کرتی تو ایک دن آپe نے اسے اس زور سے کاٹا کہ تمام عمر دانت کے نشانات جسم پر باقی رہے اور یہ نشان ایک نعمت بھی ثابت ہوئے چنانچہ بعد میں رسول اللہe کی ایک فوج چند لوگوں کو گرفتار کر کے لائی تو ان میں یہ بھی تھیں اور اس نے کہا ’’محمدe میں تیری دودھ شریک بہن ہوں چنانچہ تیرے کاٹے کا نشان اب تک میرے کندھے پر موجود ہے۔‘‘ رسول کریمe بڑی محبت سے پیش آئے اور انعام و اکرام دے کر اعزاز سے ا س کے گھر بھجوادیا۔

ایک دوسرا واقعہ اس وقت کا ہے جب رسول اللہe کی عمر کوئی دس سال کی ہوگی۔ آپe کے شہر والوں سے بعض دیگر قبائل کی چل گئی تھی اور حرب فجار پیش آئی۔ آپe اپنے چچائوں کے ساتھ جنگ کو گئے اور ذرا نہ ڈرے بلکہ تیر اٹھا اٹھا کر اپنے چچائوں کو دیتے گئے کہ ماریئے! اس جنگ سے واپس آتے ہی شہر مکہ کے چند انسانیت پرور لوگوں نے ایک جلسہ طلب کیا اور بتایا کہ ہم خدا کے گھر کے پاسبان ہو کر ظلم اور زیادتی کریں، یہ تو بڑے شرم کی بات ہے۔ ہمیں دنیا کے سامنے ایک نمونہ اور مثال پیش کرنا چاہئے۔ چنانچہ سب حاضرین اور ان کے رشتہ داروں نے حلف اٹھایا کہ آج سے ہم نہ تو خود کسی پرظلم کریں گے اور نہ ہماری آنکھوں کے سامنے کسی پر ظلم ہوتا ہوا باقی رہنے دیں گے اور اس قت تک چین نہ لیں گے جب تک مظلوم کو اس کا حق ظالم سے نہ دلادیں۔ ا س حلف کا نام حلف الفضول تھا۔ اور اس رضا کار جمعیت میں بڑے جوش و خروش اور خوشی خوشی وہ بچہ بھی شریک تھا جو تمام کائنات سے ظلم کو مٹانے پر کمر باندھتا ہے اور جس کی مہم اس کے جانشین تیرہ سو برس سے اب تک لگاتار چلارہے ہیں۔ اس حلف کے تحت آپe نے کئی ایک مرتبہ بڑے بڑے سرکشوں کا سر نیچا کیا اور ابوجہل جیسے سر پھرے شخص سے ایک اراشی قبیلے والے کا حق دلایا جس کاذکر تفصیل سے ابن ہشام وغیرہ نے بیان کیا ہے۔

یہی انصاف پسند طبیعت تھی جس نے زبان خلق سے آپ کو الامین (امانتدار) کا قابل رشک خطاب دلایا۔ قریش آپ سے لڑتے تھے آپ کے خون کے پیاسے تھے۔ آپ کا مال و متاع لوٹ لینے سے دریغ نہیں کرتے تھے لیکن ایسے وقت میں بھی آپ کے پاس اپنا مال لاکر امانت رکھانے سے نہیں ہچکچاتے تھے۔ اور وہ ٹھیک کرتے تھے۔ چنانچہ ہجرت کے وقت جب ایک مکمل و منظم سازش آپ کی جان لینے کی کی گئی اور کسی طرح آپ بچ گئے تو جاتے ہوئے اپنے چچا زاد بھائی کو تمام امانتیں دے گئے کہ انھیں اقدام قتل کرنے والوں میں سے اصل مالکوں کو واپس کر دیں کہ اب مزید عرصہ حفاظت ممکن نہیں۔ یہی وہ خصلت تھی جس سے وہ لوگ بھی رام ہوتے گئے۔ جنہیں تلوار کچھ نہ سمجھا سکتی تھی۔ اپنوں سے ہی نہیں غیروں اور ذمیوں بلکہ دشمنوں کے ساتھ بھی بات کا پاس و لحاظ کرنا اور اعتماد شکنی سے اجتناب کرنا جس طرح پہلے مفید تھا آج بھی ویسا ہی واجب التعمیل اور یقینا باعث برکت و فلاح ہے۔

یہی امانت و راست بازی تھی کہ بڑے بڑے مشکل مسائل میں لوگ آپ کو ثالث بناتے تھے اور آپ کے حکم کو کتنا ہی اپنی خواہش کے خلاف ہوہنسی خوشی مان لیتے تھے۔ اور آپ موقع ملنے پر بھی کبھی ناحق اپنے رشتہ داروں دوستوں کا ساتھ نہیں دیتے تھے۔ کعبے کی تعمیر میں حجر اسود کے نصب کرنے کا واقعہ سب جانتے ہیں۔

آپ حَکَم تھے اگر چاہتے تو فیصلہ کر دیتے۔ یہ حق بنی ہاشم یعنی اپنے خاندان کا ہے۔ مگر آپ نے اس قومی معبد کے ایک اعزازی کام کی انجام دہی کا اعزاز پوری قوم کو دلایا اورا س وسعت قلبی سے آپ کا اعزاز اس سے بہت بڑھ گیا جتنا محض ایک پتھر کو کسی معبد کی ایک دیوار میں لگانے سے حاصل ہوتا حجر اسود کو اٹھانے والوں کے نام آج کسی کو معلوم نہیں لیکن ان لوگوں کو حجر اسود اٹھانے دینے والے کا نام دوست بھی اور دشمن بھی عزت کی ساتھ یاد رکھتے ہیں۔

اس امانتداری کے ساتھ ساتھ خود داری کا وصف بھی آپ میں بہت نمایاں نظر آتا ہے۔ آپ یتیم پیدا ہوئے۔ چند سال میں دادا بھی چل بسے تو چچا کے گھر جا رہے۔ چچا کا کنبہ بڑا تھا اور دل بھی بڑا تھا۔ اسی لئے گھر میں اکثر تنگی رہتی تھی۔ آج کل کس بھتیجے کو پرواہ ہے کہ وہ اپنے کفیل چچا کا روزگار کمانے میں ہاتھ بٹائے۔ خود آگے بڑھنا درکنار، اگر چچا حکم بھی دے تو ہزار طرح اسے ٹالنے اور کام کو عمداً بگاڑنے کی کوشش کریں گے۔ مگر سچے معلم اخلاقe کہنے سے پہلے خود عمل کرتے تھے۔ ابھی آپ کی عمر پندرہ ایک سال ہی کی تھی کہ چچا روزگار کے دھندے میں کچھ اسباب تجارت لے کر فلسطین روانہ ہوئے آپe رونے لگے کہ مجھے بھی ساتھ لے چلو۔ اور چچا کو مجبور کر دیا۔ راستے میں آپ چچا کی ہر طرح خدمت کرتے گئے۔ اسباب کی حفاظت اور دیکھ بھال کرنا اور اسی طرح کے سعادت مندانہ کام آپ نے اپنے ذمہ لئے۔ اور اپنی موجودگی سے چچا کو ہر فکر سے آزاد کر دیا اور وہ اچھے سے اچھے داموں اسباب فروخت کرنے میں کامیاب ہوئے۔

چند سال بعد چچا ضعیف ہو گئے تو تنہا خود اپنا اور بعض شہر والوں کا سامان لے کر فلسطین گئے اور کاروبار کے ذریعہ اس قابل ہو گئے کہ نہ صرف اپنی آپ پرورش کرنے لگیں بلکہ چچا کو بھی مدد دینے لگے اور چچا کے ایک بیٹے کو اپنا منہ بولا بیٹا بنا کر پالنے لگے۔

حرکت میں برکت ہے اور دیانت میں نفع ہی نفع ہے۔ آپ ﷺشام، یمن، بحرین و عمان جیسے دور دراز مقاموں کا سفر کرنے لگے اور کاروانی کاروبار تجارت کے باعث شہر کے بڑے بڑے لوگ ساجھاکرنے کے لئے بلانے لگےبعض ساتھی کہا کرتے تھے کہ زمانۂ جاہلیت میں ہم نے محمدe کے ساتھ تجارتی ساجھا کیا مگر ہمیں یاد نہیں کہ کبھی بھی آپe نے حساب کے بارے میں کچھ جھگڑا کیا ہو۔ اگر ہم آپe کا اسباب لے کر جاتے تو وہ واپسی پر آپ ہم سے صرف خیریت اور مزاج کی کیفیت پوچھتے اور اپنے مال کا ذکر تک نہ کرتے اور اگر خود اسباب لے کر جاتے تو سب سے پہلے اس کا ہم سے تذکرہ کرتے اور حساب چکانے سے پہلے گھر تک نہ جاتے۔

اسی حسن سیرت نے آپe کو دولت کے ساتھ شفیق و حسین رفیق زندگی بھی مہیا کیا اور مکے کی لکھ پتی بیوہ بی بی خدیجہr نے خود آپe سے نکاح کی خواہش کی۔ اس دولت سے آپe نے جو کام لیا اسے آپe کے چچا نے

وأبیض یستسقیٰ الغمام بوجہہ
ثمال الیتیمی عصمۃ للأرامل

(وہ گورا چٹا جس کا واسطہ دے کر بارش کی دعا مانگی جاتی ہے جو یتیموں کا ملجا ہے تو بیوائوں کا ماویٰ)

کہہ کر ثبت تاریخ کیا ہے۔

آپe کا سلوک …نوجوانوں کے ساتھ

سیرت نبوی کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ذمہ داری کا کام اکثر نوجوانوں ہی کے سپرد کیا جاتا تھا۔ اس کی متعدد نظیریں تاریخ نے صراحت سے مہیا کی ہیں کہ جب کسی قبیلے نے اسلام قبول کیا تو رسول اللہe نے کسی ذہین و فطین نوجوان کو اس کا سردار مقرر کیا۔ اصل میں معیار یہ تھا کہ اسلامی اصول و شریعت سے کون زیادہ واقف ہے؟ نماز پڑھانے کے لئے قرآن کی سورتیں کس کو زیادہ یاد ہیں کون اپنے نئے دین سے زیادہ جوش اور دلچسپی کا اظہار کرتا ہے؟ اور یہ صفتیں عموما نوجوانوں میں پائی جاتی تھیں۔ عموماً نوجوان مدینہ آکر زیادہ تیزی سے قرآنی سورتیں حفظ کر لیتے تھے۔ دیگر امور مثلا مال و دولت، وجاہت و تجربہ زیادہ پیش نظر نہیں رہتا تھا۔ ایک صحابی کا بیان ہے۔ جب میں اپنے قبیلے والوں کے ساتھ مسلمان ہوا تو میری عمر بہت کم تھی لیکن قرآنی سورتیں زیادہ یاد ہونے سے رسول اللہe نے مجھے میرے قبیلے کا امام مقرر فرمادیا۔ ایک بہت چھوٹی تہمد کے سوا میرے پاس کپڑے بھی کچھ نہ تھے۔ آخر ایک دن قبیلے کی ایک عورت نے ہمارے مجمع سے مخاطب ہو کر کہا۔ اجی اس لونڈے کو کچھ کپڑے بنا کر دو، ورنہ خواہ مخواہ ہماری نماز خراب ہوتی ہے۔ اس پر قبیلے والوں نے چندہ کر کے مجھے ایک جوڑا بنا دیا او مجھے اس سے اس وقت اتنی خوشی ہوئی کہ بیان سے باہر ہے۔

مدینہ ہجرت کر آتے ہی رسول کریمe نے اپنے گھرکے سامنے ایک چبوترہ بنا دیا جس پر سائبان بھی تھا۔ اسے صفہ کہتے ہیں۔ دن کو یہ مدرسہ (جامعہ) بن جاتا تھا اور رات کو دارالاقامہ اور بورڈنگ۔ یہاں اعلی تعلیم تو خود رسول کریمe دیا کرتے تھے لیکن ابتدائی تعلیم اور لکھنا پڑھنا سکھانا، یہ کام نوجوان رضاکاروں کے سپرد تھا۔ ہجرت کے ڈیڑھ ہی سال بعد بدر کی جنگ پیش آئی اور مکے کے قیدیوں کا فدیہ آپe نے یہ مقرر فرمایا کہ ہر شخص مدینے کے دس دس مسلمان بچوں کو لکھنا پڑھنا سکھادے۔ سیدنا زید بن ثابتt نے اسی طرح لکھنا سیکھا او ران کی ذہانت او رخوشخطی کو دیکھ کر رسول اللہe نے انھیں اپنا میر منشی (چیف سیکرٹری) مقرر کرلیا۔ معاہدات کا لکھنا اور راز کی خط و کتابت انھیں سے متعلق تھی۔ ان کی ذہانت کا اندازہ اس سے کیجئے کہ فارسی، حبشی اور عبرانی زبانیں بھی اپنے شوق سے مدینہ آنے والے مسافروں سے چند روز میں سیکھ لیں اورجب آپe نے انھیں عبرانی خط بھی سیکھنے کا حکم دیا تو پندرہ دن میں اس میں مہارت پیدا کر لی تاکہ یہودیوں سے خط و کتابت میں اسلامی محکمۂ خارجہ کسی غیر مسلم یہودیوں کا محتاج نہ رہے۔ سیدنازید بن ثابتt کے علاوہ دیگر کاتب بھی اکثر نو عمر تھے۔ سیدنا علیt، سیدنا معاویہt، سیدنا ابن مسعودt وغیرہ سب نوجوان لوگ تھے۔ اس سے بڑھ کر اہم او رذمہ داری کے کام بھی کثرت سے نوجوانوں کے سپرد کئے جاتے تھے۔ سیدنا اسامہ بن زیدt کو بارہا فوج کا سپہ سالار مقرر کیا گیا۔ جنگ خیبر میں سیدنا علیt کی عمر مشکل سے پچیس سال کی ہوگی۔ انہیں ایک بہت اہم معرکہ کا افسر بنایا گیا۔ اسکے بعد کے سالوں میں انہیں گورنر اور قاضی جیسے عہدے بھی دئے گئے۔ سیدنا عمر و بن حزمt اور سیدنا معاذ بن جبلt بھی بہت نو عمر صحابہ تھے۔ انھیں یمن کے اہم صوبے کا علی التربیت گورنر اور انسپکٹر جنرل تعلیمات کیا گیا۔ سیدنا معاذt کے متعلق مورخ طبری نے لکھا ہے کہ ان کا کام یہ تھا کہ گائوں گائوں اور ضلع ضلع دورہ کریںاور وہاں تعلیم کی نگرانی اور بندو بست کریں۔ آپe نے ذاتی صلاحتیں دیکھ کر مختلف نوجوانوںکو ایک فنی تخصیص کا موقع دیا۔ چنانچہ سیدنا زید بن ثابتt حساب کے بھی ماہر تھے اس لئے انھیں تقسیم ترکہ کے ریاضیاتی فن کا امام قرار دیا۔ کسی کو فن تجوید اور قرات کا ماہر، کسی کو عام مسئلے مسائل او رفقہ کا مستند عالم قرار دیااو رحکم دیا کہ جس کسی کو ان فنون کے متعلق کچھ پوچھنا ہوتو ان ماہرین سے پوچھ لے۔ جیسا کہ حدیث میںآیاہے ’’ انا مدینہ العلم وعلی بابھا‘‘ (معجم الکبیر للطبرانی :10898، المستدرک للحاکم :4638)کہہ کر سیدنا علیt کی عام علمیت کو سراہا گیا ہے۔

آپﷺ کے مشیران خاص بھی اکثر نوجوان تھے۔ ایک سیدنا ابوبکر صدیقt کو چھوڑ کر جو آپe کے تقریبا ہمعصر تھے، باقی تمام اکابر صحابہ سیدنا عمرt، سیدنا عثمانt، سیدنا علیt، سیدنا عبدالرحمن بن عوفt، سیدنا ابن مسعودt، سیدنا سعد بن ابی وقاصt، سیدنا ابن جراحt سب ہجرت کے وقت نو عمر تھے۔ سیدنا ابن عمرt، سیدنا ابن عباسt، سیدنا زید بن ثابتt وغیرہ تو محض بچے تھے۔

آپ ﷺحسب احکام قرآن ہر امر میں مشورہ فرمایا کرتے تھے جس کا منشا نوجوانوں کی تربیت تھا۔ وہ واقعات اور گھتیوں سے واقف ہوتے اور آپ کے فیصلے کو آخر میں سنتے اور اس طرح آئندہ اہم کاموں کے لئے تیار ہوتے جاتے ۔

انتظام مملکت اور سیاست مدن کے لئے جہاں بہت سے عام ادارے (گورنری، عدالت، تحصیل مالگذاری وغیرہ) قائم ہوئے وہیں شہروں اور قبیلوں کا اندرونی نظام بھی درست کیا گیا۔ ہر گائوں یا بڑے شہر کے ہر محلے میں دس دس آدمیوں پر ایک عریف مقرر ہوتا تھا اور جملہ مقامی عریفوں کا ایک نقیب ہوتا جو براہ راست عامل (گورنر) کے پاس جوابدہ ہوتا اور عامل کے احکام کا نفاذ بھی اس کے ذریعے سے ہوتا۔ عریف کا کام عموما نوجوانوں کو دیا جاتا اور وہ بڑی مستعدی اور پھرتی سے اپنے فرائض بجا لاتے۔ ہوازن کے قیدیوں کی رہائی کے متعلق ہزاروں ہی آدمیوں سے رائے لینی تھی۔ یہ کام عریفوں نے دیکھتے کے دیکھتے انجام دے دیا اور نتیجہ آکر آپ e کو سنا دیا۔

حوصلہ افزائی کے لئے نوجوانوں کو شاباشی او رانعام و اکرام کی بھی کمی نہ تھی اور نوجوانون کی تربیت پر توجہ کرنا ہی وہ راز معلوم ہوتا ہے کہ وہ قوم جن سے ابتدائے آفرینش سے کبھی حکومت کا نام نہ سنا تھا وہ پندرہ بیس سال میں جب تین براعظموں کی مالک بن جاتی ہے تو ایسے اچھے مدبر اور سپہ سالار اور منتظم افسر بھی مہیا کرنے کے قابل ہو جاتی ہے جن پر تاریخ انسانیت فخر کر سکتی ہے۔آ ج تہذیب و تمدن کے دعویداروں اور کمالات انسانی کے مالکوں میں سے کونسی گوری سے گوری قوم ہے جو اس اسلامی نظیر کا جواب پیش کر سکتی ہو کہ سیدنا عمرt کے زمانے میں جب ایک شہر پر قبضہ ہوا اور حسب معمول شہریوں سے حفاظتی ٹیکس وصول کیا گیا لیکن جلد ہی جنگی ضرورت سے شہر کا تخلیہ کر کے اسلامی فوج کو وہاں سے ہٹ آناپڑا تو جملہ حفاظتی ٹیکس شہریوں کو یہ کہہ کر واپس کر دیا گیا کہ اب ہم تمہاری حفاظت کے قابل نہیں ہیں اور ہمیں یہ رقم رکھنے کا کوئی حق نہیں۔ آج مہذب سے مہذب قوموں میں سے کون اس نظیر کا جواب پیش کر سکتی ہے کہ سیدنا عمرt کے زمانے میں ایک محصور شہر کے لوگوں نے بعض سابقہ تعلقات کی بنا پر محاصر فوج کے ایک غلام سے امن نامہ حاصل کر لیا۔ اور فوج کا سپہ سالار مجبور ہو گیا کہ اس مسلمان کی بات کا پاس کر ے جو چاہے کتنا ہی کم حیثیت اور ادنیٰ مرتبے کا غلام ہی کیوں نہ ہو۔

اصل میں اعلی تعلیم اتنی اہمیت نہیں رکھتی جتنی ا علی تعمیل، اسلام نے کبھی دکھاوے کی خوش نما مگر ناقابل عمل تعلیم نہ دی کہ کوئی ایک طمانچہ لگائے تو دوسرا گال بھی ضرور پیش کردو کوئی کوٹ چھین لے تو قمیض بھی ضرور اتار کر دے دو۔ اسلام نے اوسط انسانوں کی قابلیت کا لحاظ کر کے قواعد بنائے او ان کی انتہائی تعمیل ادنی اور اعلی سب سے کرائی، ان احکام کا بادشاہ وقت بھی اتناہی پابند ہے جتنا کوئی غلام۔ ایثار اور فرشتہ سیرت اعمال کی تعریف تو کی مگر ویسا کرنا ہر کسی پر واجب نہیں کر دیا۔ یہ اصول اسلامی تعلیم کے ہر جزٔ میں نظر آئے گا۔

اسپورٹس اور مردانہ کھیل

مردانگی اور چستی پیدا کرنے کے لئے جہاں ذہنی تربیت کی ضرورت ہوتی ہے وہیں جسمانی ریاضت بھی ناگزیر ہوتی ہے اسی لئے یہ سوال دلچسپ ہے کہ عہد نبوی میں اسپورٹ کی کس حد تک سرپرستی اور حوصلہ افزائی کی جاتی تھی۔

عالم کی آقائی چاہنے والوں کے لئے نشانہ اندازی اور شہ سواری کی جتنی ضرورت ہے وہ ظاہر ہے اسی لئے ہمیں کوئی تعجب نہ ہونا چاہئے جب ایک حدیث میں یہ بیان کیا گیا ہو کہ ’’ہر کھیل کود برا ہے سوائے شہ سواری، نشانہ اندازی اور اہل و عیال کو خوش کرنیو الی باتوں۔‘‘ یہ بیان کرنے کی حاجت نہیں کہ جب تک توپ اور بندوق اور سرنگیں اور تارپیڈو نہ بنے اور نشانہ اندازی سے مراد صرف تیر اندازی ہوتی رہی۔

عرب میں خاص کر حجاز میں تیرنے کی ضرورت کم پڑتی ہے اس کے باوجود خود آپe نے کم عمری میں اپنی ننھیال کے کنوئیں میں تیرنا سیکھا تھا اور اس کی آئندہ اوروں کو ترغیب بھی دیتے رہے۔

کشتی کا فن بھی اس ضمن میں بیان ہو سکتا ہے۔ آپ e کا رکانہ پہلوان کو مسلسل تین بار کشتی میں پٹکنا تاریخ کاایک مشہور واقعہ ہے مدینے میں بھی آپe   اس کی اکثر سرپرستی فرماتے تھے جنگ احد کے موقع پر چند نو عمر رضا کاروں کو کشتی لڑنے میں ماہر ہونے کے باعث باوجود کم عمری کے فوج میں بھرتی ہونے کی اجازت دی گئی تھی۔

دوڑ کے سلسلے میں آدمیوں کی، گھوڑوں، گدھوں اور اونٹوں کی دوڑ سب سے زیادہ مقبول تھی۔ آپ اس پر خود انعام دیا کرتے تھے۔ تربیت یافتہ اور غیر تربیت یافتہ گھوڑوں کے لئے الگ الگ مسافتیں مقرر تھیں۔ وہ مقام اب تک مدینہ منورہ میں محفوظ ہیں جہاں سے شرط کے گھوڑے وغیرہ روانہ ہوتے تھے۔ اور وہ مقام بھی جہاں کھڑے ہو کر آپ e جیتنے والے کا تعین کرتے تھے۔ اس آخر الذکر مقام پر اب ایک مسجد ہے جو مسجد السبق (دوڑ کی مسجد) کے نام سے موسوم ہے۔ دوڑیں انعام اول دوم سوم چہارم متعدد افراد کو ملتے تھے۔ کبھی یہ انعام کچھ کھانے کی چیزیں مثلا کھجور ہوتے تھے اور کبھی کوئی چیز جن کی تفصیل سیرت شامی میں ملتی ہے۔

نشانہ اندازی کے انعامات اور اس کی ترغیب و تحریص کا ذکر کثرت سے احادیث میں آیا ہے۔ بچوں کے ساتھ عورتوں کا بھی اس سلسلے میں ذکر کیا جاسکتا ہے۔ بی بی عائشہ کے ساتھ خود آپe کا دو مرتبہ دوڑمیں مقابلہ کرنا مشہور واقعہ ہے۔ جنگ ہائے بدر و احد وغیرہ میں زنانہ رضاکار زخمیوں کی مرہم پٹی، پانی پلانے، تیریں چن کر اپنے سپاہیوں کو دینے بلکہ خود تلوار کھینچ کر لڑنے کے کام انجام دیتی رہی ہیں۔ بی بی عائشہ، بی بی صفیہ وغیرہ خاندان نبوی کی افراد تھیں ان میں برابر کا حصہ لیتی رہی ہیں بعد کے زمانے میں سیدنا خالد بن الولیدt کی لڑکیوں کی شہ سواری مشہور ہے اور فنون مدافعت عورتوں کو بھی ضرور سکھائے جاتے رہے ہیں۔

یہ تو آپ کے عمل کا سرسری تذکرہ تھا۔ آخر میں آپ کی تعلیم پر بھی کچھ نظر ڈالنی ضروری ہے۔ ایمان لانے کے بعد کسی شخص کو نماز،رو زہ حج اور زکوٰۃ کا پابند کیا جاتا ہے۔

نماز میں صف آرائی اجتماعی ہمکاری، فوج کا گھروں اور بارکوں سے اذاں کی آواز پر اجتماع گاہ میں پہنچ جانا، اثنائے نماز میں امام مرض یا حدث وغیرہ کسی وجہ سے نماز سے الگ ہو جائے تو فوراً سینیئر مقتدی کا اس کی جگہ لے کر بقیہ نماز کی تکمیل کرانا، نماز خوف کا انتظام، پنچ وقتہ محلہ واری، ہر ہفتہ شہرواری اور ہر سال دو مرتبہ شہر و مضافات کے عام اجتماع، رکوع سجود کے ذریعے سے جسم میں لچک اور قوت پیدا کرنا۔ غرض روحانیت کے ساتھ بیسیوں عسکری مصالح نظر آتے ہیں۔

فوجوں کو کھانے پینے کی چیزیں ہر وقت کہاں مل سکتی ہیں۔ روزے کے ذریعہ ہر موسم میں دن بھربھوکے پیاسے کام کو جاری رکھنے کی جو تربیت ملتی ہے اس سے نتائج کا اعتراف گھر والوں سے نہیں حریفوں سے پوچھیئے۔

فوج کو کوچ اور پڑائو کی جتنی ضرورت ہوتی ہے اس کے لئے حج او رمیدان عرفات سے بہتر کیا مقام مل سکتے ہیں۔ تمام دنیا سے لوگ آئیں اور اس بے آب و گیاہ مقام پر کوچ او رکیمپ کی تربیت حاصل کریں۔ دن کو آئیں مغرب تک ٹھہریں، آگے جاکے رات گزاریں، علی الصبح پھر آگے بڑھیں۔ راستے میںکوئی بازار نہیں۔ کوئی ہوٹل اور مکان نہیں۔ ہر چیز تو شہ خیمہ سب ساتھ لینا پڑتا ہے اور عالمگیر اخوت و تنظیم کا مکمل مظاہرہ ہوتا ہے۔ ہم خیالی سے بہتر اتحاد کا کوئی اور ذریعہ نہیں۔ زبان، رنگ، ملک اور اسی طرح کے ذرائع اتحاد کچھ اتنے سطحی ہیں کہ اولاد آدم و حوا کو ان خود ساختہ تفریقات کے ذریعے سے اپنی یکجہتی کو نقصان پہنچانا جتنا مضر اور خونریز ثابت ہوا ہے، تاریخ اس کے واقعات سے بھری ہوئی ہے۔

معاشیات کو سیاسی رفتار و حالات میں جتنا دخل ہے اس سے اب کسی کو انکار نہیں۔ سرمایہ داری اور سودخوری کی انسانیت سوز بے رحمیاں بالشویزم و کمیونزم کی لعنت اور بربادیاں ان دونوں انتہا پسندیوں کا علاج اسلام نے زکوٰۃ و متعلقات کے ذریعے سے تجویز کیا۔ اس میں اخلاقی عناصر بھی ہیں، فطرت انسانی کا بھی لحاظ ہے۔ انفرادی ملکیت کو مکمل طور سے باقی رکھ کر اجتماعی ضروریات کی تکمیل کا پورا انتظام کیا گیا ہے۔ یہاں اس کی تفصیل ممکن نہیں صرف اس امر کی جانب اشارہ کرنا مقصود ہے کہ خانگی انتظامات ہوں کہ حکومتی، سب کے لئے روپے کی ضرورت ہے اور کوئی سخت اور ناقابل برداشت بار ڈالے بغیر ضرورت سے زیادہ رقم والوں سے ان کی بچت کا ایک خفیف جزو اس غرض کے لئے حاصل کر لیا جاتا ہے اور محتاجوں اور ضرورت مندوں کے کام کے لئے اس کو معین کیا جاتا ہے۔

جب نماز روزہ حج اور زکوٰۃ کے ارکان چہار گانہ کی پوری تعمیل ہوتی ہے تو پھر نوجوانوں کے لئے ممکن ہوتا ہے کہ اپنے فرض کفایہ یعنی جہاد کو انجام دے سکیں جس کا مقصد دنیا میں رب العالمین کی حکومت قائم کرنا اور روز ازل میں اپنے سر لی ہوئی امانت الہی کی تکمیل کرنا ہے۔

حَتّٰى لَا تَكُوْنَ فِتْنَةٌ وَيَكُوْنَ الدِّيْنُ كُلُّهُ لِلهِ

مملکت پاکستان اور ہمارا فرض

ہم نے مملکت خداداد پاکستان کو جن نظریات و مقاصد کے حصول کی خاطر حاصل کیا تھا۔ وہ محتاج بیان نہیں، ہمارے قائدین او ران کے ساتھ ہم نے یہ دعوی کیا تھا کہ ہم ایک خطہ زمین حاصل کرنا چاہتے ہیں جہاں ایک ایسی مثالی حکومت اور طرز زندگی قائم کی جائیگی جو دین اسلام کے نفاذ اور اس کی ترویج کا باعث ہوگی۔ لیکن آج جبکہ اللہ کے فضل سے ہم مملکت پاکستان حاصل کر چکے اور ہمارے دعوئوںکو عملی صورت دینے کا وقت آگیا تو کس قدر حیرت اور تعجب ہے کہ وہ سارے دعوے اور بنیادی مقاصد ہماری نظروں سے اوجھل ہو گئے اور اپنے اصلی مقصد کو فراموش کر کے ہم حب الدنیا والشہوات میں الجھ گئے اور ہمارے قائدین اقتدار کی جنگ میں مصروف پیکار ہیں۔

ایسا معلوم ہوتا ہے کہ سر زمین پاکستان پر ہر کس و ناکس قیادت کے شوق اور حصول زر کے ذوق میں مبتلا ہے۔ کوئی دین کی خدمت کے لئے اپنے آپ کو مٹانے اور ایثار و قربانی کے لئے آمادہ نہیں۔ حصول پاکستان کی جدوجہد کے ایک مجاہد اور دین اسلام کے ایک سچے خادم محمد بہادر خان (نواب بہادر یار جنگ) نے قیام پاکستان سے قبل اسی دارالخلافہ کراچی میں مسلم لیگ کے جلسہ کو مخاطب کرتے ہوئے اس حقیقت کا اظہار کیا تھا۔

’’آج ہمیں ان کی ضرورت نہیں جو شکر ملت پر پھول بن کر چمکنا چاہتے ہیں اور پھل بن کر کام و دہن کو شیریں کرنا چاہتے ہوں۔ ہمیں تو ان کی ضرورت ہے جو ایسی کھاد بن کرزمین میں جذب اور جڑوں کو مضبوط کرنے کے لیے تیار ہوں۔ جو مٹی اور پانی سے مل کر رنگیں پھول پیدا کرتی ہے۔ جو خود فنا ہوتی ہے، اور پھلوں میں شیرینی پیدا کرتی ہے ہم کو ان کی ضرورت نہیں جو کاخ و ایوان کے نقش و نگار بن کر چشم نظارہ کو ذخیرہ کرنا چاہتے ہوں ہم کو ان بنیاد کے پتھروں کی ضرورت ہے جو ہمیشہ کے لئے زمین میں دفن ہو کر اور مٹی کے نیچے دب کر استحکام عمارت کی ضمانت دے سکتے ہوں۔

ایسی کوئی دنیا نہیں افلاک کے نیچے

بے معرکہ ہاتھ آئے جہاں تخت جم دکے

پاکستان کا حاصل کر لینا اتنا مشکل نہیں جتنا پاکستان کا بنانا اور اس کا قائم رکھنا مشکل ہے۔ا ٓپ کے قائد اعظم (محمد علی جناح) نے ایک سے زیادہ مرتبہ اس کا اظہار فرمایا ہے کہ مسلمان اپنی حکومتوں میں سے کسی دستور قانونی کو خود مرتب کرنے کا حق نہیں رکھتے۔ ان کا دستور مرتب ہے اور ان کے ہاتھوں میں موجود ہے۔ اور وہ قرآن مجید ہے کتنی صحیح نظر کتنے صحیح فیصلے ہیں۔ اس حقیقت سے کون انکار کر سکتا ہے کہ ہم پاکستان صرف اس لئے نہیں چاہتے کہ مسلمانوں کے لئے ایک ایسی جگہ حاصل کر لیں کہ جہاں وہ شیطان کے آلہ کار بن کر ان دساتیر کافرانہ پر عمل کریں۔ جن پر آج ساری دنیا کاربند ہے۔ اگر پاکستان کا صرف یہی مقصد ہے تو کم از کم میں ایسے پاکستان کا حامی نہیں ہوں۔‘‘

حصول پاکستان کے مرد مجاہد کا یہ اعلان حق آج بھی شدت سے پاکستانیوں کو دعوت فکر و عمل دے رہا ہے اور حالات متقاضی ہیں کہ ایک مرتبہ پھر نوجوانان ملت اٹھیں اور پورے عزم و ارادے کی قوت، جوش جہاد اور مرنے و مٹنے کی وہی تڑپ اپنے سینے میں پیدا کریں۔ جو قائد اعظم اور بہادر خاں کے قلوب میں موجزن تھی۔

صرف اللہ کے بھروسہ پر دارالادب نے یہ تہیہ کیا ہے کہ ملک کے نوجوانوں اور اصحاب فکر و عمل کو آمادہ کیا جائے کہ وہ پاکستانیوں میں ان کی ذمہ داریوں کا احساس پیدا کریں۔ اس مقصد کی تکمیل کے لئے علمی و عملی شعبۂ تبلیغ و اشاعت کا لائحہ عمل ترتیب دیا گیا ہے جو ذیل میں درج کیا جاتا ہے۔ جو حضرات ہم سے تعاون فرمانا چاہیں وہ اپنا نام اور پتہ ارسال فرمائیں۔ تاکہ ہم ان کا تعاون حاصل کر سکیں۔

لائحہ عمل:

تعلیم یافتہ نوجوانوں کو عوام میں ذہنی انقلاب اور بہ حیثیت پاکستانی ان میں اپنی ذمہ داری کا احساس اور صحیح اسلامی فکر و نظر پیدا کرنے کے لئے تیار کیا جائے گا۔ جو ہر ہفتہ ایک پروگرام ترتیب دے کر اور محلے محلے گھوم کر اپنے عمل و تفہیم سے ذہنی انقلاب پیدا کر دیں گے۔ بچوں کی تعلیم و تربیت کے لئے مدارس بھی قائم کئے جائیں گے۔

پاکستان و بیرون پاکستان کے مشاہیر علماء کی قلمی جذبات حاصل کی جائیں گی۔

چھوٹے چھوٹے رسائل تحقیقی مقالے اور خاص خاص مضامین اور چارٹس شائع کئے جائیں گے۔

بلا معاوضہ ہفتہ واری جلسوں اور اصحاب اہل فکر و نظر علماء کی تقاریر و تفسیر قرآن کی مجلسوں کا انتظام کیا جائے گا۔

مدارس، کالجوں، مساجد اور دیگر اداروں میں علماء اور اصحاب فکر و نظر کی تقریروں کا انتظام کیا جائے گا۔

تَعَاوَنُوْا عَلَی الْبِرِّ وَالتَّقْویٰ

(بشکریہ دارالادب، کراچی، پاکستان)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے