مورخہ16 دسمبر کو شہر کراچی میں پہلی بار اکابرِعلمائے اہل حدیث ایک انتہائی پیچیدہ موضوع پر گفتگو کے لئے جمع ہوئے، جس میں فضیلۃ الشیخ حافظ مسعود عالم ، فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر عبد الحمید ازہر، ماہر اسلامی معیشت و اقتصادیات فضیلۃا لشیخ ڈاکٹر ذوالفقار احمد ، ماہر اقتصادیات ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی، عثمان صفدر اور جناب علامہ عبد اللہ ناصر رحمانی حفظم اللہ نے علمی خطاب کئے۔ اس سیمنار کا انعقاد’’المدینہ اسلامک ریسرچ سینٹر کراچی‘‘کی جانب سے کیا گیا تھا، اپنے موضوع پر اس قسم کے انتہائی منفرد اجتماعات منہج سلف پر گامزن افراد کے لئے ماضی قریب میں دیکھنے کو نہیں ملتے۔ جزاہم اللہ احسن الجزا۔ مذکورہ بالا سیمینار میں مروّجہ اسلامی بینکاری کے نظام میں اصلاحات اور صحیح اسلامی بینکاری کے قیام کے لیے علمائے اہلحدیث کی جانب سے پیش کی گئیںسفارشات قارئین کے استفادہ کے لئے پیش خدمت ہیں۔ (ادارہ)

دنیا کے گلوبل ولیج بننے سے معیشت ، تجارت ، معاہدات میں پیدا ہونے والی نت نئی صورتوں کی شرعی حیثیت کا جائزہ لینے، عوام الناس کو جدید معاشی مسائل سے متعلق شرعی آگاہی دینے ، خصوصاً اسلامی بینکنگ میں رائج مرابحہ ، مشارکہ ، مضاربہ وغیرہ کی شرعی حیثیت جاننے، ان مسائل کا شرعی متبادل پیش کرنے اورملکی معیشت کو شرعی خطوط پر استوار کرنے کیلئے،’’ المدینہ اسلامک ریسرچ سینٹر کراچی‘‘کی جانب سے ایک منفرد سیمیناربعنوان ’’اسلامی بینکاری شرعی میزان میں ‘‘ منعقد کیا گیا جس میں ملک کے مایہ ناز علماء و ماہرین معیشت نے بھی خطاب کیااورمتعلقہ موضوعات پر اپنے اپنے علمی مقالہ جات پیش کئے ۔ سیمینار میں کثیر تعداد میں علماء و مفتیان کرام ،اسلامی بینکاری سے متعلقہ شخصیات، سرمایہ داروں،اعلی تعلیمی اداروںکے پروفیسرز اور طلباءنے شرکت کی۔

سیمینار کے آخر میں المدینہ اسلامک ریسرچ سینٹر کراچی کی جانب سے مروّجہ اسلامی بینکاری کے نظام میں اصلاحات اور صحیح اسلامی بینکاری کے قیام کے لیے علماء کی بیان کردہ تجاویز کی روشنی میں اہم سفارشات پیش کی گئیں جو درج ذیل اقسام پر مبنی ہیں:

1 تمہید

2 مروجہ اسلامی بینکنگ میں موجود شرعی قباحتیں۔

3 صحیح اسلامی بینکاری کے لئے بنیادی تجاویز۔

4 دیگر سفارشات۔

1 تمہید:

سودی نظام پر مبنی بینکاری یقیناً کسی بھی معاشرے اور اس کی اقتصاد و تجارت کے لئے زہر ہلاہل جبکہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے ساتھ کھلا اعلان جنگ ہے ، جو کسی بھی معاشرہ خصوصاً مسلم معاشرہ کے لئے ہرگز قابل قبول نہیں ۔ ایک مسلمان چاہے عالم ہو یا تاجر یا کوئی اور حیثیت رکھتا ہو ، اس کے لئے ضروری ہے کہ اپنی زندگی کے تمام پہلؤوں پر عموماً اور اپنی آمدن و تجارت پر خصوصاً اسلامی اصول ومبادی کی عملی تطبیق کے لئے سرگرداں رہے۔سودی بینکاری کے بالمقابل اسلامی بینکاری کا رواج و تنفیذ بھی یقیناً اسی سوچ کی عکاس ہے اور انتہائی لائق تحسین ہے ۔ سودی بینکاری کی انتہائی پختہ و مضبوط عمارت اور نظام سے ہٹ کر خالصتاً اسلامی بنیادوں پر قائم بینکاری نظام کا قیام یقیناً انتہائی دشوار گزار مرحلہ رہا ہوگاجس کے لئے جدوجہد کرنے والے تمام علماء و کاروباری حضرات لائق تعریف ہیں۔

یہاں ایک اہم بات یہ ہے کہ نظام بینکاری کا تعلق ایسے جدید معاشی مسائل سے ہے جس میں اجتہاد کا عنصر زیادہ ہے، اور اس کے ساتھ ساتھ بینکاری انتہائی دقیق اور حساس مسائل پر محیط ایک نظام ہے، اور چونکہ اسلامی بینکاری، سودی نظام بینکاری کو ہی اسلامی مالیاتی نظام کے سانچہ میں ڈھالنے کی کاوش ہے تو اسے شریعت اسلامیہ کے عین مطابق قرار دینے سے پہلے دو پہلؤوں سے اس کا جائزہ لینا نہایت ضروری ہے:

(۱) فقہی اجتہادات : یعنی جن اصولی بیوع پر اسلامی بینکاری کے معاملات کو قیاس کیا گیا ہے ، کیا ان اصولی بیوع اور اسلامی بینکاری کے لئے مجوزہ نظام میں مطابقت بھی ہے یا نہیں ؟ اور کیا ان اصولی بیوع کی شرعی قیود و شروط کا اسلامی بینکاری میں خیال رکھا گیا ہے یا نہیں؟۔ مثال کے طور پر اسلامی بینک کےبچت کھاتہ (saving account) کو شرعی مضاربہ پر قیاس کیا جاتا ہے تو فقہی حوالہ سے اس بات کی نشاندہی ضروری ہے کہ کیا بچت کھاتہ کا نظام اور اس کی تمام قیود و شرائط شرعی مضاربہ کے مطابق ہیں یا نہیں۔

(۲) عملی تطبیق: یعنی علماء نے بحث و تمحیص و اجتہادات کے ذریعہ اسلامی بینکاری کے لئے جو نظام تجویز کیا ہے تو عملی تطبیق کے حوالہ سے اس کا جائزہ لینا نہایت ضروری ہے کہ اسلامی بینکوں میں عملی طور پر جو معاہدات وقوع پذیر ہوتے ہیں وہ اسلامی بینکاری کے لئے مجوزہ نظام سے حقیقی مطابقت بھی رکھتے ہیں یا نہیں؟۔ان تمام معاہدات کی ہر شق اور ہر شرط کی نہایت باریک بینی سے جانچ پڑتال انتہائی ضروری ہے ؛ کیونکہ بسا اوقات ایک شرط پورے معاہدے کو حرام صورت میں بدل دیتی ہے ، اور بسا اوقات معاہدے میں عملی لحاظ سے معمولی سی تبدیلی پورے معاملہ کو سودی معاملہ کی شکل دیدیتی ہے۔

الغرض اس تمہید کا مقصد یہ ہے کہ اسلامی بینکوں میں موجود شرعی خامیوں کی نشاندہی سے ہرگز بھی یہ مراد نہیں کہ اسلام میں بینکوں کی گنجائش نہیں، یا یہ کہ ہم سودی بینکوں کو رواج دینے اور تقویت دینے میں معاون ہیں۔مقصد صرف اصلاح ہے کہ ایک اچھا قدم جو اٹھایا گیا ہے وہ اچھائی کی جانب گامزن رہے اور اس میں جو خامیاں ہیں انہیں دور کیا جائے، خصوصاً ایسی خامیاں جو اسلامی بینکوں اور سودی بینکوں کے درمیانی فرق کو صرف نام کی حد تک ہی برقرار رکھیں اور اسلامی نظام معیشت کی سنہری خصوصیات و فوائد معاشرے تک منتقل نہ ہوسکیں ۔

2مروجہ اسلامی بینکنگ میں موجود شرعی قباحتیں

شرعی قباحتوں کے بیان میں چند باتیں چیز مد نظر رہیں کہ:

یہ سفارشات ہیں، جو کہ نہایت اختصار کی متقاضی ہیں ، اور اس میں علماء کرام اور بینکار حضرات ہی کو مخاطب کیا گیا ہے جو کہ ان معاہدات کی تفاصیل سے باخبر ہیں اسی لئے ان سفارشات کی تحریر میں اختصار ہی سے کام لیا گیا ہے۔ تفصیل کے طالب افراد ادارہ ’’المدینہ اسلامک سینٹر‘‘ سے جاری مجلہ’’البیان ‘‘ یا ادارہ کی ویب سائٹ www.islamfort.com سے رجوع کریں۔

ان سفارشات میں مروجہ اسلامی بینکوں کے صرف ان معاملات کا احاطہ و نقاش ہے جو اساسی ہیں یا اکثریتی ہیں ، یعنی بینک زیادہ تر وہی معاملات کرتے ہیں ۔ اقلیتی یا ثانوی معاملات کے احاطہ کو طوالت کے خدشہ کے پیش نظر ترک کیا گیاہے۔

1) مضاربہ:

مروجہ اسلامی بینکوں میں رائج مضاربہ، شرعی مضاربہ کے  اصولوں پر پورا نہیں اترتاجس کی بنیادی وجوہات یہ ہیں:

ڈیپازیٹر کو اعتماد میں نہ لیا جانا ۔

منافع اور حقوق سے استفادہ میں یکطرفہ بڑھوتی۔

مضاربہ کے مال کو تجارت کے بجائے صرف تمویل میں استعمال کیا جانا۔

ڈیپازیٹر کے سرمائے کو کم ویٹ دینا۔

رب المال کے اختیارات کو سلب کرنا ۔

2) مشارکہ:

 اسلامی بینکوں میں مشارکہ کی بنیاد پر کوئی اکاونٹ نہیں کھولا جاتا ، بلکہ سرٹیفکیٹ دیا جاتا ہے یہ غیر شرعی مشارکہ ہے کیونکہ :

  Depositor جو کہ مشارکہ میں فریق ہے اسے بینک کی شراکت کی مالیت کا علم نہیں ہوتا ۔جبکہ اسلامی مشارکہ میں لازم ہوتا ہے کہ فریقین کو ایک دوسرے کے سرمائے کا علم ہونا چاہئے ۔

مروجہ اسلامی بینکوں میں مشارکہ کی صورت میں ظلم کو رواج دیا جاتا ہے جس کی صورت یہ ہے کہ ڈیپازیٹر کے انفرادی سرمائے کو کم ویٹ دیا جاتا ہے اور بینک اپنے سرمایہ کا ویٹ زیادہ رکھتا ہے ۔

 مشارکہ متناقصہ (Diminishing Musharaka):

یہ ایک معاہدہ میں دو معاہدے ہیں ، یعنی مشارکہ کا معاہدہ پھر اسی معاہدہ میں اس کے تناقص (diminish)  کا معاہدہ۔

بینک کی طرف سے یہ وعدہ لینا کہ گاہک اس چیز میں بینک کے شئیرز اقساط میں بینک سے خریدے گا ، یہ شرط اس مشارکہ میں بینک کے سرمایہ اور منافع کی ضمانت ہے  اور مشارکہ میں سرمایہ کی ضمانت اس مشارکہ کو سود ی معاملہ میں تبدیل کردیتی ہے۔

اقساط کی ادائیگی میں تاخیر کی صورت میں صدقہ کی شرط دراصل تاخیر میں جرمانہ ہے جو کہ حرام اور سود ہے۔

3) مرابحہ:

مروجہ اسلامی بینکوں کے نظام میں رائج مرابحہ، عام شرعی مرابحہ نہیں بلکہ مرابحہ للآمر بالشراء ہوتا ہے، یعنی گاہک کے مطالبہ پر بینک اس کے لئے مطلوبہ سامان خریدتا ہے اور اپنا منافع متعین کر کے اقساط میں گاہک کو بیچتا ہے۔ مروجہ مرابحہ میں شرعی قباحتیں:

عام شرعی مرابحہ ایک تجارتی معاہدہ ہے جبکہ مروجہ مرابحہ محض تمویل (financing) ہے۔

بینک خریدار سے وعدہ لیتا ہے کہ جب بینک گاہک کا مطلوبہ سامان خرید لے گا تو گاہک اس سے لازمی یہ سامان خریدے گا۔ یہ وعدہ بذات خود ایک معاہدہ کی صورت اختیار کر جاتا ہے اور پھر اس میں بیع مالایملک کی قباحت آجاتی ہے یعنی ایسی چیز کو بیچنا جس کا وہ مالک نہ ہو۔

بینک مطلوبہ سامان کی خریداری میں اسی گاہک کو اپنا وکیل بناتا ہے جو کہ صحیح نہیں ہے ، اور یہ قرض دے کر اس پر سود لینے کی صورت بن جاتی ہے۔

مروجہ مرابحہ میں منافع کا تعین شرح سود سے کیا جاتا ہے جوکہ (LIBOR) یا (KIBOR) کے ذریعہ متعین کی جاتی ہے ۔ منافع میں شرح سودکو معیار مقرر کرنا معاملہ کو مشکوک بناتا ہے ۔

ادائیگی اقساط کی تاخیر میں صدقہ کی صورت میں جرمانہ دراصل سود ہے۔

مرابحہ کی بعض صورتوں میں التورق المنظم پایا جاتا ہے جو کہ بالاتفاق حرام اور سودی حیلہ ہے۔

4) اجارہ:

اسلامی بینکوں میں جو اجارہ کیا جاتا ہے وہ اجارہ المنتھیۃ بالتملیک ہے، یعنی کرایہ کا معاہدہ اور پھر آخر میں اس چیز کی ملکیت کا تبادلہ، جو کہ اسی ایک معاہدہ کے ذریعہ ہوتا ہے ، یا اس مدت کے اختتام پر ایک نمائشی قیمت کے ذریعہ یا پھر ہدیہ کے ذریعہ۔ عقد اجارہ یعنی کرایہ کا معاہدہ دراصل اس کی صرف ظاہری صورت ہے ، حقیقت میں بینک اور گاہک دونوں کا مقصود اس چیز کی خرید و فروخت ہوتی ہے، اور یہ اصول ہے کہ معاہدات میں مقاصد کو دیکھ کر حکم لگایا جاتا ہے نہ کہ ظاہری الفاظ کو دیکھ کر، لہذا اس معاہدہ پر بھی بیع کے احکامات لاگو ہوں گے نہ کہ کرایہ کے۔

 مروجہ اجارہ میں شرعی قباحتیں :

عقد اجارہ کرتے وقت بینک کے پاس مطلوبہ چیز موجود نہیں ہوتی اور یہ بیع مالایملک ہے، جو کہ حرام ہے۔

اگر ایک ہی معاہدہ میں کرایہ اور ملکیت کا تبادلہ ہو تو یہ ایک معاہدہ میں دو معاہدے ہیں جو کہ حدیث کی رو سے حرام ہے۔

مروجہ اجارہ چونکہ درحقیقت خرید و فروخت کا معاہدہ ہے اس لئے بینک اس میں چیز کی قیمت جمع منافع کو اقساط میں تقسیم کرتا ہے پھر اسے کرایہ کی صورت میں وصول کرتا ہے، اور بینک اپنے منافع کو (KIBOR) یا (LIBOR) جو کہ شرح سود کے لئے Bench Mark ہے کے ذریعہ متعین کرتا ہے۔شرح سود کو معیار مقرر کرنا مکمل معاملہ کو مشکوک بناتا ہے۔

اجارہ میں بینک کا چیز کی ملکیت کو اپنے پاس رکھنا بھی جائز نہیں ، کیونکہ مروجہ اجارہ کا معاہدہ درحقیقت بیع و شراء کا معاہدہ ہے جس میں بینک بائع ہے اور مستاجر(کرایہ دار) دراصل مشتری (خریدار) ہے ، اور چیز کی ملکیت مشتری کے پاس ہوتی ہے نہ کہ بائع کے پاس۔

اجارہ کی مدت کے اختتام پر ہدیہ کا وعدہ بھی درست نہیں ، کیونکہ یہ عام ہدیہ نہیں بلکہ ہدیۃ الثواب ہے کیونکہ یہ ان اقساط کی ادائیگی کے عوض میں ہدیہ ہے جو گاہک نے بینک کو ادا کیں، اور ہدیۂ الثواب کا حکم بیع کاہی ہوتا ہے ، یعنی اجارہ کے معاہدہ میں ہدیہ کا وعدہ دراصل ایک معاہدہ میں دو معاہدے ہیں جو شرعی لحاظ سے جائز نہیں۔

اقساط کی ادائیگی میں تاخیر پر صدقہ دراصل سود ہے۔

3صحیح اسلامی بینکاری کے لئے بنیادی تجاویز

موجودہ اسلامی بینک محض مالیاتی ادارہ ہےتجارتی نہیں لہٰذااسلامی بینک کو ایک حقیقی تجارتی ادارہ بنایا جائے ۔

شریعت میں محض تمویل پر بنا کسی مخاطرت (رسک ) کے فائدہ حاصل کرنا جائز نہیں کیونکہ شرعی اصول کے مطابق معاملات میں مقصد اور نیت کو ملحوظِ خاطر رکھا جاتا ہے نہ کہ الفاظ کو ۔

اسلامی بینک کو مرابحہ اور اجارہ کو چھوڑ کر حقیقی مضاربہ و مشارکہ کی جانب آنا چاہئے، اور اپنا رسک قبول کرنا چاہئے

مضاربہ کے لئے جمع ہونے والے سرمایہ کو صرف تجارت کے لئے استعمال کیا جائے نہ کہ محض تمویل میں۔

اسلامی بینک کو حقیقی شرعی مضارب کا کردار اپناتے ہوئے رب المال کے اختیارات کو حیلہ بہانہ سے سلب نہیں کرنا چاہئے بلکہ رب لمال کے شرعی اختیارات کو تسلیم کرتے ہوئے اپنے معاملات کو واضح کرے۔

مضاربہ میں بینک کو جس نسبت (Ratio) سے منافع ہو اسی نسبت سے رب المال (Depositors) کو بھی منافع میں شریک کرے۔

اقساط کی ادائیگی میں تاخیر کی صورت میں صدقہ کی شرط کسی بھی طرح جائز نہیں ، چاہے صدقہ کی رقوم کو بینک استعمال کرے یا خیراتی اداروں کو دے۔بلکہ اس کے بجائے تنگدست کو مہلت دینے کے سنہرے شرعی اصول کو اپنایا جائے۔

اگر بینک کو گاہک کی جانب سے جان بوجھ کر تاخیر کا خدشہ ہو تو رقم کی صورت میں جرمانہ کے بجائے کوئی اور طریقہ اختیار کیا جائے ۔ مثلاً گاڑی یا گھر یا کوئی اور چیز بیچتے وقت اس کی قیمت میں کچھ خدمات (Services) کے حوالہ سے بھی رقم وصول کی جائے اور قیمت کی ادائیگی میں تاخیر کی صورت میں ان خدمات کو ختم یا کم یا مؤخر کردینے کی شرط عائد کی جاسکتی ہے۔

رابحہ میں بینک اسی خریدار کو اپنا وکیل بنانے کے بجائے کسی اور کو اپنا وکیل مقرر کرے۔

مرابحہ میں التورق المنظم کی قباحت سے بچنا نہایت ضروری ہے۔

کسی بھی معاہدہ میں طرفین کی جانب سے کوئی وعدہ نہ کیا جائے ، اور اگر وعدہ یکطرفہ ہو یعنی صرف بینک یا صرف گاہک کی جانب سے تو اس وعدہ کے ایفاء کو قانوناً لازم قرار نہ دیا جائے۔

اجارہ المنتھیہ بالتملیک کے بجائے اسلامی بینک بیع التقسیط کا فارمولا اختیار کرے تو زیادہ بہتر ہے ۔ اس صورت میں اسلامی بینک چیز کی ملکیت اگرچہ گاہک کو منتقل کرنے کا پابند ہوگا لیکن یہ شرط عائد کی جاسکتی ہے کہ اس چیز کی ملکیت بینک اپنے پاس بطور رہن کے رکھے گا جب تک کہ خریدار چیز کی قیمت مکمل ادا نہ کردے۔بیع التقسیط میں چیز کے تلف ہوجانے یا نقصان کی صورت میں بینک ضامن بھی نہیں ہوگا۔اور بیع التقسیط کےذریعہ اسلامی بینک اجارہ کی دیگر شرعی قباحتوں سے بھی محفو ظ رہ سکتا ہے۔

اسلامی بینک اپنے تمام معاہدات میں کسی بھی طرح شرح سود کو ہر گز بطور معیار مقرر نہ کرے ۔

ایک معاہدہ میں دو معاہدوں کی قباحت سے بہر صورت بچا جائے۔

4  دیگر سفارشات۔

Aکسی بھی معاملے کو محض فروغ مل جانے سےاسکا شرعی جواز ثابت نہیں ہوتا لہذا مروجہ اسلامی بینکوں کے جواز کیلئے یہ دلیل دینا کسی طور بھی صحیح نہیں ۔

B سودی قرض کو ختم کرنے کیلئے اور لوگوں کی معاونت کیلئے قرضہ حسنہ کے مواقع میسر کیئے جانے چاہئیں ۔

C مدارس دینیہ میں بینکنگ اور معیشت کے معاملات کی تدریس کا اہتمام کیا جانا چاہئے ۔

D عوام الناس کی آگاہی کیلئے اسلامی نظام معیشت کی خصوصیات وفوائد سے متعلق ورکشاپس کرائی جائیں ۔

E علماء کرام سے خصوصی درخواست کی جاتی ہے کہ موجودہ نظام معیشت پر عرق ریزی سے تحقیق کی جائے اور امت کو ایک اتفاقی فتویٰ کی صورت میں زیر بحث مسئلہ کا حکم بتا یا جائے ۔

F اسٹیٹ بینک سے مطالبہ ہے کہ ایسا نظام لایا جائے جس میں شرعی ایڈوائزر اسلامی بینک کا ملازم نہ رہے ۔

G اسلامی بینکاری نظام کے ساتھ ساتھ سودی نظام بینکاری کو بطور متوازی نظام کے برقرار نہیں رکھنا چاہئے ، بلکہ ہر ممکن کوشش کی جائے کہ سودی نظام کو بتدریج ختم کر کے اسلامی نظام معیشت کی جانب پیش قدمی جاری رہے۔

H اسلامی معاشی اصولوں کو رائج کرنے کی جانب پیش قدمی کرنا ضروری ہے ۔

I اسلامی بینکاری نظام میں تبدیلی ضروری ہے، اسے شریعت کی روح کے مطابق ہونا چاہئے ۔

J  ملکی قوانین میں اسلامی قوانین کی بالا دستی ہونی چاہئے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے