إباحۃ الأکل من بیوت الأقرباء:

قولہ تعالیٰ:

لَيْسَ عَلَي الْاَعْمٰى حَرَجٌ وَّلَا عَلَي الْاَعْرَجِ حَرَجٌ وَّلَا عَلَي الْمَرِيْضِ حَرَجٌ وَّلَا عَلٰٓي اَنْفُسِكُمْ اَنْ تَاْكُلُوْا مِنْۢ بُيُوْتِكُمْ اَوْ بُيُوْتِ اٰبَاۗىِٕكُمْ اَوْ بُيُوْتِ اُمَّهٰتِكُمْ اَوْ بُيُوْتِ اِخْوَانِكُمْ اَوْ بُيُوْتِ اَخَوٰتِكُمْ اَوْ بُيُوْتِ اَعْمَامِكُمْ اَوْ بُيُوْتِ عَمّٰتِكُمْ اَوْ بُيُوْتِ اَخْوَالِكُمْ اَوْ بُيُوْتِ خٰلٰتِكُمْ اَوْ مَامَلَكْتُمْ مَّفَاتِحَهٗٓ اَوْ صَدِيْقِكُمْ ۭ لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَاْكُلُوْا جَمِيْعًا اَوْ اَشْـتَاتًا ۭ فَاِذَا دَخَلْتُمْ بُيُوْتًا فَسَلِّمُوْا عَلٰٓي اَنْفُسِكُمْ تَحِيَّةً مِّنْ عِنْدِ اللّٰهِ مُبٰرَكَةً طَيِّبَةً ۭ كَذٰلِكَ يُبَيِّنُ اللّٰهُ لَكُمُ الْاٰيٰتِ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُوْنَ؀ۧ

اندھے پر، لنگڑے پر، بیمار پر اور خود تم پر (مطلقاً) کوئی حرج نہیں کہ تم اپنے گھروں سے کھالو یا اپنے باپوں کے گھروں سے یا اپنی ماؤں کے گھروں سے یا اپنے بھائیوں کے گھروں سے یا اپنی بہنوں کے گھروں سے یا اپنے چچاؤں کے گھروں سے یا اپنی پھوپھیوں کے گھروں یا اپنے ماموؤں کے گھروں سے یا اپنی خالاؤں کے گھروں سے یا ان گھروں سے جن کی کنجیوں کے تم مالک ہو یا اپنے دوستوں کے گھروں سے تم پر اس میں بھی کوئی گناہ نہیں کہ تم سب ساتھ بیٹھ کر کھانا کھاؤ یا الگ الگ۔ پس جب تم گھروں میں جانے لگو تو اپنے گھر والوں کو سلام کر لیا کرو، دعائے خیر ہے جو بابرکت اور پاکیزہ ہے اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل شدہ، یوں ہی اللہ تعالیٰ کھول کھول کر تم سے اپنے. احکام بیان فرما رہا ہے تاکہ تم سمجھ لو۔

مشکل کلمات کے معانی:

حرج:چیزوں کو اس طرح جمع کرنے کو کہتے ہیں جس سے تنگی نظر آنے لگے۔( تاج العروس )

یہ لفظ اضطراب ،بے اطمینانی اور شک کے معانی میں استعمال ہونے لگا۔ (راغب )

کوئی مضائقہ نہیں ،کوئی اعتراض نہیں وہ کام جو دل کی تنگی سے کیا جائے ( محیط )

اس سے یہ لفظ گناہ کے معانی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔( راغب )

یہاں یہ قابل اعتراض بات کے معانی میں آیاہے

سورۃ الحج میں ہے کہ :

وما جعل علیکم فی الدین من حرج (78)

اس نے دین کے معاملے میں تم پر کوئی تنگی نہیں رکھی۔

ابن الاثیر لکھتے ہیں کہ حرج اصل میں تنگی کو کہتے ہیں جو کہ گناہ اور حرام پر واقع ہو۔

مفاتحہ : مفتح کی جمع ہے مفاتیح کی جمع ہے اس کے معنی میں کنجی اور مال یا خزینہ دونوں ہیں۔

أشتاتاً : متفرقین، الگ الگ فرقہ بازی ،آیت کا مفہوم ہے کہ تم پر کوئی گناہ نہیں ہےکہ تم الگ الگ کھاتے یااکٹھے کھاتے۔

فسلّموا : السّلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ۔

اسلام اور تحیہ دونوں ہم معنی لفظ ہیں اور اس کا مطلب ہے آفات سے سلامتی ۔

تحیہ : سلام کے معنی میں ،دراز عمر یاخوشگوار زندگی کی دعا دینا۔(محیط )

إجمالی مفہوم:

آداب استئذان کی تعلیمات کے بعد اب معاشرتی أمور میں سب سے اہم مسئلہ کی طرف توجہ دلائی جارہی ہے کہ جسے ہم آداب طعام کے ایک جزء کی حیثیت سے جانتے ہیں۔

اہل اعذار میں سے قرآن مجید نے صرف ان کا تذکرہ کیا یعنی اندھے ،لنگڑے ، مریض اور کہا کہ کوئی حرج نہیں کہ یہ لوگ تمہارے ساتھ کھانا کھائیں کیونکہ عموماً لوگ معذور لوگوں کے ساتھ کھانا کھانے میں کراہت اختیار کرتے تھے تو اس حکم کے ذریعے اس کراہت کو ختم کرنے کے لیے کہا گیا کہ اس میں کوئی حرج نہیں ہوناچاہیے۔

اس کے بعد مخاطبت اہل ایمان سے کی گئی اور اس کے ذریعے رشتہ داروں اور دوستوں کے ساتھ تعلقات کی نوعیت کومزید بہتربنانے کی طرف توجہ دلائی گئی کہ اگر ایسی ضرورت پیش آگئی ہوکہ تمہیں کھانے کی حاجت محسوس ہوتو اس أمر میں کوئی حرج نہیں کہ تم اپنے ان رشتہ داروں دوستوں یا جن گھروں کی ذمہ داری تم پر ہے ان گھروں سے بغیر اجازت کے حسب ضرورت کھانا کھاسکتے ہو۔اور ان گھروں میں اس مقصد کے لیے داخل ہو تو سلام کرو اور سلامتی بھیجنا ایک اچھا اور مبارک عمل ہے۔

آخرمیں اللہ تعالیٰ نے اپنی آیات (نشانیاں،علامات) بیان کرنے کا مقصد بتایا کہ شاید تم لوگ غوروفکر اور تدبر کرو کہ اللہ رب العزت یہ باتیں اتنے واضح انداز میں کیوں کر رہے ہیں کہ جس رب نے اتنے چھوٹے مسائل پر اتنے شرح وبسط سے کام لیا ہو گا تو اس مالک کون ومکان نے ہماری پیدائش کی غرض وغایت کو کس قدر واضح انداز میں بیان کیا ہوگا۔

تفسیر وتوضیح :

لَيْسَ عَلَي الْاَعْمٰى حَرَجٌ وَّلَا عَلَي الْاَعْرَجِ حَرَجٌ وَّلَا عَلَي الْمَرِيْضِ حَرَجٌ وَّلَا عَلٰٓي اَنْفُسِكُمْ اَنْ تَاْكُلُوْا مِنْۢ بُيُوْتِكُمْ اَوْ بُيُوْتِ اٰبَاۗىِٕكُمْ اَوْ بُيُوْتِ اُمَّهٰتِكُمْ اَوْ بُيُوْتِ اِخْوَانِكُمْ اَوْ بُيُوْتِ اَخَوٰتِكُمْ اَوْ بُيُوْتِ اَعْمَامِكُمْ اَوْ بُيُوْتِ عَمّٰتِكُمْ اَوْ بُيُوْتِ اَخْوَالِكُمْ اَوْ بُيُوْتِ خٰلٰتِكُمْ اَوْ مَا مَلَكْتُمْ مَّفَاتِحَهٗٓ اَوْ صَدِيْقِكُم

اس کی توضیح میں دو تین أقوال کاوجود ملتا ہے جو کہ درج ذیل ہیں :

۔ صحابہ کرام جہاد پر جاتے ہوئےمعذور افراد کو اپنے گھروں کی ذمہ داریاں دے کر جاتے تھے لیکن اس کے باوجود وہ معذور افراد ان گھروں سے کچھ نہ کھاتے تھے اس آیت کے ذریعے ان کو اجازت دی گئی۔

۔ اس زمانے میں معذ ور لوگوں کے ساتھ کھانا کھانے میں کراہت محسوس کی جاتی تھی تو اس آیت کے ذریعے اس کراہت کو ختم کیا گیا ۔

۔ مذکورہ بالا لوگوں کی غیر موجودگی میں صحابہ کرام ان لوگوں کے گھروں سے بلا اجازت کھانا کھاتے تھے اور اپنے ساتھ معذور افراد کو بھی لے جاتے تھے اور جب یہ آیت نازل ہوئی لا تأکلو أموالکم بینکم بالباطل تو لوگوں نے ان کے گھروں سے کھانا اور محتاج ومعذورکو ساتھ لے جانے میں گناہ سمجھاکہ جب تک گھر والوں کی طرف سے اذن یادعوت نہ ہو نہ خود کھایا جائے نہ کسی اور کو ساتھ لے جایا جائے تو اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔جو نابینا،لنگڑے اورمریض سےحرج کو ختم کرتی ہے اوررشتہ دار کو رشتہ دار کے گھر سے کھانا کھانے کی اجازت دیتی ہے۔اور یہ بھی کہ اگر وہ اپنے ساتھ اس قسم کے حاجت مندوں کو لے جانا چاہیں تو کوئی حرج نہیں مگر اس میں یہ شرط ہے کہ صاحب خانہ اسے ناپسند نہ کرے اور اس کو کوئی نقصان نہ پہنچے۔اسی لیے رسول اللہﷺ کا ارشاد ہے کہ ’’ لاضرر ولاضرار ‘‘

اسی طرح کسی مسلم کا مال اس کی رضا مندی کے بغیر حلال نہیں۔قطع نظر اس بات کہ اس میں سے کون سا مفہوم اقرب ہےیا صحیح ترین ہے مرکزی نکتہ یہ ہے کہ معاشرے میں موجود معذور افراد کو ان کی بیماری کی وجہ سے حقیر نہ سمجھا جائے بلکہ معاشرے میں عزت و احترام کا مقام ان کا حق ہے اور ان کو بھی یہ حق حاصل ہے کہ معاشرے میں جس طرح باقی لوگ زندگی گزارتے ہیں وہ بھی گزاریں یعنی یہ معذوری ان کے حقوق میں کہیں بھی اور کسی طرح بھی حائل نہیں ہوتی۔بلکہ اگر دیکھا جائے تو معذور افراد صحیح افراد کی نسبت زیادہ توجہ اور حقوق کے محتاج ہیں نہ کہ ان کو اس بناء پر فقیر سمجھا جائے۔

اس آیت میں جن گیارہ قسم کے گھروں کا تذکرہ کیا گیا ہے وہ ایک خاص ترتیب کے ساتھ کیاگیا ہے یعنی رشتہ داریوں کی ترتیب کے اعتبار سے ہے کہ یہ سہولت بیٹوں اور بیویوں کے گھروں سے شروع ہوتی ہے مگر ان کا نام لینے کے بجائے ’’بیوتکم ‘‘ کا لفظ استعمال کیا گیا ۔پس اس میں بیٹے کا گھر اور بیوی کا گھر یا خاوند کا گھر بھی شامل ہے کیونکہ بیٹے کا گھر باپ کا ہی گھر ہے۔(أنت و مالک لأبیک ) اور خاوند کا گھر اس کی بیوی کا گھر ہوتا ہے اس کے بعد وہ ترتیب شروع ہوتی ہے۔

۔ والد کا گھر

۔ والدہ کا گھر

۔ بھائیوں کے گھر

۔ بہنوں کے گھر

۔ چچاؤں کے گھر

۔ پھوپھیوں کے گھر

۔ ماموؤں کے گھر

۔ خالاؤں کے گھر

۔ جس گھر کی ذمہ داری ہے

۔ دوستوں کے گھر

لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَاْكُلُوْا جَمِيْعًا اَوْ اَشْـتَاتًا :

گھروں کے بیان کے بعد اب اس حالت کا تذکرہ کیا جارہا ہے جس میں کھانا جائز ہے۔

’’ تمہارے لیےاکٹھے یا الگ الگ کھانا جائز ہے ‘‘

بعض لوگوں کی عادت ہوتی تھی کہ وہ اکیلے کھانا نہ کھا سکتے تھے تو ان کو بھی اجازت دے دی گئی۔اور جن لوگوں کی اکیلے کھانے کی عادت تھی ان کو بھی اجازت دے دی گئی یعنی ایسے مباح اثر پر کسی کو کسی بھی حکم پر مجبور نہ کیا گیا بلکہ عادت پر چھوڑ دیا گیا۔

جن گھروں میں کھانا کھایا جاتا ہے ان کے آداب میں یہ بتایا گیا ہے کہ جانے والے اہل خانہ کو سلام پیش کریں۔

فَسَلِّمُوْا عَلٰٓي اَنْفُسِكُمْ تَحِيَّةً مِّنْ عِنْدِ اللّٰهِ مُبٰرَكَةً طَيِّبَةً ۭ :

جن لوگوں میں کھانا کھایا جاتا ہے ان گھروں میں داخل ہونے کے لیے باقاعدہ آداب بتائے گئے ہیں کہ جانے والے اہل خانہ کو سلام پیش کریں اور اس بات کو ’’ علٰی أنفسکم ‘‘ سے تعبیر کیا گیا ہے کہ وہ اہل خانہ جن کے گھروں میں کھانے کے لیے جارہے ہیں اسلام اور رشتہ داری کی وجہ سے ان کے ہی وجود کا حصہ ہیں اور دوسرا لطیف نکتہ یہ بیان کیا جاتاہے کہ جواب میں ان کو بھی سلام ہی ملے گا اس طرح وہ اپنی ذات پر سلامتی بھیجنے کا سبب بنتے ہیں اس لیے کہا گیا کہ ’’ فسلّموا علٰی أنفسکم ‘‘ یعنی رشتہ داروں یا دوستوں کو سلام کرنا گویا اپنے آپ کو سلام کرنے کے مترادف ہے۔اور یہ جو دعاء دوسرے کو دیں گے تو وہ دعا دراصل اللہ کی طرف سے ہے اس میں ’’ فسلّموا علٰی أنفسکم ‘‘ کے ذریعےاللہ تعالیٰ کی عبادت اور قرب کا سبق پوشیدہ ہے۔

كَذٰلِكَ يُبَيِّنُ اللّٰهُ لَكُمُ الْاٰيٰتِ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُوْنَ :

ان آداب و تعلیمات کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے اسلام کی حقانیت کو کھول کھول کر بیان کر دیا ہے تاکہ غور وفکر کرنے والے اس حقیقت کو جان لیں کہ اسلام سچا دین ہے۔یعنی یہ تمام احکام تعقل و تدبر کےلیے دعوت عام دے رہے ہیں۔سورت کے شروع میں بھی یہی مقصد بیان کیا گیا تھا۔

شرعی احکام

مسئلہ نمبر1:

گھروں سے کھانا کھانے کا کیا مفہوم ہے؟

آیت سے اقارب کے گھروں سے کھانا کھانے کی اجازت ملتی ہے لیکن یہ سارا عمل اس وقت تک ہے جب اس سے آپس میں محبت و الفت کی فضاء قائم رہتی ہے ، لیکن اگر اس عمل سے کوئی منفی فضا بن رہی ہے تو اس سے رک جانا چاہیے۔کیونکہ عربوں میں مہمان نوازی کا عنصر بدرجہ اتم موجود تھا وہ اس بات پر بہت خوش ہوتے تھے کہ ان کے کسی رشتہ دار نے ان کے گھر کو اتنی عزت دی اور شرف بخشا کہ ان کے گھر سے کھانا کھائے۔

مسئلہ نمبر2:

’’ ان تأکلوا من بیوتکم ‘‘ میں بیوتکم سے کیا مراد ہے ؟

مفسرین اس بارے میں تین اقوال کے قائل ہیں :

۔بیٹوں کے گھر

۔ جس گھر میں وہ اور ان کے عیال رہتے ہوں

۔ وہ گھر جس میں وہ رہتے ہوں۔تینوں گھر اس سے مراد ہو سکتے ہیں۔

مسئلہ نمبر3:

وکیل کو اپنے مؤکل کے گھر سے کھانا کھانے کی اجازت ہے اس کی کیا کیفیت ہے؟

اللہ رب العزت کا قول ’’ أو ما ملکتم مفاتحہ ‘‘ ’’یاجن کی کنجیوں کے تم مالک ہو ‘‘ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ وکیل یعنی جس کے پاس کسی کے گھر کی کنجیاں ہیں وہ اس گھرسے حسب ضرورت وحاجت کھانا کھا سکتا ہے۔اور کہا گیا کہ اس میں یتیم کے ولی کے لیے بھی ہدایت موجود ہے کہ معنوی طور پر اس کے پاس بھی زیر کفالت موجود یتیم کی وکالت موجود ہے لہٰذا ولی یا سر پرست پر لازم ہے کہ یتیم کے مال میں سے حسب ضرورت یاحاجت لے سکتا ہے۔

مسئلہ نمبر4:

کیا دوست کے گھر سے بغیر اجازت کے کھانا جائز ہے؟

اس آیت سے تو اس بات کا ثبوت ملتا ہے کہ اقارب اور دوستوں کے گھروں سے کھانا کھانے کی اجازت ہے خواہ وہ بغیر اجازت ہی کیوں نہ ہو لیکن اس میں دو شرطیں ہوں ۔(اول) جس گھر سے کھانا کھانا ہو اس کو نقصان نہ ہو یعنی اس سے اس کو کوئی نقصان نہ پہنچے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا ’’ لا ضرر ولا ضرار ‘‘ (دوم) یہ حسب ضرورت اور حاجت ہو اور ضائع کرنے والا عنصر نہ ہو،کیوں کہ لفظ دوستی اگر اپنے حقیقی معنی میں موجود ہے تو اس عمل سے ان کے درمیان اپنائیت اور محبت میں اضافہ ہوتاہے۔

فوائد :

اہل اعذار ثلاثہ، ترک جہاد پر عذر قبول کرنے کا جواز ہے۔

اہل اعذار ثلاثہ کا لوگوں (جن کا تذکرہ آیت میں ہے) کے گھروں سے کھانا کھانے کاجواز۔

رشتہ داروں کے گھر سے کھانا کھانے کی اجازت بشرط یہ کہ اس میں کوئی نقصان دہ پہلو نہ ہو۔

دوست کا حق بیت بڑا ہوتا ہے اس لیے اللہ رب العزت نے اجازت میں ان کو بھی شامل کیا ہے۔

اس بات کا جواز کہ کھانا کھانے والے اکٹھے بھی کھا سکتے ہیں اور الگ الگ بھی۔

آداب اسلامیہ کو اختیار کرنا بہت زیادہ ضروری ہے۔

کسی کے گھر میں داخل ہونے سے قبل سلام کرنا خواہ وہ خالی ہی کیوں نہ ہو۔

سلامتی بھیجنے کا شرعی طریقہ السلام علیکم ورحمۃ اللہ ۔

اللہ ربّ العزت نے مسلمانوں کے لیے جتنے بھی احکام نازل کیے ان میں ان کے لیے خیر وصلاح مضمر ہے۔

اس آیت میں تمام رشتہ داروں اور قرابت داروں کا اس تصریح کے ساتھ الگ الگ ذکر آیا ہے اس کی وجہ کہ عرب میں مشترک خاندانی نظام کا رواج نہیں تھا بلکہ آج بھی نہیں ہے کہ ہر بالغ شادی کے بعد اپنا الگ گھر بسا لیتا تھا۔

۔۔۔جاری ہے۔۔۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے