بعض لوگ یہ گمان کرتے ہیں کہ پیروکارِشریعت اور جان نثارانِ ملت اسلامیہ محبت کیا سمجھیں، ان کا تو دور تک محبت سے کوئی واسطہ نہیں،در حقیقت یہ کہنا بذات خود جہالت ہے، محبت تو سچے لوگوں کے منہ سے چھلکتا میٹھا سا ترانہ ہے لیکن یہ محبت پاک اور باعزت ہے۔ اسے صالحین نے اپنے آنسوئوں سے سینچا، ابرار نے اپنے خون سے تحریر کیا جس کےباعث ان کا نام ہمیشہ کے لئے امر ہوگیا یہ لوگ ایثار، قربانی اور فدائیت کا نشان بن گئے۔

محبت ہے کیا؟ اس کی تشریح کے لئے کوئی لفظ موجود نہیں ، یہ لفظ خود اپنی تشریح ہے، اس کا ماخذ (حب) ہے، حرف حاء جو دونوں ہونٹوں کو ایک دوسرے سے جدا کرتا اور حرف ب ان کو پھر ملاتا ہے۔ گویا محبت دوری کے بعد ملاپ کا نام ہے۔

محبت آب حیات، روح کی غذاء اور نفس کی قوت کا نام ہے۔ جذبہء محبت ہی سے چہروں پر چمک، ہونٹوں پر مسکراہٹ ہے، یہ محبت ہی تھی جس نے آدمیت کو تلوار کی نوک کا سامنا کرنا سکھایا، یہ جذبہ اس لئے پیدا ہوتا ہے کہ ان لوگوں نے اپنی ابتداء(اسلام) کو اپنایا، اپنے نبی سے پیار کیا اس کے پیغام کو سمجھا اور عام کیا، انہوں نے اپنے سر اسلام کی خدمت میں معرکہ بدر، اُحد، حنین جیسے غزوات میں پیش کئے، کھانا پینا، خواہشات کو چھوڑا اور اپنے آرام دہ بستروں کو رات کے تیسرے پہر خیر باد کہہ کر اللہ کو یاد کیا، اور اپنے اللہ اور اس کے حبیب صلی اللہ علیہ و سلم کی رضا مندی حاصل کرنے کے لئے اپنا مال خرچ کیا۔

یہ محبت ہی تھی جس نے عبداللہ بن عمرو الانصاری کو یہ کہنے پر مجبور کیا کہ ـ(اے میرے رب آج کے دن میرا خون اپنی راہ میں بہا دے تاکہ تو راضی ہو)، جب خلیل اللہ نے محبت کی تو آگ ٹھنڈی اور سلامتی والی ہوگئی، موسی نے محبت کی تو سمندر نے راستہ بنا دیا، اور خاتم النبیین صلی اللہ علیہ و سلم کی محبت سے چاند دو ٹکڑے ہوا اور درخت کا تنا رو پڑا۔

محبت کے باعث ہی گرم بستر میں گہری نیند سونے والا نیند چھوڑ کر نماز فجر کے لئے دوڑ لگاتا ہے، محبت میں ہی آنکھ روتی اور دل غمزدہ ہوتا ہے اور یہ صدا آتی ہے کہ ہم رب کی مرضی پرراضی ہیں۔

محبت اٹھ جائے تو دنیا میں قطع تعلق ، نفس میں سوء ظن اور شک چہروں پر اکھڑ پن پیدا ہوجائے، جس روز محبت ختم ہوئی اس وقت طالب علم اپنے استاد کی بات نہیں سمجھے گا، بیوی خاوند کی فرمانبردار نہیں رہے گی، محبت ختم ہوئی تو شہد کی مکھی پھولوں سے روٹھ جائے گی، پرندے اپنے گھونسلے چھوڑ دیں گے، اور یہی نہیں بلکہ جنگیں چھڑ جائیں گی، گردنیں کٹیں گی اور اموال ضائع ہونگے، دنیا ایک ایسی دستاویز ہوگی جس کے تمام صفحات خالی ہونگے، زندگانی محبت ہی کے سبب ہے، جب محبت کرو گے تو پھولوں کی خوشبو ، ریشم کی نرمی، شہد کی مٹھاس محسوس ہوگی اور اشرف العلوم حاصل ہونگے اور چیزوں کے اسرار جان جائو گے۔لیکن اس کے برعکس اگر کراہت اختیار کرو گے تو تمہارے ہر لفظ میں جارحیت، ہر حرکت متنازعہ اور مشکوک، ہر احسان برائی بن جائے گی۔

اللہ سے محبت اس کی شریعت پر عمل، اس کے احکامات کی بجا آوری، دین کو اپنانے اور اس کی قربت حاصل کرنے میں ہے۔

مٹی سے محبت آہیں، سسکیاں، حسرتیں اور ندامتوں کے سوا کچھ نہیں، جبکہ رب العالمین کی محبت میں سربلندی ، عزت، شادمانی اور سلامتی ہے۔ اور اللہ سے محبت کیونکر نہ ہو جبکہ ہمیں دی گئی ہر نعمت اسی کی دین ہے، صرف وہی محسن ہے، پس اس کا فیصلہ عدل، اس کی شریعت رحمت اس کی تخلیق خوبصورت، اس کا فضل وسیع، اس کی صفات حسِین ہیں،اس کے سوا محبت مفاد دوطرفہ، مشترکہ خواہشات اور مادی اغراض کے علاوہ کچھ نہیں، اس میں خلل، اسراف، ذلالت، ندامت اور حسرت کی آمیزش حتمی ہے۔

محبت کرنے والوں میں ایسے بھی تھے جنہوں نے دنیاوی محبت کو خیر باد کہہ کراصل(شرعی) محبت اختیار کی۔ جھوٹ، خواہشات اور گناہ کی دنیا کو چھوڑ کر سچ کی جنت، معرفت کی منزلت، یقین کا باغ اور ایمان کی حلاوت کی دنیا کا انتخاب کیا۔ انہی میں سے ایک مشہور شاعر لبید بن ربیعہ تھے جنہوں نے ساری زندگانی اسی شاعرانہ انداز میں گذار دی لیکن اللہ نے آخر عمر میں ان کو اصلاح کا موقع دیا اور وہ سچی توبہ کر کے شعر کو خیر باد کہہ کرتلاوت قرآن کی جانب لوٹ آئے اور نذر مانی کہ اگر میں نے آج کے بعد ایک بھی شعر کہا تو ایک غلام آزاد کرونگا۔ شعر کہنے سے میرے لئے سورۃ البقرہ کافی ہے۔ اسی طرح ایک عاشق بادشاہ ابراہیم بن ادہم جس کو اپنی بادشاہت اور اولاد عزیز تھی ایک روز اس نے سوچا کہ میرے آباء و اجداد بھی بادشاہ تھے آج ان کا تذکرہ کہاں ہے؟ اسی وقت اس نے توبہ کی اور اپنا شاہانہ لباس اتار کر محل چھوڑ ا اور بیابانوں میں بسیرہ کر لیا، عمر بن عبدالعزیز کو ہی لے لیجئے،ہر طرح کی آسائش آسانی ان کو ورثہ میں ملی لیکن انہوں نے ان چیزوں کو اپنا مقصد نہ بنایا اور اپنی رعایا سے مکمل انصاف کیا اور اپنے رب سے محبت کے تقاضے پورے کئے۔

عاشقوں کے لئے محبت کرنا فرض ہے،اللہ سے محبت کر کے عبادت کی لذت حاصل ہوتی ہے، محبت سے عاری عقل سمجھنے کی، آنکھ دیکھنے کی صلاحیت نہیں رکھتی، بنا محبت آسمان بھی نہیں برستا، محبت سے خالی زمین صحراء ہے۔ محبت کے سبب ہی ماں اپنے جگر گوشے کو دودھ پلاتی ہے، محبت ہی لشکر کو اپنے قائد کے پیچھے چلنے پر مجبور کرتی ہے، رعیت محبت کے سبب خوشحال ہوتی اور احکام شریعت پر عمل کرتی ہے، ایسا گھر جس کی بنیاد محبت پر نہ ہو وہ منہدم ہو جاتا ہے، لیکن یہ یاد رہے کہ سب سے بلند مرتبہ محبت وہ ہے جس پر ملت اسلامیہ قائم ہے(یعنی شریعت مطہرہ)۔

اللہ نے محبت کے لئے کیا خوب الفاظ استعمال کئے {يُحِبُّهُمْ وَيُحِبُّونَهُ} وہ ان سے اور وہ اس سے محبت کرتے ہیں۔

امرئو القیس نے ایک لڑکی سے محبت کی، ابو جہل نے لات اور عُزّی سے محبت کی، قارون نے خزانے سے محبت کی، ابو لہب نے سرداری سے محبت کی، لیکن سب گھاٹے میں رہے، کیونکہ ان سب نے بڑی غلطی کی، جبکہ بلال بن رباح کی محبت نیکی اور اصلاح سے تھی جب ان پر سختیاں آئیں تو انہوں نے اس حالت میں بھی اَحد اَحد پکارا کیونکہ ان کے دل میں ایمان جبل اُحد کی مانند پیوست تھا۔

محبت کو رنگ و نسل کی پہچان کی ضرورت نہیں، سلمان اور بلال اس کی واضح دلیل ہیں،بلال سفید چمکدار دل اورسیاہ جسم کے مالک تھے جو سچی محبت کر کے کامیاب لوگوں میں شمار ہوئے، ابولہب بغض کے باعث اہل بیت سے نکالے گئے جبکہ سلمان کو محبت کا پھل یہ ملا کہ خود نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے انہیں اہل بیت ہونے کا سرٹیفکیٹ دیا۔

ہمارا مقصود دنیا کی نام نہاد محبت کا تذکرہ کرنا نہیں بلکہ ہم تو ایسی لازوال ، پاکباز اور اعلی درجہ کی محبت کا چرچہ کر رہے ہیں جو ہمارے انبیاء نے اپنے رب سے کی، اسی محبت کی خاطر انہوں نے اپنا گھر بارچھوڑا،چنانچہ ابراہیم علیہ السلام نے اپنے باپ، نوح علیہ السلام نے اپنے بیٹے سے لا تعلقی کا اظہار کیااور فرعون کی اہلیہ نے اپنے خاوند سے لاتعلقی اختیار کی۔

یہ ہے محبت کی وہ دنیا جس میں قربانیاں دی جاتی ہیں جو رائیگاں نہیں جاتی، اور یہ ہے وہ محبت کہ جو بندے کو اللہ کی رضا پر راضی کرتی ہے۔ انصار میں سے ایک شخص کثرت سے (قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ) کا ورد کرتا تھا کسی نے پوچھا اس کی کیا وجہ ہے؟ کہا اس آیت میں معبود کی مدحت ہے اور میں اس لئے اس سے محبت کرتا ہوں، وہ اس محبت کی وجہ سے جنت کا حق دار بنا ۔

ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہمیں قصے کہانیوں اور ڈراموں میں لگا دیا گیا ہے، ہماری نسل کو کیا ہوگیا ہے کہ وہ انہی میں کھوئی ہوئی ہے، خدارا اس دلدل سے نکلو، اپنی اولاد کو بچائو، سچی محبت کی طرف لائو، کیونکہ جو کچھ زمین کے اوپر ہے وہ سب مٹی ہونے والا ہے، ان چیزوں کی محبت چھوڑو یہ سب لغویات ہیں، سید الشہداء امیر حمزہ تو اپنے رب سے محبت کے سبب ٹکڑے ٹکڑے کر دئیے گئے اور ہم من گھڑے قصوں کہانیوں، ڈراموں، فلموں میں کھوئے ہوئے ہیں، طلحہ اورزبیر کی سچی محبت کی داستان تو معرکہ بدر میں لکھی گئی، جبکہ شیکسپئر کی داستانیں لندن کی سڑکوں کی زینت بنی۔ اے شاعر اگر تو نے اپنی محبت کے قصے سیاہی سے لکھے ہیں تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اپنی سچی محبت کے قصے اپنے خون سے لکھے ہیں۔

ہر شرابی، عقل کا اندھا شاعر ہمارا آئیڈیل کیوں بنتا ہےاور ہم اس کے اشعار کو کیوں حفظ کرتے ہیں؟ دوسری جانب ہم اپنی اسلامی روایات، شاندار فتوحات کو بھول بیٹھے ہیں۔ اللہ سے محبت کی لا تعداد آیات قرآن میں ملیں گی، آسمانی محبت بندے کو استقامت والی زندگی عطا کرتی ہے جو اللہ کے فضل اور نعمت کا باعث بنتی ہے۔جبکہ دنیاوی محبت انسان کو ہلاک اور بے قدر کرتی ہے۔ عزت سے محبت فرعون کو تھی، خزانے کی محبت قارون کو، جبکہ بہادروں کو جنت سے محبت ہوتی ہے۔

اے اللہ ہمیں ایسا بنا دے جو تجھ سے محبت کرے اور تجھ سے محبت کرنے والوں سے محبت کرے، اے اللہ اپنی محبت کا پودا ہمارے دلوں میں پیدا کر، تاکہ ہم اپنی نسلوں پر اس کا اثر دیکھیں اور اپنے گناہوں سے توبہ کریں۔ اللہم آمین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے