7 جولائی 2010ء کے اخبارات میں یہ خبر آئی ہے کہ سرگودھا کے علاقہ ظہور حیات کالونی کی رہائشی صائمہ پروین کو اس کے خاوند نے بیٹی کو جنم دینے پر مٹی کا تیل چھڑک کر زندہ جلادیا اور اسی طرح 18 جولائی 2010ء کے اخبارات میں یہ خبر آئی ہے کہ لاہور کے گاؤں بابلیاں کی رہائشی ارشاد اختر کو اس کے خاوند نے بیٹی کو جنم دینے پر کرنٹ لگا کر ہلاک کر دیا اس طرح کے دو واقعات نہیں کئی واقعات رونما ہوئے ہیںاگر کسی کے گھر بیٹی پیدا ہو جائے تو سارے گھر میں عزت ختم ہوجاتی ہے اکثر لڑائی جھگڑے رہتے ہیں ، بیٹیوں کی پیدائش پر طلاق دے دی جاتی ہے اگر ہسپتال میں بیٹی پیدا ہوگئی ہے تو عورت کو لا وارث چھوڑ کر گھر آجاتے ہیں۔ گھر میں ساس، نند،دیور اور خاوند تک طعنے دیتے رہتے ہیں بلکہ ایک دفعہ اخبار میں آیا تھا کہ ایک عورت کے گھر چوتھی دفعہ لڑکی پیدا ہوئی تو خاوند نے عورت کو آگ لگا دی اور بھنگڑا ڈال کر کہہ رہا تھا کہ میں نے آج بچیاں پیدا کرنے والی مشین کو آگ لگا دی ہے بلکہ آج کل تو جدید مشینوں کے ذریعہ پتہ چل جاتاہے کہ بچہ ہوگا یا بچی اگر بچی ہوتی ہے تو اسقاط حمل کرالیتے ہیں۔

بیٹی کی پیدائش پر افسردہ ہونا کافروں کی صفات میں سے ہے۔

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :

وَإِذَا بُشِّرَ أَحَدُهُمْ بِالْأُنْثَى ظَلَّ وَجْهُهُ مُسْوَدًّا وَهُوَ كَظِيمٌ يَتَوَارٰى مِنَ الْقَوْمِ مِنْ سُوْٓءِ مَا بُشِّرَ بِهٖ أَيُمْسِكُهُ عَلَى هُوْنٍ أَمْ يَدُسُّهُ فِي التُّرَابِ أَلَا سَآءَ مَا يَحْكُمُونَ ( النحل: 58۔59)

’’ان میں سے جب کسی کو لڑکی ہونے کی خبر دی جائے تو اس کا چہرہ سیاہ ہو جاتا ہے اور دل ہی دل میں گھٹنے لگتا ہے۔ اور دی ہوئی خبر سے عار کی وجہ سے لوگوں سے چھپتا پھرتا ہے (اور سوچتا ہے کہ) آیا اس لڑکی کو ذلت کے باوجود زندہ ہی رہنے دے یا زمین میں گاڑ دے؟ دیکھو یہ لوگ کیسا برا فیصلہ کرتے ہیں۔‘‘

ایک دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا :

وَإِذَا بُشِّرَ أَحَدُهُمْ بِمَا ضَرَبَ لِلرَّحْمٰنِ مَثَلًا ظَلَّ وَجْهُهُ مُسْوَدًّا وَّهُوَ كَظِيْمٌ( الزخرف:17)

’’اور جب ان میں سے کسی کو وہ مژدہ سنایا جاتا ہے جسے یہ رحمن سے منسوب کرتے ہیں (یعنی لڑکی کا) تو اس کا چہرہ سیاہ پڑ جاتا ہے اور وہ غم سے بھر جاتا ہے۔‘‘

امام احمد رحمہ اللہ

کا بیٹیوں کی ولادت پر رد عمل :

امام رحمہ اللہ کے صاحبزادے صالح بیان کرتےہیں ، کہ جب ان کے ہاں بیٹی کی ولادت ہوتی تو فرماتے : انبیاء علیہم السلام بیٹیوں کے باپ تھے۔ نیز فرماتے : بے شک بیٹیوں کے متعلق جو کچھ (قرآن وسنت میں) آیا ہے، وہ تجھے معلوم ہی ہے ۔ ( التفسیر القیم، ص: 32)

یعقوب بن بختان نے بیان کیا ’’میرے ہاں سات بیٹیاں پیدا ہوئیں جب بھی میرے گھر بیٹی پیدا ہوتی تو امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ میرے پاس تشریف لاتے اور مجھ سے فرماتے : ( اے ابو یوسف ! انبیاء علیہم السلام بیٹیوں کے باپ تھے) ان کا یہ فرمانا میرے غم کو ختم کر دیتا ۔ (تحفۃ المودود فی أحکام المولود ، ص: 32)

بیٹی اور بیٹے دونوں کی ولادت پر مبارکباد دینا :

امام ابن قیم رحمہ اللہ لکھتے ہیں آدمی کے لیے جائز نہیں کہ بیٹے کی (پیدائش پر) مبارک باد دے اور بیٹی کی (پیدائش پر) مبارک باد نہ دے، بلکہ وہ یا تو دونوں کے (پیدائش پر) مبارک باد دے یا دونوں پر نہ دے تاکہ وہ طریقہ جاہلیت سے بچ جائے کیونکہ ان کی اکثریت بیٹے کی (پیدائش پر) مبارک باد دیتی تھی اور بیٹی کی ولادت کی بجائے اس کی وفات پر مبارک باد دیتی تھی۔ ( تحفۃ المودود فی أحکام المولود ، ص: 34)

بیٹیوں کو ناپسند کرنے کی ممانعت :

امام احمدرحمہ اللہ اورامام طبرانی رحمہ اللہ نے سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا :

لَا تَكْرَهُوا الْبَنَاتَ، فَإِنَّهُنَّ الْمُؤْنِسَاتُ الْغَالِيَاتُ (مجمع الزوائد، کتاب البروالصلۃ ، باب ما جاء فی الأولاد ، 8/ 156)

’’بیٹیوں کو ناپسند نہ کرو، کیونکہ یقینا وہ تو پیار کرنے والی اور قیمتی چیز ہیں۔

نیک بیٹیوں کا ثواب اور امید میں بیٹوں سے بہتر ہونا :

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :

اَلْمَالُ وَالْبَنُوْنَ زِيْنَةُ الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا ۚ وَالْبٰقِيٰتُ الصّٰلِحٰتُ خَيْرٌ عِنْدَ رَبِّكَ ثَوَابًا وَّخَيْرٌ اَمَلًا

(الکہف:46)

’’یہ مال و اولاد تو دنیا کی زینت ہے اور (ہاں) البتہ باقی رہنے والی نیکیاں تیرے رب کے نزدیک از روئے ثواب اور (آئندہ کی) اچھی توقع کے بہت بہتر ہیں۔‘‘

اس فرمان مبارک میں اللہ نے باقیات صالحات کو ثواب اور امید کے اعتبار سے مال اور بیٹوں سے بہتر قرار دیا ہے ۔ باقیات صالحات سے مراد امام عبید بن عمیر رحمہ اللہ کے قول کے مطابق نیک بیٹیاں ہیں۔ علامہ قرطبی رحمہ اللہ نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے آیت مبارکہ کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا : نیک بیٹیاں اللہ کے ہاں اپنے احسان کرنے والے باپوں کے لیے ثواب اور اچھی امید کے اعتبار سے بہتر ہیں ۔ ( تفسیر القرطبی 10/415۔416)

بچی کی پیدائش اورمعاشرے میں پھیلے ہوئے جاہلانہ تصورات :

بیٹا اگر اللہ کی نعمت ہے تو بیٹی بھی اس کی رحمت ہے نہ بیٹے کی پیدائش پر مارے خوشی کے آپے سے باہر ہونا چاہیے اور نہ بیٹی کی پیدائش پر افسردگی اور مایوسی میں ڈوبنا چاہیے۔ ہمارے معاشرے میں بچیوں کی پیدائش کے سلسلہ میں بعض جاہلانہ تصورات پائے جاتے ہیں مثلاً شادی کےبعد اگر پہلے نمبر پر بیٹی ہو تو اسے نحوست کی علامت سمجھا جاتا ہے حالانکہ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ و سلم کے ہاں پہلے نمبر پر بیٹی ہی پیدا ہوئی تھی اگر یہ نحوست کی علامت ہوتی تو کم ازکم انبیاء کے سردار صلی اللہ علیہ و سلم کے ہاں یہ معاملہ پیش نہ آتا گویا اس بات کی دلیل ہے بچی کی پیدائش علامتِ نحوست نہیں ہے۔

اسی طرح ہمارے ہاں ایک جاہلانہ تصور یہ ہے کہ جس عورت کے ہاں صرف بچیاں پیدا ہوں اسے قصور وار ٹھہرایا جاتاہے۔ اس کے ساتھ خاوند سے لے کر سسرال کے ایک چھوٹے فرد تک سبھی ظالمانہ رویہ اختیار کرتے ہیں۔ حالانکہ بچیاں پیدا ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ عورت کا کوئی قصور ہے بلکہ یہ اللہ کی طرف سے طے کی ہوئی قسمت کا فیصلہ ہے۔ جسے کوئی انسان اپنی مرضی سے بدل نہیں سکتا۔ علاوہ ازیں جدید سائنسی تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ اگر کسی عورت کے ہاں صرف بیٹیاں ہی پیدا ہوں تو یہ اس بات کی علامت ہے کہ عورت کا نظام ولادت ٹھیک ہے مگر مرد میں کمزوری ہے عورت کے زنانہ جراثیم(انڈے) تو اپنا کام کررہے ہیں مگر مرد کے مردانہ جراثیم(سپرمز) میں کوئی خرابی یا کمزوری ہے۔

دراصل مرد کے مادہ تولید میں ایکس وائی دو قسم کے جراثومے ہوتے ہیں جبکہ عورت کے مادہ تولید میں صرف ایکس ایکس جراثیم ہوتے ہیں اگر عورت کا ایکس مرد کے ایکس سے ملاپ کر ےتو لڑکی کا جنین بنتا ہے بصورت دیگر اگر مرد کاوائی عورت کے ایکس جرثوموں سے ملاپ نہ کرسکیں تو ایسا مرد عورت سے ملاپ کے باوجود لڑکا پیدا نہ کرسکے گا۔

معلوم ہوا کہ لڑکاپیدا نہ ہونے میں عورت بیچاری کا کوئی قصور نہیں بلکہ خرابی مرد میں ہے کہ اس کے جراثیم مردہ یا کمزور ہیں جو لڑکے کی پیدائش کا ذریعہ بنتےہیں یا تو یہ کسی بیماری کی وجہ سے ہوتا یا پھر فطری طور پر اللہ کے حکم سے۔ جب تک یہ خرابی دور نہ ہو تب تک ایسا مرد جتنی چاہے شادیاں کرلے اس کے ہاں لڑکا پیدا نہ ہوگا ۔

بیٹیوں کی فضیلت :

بیٹیوں کی اچھی پرورش پر جنت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا ساتھ نصیب ہوگا :

سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا :

مَنْ عَالَ جَارِيَتَيْنِ حَتَّى تَبْلُغَا جَاءَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَنَا وَهُوَ وَضَمَّ أَصَابِعَهُ.(مسلم: 2631)

جس نے دو لڑکیوں کی پرورش کی حتی کہ وہ بالغ ہوگئیں تو وہ اور میں روز قیامت( اس طرح) آئیں گے اور آپ  صلی اللہ علیہ و سلم  نے اپنی انگلیوں کو ملا لیا ۔

جامع ترمذی کی روایت میں یہ الفاظ ہیں :

جس نے دو لڑکیوں کی پرورش کی میں صلی اللہ علیہ و سلم  اور وہ ان دونوں (انگلیوں) کی طرح جنت میں داخل ہوں گے اور آپ  صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی دونوں انگلیوں کے ساتھ اشارہ کیا اور ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا :

مَنْ عَالَ ابْنَتَيْنِ أَوْ أُخْتَيْنِ أَوْ ثَلاَثًا ، أَوْ أُخْتَيْنِ أَوْ ثَلاَثًا ، حَتَّى يَبِنَّ ، أَوْ يَمُوتَ عَنْهُنَّ ، كُنْتُ أَنَا وَهُوَ فِي الْجَنَّةِ كَهَاتَيْنِ وَأَشَارَ بِأُصْبَعِهِ الْوُسْطَى وَالَّتِي تَلِيهَا.(صحیح ابن حبان:447)

’’جس نے دو یا تین بیٹیوں کی یادو اور تین بہنوں کی پرورش کی حتی کہ وہ (وفات یا شادی وغیرہ کےذریعے اس سے)جدا ہوگئی یا وہ انہیں چھوڑ کر فوت ہوگیا تو وہ اور میں جنت میں ان دونوں(انگلیوں) کی طرح ہوں گے اور آپ  صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی انگشتِ شہادت اور اس کے قریب والی انگلی کی طرف اشارہ کیا۔

بیٹیوں کی اچھی پرورش پر جہنم سے چھٹکارہ نصیب ہوگا :

عَنْ عَائِشَةَ ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا ، قَالَتْ دَخَلَتِ امْرَأَةٌ مَعَهَا ابْنَتَانِ لَهَا تَسْأَلُ فَلَمْ تَجِدْ عِنْدِي شَيْئًا غَيْرَ تَمْرَةٍ فَأَعْطَيْتُهَا إِيَّاهَا فَقَسَمَتْهَا بَيْنَ ابْنَتَيْهَا وَلَمْ تَأْكُلْ مِنْهَا ثُمَّ قَامَتْ فَخَرَجَتْ فَدَخَلَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم عَلَيْنَا فَأَخْبَرْتُهُ فَقَالَ مَنِ ابْتُلِيَ مِنْ هَذِهِ الْبَنَاتِ بِشَيْءٍ كُنَّ لَهُ سِتْرًا مِنَ النَّارِ(صحیح البخاری، کتاب الزکاۃ ، باب اتقوا النار ولو بشق تمرۃ ، مسلم : 2629 )

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ ایک عورت اپنی دو بیٹیوں کے ساتھ مانگتے ہوئی آئی، اس نے میرے پاس سوائے ایک کھجور کے کچھ نہیں پایا، تو میں نے وہ کھجور اسے دیدی، اس عورت نے اس کھجور کو دونوں لڑکیوں میں بانٹ دیا اور خود کچھ نہیں کھایا، پھر کھڑی ہوئی اور چل دی، جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس آئے تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیا آپ نے فرمایا کہ جو کوئی ان لڑکیوں کے سبب سے آزمائش میں ڈالا جائے تو یہ لڑکیاں اس کے لئے آگ سے حجاب ہوں گی۔

ایک دوسری روایت میں یہ الفا ظ ہیں :

مَنِ ابْتُلِىَ بِشَىْءٍ مِنَ الْبَنَاتِ فَصَبَرَ عَلَيْهِنَّ كُنَّ لَهُ حِجَابًا مِنَ النَّارِ ( الترمذی: 1913 )

’’ جو آدمی بیٹیوں کے ساتھ آزمایا گیا پھر اس نے ان پر صبر کیا تو وہ اس کے لیے جہنم سے پردہ ہوں گی ۔‘‘

بیٹیوں کے حقوق کی ادائیگی میں اللہ سے ڈرنے والا جنت میں داخل ہوگا ۔

عَنْ أَبِى سَعِيدٍ الْخُدْرِىِّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- مَنْ كَانَ لَهُ ثَلاَثُ بَنَاتٍ أَوْ ثَلاَثُ أَخَوَاتٍ أَوِ ابْنَتَانِ أَوْ أُخْتَانِ فَأَحْسَنَ صُحْبَتَهُنَّ وَاتَّقَى اللَّهَ فِيهِنَّ فَلَهُ الْجَنَّةُ

(الترمذی: 1916)

سیدنا ابوسعید خدری سے روایت ہے کہ وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جس کی تین بیٹیاں یا تین بہنیں ہوں یا دو بیٹیاں یا دو بہنیں ہوں وہ ان سے اچھا سلوک کرے اور ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرے تو اس کے لیے جنت ہے۔

سنن ابی داؤد میں یہ روایت ہے :

عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم : مَنْ عَالَ ثَلاَثَ بَنَاتٍ ، فَأَدَّبَهُنَّ ، وَزَوَّجَهُنَّ ، وَأَحْسَنَ إِلَيْهِنَّ ، فَلَهُ الْجَنَّةُ(سنن أبوداؤد: 5147، صحیح الترغیب )

سیدنا ابوسعید الخدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جس نے تین بیٹیوں کی پرورش کی انہیں ادب سکھلایا ان کی شادیاں کیں ان کے ساتھ اچھا سلوک کیا اس کے لیے جنت ہے۔

دو بیٹیوں کی اچھی پرورش جنت میں داخلہ کا سبب ہوگی :

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى الله عَليْهِ وسَلَّمَ : مَا مِنْ رَجُلٍ تُدْرِكُ لَهُ ابْنَتَانِ ، فَيُحْسِنُ إِلَيْهِمَا مَا صَحِبَتَاهُ ، أَوْ صَحِبَهُمَا ، إِلاَّ أَدْخَلَتَاهُ الْجَنَّةَ.(سنن ابن ماجہ:3670، صحیح الترغیب والترہیب : 1971، ابن حبان : 2934، مستدرک للحاکم 4/178)

سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جس مرد کی بھی دو بیٹیاں بالغ ہو جائیں اور وہ ان کے ساتھ حسن سلوک کرے (کھلائے پلائے اور دینی آداب سکھائے) جب تک وہ بیٹیاں اسکے ساتھ رہیں یا وہ مرد ان بیٹیوں کے ساتھ رہے (حسن سلوک میں کمی نہ آنے دے) تو یہ بیٹیاں اسے ضرور جنت میں داخل کروائیں گیں ۔

عَنْ عَوْفِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – قَالَ: ” «مَا مِنْ مُسْلِمٍ يَكُونُ لَهُ ثَلَاثُ بَنَاتٍ فَيُنْفِقُ عَلَيْهِنَّ حَتَّى يَبْلُغْنَ أَوْ يَمُتْنَ، إِلَّا كُنَّ لَهُ حِجَابًا مِنَ النَّارِ “. فَقَالَتِ امْرَأَةٌ: أَوِ اثْنَتَانِ؟ ( صحیح ، الترغیب : 1982)

سیدنا عوف بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : جس کسی مسلمان کی تین بیٹیاں ہوں اور وہ ان پر خرچ کرتا رہے حتی کہ وہ (شادی وغیرہ کی وجہ سے )جدا ہوجائیں یا فوت ہوجائیں تو وہ اس کے لیے دوزخ سے بچاؤ کے لیے رکاوٹ ہوں گے ایک عوت نے عرض کیا ، کیا دو بیٹیوں کی وجہ سے بھی یہی فضیلت حاصل ہوگی۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نےفرمایا : دو بیٹیوں کے اوپر بھی یہی فضیلت حاصل ہوگی۔

عَن جَابِرِبْنَ عَبْدِ اللهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” مَنْ كُنَّ لَهُ ثَلَاثُ بَنَاتٍ يُؤْوِيهِنَّ ، وَيَرْحَمُهُنَّ، وَيَكْفُلُهُنَّ ، وَجَبَتْ لَهُ الْجَنَّةُ الْبَتَّةَ “، قَالَ: قِيلَ: يَا رَسُولَ اللهِ: فَإِنْ كَانَتْ اثْنَتَيْنِ ؟ قَالَ: ” وَإِنْ كَانَتْ اثْنَتَيْنِ “، قَالَ: فَرَأَى بَعْضُ الْقَوْمِ، أَنْ لَوْ قَالُوا لَهُ وَاحِدَةً، لَقَالَ: ” وَاحِدَةً ” (صحیح الترغیب والترہیب : 1975، مسند أحمد 3/353)

سیدنا جابربن عبد اللہ رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جس شخص کی تین بیٹیاں ہوں جن کی رہائش پر شفقت اور کفالت وہ کرتا ہو اس کے لیے جنت یقینی طور پر واجب ہو جائے گی کسی نے پوچھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اگر کسی کی دو بیٹیاں ہوں فرمایا پھر بھی یہی حکم ہے بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اگر وہ ایک کے متعلق سوال کرتے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم یہ بھی فرما دیتے کہ ایک بیٹی ہو تب بھی یہی حکم ہے۔

عَنِ الْمُطَّلِبِ بْنِ عَبْدِ اللهِ الْمَخْزُومِيِّ، قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى أُمِّ سَلَمَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَتْ: يَا بُنَيَّ أَلَا أُحَدِّثُكَ بِمَا سَمِعْتُ مِنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: قُلْتُ بَلَى يَا أُمَّهْ، قَالَتْ: سَمِعْتُ مِنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: ” مَنْ أَنْفَقَ عَلَى ابْنَتَيْنِ، أَوْ أُخْتَيْنِ، أَوْ ذَوَاتَيْ قَرَابَةٍ، يَحْتَسِبُ النَّفَقَةَ عَلَيْهِمَا، حَتَّى يُغْنِيَهُمَا اللهُ مِنْ فَضْلِهِ عَزَّ وَجَلَّ، أَوْ يَكْفِيَهُمَا، كَانَتَا لَهُسِتْرًا مِنَ النَّارِ “(صحیح الترغیب والترہیب : 1974، مسند أحمد : 2936، طبرانی)

مطلب بن عبداللہ مخزومی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہاکی خدمت میں حاضر ہوا تو انہوں نے فرمایا بیٹا میں تمہیں ایک حدیث نہ سناؤں جو میں نے نبی علیہ السلام سے سنی ہے؟ میں نے عرض کیا اماں جان کیوں نہیں انہوں نے فرمایا کہ میں نے نبی علیہ السلام کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخص اپنی دو بیٹیوں یا بہنوں یا قریبی رشتہ دار عورتوں پر ثواب کی نیت سے اس وقت تک خرچ کرتا رہے کہ فضل خداوندی سے وہ دونوں بے نیا ز ہوجائیں یا وہ ان کی کفایت کرتا رہے تو وہ دونوں اس کے لئے جہنم کی آگ سے رکاوٹ بن جائیں گی۔

اللہ تعالیٰ ہم سب کو دین سمجھنے اوراس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہم اپنی بچیوں کو اچھی پرورش کریں ۔ بیٹی کی پیدائش پر خوش ہوں نہ کہ اپنی بیوی کو جلا ڈالیں ۔ آمین

 

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے