1۔    قضائے عمری

رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد گرامی ہے کہ اپنی اولادوں کو نماز کا حکم دو جب وہ سات برس کے ہو جائیں او ردس برس کی عمر میںنماز نہ پڑھنے پر انہیں تنبیہاً مارو (درمنثور) لیکن بسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ نہ والدین نے اولاد کو نماز پڑھنے کا حکم دیا نہ رغبت دلائی ، نہ خود مسجد گئے نہ اولاد کومسجد کا راستہ دکھایا ۔ عمر عزیز کاایک طویل عرصہ گمراہیوں میں گزار کر کبھی کسی فطرتِ سلیمہ رکھنے والے کو اس کا ضمیر کچوکے لگاتا ہے اور اسے بندگئ رب العالمین کی طرف راغب کرتا ہے پھر یہ شرمندۂ نظر و قلب اللہ کے گھر میں داخل ہوتا ہے او راپنی معصیت کا ذکر اپنے پیش امام صاحب سے کرتا ہے کہ میں نے اب اللہ کے فضل و کرم سے نماز پڑھنا شروع کر دیا ہے آپ استقامت کی دعا فرمائیے ۔ ادھر سے جواب ملتا ہے کہ قضائے عمری بھی پڑھتے ہو کہ نہیں ؟ یہ سوال کرتا ہے ، جی یہ قضائے عمری کیا چیز ہوتی ہے ؟ فرماتے ہیں گیارہ برس کی عمر سے لیکر اب تک کی عمر کا حساب لگاؤ کہ کتنے برس تم نے نماز نہیں پڑھی پھر اس کے بعد اتنے ہی برس تک ہر فرض نماز کے ساتھ ان سالوں کی فوت شدہ قضاء نماز ادا کیا کرو ۔ اگر قضائے عمری ادا نہیں کرو گے تو یہ نماز بھی جو کہ تم پڑھ رہے ہو کوئی فائدہ نہیں دے گی چنانچہ عوام کی اکثریت جو کہ بے خبر رموز شریعت ہے ان جاہل ملاؤں کی بات مان کر

قضائے عمری نام کی نمازیں ادا کرتی ہے ۔ میں کہتا ہوں کہ قضائے عمری کا کوئی ثبوت قرآن و حدیث سے نہیں ملتا ہے نماز نہ پڑھنا بلا شک و شبہہ گناہ عظیم ہے لیکن یہ گناہ شرک کی مانند توبہ کر لینے سے معاف ہو جاتا ہے توبہ کا فلسفہ ہی یہ ہے کہ اس کے سبب پچھلے تمام گناہ حق تعالیٰ معاف فرما دیتا ہے ۔ بنی اسرائیل کے اس مسلمان کے واقعے سے کون ناواقف ہو گا جس نے سو قتل کئے تھے پھر توبہ کرنے کے بعد کوئی نیکی کرنے سے قبل ہی اسے موت آگئی لیکن حق تعالیٰ نے چونکہ اس کی توبہ قبول فرما لی تھی لہٰذا صرف اسی بنیاد پر اسے اپنی جنت کا مستحق قرار فرمایا اور سنئے کہ معصیت رسول کتنا بڑا گناہ ہے غزوئہ تبوک میں پیچھے رہ جانے والے تین صحابیوں کا یہ گناہ بھی حق تعالیٰ نے ان کی توبہ اور استغفار کے سبب معاف فرما دیا جس کا ذکر سورئہ توبہ اور سورئہ نساء میں بیان کیا کیا ہے ۔ مشرکین مکہ کے شرک سے کون بے خبر ہے؟ انہوں نے اللہ کے گھر میں تین سو ساٹھ بت سجا رکھے تھے اور علی الاعلان ان بتوں کو پوجا کرتے تھے لیکن فتح مکہ کے موقع پر جب انہوں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے حضور معافی مانگی تو آپ نے انہیں معاف فرما دیا پھر ان کی اکثریت نے اسلام قبول کر لیا لیکن ان میں سے کسی ایک کو اللہ کے رسول نے قضائے توحید بشکل قضائے عمری کا حکم نہیں دیا اس لئے کہ توبہ کر لینے سے ان کے گناہوں کو حق تعالیٰ نے معاف فرما دیا

تھا میرا خیال ہے کہ قضائے عمری پڑھنے والوں کی توبہ اللہ کے ہاں یقینا مقبول نہیں ہوتی ہے جبھی توانہیں توبہ کے ساتھ ساتھ قضائے عمری بھی پڑھنی پڑتی ہے میں کہتا ہوں کہ قضائے عمری پڑھنے والوں نے اللہ ارحم الراحمین سے ناامیدی اختیار کر رکھی ہے اور شریعت اسلامی میں قضائے عمری کی صورت میں ایک ایسا قبیح عمل ایجاد کیا ہے جس نے توبہ اور استغفار کے مفہوم کو یکسر غلط انداز میں عوام الناس کے سامنے پیش کیا ہے ۔ قضائے عمری کو عبادت سمجھنا یکسر غلط ہے اس لئے کہ عبادت صرف وہی ہے جو اللہ کے رسول سے عملاً، قولاً اور تقریراً ثابت ہو جائے جبکہ قضائے عمر ی کا ان تینوں صورتوںمیں کسی ایک صورت سے بھی ثبوت نہیں ملتا ہے ۔

2۔     کفارئہ نماز

روزنامہ جنگ کراچی میں لدھیاؔنے کے ایک مولوی صاحب آپ کے مسائل اور ان کا حل نامی کالم میں اکثر لکھتے رہتے ہیں کہ جو شخص بے نمازی مر گیاہو اور اس کے وارثین اگر اُس کی نمازوں کا کفارہ ادا کرنا چاہیں تو انہیں چاہئیے کہ ہر نماز کا کفارہ ڈھائی کلو گندم فطرئہ عید کے حساب سے ادا کر دیں اس طرح اس بے نمازی کی نمازوں کا کفارہ ادا ہو جائے گا ۔لدھیاؔنے کے ان مولوی صاحب کے ساتھ دیگر مفتیان فرقہ ہائے مقلدین کا یہی فتویٰ ہے ان حضرات کا کہنا ہے کہ مرنے سے پہلے نماز غیر ادا شدہ کا کفارہ قضائے عمری ہے اور مرنے کے بعد نماز کا کفارہ فی نماز ڈھائی کلو گندم ہے اب ذرا حساب لگائیے کہ ایک دن کی پانچ نمازوں کا کفارہ ساڑھے بارہ کلو گندم ہوا اور ایک سال کی ۱۸۲۵ نمازوں کا کفارہ تقریباً ۴۵۰۰ کلو گرام ہوا ۔ دس سال کی نمازوں کا کفارہ ۴۵۰۰۰ کلو گرام ہوا اور بیس سال کا تقریبا ۹۰۰۰۰ کلو گرام ہوا اسی طرح حساب لگاتے چلے جائیں پھر یہ ہزاروں اور لاکھوں کلوگرام تک پہنچنے والا کفارہ بصورت گندم یا اس کی قیمت کی مساوی رقم لدھیانے کے مولوی کے ہاں جمع کرا دی جائے ادھر کفارہ جمع ہوا اور اُدھر قبول ہو گیا ۔ کیسے قبول ہو گیا ؟ کس نے قبول کر لیا ؟ یہ معلوم کرنے کی ضرورت نہ تو کسی نے محسوس کی اور نہ ہی اس کاروبار لات و منات کو چلانے والے مولوی نے ا سکے بتانے کی زحمت گوارا کی ۔ کفارہ دینے والوں کو اپنے سر سے بوجھ اتارنا تھا ، سو اتار دیا شریعت اس معاملے میں کیا کہتی ہے ؟ اس بارے میں لدھیانے کے مولوی کا قول ان کے لئے کافی و شافی ہے حالانکہ قرآن مجید میں صاف صاف لکھا ہے کہ بے نمازی پکے دوزخی ہیں اگر ادائیگی کفارئہ نماز کے ذریعے یہ گناہ معاف ہو سکتا ہوتا او رکفارئہ نماز کو خود حق تعالیٰ نے مقرر کیا ہوتا یا اپنے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کو اس کے مقرر کرنے کا حکم دیا ہوتا تو پھر بے نمازیوں کے حق میں اس نے کیوں فرمایا :

مَا سَلَکَکمْ فِیْ سَقَرَ ۔ قَالُوْا لَمْ نَکُ مِنَ ا لْمُصَلِّیْنَ (المدثر ۴۲،۴۳)

ترجمہ وہ جنتی پوچھیں گے کہ کونسی چیز تمہیں دوزخ میں لے گئی ؟ وہ کہیں گی کہ ہم لوگ بے نمازی تھے پھر اسی سورۃ کی اڑتالیسویں آیت میں فرمایا کہ کسی سفارش کرنے والے کی سفارش ان بے نمازیوں کے حق میں نفع مند نہیں ہو گی ۔ لیکن قرآن کے برعکس لدھیانے کے مولوی صاحب جن کاکام اختلاف امت ہی پیدا کرنا ہے مسلسل یہ فتویٰ دے رہے ہیں کہ ڈھائی کلو گندم فی نماز کفارہ نکالو نہ صرف وہ بلکہ ساری ہی مفت خور مفتی یہی فتویٰ دیتے ہیں اور کفارہ کھانے کے لئے اپنے مدارس کوپیش کرتے ہیں جہاں ھَلْ مِنْ مَّزِیْدٍ کی دھومیں مچی ہوئی ہیں کفارئہ نماز کی حقیقت بخاری و مسلم میں صرف اتنی ہے

’’مَنْ نَسِیَ صَلاَۃً فَلْیُصَلِّہَا اِذَا ذَکَرَہَا لاَ کَفَّارَۃَ لَہَا اِلاَّ ذَالِکَ‘

‘ یعنی جو آدمی نماز پڑھنی بھول جائے تو جب اسے یاد آجائے اسی وقت پڑھ لے یہی اس نماز کا کفارہ ہے ۔ معلوم ہوا کہ کفارئہ نماز صرف نماز کا پڑھنا ہی ہے اور اسی کے لئے ہے جو نماز پڑھنا بھول جائے یا نماز کے وقت سوتا رہ جائے جیسا کہ مسلم کی روایت میں ہے ۔ اس کے لئے نہیں جو ساری زندگی بے نمازی رہا اور اسی حالت میں مر کر جہنم رسید ہوا ۔ ان جہنمی لوگوں کے بارے میں نبی علیہ اسلام واضح الفاظ میں فرما گئے ہیں کہ

’’مَنْ تَرکَ الصَّلوٰۃَ مُتعَمِّدًا فَقَدْ کَفَ

‘ یعنی جس نے جان بوجھ کر نماز چھوری تحقیق وہ کافر ہو گیا ان کافروں کی نمازوں کے کفارہ کا ٹھیکہ لدھیانے کے مولوی صاحب اور ان کے دیگر ساتھیوں نے ایسے ہی لے رکھا ہے جیسے مردوں کو قرآن بخشنے کا ٹھیکہ انہوں نے قرآن خوانی کی شکل میں لے رکھا ہے ۔ جیسے قرآن خوانی کی مروجہ صورت قرآن و حدیث سے ثابت نہیں ہے اسی طرح مروجہ کفارئہ نماز کا بھی قرآن و حدیث میں کوئی ثبوت نہیں ملتا ہے جس سے صاف ظاہر ہے کہ کفارئہ نماز ایک بدعت اور اس کے مرتکب بدعتی ہیں ۔

3۔     صلوٰۃ عاشورہ

غنیۃ الطالبین میں شیخ عبدالقادر جیلانیؒ نے چند ایسی راتوں کے نام لکھے ہیں جن میں شب بیداری کرنا اورنوافل ادا کرنا ان کے نزدیک مستحب ہے ان راتوں میں سے ایک رات شبِ عاشورئہ محرم ہے جس میں بعض بدعتی صلوٰۃ عاشورہ پڑھتے ہیں ۔ غنیہ الطالبین ہی میں لکھا ہے کہ ’’اگر کوئی آدمی عاشورے کے روزہ رکھے اور شب بیدار رہے تو اللہ تعالیٰ اس آدمی کو جب تک وہ چاہتا ہے زندہ رکھتا ہے ‘‘ اس روایت کی بنیاد پر اور شیخ عبدالقادر جیلانیؒ کے اس شب کے بیان کردہ فضائل پر نیز دوسرے صوفیاء سے منقول روایات کے سبب پر بھی اس شب کو لوگ جن کا تعلق فرقہ حنفیہ سے ہے مساجد مین اہتمامِ نوافل کرتے ہیں، اس شب کی عبادت حنفیہ فرقے کی جماعت رائے ونڈیہ اور بریلویہ کے تمام افراد کرتے ہیں ۔ بہت سے لوگ یہ دلیل پکڑتے ہیں کہ شیخ عبدالقادر جیلانیؒ نے چونکہ اس شب کے فضائل بیان کئے ہیں لہٰذا یہ شب معتبر ہے لیکن میں عرض کرتا ہوں کہ غنیہ الطالبین احادیث صحیحہ کی کتاب نہیں ہے اس میں شیخ صاحب نے بہت سی ایسے روایات بھی لکھ دی ہیں جو کہ علمائے حدیث اور فقہاء کے نزدیک موضوعات میں شمار ہوتی ہیں البتہ فرق ہائے باطلہ پر ان کی تحقیق لاجواب ہے جس نے فرقہ حنفیہ اور اس کے بانی و مبانی کا سار کچا چٹھا کھول کر رکھ دیا ہے اور میں کہتا ہوں کہ یہ موضوع روایات ہمارے نزدیک ناقابل عمل ہیں حالانکہ امت کی اکثریت ان پر عمل پیرا ہے لیکن ہمارے نزدیک مطاع یعنی لائق اطاعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ہیں نہ کہ شیخ عبدالقادر جیلانی ، پھر دوسری بات یہ کہ عبادت کی تعریف یہ ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے تعامل سے ثابت ہو ، وہ عبادت بنفسہٖ عبادت نہیں جو آپؐ سے ثابت نہیں بلکہ وہ بدعت ہے چاہے اس پر عمل کرنے والا اور اس کی تائید کرنے والا کوئی بھی ہو ۔ پھر دیکھئے کہ اپنی کتاب میں مشہور حنفی ملا علی قاری کیا لکھ گئے ہیں ۔ فرماتے ہیں ’’اسی طرح نمازِ عاشورا ، نماز رغائب بالاتفاق موضوع ہیں اسی طرح رجب کی بقیہ راتوں کی نمازیں ، ستائیسویں رجب کو (شب معراج) اور پندرھویں شعبان کی نمازیں موضوع ہیں‘‘۔ تعجب ہے احناف پر کہ اپنے عالم کی بات نہیں مانتے ہیں ۔ (موضوعاتِ کبیر ص۴۷۵)

4:     صلوٰۃ الکفایہ

یہ نماز صوفیوں میں کافی معروف ہے جبکہ عوام الناس کی اکثریت اس نماز سے اور ا سکے طریقِ ادائیگی سے بے خبر ہے لیکن جنہیں اس کا علم ہو جاتا ہے پھر وہ صوفیاء کی زبانی اس کے فضائل وغیرہ سن کر اس بدعت پر عمل پیرا ہونے سے باز نہیں رہ سکتے ہیں ۔ چونکہ بہت سے لوگ صوفیاء سے اس کے فضائل سن کر او رکتب ِ صوفیاء میں پڑھ کر اس کے عامل ہوئے ہیں اسی سبب میں یہ لکھ رہا ہوں کہ یہ بدعت سے نہیں رہ سکتے ۔ میںنے اس نماز کے فضائل بھی بالخصوص غنیہ الطالبین میں پڑھے ہیں ۔ اس میں اس نماز کا طریقہ لکھا ہے کہ ’’نماز کفایہ دو رکعت ہے اور ہر ایک رکعت میں ایک دفعہ سورئہ فاتحہ پڑھے اور گیارہ دفعہ قُلْ ہُوَ اللہُ اَحَدٌ اور پچاس دفعہ یہ پڑھے

فَسَیَکْفِیْکَہُمْ اﷲُ وَہُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ

اور اس کے بعد سلام پھیر کر یہ دعا پڑھے‘‘۔ (غنیہ الطالبین مترجم ص۵۹۳)

میں نے بخوف طوالت دعا کے الفاظ درج نہیں کئے ہیں وگرنہ دعا کے الفاظ بھی خود ساختہ ہیں اور مسنون نہیںپھر دعا لکھنے کے بعد فرماتے ہیں کہ ’’جو آدمی اس دعا کو پڑھتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے واسطے کافی ہوتاہے اور اس نماز کے پڑھنے سے آدمی کا غم اور الم جاتا رہتا ہے اس کی دل جمعی ہو جاتی ہے اور اس کی بدی اس سے جاتی رہتی ہے ‘‘۔ (غنیہ الطالبین ص۵۹۴)

اس سے قبل کہ میں اس بدعت کے رد مین کچھ کہوں ۔ سیدنا علیؓ کا ایک فرمانِ عالی شان آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں یہ فرمان ایک واقعہ کی شکل میں ہے ۔ ’’سیدنا علیؓ نے عید کے روز نماز کی ادائیگی سے قبل ایک شخص کو دیکھا کہ وہ نفل نماز پڑھنے کا ارادہ کر رہا ہے آپؓ نے اس کو منع فرمایا ۔ اس شخص نے عرض کیا کہ میں نماز پڑھ رہا ہوں اور وہ عبادت ہے اور اللہ تعالیٰ کسی عبادت پر عذاب نہیں دیتا آپ نے جوابًا فرمایا ’’میں خوب جانتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کسی ایسے فعل پر ثواب نہیں دیتا جب تک اس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم انجام نہ دے لیں یا اس کی ترغیب نہ فرما لیں اس صورت میں تیری یہ نماز بے کار ثابت ہوئی اور بیکار شے پر عمل کرنا حرام ہے پس شاید اللہ تعالیٰ تجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی مخالفت کی وجہ سے عذاب دے‘‘۔ (نظم البیان ص۷۳، لجنہ ص۱۶۵ مؤلف سید جمال الدین محدث بحوالہ شبِ برأت ایک تحقیقی جائزہ از حبیب الرحمن کاندھلوی) اسی طرح سنن دارمیؔ میں ہشام بن حجیر سے روایت ہے کہ طاؤسؒ عصر کی نماز کے بعد دوگانہ پڑھا کرتے تھے ، ابن عباسؓ نے ان سے فرمایا کہ یہ چھوڑ دو ، طاؤسؒ نے کہا کہ ممانعت تو ان دو رکعتوں کی ہے جنہیں لوگ غروب آفتاب تک پڑھنے کا ذریعہ نہ بنا لیں ۔ ابن عباسؓ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے عصر کے بعد نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے میںنہیں جانتا ہے کہ اس نماز کے پڑھنے پر تجھے ثواب ملے کا یا عذاب اس لئے کہ اللہ کا حکم تو یہ ہے کہ ’

’وَمَا کَاَنَ لِمُؤْمِنِ وَّلاَ مُؤْمِنَۃٍ اِذَا قَضَی اﷲُ وَرَسُوْلُہٗ اَمْرًا اَنْ یّکُوْنَ لَہُمُ الْخِیْرَۃُ مِنْ اَمْرِہِمْ (سنن دارمی)

ابن عباسؓ اور سیدنا علیؓ کے ان فرامین کو ملاحظہ فرمانے کے بعد احادیث صحیحہ کا بغور مطالعہ فرمائیں کہ کیایہ نماز رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے ثابت ہے ؟ احادیث کی تمام معتبرکتابیں اس موضوع نماز اور اس کی فضیلت سے پاک ہیں ۔ اب سیدنا علیؓ کے فرمان کی روشنی میں اس بات کا تعین فرما لیجئے کہ اس نماز کے پڑھنے والے ، پڑھانے والے اہل سنّت کہلانے کے لائق ہیںیا بدعتی؟ نیز یہ بھی کہ عنداللہ وہ ثواب کے مستحق ہیں یا اللہ کے عذاب کے مستحق ہیں؟

5۔     صلوٰۃ اسبوعی

یہ نماز بھی صوفیاء میں بالخصوص سلسلۂ قادریہ سے تعلق رکھنے والے افراد پڑھتے ہیں اور اس کا وجود بھی غنیہ الطالبین سے ثابت ہے وگرنہ احادیث صحیحہ میں صلاۃِ اسبوعی کاکہیں بھی ذکر نہیں ہے ۔ غنیہ الطالبین میںجو کچھ صلوٰۃ اسبوعی کے بارے میں لکھا ہے میں اسے اختصار سے پیش کرتا ہوں ۔

جمعہؔ کی نماز اس وقت پڑھی جائے جب آفتاب نیزہ بھر بلند ہو جائے اگر دو رکعت پڑھی جائیں تو دو سو نیکیاں اس کے عوض ملیں گی اور دو سو گناہ معاف ہوں گے اگر چار رکعت پڑھی جائیں تو اللہ تعالیٰ نمازی کے جنت میں چار سو درجے بڑھا دیتا ہے اگر آٹھ رکعت پڑھے تو جنت میں آٹھ سو درجے بلند کیا جائے گا اور تمام گناہ معاف ہوں گے اور اگر بارہ رکعت پڑھے تو اس کے بدلے میں دو ہزار دو سو نیکیاں ملیں گی ۔ دو ہزار دو سو گناہ معاف ہوں گے اور جنت میں دو ہزار دو سو درجے بڑھا دئیے جائیں گے اگر نماز جمعہ اور نماز عصر کے درمیان دو رکعت نماز یوں پڑھے پہلی رکعت میں سورۃ الفاتحہ ایک بار ، آیۃ الکرسی ایک بار ، سورۃ الفلق پچیس بار ، دوسری رکعت میں سورۃ الفاتحہ ایک بار ، سورۃ اخلاص ایک بار اور سورۃ الفلق بیس بار پھر سلام پھیر کر پچاس بار لاَحَوْلَ وَلاَ قُوَّۃَ اِلاَّ بِاللہ ِپڑھے تو یہ شخص مرنے سے قبل خواب میں اللہ کا دیدار کرے گا اور جنت میں اپنا ٹھکانہ دیکھ لے گا اس کے علاوہ چند اور طریقوں سے بھی یہ نماز اس کتاب میں لکھی ہے ۔

ہفتہؔ کی نماز چار رکعت ہے ہر رکعت میں ایک بار سورئہ فاتحہ ، تین بار سورئہ اخلاص پھر سلام پھیر کر آیت الکرسی پڑھی جائے تو ایک سال کے روزوں اور قیام اللیل کے برابر ثواب ملے کا نیز ایک حرف کے بدلے ایک شہید کا اجر بھی ملے گا اور بروز محشر ایک ہزار انبیاء اور شہداء کے ہمراہ سایہ عرش نصیب ہو گا ۔

پیرؔ کی نماز آفتاب بلند ہونے کے بعد دو رکعت ہے اور ہر رکعت میں سورئہ فاتحہ ایک بار آیۃ الکرسی ایک بار سورئہ اخلاص ایک بار اور معوذ تین بھی ایک بار ہی پڑھی جائے بعد سلام کے دس بار استغفار کرے اور دس بار ہی نبی علیہ السلام پر درود بھیجے تو تمام گناہ معاف ہوں گے نیز یہ بھی لکھا ہے کہ بارہ رکعت پڑھے ہر رکعت میں ایک بار سورئہ فاتحہ اور آیۃ الکرسی پڑھے بعد سلام کے بارہ بار سورئہ اخلاص پڑھے اور بارہ ہی مرتبہ استغفار کرے توبروز محشر اسے پکار کر بارگاہِ الہٰی سے بطور ثواب ایک ہزار بہشتی حُلّے دئیے جائیں گے تاجپوشی ہو گی پھر بہشت میں ایک لاکھ فرشتہ بمعہ تحفوں کے اس کا استقبال کرے گا اور ایک ہزار نوری محلات سے گزرے گا ۔

بدھؔ کی نماز بلندئ آفتاب کے بعد بارہ رکعت ہے ہر رکعت میں ایک بار سورئہ فاتحہ ، ایک بار آیۃ الکرسی ، تین بار سورئہ اخلاص اور تین بار معوذتین پڑھے تو بروز محشر عرش کے پاس سے اسے پکارا جائے گا ، عذابِ قبر سے بچایا جائے گا نیز اس کا اعمال نامہ مثل پیغمبروں کے لکھا جائے گا ۔

منگلؔ کی نماز آفتاب بلند ہونے کے بعد دس رکعت ہے ہررکعت میں ایک بار سورئہ فاتحہ ایک بار آیت الکرسی اور تین بار سورئہ اخلاص پڑھے توستر دن تک نامۂ اعمال میں کوئی گناہ نہیں لکھا جائے کا اگر ستر روز کے اند ر مر گیا تو شہید ہو گا اور ستر برس کے گناہ بھی معاف ہوں گے ۔

جمعراتؔ کی نماز ظہر اور عصر کے درمیان ہے پہلی رکعت مین ایک بار سورئہ فتحہ اور سوبار آیت الکرسی ، دوسری رکعت میں ایک بار سورئہ فاتحہ اور سو بار سورئہ اخلاص پڑھے بعد سلام کے سو بار درود پڑھے تو رجب و شعبان کے روزوں کے برابراجر اور حجاج کے برابر ثواب ملتا ہے ۔

اتوارؔ کی نماز ظہر کے بعد ہے اور دو طریق سے ہے پہلا یہ کہ ہر رکعت میں سورئہ فاتحہ اور آمَنَ الرَّسُوْلُ پڑھے تو جتنی نصرانیوں کی تعداد ہے اتنا ثواب ملے گا، ایک پیغمبر کا ثواب بھی ملے گا، نیز ایک حج اور ایک عمرے کا بھی ثواب ملے گا ہر رکعت کے عوض ایک ہزار نماز کا ثواب اور ہر حرف کے عوض بہشت میں ایک شہر ملے گا ۔ دوسرا طریق یہ ہے کہ چار رکعت پڑھے پہلی رکعت میں فاتحہ اور الم سجدہ پڑھے ، دوسری میں فاتحہ اور ملک پڑھے ، بعد کی دو رکعتوں میں فاتحہ کے ساتھ سورئہ جمعہ پڑھے پھر جو مانگے گا اللہ وہ حاجت پوری کرے گا اور نصاریٰ کے عقیدہ و مذہب سے اللہ اسے بچائے گا ۔

یہ ہیں وہ نمازیں جو کہ صلوٰۃ اسبوعی کہلاتی ہیں ان کا ثبوت کسی بھی صحیح حدیث سے نہیں ملتا ہے ۔ معلوم نہیں کہ غنیہ الطالبین میں یہ موضوع روایات کس نے داخل کر دی ہیں ۔ ہمارایہ ایمان ہے کہ کوئی بھی عالم دین ان غلط روایات کی تائید نہیں کر سکتا ۔ ضرور یہ کسی رافضیؔ یا حنفی کی حرکت ہے کہ اس نے غنیہ الطالبین میں ان روایات کو اس لئے داخل کر دیا ہے کہ ان کی بنیاد پر یہ پوری کتاب بے اعتبار قرار پا جائے یہی وجہ ہے کہ شبِ برأت کی حقیقت بیان کرتے ہوئے متعصب حنفی اور نام نہاد امام الحدیث حبیب الرحمن کاندھلوی نے شیخ عبدالقادر جیلانی کی شخصیت پر رکیک حملے کئے ہیں اسکی وجہ وہی ہے کہ پہلے گزر گئی ہے کہ شیخ نے اس کتاب میں ان کے خود ساختہ اور جعلی امام کی حقیقت بیان کی ہے بس اسی پر چراغ پا ہو کر بہت سے حنفی کچھ اول فول کہتے ہیں، میں کہتا ہوںکہ بے شک صلوٰۃ اسبوعی سے متعلق روایات موضوع ہیں ان پر تعامل بدعت ہے ، ان کے فضائل و محاسن بیان کرنا کسی بھی اعتبار سے لائق استحسان نہیں ۔ ہم شیخ عبدالقادر جیلانی کا معاملہ اللہ کے سپرد کرتے ہیں ہیں اگر یہ واقعتًا انہی کی عبارت ہے تو پھر ان کا معاملہ ہم اللہ کے حوالے کرتے ہیں اور اگر یہ تحریفات ہیں تو پھر اللہ کے عذاب میں انہیں کوئی گرفتار نہیں کرا سکتا ہے ۔

(جاری ہے)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے