جب میں اپنے دوستوں کا تصور کرتا ہوں۔ تو میرے پردۂ ذہن پر کچھ ایسے لوگ ابھرتے ہیں۔ جو بہت دلچسپ، مہربان، پڑھے لکھے اور ذہین ہیں، اورساتھ ہی میرے محسن بھی ہیں۔ ان میں سے کچھ کو یاد کر کے مجھے ہنسی آتی ہے اور ان پر پیار بھی بہت آتا ہے۔ ان دوستوں میں سے چند کا تذکرہ کرنا چاہتا ہوں۔ جن کے اسمائے گرامی یہ ہیں: ابو نعمان بشیر احمد، طاہر آصف، چوہدری امجد علی، یوسف ضیاء، مجیب عالم، حافظ عبیداللہ، حافظ فضل الرحمن، حبیب اصغر اور شیخ مقبول صاحب۔

میرے محسن جناب ڈاکٹر مقبول احمد صاحب، ضلع اوکاڑہ شہر رینالہ خورد کے قریب گائوں چک نمبر 2/1.L میں بتاریخ 4 ستمبر 1967 کو پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم اپنے پھوپھا مولانا شیث محمد صاحب رحمۃ اللہ علیہ اور پھر گائوں ہی میں موجود گورنمنٹ پرائمری اسکول سے حاصل کی اور گورنمنٹ ہائی اسکول رینالہ خورد سے بہترین گریڈ میں سائنس کے ساتھ میٹرک پاس کیا۔ میٹرک کے بعد رینالہ میں ملازمت کی اور اس کے بعد کچھ وقت کے لیے لاہور میں کسی پرائیویٹ ادارے میں بھی ملازمت کی۔

گائوں میں میری ممدوح سے بہت دوستی تھی۔ ہم گائوں کے ماحول کے مطابق کھیلوں میں ایک ساتھ حصہ لیتے تھے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ میں اکثر اسکول کے امتحان کی تیاری کے لیے ان ہی سے پڑھا کرتا تھا۔ اگست 1984ء میں جب استاذ محترم شیخ خلیل الرحمان لکھوی اور شیخ ابو نعمان بشیر احمد کی معرفت جامعہ ابی بکر الاسلامیہ میں دینی تعلیم کے لیے کراچی آیا تو میرے ممدوح کے دل میں بھی شوق پیدا ہوا۔ شوق کی بات یہ تھی کہ جناب کی دوستی مجھ سے زیادہ ابو نعمان بشیر احمد سے تھی۔ مجھ سے جامعہ کے بارے میں معلومات اور مسلسل ابو نعمان سے رابطے کے بعد آپ نے بھی جامعہ ابی بکر الاسلامیہ میں دینی تعلیم حاصل کرنے کا ارادہ کر لیا۔ گائوں میںآپ انجمن طلباء اسلام کے ایک سرگرم کارکن تھے۔ اورگائوں میں اکثر ATI کے پروگراماموں میںسرگرم رہتے تھے۔

یہ اکتوبر 1984 کی بات ہے کہ آپ نے جامعہ میں تعلیم کیلئے کراچی کا سفر شروع کیا۔ خود ان کی زبانی کہ میں گائوں سے اوکاڑہ ریلوے اسٹیشن پر گاڑی کے انتظار میں کھڑا تھا تو دل میں اپنے پیارے اہل خانہ، عزیزوں اور دوستوں کی یادیں ابھرنے لگیں اور دل واپس گائوں کی طرف کھنچنے لگا۔ اسی شش و پنج میں مبتلا تھا کہ اچانک گاڑی آگئی اور میں سوار ہو گیا۔ سیٹ پر بیٹھا تو وہی تصورات ایک بار پھر گردش کرنے لگے۔

والدہ کا انتقال بچپن ہی میں ہو گیا تھا۔ کم سنی سے لے کر میٹرک تک دیکھ بھال کرنیو الی پیاری بڑی بہن اور والد محترم جن کی محبت، پیار اور شفقت اتنی تھی کہ والدہ کی کمی کاشدید احساس نہیں ہونے دیا۔ ان سے جدا ہونے کا خیال میرے لیے بڑا تکلیف دہ تھا۔ یہی ساری یادیں تھیں جو واپس لوٹنے پر مجبور کررہی تھیں۔ مگر دوسری طرف دینی تعلیم حاصل کرنے کا بہترین موقع مل رہا تھا۔ کشش دونوں طرف تھی میرا ذہن ماضی کی جانب محو سفر تھا۔جبکہ ٹرین کراچی کی طرف دوڑ رہی تھی۔ گاڑی جس اسٹیشن پر رکتی، دل واپس جانے کی طرف مائل ہوتا۔ کئی اسٹیشنوں پر تو میں نے اپنا بیگ اٹھالیا اور اترنے کا ارادہ کرہی لیا مگر کوئی قوت روک دیتی تھی۔ یہاں تک کہ حیدرآباد آگیا۔ اب واپس جانے کا مصمم ارادہ کرلیا۔ چنانچہ بیگ اٹھایا اور گاڑی سے نیچے اتر گیا پھراپنے آپ سے کہنے لگا ’’اللہ کے بندے! دینی تعلیم کے لیے گھر سے نکلے ہو۔ آگے بڑھو۔ اللہ کوئی بہتر راستہ دکھا دے گا۔‘‘ یہ سوچ کر دوبارہ سوار ہوگیا اور کراچی پہنچ کر جامعہ ابی بکر الاسلامیہ کی راہ لی۔ جامعہ میں ابو نعمان بشیر صاحب اور محترم استاد شیخ خلیل الرحمن لکھوی صاحب سے ملاقات ہوئی۔ دلی سکون ملا۔ چند دن گزرنے کے بعد جامعہ کے اساتذہ اور طلبہ کی محبت کے ساتھ ساتھ جامعہ کے ماحول نے اپنا اسیر کرلیا اور دن رات محنت اور پڑھائی او رمسلسل تحقیقات میں گزرنے لگے۔

چونکہ مسلکی لحاظ سے اہلحدیث نہیں تھا۔ لہٰذا جامعہ کے برابر والی بریلوی مسلک کی مسجد میں کبھی کبھار نماز پڑھنےیادل بہلانے چلا جاتا۔مگرجامعہ میں اساتذہ نے محبت اور پیار سےجس طرح رہنمائی کی نتیجہ یہ نکلا کہ اللہ رب العزت نے صراط مستقیم پہ گامزن کردیا الحمد للہ ۔

جامعہ کے ابتدائی تین سال گزر گئے پھر پاکستانی نیوی میں بھرتی ہونے کا آرڈر بھی آگیا۔ کیونکہ گھر والوں کے سخت اصرار پر نیوی کی ملازمت کے لیے انٹرویو دے رکھا تھا مگراللہ کی توفیق سے دینی تعلیم، اپنے اساتذہ اور دوست احباب کی محبت خصوصی طور پر محترم انس محمد صاحب کی نصیحت غالب رہی اور ملازمت کاارادہ ملتوی کر دیا۔ جامعہ کی پڑھائی کے ساتھ ساتھ انٹرمیڈیٹ اور بی اے کراچی یونیورسٹی سے کرلیا۔

کلیۃ الحدیث کے پہلے سال میں تھا کہ کراچی کے ایک بہترین پرائیویٹ اسکول، اینگلو اورینٹل میں بحیثیت اسلامیات اور عربی استاد کام کیا۔ جامعہ کے آٹھ سال کے دوران میرا اور آپ کا ایک ایسا رشتہ تھا کہ ہر کوئی ہمیں حقیقی بھائی ہی سمجھتا تھا اور الحمدللہ آج بھی ایسا ہی ہے۔ دینی تعلیم میں بھی آپ نے اور ابو نعمان بشیر صاحب نے میرا بہت ساتھ دیا۔

آپ نے 1992ء جامعہ ابی بکر الاسلامیہ سے فراغت کی سند’’ شہادۃ العالیہ ‘‘بہت اچھے نمبروں سے حاصل کی اور ہم نے چند دوستوں کے ساتھ مل کر جامعہ سے باہر فلیٹ کرائے پر حاصل کیا اور رہائش اختیار کی۔ ساتھ ساتھ ملازمت کے لیے سینٹرل جیل کراچی میں قائم دینی تعلیم کے مدرسے میں بطور معلم کام شروع کیا۔ وہاں پر ہمارے محسن جناب حکیم انور صاحب کی سر پرستی ملی، جن کی شفقت اور محبت میں ہمیں پڑھنے اور پڑھانے میں بہت مزا آیا۔

مزے کی بات یہ ہے کہ جیل کی تمام بیرکوں میں سائونڈ سسٹم کا انتظام تھا۔ صبح تلاوت کے بعد ایک استاد درس قرآن دیا کرتا تھا۔ شیخ صاحب اس کار خیر میں مسابقت کرتے ہوئےخود درس قرآن دیتے۔آپ کے درس سے قیدی بہت متاثر ہوتے۔ سینٹرل جیل میں شیخ صاحب نے تقریباً ڈیڑھ سال کام کیا۔آپ جیل کے مدرسے میں صبح 8 سے دوپہر 12 تک اور پھر ایک بجے سے شام 5 تک اینگلو اورینٹل اسکول میں معلم کی حیثیت سےکام کیا کرتے تھے۔ اینگلو اورینٹل کی پرنسپل آپ کے اچھےکردار کی وجہ سے آپ کا بہت احترام کرتی تھیں۔اب جب بھی کبھی ملاقات ہو توآپ کا بہت اچھے لفظوں سے تذکرہ کرتی ہیں۔ پرنسپل صاحبہ کی راہنمائی سے شیخ صاحب پاکستان کے نامورسسٹم آف اسکولز یعنی دی سٹی اسکول گلشن اقبال کراچی میں عربی اور اسلامیات کے معلم مقرر ہوئے۔ آپ کو اسکول میں کام کرتے ہوئے چھ سات ماہ ہی ہوئے تھے کہ اچانک خوشخبری ملی کہ ان کا سعودی عرب میںبلد الامین مکہ مکرمہ کی ام القری یونیورسٹی میں داخلہ ہو گیا ہے۔ یہ خبر سنتے ہی تمام دوست و احباب کے چہرے خوشی سے تمتمانے لگے۔ ہر طرف سے مبارک باد آنے لگی۔ سٹی اسکول کے اساتذہ بھی بہت خوش ہوئے۔ آپ نےحصول تعلیم کے لیے سٹی اسکول کو 15 مارچ 1993 میں خیر آباد کہہ دیا۔ اب آپ کے سعودیہ میں داخلہ ہونے کے راقم الحروف میں نے اینگلو اورینٹل اسکول اور دی سٹی اسکول میںآپ کی جگہ عربی اور اسلامیات کے استاد کی حیثیت سے کام شروع کیا۔ میرے لیے ان اسکولز میں کام کرنا تھوڑا سا مشکل تو ہوا کیونکہ شیخ صاحب جیسے قابل اور ذہین استاد کی جگہ کام کرنا آسان نہیں تھا۔ مگر شیخ طاہر آصف اور بعض دوسرے دوستوں کی رہنمائی اور تعاون سے میں نے اس مشکل پر قابو پالیا۔ شیخ صاحب سعودی عرب ام القری یونیورسٹی گئے اور اپنے والد محترم کو حج کیلئے بلایا۔ آپ کے والد محترم چند سال قبل قضائے الٰہی سے وفات پاگئے ،انا للہ وانا الیہ راجعون۔ اللہ مرحوم کے درجات بلند فرمائے، شیخ صاحب کو صبر جمیل عطا فرمائے اوراپنے والدین کے لیے صدقہ جاریہ بنائے۔ (آمین)

ام القری یونیورسٹی سے فراغت کے بعد آپ واپس پاکستان جامعہ ابی بکر الاسلامیہ میں آئے۔ آپ نے اپنی معلمانہ سرگرمیوں کا دوبارہ سے آغاز جامعہ ابی بکر الاسلامیہ کی ذیلی درس گاہ دنبہ گوٹھ سپر ہائی وے میں بحیثیت انچارج کیا، جو کراچی سے چند میل کی مسافت پر واقع ہے۔ یہ ذمہ داری آپ کیلئے ایک بڑا چیلنج تھی مگر آپ نے دن رات محنت کر کے وہاں کا نظام بہترین انداز مین سنبھالا اور حفظ و ناظرہ کی کلاسز کو یوں منظم کیا کہ رئیس الجامعۃ محترم جناب ڈاکٹر راشد رندھاوا صاحب نے بھی تعریف کی اور طلبہ کی تعداد میں دن بدن اضافہ ہوتا گیا۔ آپ وہاں پر زیادہ عرصہ کام نہ کر پائےتھے کہ جامعہ ابی بکر الاسلامیہ میں استاد کی ضرورت کےپیش نظر آپ کو جامعہ میں ہی استاد مقرر کر دیاگیا۔

جامعہ میں بھی آپ نے دن یارات کو نظر انداز کرتے ہوئے سخت محنت کی اور طلبہ میں اپنےنام کی طرح مقبول ہوگئے۔ دوران تدریس آپ نے، ڈاکٹر راشد صاحب کےتعاون اوراساتذہ جامعہ کی کوششوں سے ایک ماہنامہ ’’مجلہ جامعہ ابی بکرالاسلامیہ‘‘ کے نام سے جاری کیا۔ جس کی بدولت آپ لوگوں کی نظروں میں الحمدللہ اچھی قدر سے پہنچانے جانے لگے۔ بعد میں رسالے کا نام تبدیل کرکے ’’اسوہ حسنہ‘‘ کر دیا گیا۔ رفتہ رفتہ میگزین نے اتنی ترقی کی کہ آج الحمدللہ اسوۃ حسنہ کے نام سے جامعہ سے شائع ہو کرنہ صرف پورے پاکستان بلکہ غیر ممالک میں بھی ارسال کیا جاتا ہے، جو کہ ماشاءاللہ آپ کی محنت کاثمرہے۔ گزشتہ سال آپ نے کراچی یونیورسٹی سے عربی زبان میں ’’رباعیات لامام البخاری من خلال کتابہ الجامع الصحیح‘‘ کے موضوع پر پی، ایچ، ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ وقت حاضر میں آپ جامعہ میں تدریس کے ساتھ کراچی یونیورسٹی میں فل ٹائم لیکچرار کی حیثیت سے بھی کام کررہے ہیں۔ جامعہ میں درس و تدریس کے شعبے میں شیخ صاحب کا اہم مقام ہے۔ جامعہ میں گزشتہ سالوں سے اجتماعی قربانی کا اہتمام کیا جاتا ہے جس میں جناب شیخ ضیاء الرحمن، وکیل الجامعہ، مولانا عبدالطیف اور جناب شیخ صاحب پیش پیش ہیں۔

اللہ رب العزت سے دعا ہے میرے محسن جناب ڈاکٹر شیخ مقبول احمد مکی صاحب کی عمر میں برکت عطا کرے اور دن رات محنت و لگن کے ساتھ دین کی خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ درحقیقت میرے تمام دوست میرے محسن ہیں۔ چاہے وہ اسکول کے زمانے کے ہوں یا جامعہ ابی بکر الاسلامیہ کے زمانے کے ہوں۔ انہوں نے مجھ پر بڑا احسان کیا۔ مجھے علم کی دولت سے مالا مال کیا۔ مجھے اس وقت تعلیم دی جب میں کچھ بھی نہیں جانتا تھا۔

جامعہ ابی بکر الاسلامیہ سے میں نے بہت کچھ سیکھا۔ اس سے میں نے دین و دنیا کی بھلائی سیکھی۔ (عربی میری مادری زبان نہیں ہے) جامعہ سے میں نے عربی زبان سیکھی۔ بے شمار معلومات اور عقل کی باتیں جامعہ نے مجھے سکھائیں درحقیقت جامعہ ابی بکر الاسلامیہ بھی میرے محسنین میں شامل ہے۔ یہ بات میں جناب مدیر الجامعہ یا وکیل الجامعہ کو خوش کرنے کے لیے نہیں لکھ رہا ہوں۔ بلکہ یہ میرے دل کی آواز ہے۔ اور یہ داستان حیات کا کچھ حصہ اصل میں اپنے جیسے طلباءکومہمیزدینے کہ لیے ہے کہ اللہ اپنے مومن بندوں کے اجر ضائع نہیں کرتا’’وَالَّذِيْنَ جَاهَدُوْا فِيْنَا لَـنَهْدِيَنَّهُمْ سُـبُلَنَا ‘‘ ترجمہ:اور جو لوگ ہماری راہ میں مشقتیں برداشت کرتے ہیںہم انہیں اپنی راہیں ضرور دکھا دیں گے ۔

ہاں یہاں بہت سی وہ باتیں درج نہیں ہیں جن کا تعلق ہے ’’ قطرے پہ کیاگزرے ہے گہر ہونے تک‘‘

اپنے محسنین کے ساتھ جامعہ ابی بکر الاسلامیہ کے لیے بھی دل سے دعا نکلتی ہے۔ کتنے خوش نصیب ہیں پاکستانی بچے کہ ان کے ملک میں ایک نامور دینی درس گاہ ہے جو صحیح معنوں میں تربیت اور رہنمائی کرتی ہے۔اللہ اسے مزید ترقی دے اور ہر شر سے محفوظ رکھے آمین۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے