اللہ تعالیٰ نے اس جہاں کو دارالعمل، اگلے جہاں کو دارالجزاءقرار دیا ہے۔ جس میں ہر انسان کو اس کے ہر اچھے اور برے کام کا صلہ ،ہر چھوٹی بڑی نیکی کا بدلہ دیا جائے جس نے اس جہان میں جو بویاہوگا وہی اگلے جہاں میں کاٹے گا، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ : وَلَا يُظْلَمُوْنَ فَتِيْلًا؀ اس دن کسی پر دھاگے کے برابر بھی ظلم نہیں کیا جائےگا۔احادیث مبارکہ میں بھی اس بات کی کئی مقامات پر مختلف انداز میں وضاحت ہے کہ دنیا میں ظلم و جبر کرنے والے قیامت میں ہر قیمت پر اپنے کئے کا بدلہ چکائیں گے، جیسے مفلس والی حدیث جس میں انسان دنیا میں بظاہر بہت عبادت گذار ہے مگر زبان، ہاتھ سے دوسرے لوگوں کو تکلیف دی ہوتی ہےجس کی وجہ سے وہ اپنے اعمال سے بھی محروم ہوجاتا ہے بالآخر اس پر مظلومین کے گناہ لاد کر جہنم میں دھکیلاجاتا ہے، نیز اس کے علاوہ انصاف کے عالم کی ایک جھلک اس حدیث میں بھی بتلائی گئی ہے کہ سیدناابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قیامت کے دن تم لوگوں سے حقداروں کے حقوق ادا کروائے جائیں گے یہاں تک کہ بغیر سینگ والی بکری کا بدلہ سینگ والی بکری سے لے لیا جائے گا۔(صحیح مسلم2582)۔ الغرض قیامت تو ہے ہی بدلہ کا دن اس دن انصاف کے سارے تقاضوں کو پورا کیا جائے گا،اگر کسی ظالم کی پکڑ دنیا میں نہیں ہو رہی ہو تو کوئی یہ مت سمجھے کہ اللہ اس سے بے خبر ہے بلکہ فرمایا

وَلَا تَحْسَبَنَّ اللّٰهَ غَافِلًا عَمَّا يَعْمَلُ الظّٰلِمُوْنَ ڛ اِنَّمَا يُؤَخِّرُهُمْ لِيَوْمٍ تَشْخَصُ فِيْهِ الْاَبْصَارُ   ۝ (ابراہیم42)

(لوگو!) یہ کبھی بھی خیال نہ کرنا کہ ظالم جو کچھ کر رہے ہیں اللہ ان سے بے خبر ہے۔ وہ تو انہیں اس دن کے لئے مہلت دے رہا ہے جس دن نگاہیں پھٹی کی پھٹی رہ جائیں گی۔

تاہم بعض لوگوں کو دنیا میں ہی مکافاتِ عمل کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس کا اہم سبب مظلوموں کی بد دعائیں بھی ہوسکتاہے اور شایدجب اللہ تعالیٰ مظلومین کے کلیجوں کو ٹھنڈا کرناچاہتے ہیں تو ظالم کو دنیا میں ہی عبرت کا نشان بنادیتے ہیں۔ تاریخ کے جھروکوں میں کئی ایسے افراد ہیں جو اپنے دورِ اقتدار میں یا وقتِ فراخی میں اپنے ماتحتوں اور کمزروں پر ظلم ڈھائے ہوتے ہیں، پھر حالات وَتِلْکَ الْاَیَّامُ نُدَاوِلُہَابَیْنَ النَّاسِ کے تحت پلٹا کھاتے ہیں تو وہی ظالم تختہ مشق بناہوتا ہے۔سن 1999 سے2008 تک اقتدار پر ناجائز قبضہ جمائے قوم کی غیرت و حمیت کا سودا کرنے والے شخص کے زیرِ عتاب رہنے والی قوم کی بد دعائیں شاید عرش والے نے سن لی ہیں، سانحہ لال مسجد کا زخم کون بھول سکتا ہے؟ جس میں اس وقت کے صدر اور اس کے حواریوں نے جو ظلم کے پہاڑ توڑے تھے کوئی کیسے بھول سکتا ہے، اگر چہ یہ صدر اور اس کے حواری اس وقت اپنی معصومیت ثابت کرنے کی سرتوڑ کوششوں میں مصروف ہیں، مگر تاریخ انہیں کیسے بھول سکتی ہے؟ ایک لمحہ کے لئے اگر اس وقت کے پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا ہی کو سامنے رکھا لیاجائے تو آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جاتی ہیں، آمرپرویز مشرف اور اس کے حواری اس وقت اور اب بھی اس آپریشن کو وقت کی ضرورت بتاتے ہیں اور یہ بھی دعویٰ کرتے ہیں کہ ان میں دہشت گرد ہلاک ہوئے ہیں جن کی تعداد 100 سے کم تھی، جب کہ معروف سماجی کارکن عبد الستار ایدھی کا بیان انہی ایام میں سامنے آیا کہ حکومت کو 800 کفن دے چکا ہوں، مزید 200 کا مطالبہ کیا گیا ہے، اگر اتنی کم تعدا د میں ہلاکتیں ہوئی تھیں تو یہ بقیہ 900 کفن اپنے خاندان والوں میں تقسیم کرنے کے لئے مانگے تھے !!!!؟؟

سانحہ 12 مئی سے بلند ہونے والی آہیں اور سسکیاں ابھی دبی نہیں،جس میں کراچی کی گلیوں کو خون سے نہلایاگیا ،جبکہ اسی دن یہی آمر ایک جگہ تقریر کرتے ہوئے اس سانحہ کی ذمہ داری ان الفاظ میں قبول کررہا تھا کہ ’’کراچی میں عوام نے طاکت(طاقت) کا مظاہرہ کیا ہے‘‘

ڈالروں کے عوض فروخت کئے گئے کئی علماء، طلباء جن میں سے کئی شہید ہوچکے ہیں اور جو اپنوں سے دور سلاخوں کےپیچھے کراہ رہے ہیں ان کی نقاہت بھری کراہنے کی آوزیں ابھی بھی قوم کے کانوں میں آرہی ہیں، قوم کی عفت و عصمت کو فروخت کرنے کی زندہ مثال ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی مظلومانہ صدائیں اب بھی بلند ہورہی ہیں، اس کے علاہ عدلیہ پر شبخون، سانحہ کارگل پرفوجی جوانوں کا سودا ، ڈرون حملوں کا تحفہ، نیٹو سپلائی ، این آر او کی آڑ میں سفاک قاتلوں، چوروں لٹیروں کو مکمل پناہ دینے کے علاہ کئی ایسے دھبے ابھی سابق جنرل مشرف کے دامن پر لگے ہوئے ہیں، ایسے میں جب یہ شخص وطن واپس آیا تو اس کا استقبال جوتوں سے کیا گیا،یقینا یہ اسی لائق تھا اور یہی مکافاتِ عمل ہے ۔ بقولِ شاعر

عدل و انصاف کے تقاضے فقط حشر پر موقوف نہیں زندگی خود بھی گناہوں کی سزا دیتی ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے