سفرانسان کی زندگی کا ایک حصہ ہے بسا اوقات انسان اللہ کی راہ میں سفر پر نکلتا ہےاورکبھی اپنے دنیاوی امور کو سر انجام دینے کے لیے سفر کرتا ہے ، سفر میں اللہ تعالیٰ کے اہل ایمان کے لئے سہولتیں رکھی ہیں تاکہ مشقت میں نہ پڑے۔بلکہ اس کےلیے آسانی رہےفرض نماز اللہ تعالیٰ نے مسافر کے لیے نصف کر دی ہےجیسا کہ ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ

فرضت الصلوٰۃرکعتین رکعتین فی الحضر والسفرفاقرت صلوٰۃ السفروزیدفی صلوٰۃ الحضر

(صحیح مسلم ص 241 ج 1کتاب صلوٰۃالمسافرین)

یعنی ابتداء میں نماز دو دو رکعات فرض کی گئی تھی پھر سفر کی نماز کو اسی حالت میں(دو دو رکعات)رکھا گیا اور حضر(مقیم حالت) میں نماز کو بڑھا دیا گیا۔یعنی چارچار رکعات کر دیا گیا۔نماز قصر کتنی مسافت پرہونی چاہیے اس کے لیے جناب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل ہمارے لیے بہترین نمونہ ہے۔سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ

کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اذا خرج مسیرۃ ثلاثۃ امیال اوثلاثۃ فراسخ شعبۃ الشاک صلی رکعتین(صحیح مسلم ص 242 ج1)

یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب تین میل یاتین فرسخ کی مسافت پر سفر کے لیے تشریف لے جاتے(شعبہ راوی کو تین میل یا تین فرسخ کا شک ہے)تو دو رکعات(نماز قصر)ادا کرتے تھے اسی طرح سیدنا انس رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ

ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صلی الظھربالمدینۃاربعا وصلیت معہ العصربذی الحلیفۃ رکعتین

(صحیح مسلم ص 242 ج1)

یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر کی نماز مدینہ میں چار رکعات پڑھیں اور میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ذی الحلیفہ میں نماز عصردو رکعات پڑھیں ذوالحلیفہ ایک جگہ کانام ہے جوکہ مدینہ منورہ سے 3میل کےفاصلے پرہے۔

مصنف ابن شیبہ ص445 ج2 میں لجلاج سے روایت ہے کہ کنا نسافر مع عمر بن الخطاب فنسیر ثلاثۃ امیال فیتجوز فی الصلاۃ ویقصر

ہم امیر عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ سفر میں تین میل کی مسافت پر جاتے تھے اورآپ رضی اللہ عنہ نماز قصر کیا کرتے تھے۔(بحوالہ بدیع التفاسیر ص385 ج6)

سیدنا امیر عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ’’القصر فی ثلاثۃ امیال‘‘ یعنی نماز قصر تین میل کی مسافت پر ہے۔(بحوالہ بدیع التفاسیر ص244 ج 2)

اہل علم،علماء محدثین کی تحقیق کے مطابق نماز قصر تین یا نو میل پر ہے۔گذشتہ دنوں مولانا مبشر ربانی صاحب سکھر تشریف لائےجہاں انہوں نےنماز قصر کےلیے مسافت اکیس میل بتائی حالانکہ موصوف کو رقعہ کے ذریعے یاددہانی کروائی گئی کہ فرسخ تین میل کا ہوتاہے سات میل کا نہیں، لیکن وہ اپنی رائے پر قائم رہے،جس کی وضاحت کے لئے اور بات کو سمجھنے لے لئے قرآن و سنت کی روشنی میںچند سطور لکھی جا رہی ہیں اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق عطا فرمائے۔

فرسخ کی تحقیق :

مشہور کتاب لغات الحدیث از علامہ وحید الزمان میں مرقوم ہے کہ’’فرسخ کا معنیٰ سکون اور راحت تین میل کی مسافت یا بارہ ہزار یادس ہزار ہاتھ، جو چیز بہت ہو اور ہمیشہ رہے۔(اس کی جمع فراسخ ہے)(لغات الحدیث ص 46 ج 3 کتاب الفاء)

نیز حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ ذکر الفراء الفرسخ فارسی معرب وھو ثلاثۃ امیال(فتح الباری ص 732 ج 2)یعنی فرسخ تین میل کا ہوتاہے۔

محدثین کرام اور علماء اہلحدیث کا مؤقف:

حافظ ابن حجر لکھتے ہیں کہ

وقال الثوری سمعت جبلۃ بن سحیم سمعت ابن عمر یقول لو خرجت میلاً قصرت الصلاۃ (اسناد کل منہما صحیح)

یعنی امام ثوری فرماتے ہیں کہ میں نے جبلہ بن سحیم سے سنا کہ عبد اللہ بن عمر فرماتے تھے کہ اگر میں ایک میل کی مسافت پر نکلوں تو بھی قصر کروں گا۔(فتح الباری ص732ج2) نیز حافظ صاحب رقمطراز ہیں کہ

وحکی النووی ان اھل الظاہر ذھبوا الی ان اقل مسافۃ القصر ثلاثۃامیال وکانھم احتجوا فی ذالک بما رواہ مسلم وابو داؤد من حدیث انس قال کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اذا خرج مسیرۃ ثلاثۃ امیال او فراسخ قصر الصلاۃ وھو اصح حدیث ورد فی بیان ذالک(فتح الباری ص 732 ج 2)

یعنی امام نووی نے بیان کیا کہ اہل ظاہر اس طرف گئے ہیں کہ قصر نماز کےلیے کم از کم مسافت تین میل ہے گویا کہ انہوں نے صحیح مسلم اور سنن ابی داؤد کی روایت سے حجت لی ہے جس میں بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب تین میل یافراسخ سفر کرتے تھے تو نماز قصر کیا کرتے تھے۔اسی طرح محدث شھیر علامہ شمس الحق عظیم آبادی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ

وذھب ابن حزم الظاھری احتج لہ باطلاق السفر فی کتاب اللہ تعالیٰ کقولہ واذا ضربتم فی الارض الایۃ وفی سنۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال فلم یخص اللہ ورسولہ والمسلمون باجمعہم سفرا من سفر(عون المعبود ص466ج1)

یعنی ابن حزم ظاہری اس طرف گئے ہیں کہ سفر مطلق سفر ہے اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یامسلمانوں نے اس کی تخصیص نہیں کی کہ وہ کتنا ہو تو پھر نماز قصر ہوگی۔

محدث دیارسندھ علامہ سید ابو بدیع الدین شاہ راشدی رحمۃ اللہ علیہ حافظ ابن حجرکی کتاب تلخیص الحبیر ص74ج2 سے ایک روایت کے تحت نقل کرتے ہیں کہ وہ

وھو یقضی الجواز فی اقل من ثلاثۃ فراسخ وروی سعید بن منصور عن ابی سعید قال کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اذا سافر فرسخا یقصر الصلاۃ

یعنی یہ حدیث تین فرسخ سے کم فاصلے پر نماز قصر کا جواز چاہتی ہے اور امام سعید بن منصور ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت لائے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب ایک فرسخ سفر کرتے تھے تو نماز قصر کیا کرتے تھے۔اس کے بعد شاہ صاحب لکھتے ہیں کہ یہاں اقل مدت مطلوب ہے کیونکہ سفر قلیل خواہ کثیر کو کہا جاتا ہےلہذا یہاں پر اقل حد مراد لی جائے گی۔(بدیع التفاسیر ص384ج6) حافظ عبداللہ محدث روپڑی رحمۃ اللہ علیہ ایک سوال کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں کہ 9میل کے سفر میں دوگانہ درست ہے اس کی بابت صحیح مسلم میں حدیث آئی ہے مسافر اپنے گاؤں یا شہر کی حدود سے باہر نکلتے ہی دوگانہ شروع کر سکتا ہے(فتاوی اہلحدیث ص585)

مولانا مفتی حافظ عبید اللہ عفیف صاحب نماز قصر کی مسافت کے سوال کے جواب میں لکھتے ہیں کہ اس مسئلہ میں اختلاف ہے کہ کتنی مسافت کے بعد مسافر کے لیے قصر نماز جائز ہے حافظ ابن المنذر اور دوسرے اہل علم نے اس سلسلہ میں کوئی بیس قول نقل کئے ہیں اختصار کو ملحوظ رکھتے ہوئے یہاں صرف وہی قول نقل کئے جاتے ہیں جن کی بنیاد حدیث پر ہے۔

قول اوّل : تین کوس کی مسافت میں نماز قصر جائز ہے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ:

قال کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اذا سافر فرسخا یقصر الصلاۃ رواہ(سعید بن منصور فی سننہ نیل الاوطار ص235ج3)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک فرسخ(تین کوس)کے سفر میں قصر پڑھتےتھے مگر یہ قول صحیح نہیں کیونکہ صاحب نیل الاوطار نے یہ روایت حافظ ابن حجر کی تلخیص الحبیر سے نقل کی ہے اورحافظ صاحب نے اس روایت کی صحت کے متعلق کچھ ذکر نہیں کیا جیسا کہ صاحب نیل نے کہا ہے:

وقد اورد الحافظ ھذا فی التلخیص ولم یتکلمہ علیہ(نیل ج3ص235)

لہٰذا چونکہ اس روایت کی صحت کا کچھ اتہ پتہ نہیں ہے اس لیے استدلال صحیح معلوم نہیں ہوتا۔

قول ثانی: ایک دن رات کا سفر ہو امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں اس کو بنیاد بنایا ہے اور وہ اس حدیث سے استدلال کرتے ہیں:

لایحل لامرأۃ تومن باللہ والیوم الاخر ان تسافر مسیرۃ یوم ولیلۃ الاومعہا ذومحرم (رواہ الجماعۃ الا النسائی نیل الاوطارص235ج2)

مومنہ عورت کو جائز نہیں ہے کہ وہ ایک دن رات کا سفر محرم کے بغیر کرے۔مگر یہ قول بھی صحیح نہیں کیونکہ اس حدیث میں وضاحت نہیں کہ اس سے کم مسافت میں قصر جائز نہیں۔واللہ اعلم

قول ثالث:نو کوس کی مسافت میں قصر کرنی چاہیے حدیث میں ہے:

عن انس قال کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اذا خرج مسیرۃ ثلاثۃ امیال اور ثلاثۃ فراسخ صلی رکعتین(رواہ احمد و صحیح مسلم ص242 ج1وابوداؤد و نیل الاوطارص233ج3)

چونکہ اس حدیث کی صحت معلوم ہوتی ہےمگر چونکہ اس میں تین کوس اور نوکوس کے تعین میںامام شعبہ کوشک ہے اس لیے احتیاط تین کوس کے بجائے نوکوس کے سفر میں قصر کرنی چاہیے اور تین کوس کی مسافت نوکوس میں داخل ہے حافظ ابن حجر نے بھی اس حدیث کو اس مسئلہ میں اصح اور اصرح یعنی زیادہ صحیح اور زیادہ صریح قراردیا ہے:

وھو اصح حدیث ورد فی ذالک واصرح

(فتاوی محمدیہ ص519-520)

حافظ عبد المنان نورپوری رحمہ اللہ فقہ السنۃ میں لکھتے ہیں (روی احمد ومسلم وابوداؤد و البیہقی عن یحیی بن یزید قال سالت انس بن مالک عن قصر الصلاۃ،فقال انس کان النبی صلی اللہ علیہ وسلم اذا خرج میسرۃ ثلاثۃ امیال اوفراسخ یصلی رکعتین قال الحافظ ابن حجر فی الفتح وھو اصح حدیث ورد فی بیان ذالک واصرحہ،والتردد بین الامیال والفراسخ یدفعہ ماذکرہ ابو سعید الخدری قال:کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  اذا سافر فرسخا یقصر الصلاۃ،رواہ سعید بن منصور وذکرہ الحافظ فی التلخیص واقرہ بسکوتہ عنہ)(51دار284)

احمد،مسلم،ابوداؤداوربیہقی نے یحیی بن یزید سے بیان کیا ہےفرماتے ہیں میں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے نماز قصر کے متعلق سوال کیا انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم تین میل یاتین فرسخ کی مسافت پر نکلتے تو دورکعت پڑھتے۔حافظ ابن حجر فتح الباری میں فرماتے ہیں کہ اس کی وضاحت میں صحیح ترین روایت یہی ہے رہا میل اور فرسخ کا تردد تو یہ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کی اس حدیث سے ختم ہوجائے گاوہ فرماتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک فرسخ (3میل)کےسفر پر نکلتے تو نماز قصر کرتے۔اس روایت کو سعید بن منصور نے اور حافظ ابن حجر نے التلخیص الحبیر میں ذکر کیا ہے اور اس پر اپنے سکوت سے صحت کی تصدیق کی ہے۔(احکام و مسائل ص271ج2)

مفتی جماعت فضیلۃ الشیخ ابو محمد حافظ عبدالستار الحماد صاحب حفظہ اللہ نماز قصر کی مسافت کے متعلق لکھتے ہیں کہ نماز قصر کےلیے مقدار سفر کے متعلق علماء سلف میں خاصا اختلاف ہےظاہری حضرات کے نزدیک کسی قسم کی مقدار سفر معین نہیں ہے ان کے نزدیک ہر سفر میں نماز قصر کی جاسکتی ہے خواہ سفر کم ہو یا زیادہ۔بعض محدثین ایک دن اور ایک رات کی مسافت پر نماز قصرجائز قرار دیتے ہیں۔الغرض رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق کوئی صریح قولی روایت نہیں ملتی جس سے نماز قصر کے لیے مسافت کی مقدار کو معین کیا جاسکتا ہو۔البتہ سیدنا انس جو حضروسفر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کےہمراہ ایک خادم خاص کی حیثیت سے رہے ہیں انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک فعل سے استنباط کیاہے کہ کم از کم نو میل کی مسافت پرنماز قصر کی جاسکتی ہے چنانچہ آپ کے شاگرد یحیی بن یزید نے نماز قصر کے لیے مسافت کی مقدار کے متعلق سوال کیاتوسیدنا انس نے جواب دیا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  تین میل یا تین فرسخ کاسفر کرتے تو نماز قصر فرماتے۔(روایت میں سفر کی تعین کے مطابق تردد ایک راوی شعبہ کو ہوا ہے) (فتاوی اصحاب الحدیث ص138-139)

مشہور سیرت نگار مولانا صفی الرحمٰن مبارکپوری رحمہ اللہ بلوغ المرام میں انس رضی اللہ عنہ کی حدیث کی تشریح میں لکھتے ہیں کہ رہا’’فراسخ‘‘ تو یہ فرسخ کی جمع ہے ایک فرسخ تین میل کا ہوتا ہے۔(بلوغ المرام من ادلۃ الاحکام ص293ج1طبع دارالسلام) نیز لکھتے ہیں کہ ہمارے زمانے کے علماء اہلحدیث کی اکثریت اس طرف گئی ہے کہ نو میل کی مسافت پر قصر کرنا جائزہے(بلوغ المرام ص294ج2)

محقق اہلحدیث علامہ زبیر علی زئی صاحب حفظہ اللہ فتاوی علمیہ میں صحیح مسلم کی روایت کے ضمن میں رقمطراز ہیں کہ شک کو دور کرتے ہوئے نو میل کو اختیار کریں جوکہ عام گیارہ میل کے برابر ہے لہذا ثابت ہوا کہ کم از کم گیارہ میل(تقریباً بیس یا بائیس کلومیٹر)کے سفر پر قصر کرنا جائز ہے۔(فتاوی علمیہ ص436ج1)

یہ مؤقف مسلک حقہ اہلحدیث کے علماء کاہے جو کہ مشہورومعروف ہے اوریہی چیز علماءومشائخ کرام طلبہ کوپڑھاتے ہیںاور بتاتے ہیںلیکن بعض حضرات اپنی انفرادیت ثابت کرنےکے لیے کوئی نہ کوئی نیامسئلہ پیش کرتے رہتے ہیںجیسا کہ مولانا موصوف نے فرسخ کو اہل علم ومحدثین کی تحقیق کے خلاف اکیس میل نہ صرف بتایا بلکہ یاد دہانی کے باوجود اپنی ضد پراڑے رہے جبکہ اہل حدیث کے نزدیک ایک فرسخ تین میل کاہوتاہے اور احتیاطی طور پر نو میل پر قصر نماز کا جواز کافتوی دیتے ہیں۔اللہ رب العالمین احکم الحاکمین سے دعا ہے کہ وہ ہمیں حق کو قبول کرنے اور اس کے مطابق زندگی بسر کرنے کی توفیق عطافرمائے۔آمین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے