قرآن کر یم میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پا نچ صفات کا بیان جن کاوجود ہر معلم،مصلح وداعی میں پا یا جا نا ضرو ری ہے۔

سورۃ توبہ کے آخر میں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کی طرف ترغیب دیتے ہوئے حق تعالیٰ فرماتے ہیں۔

لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَءُوفٌ رَحِيمٌ (توبۃ:128)

پہلی صفت:

{ لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ}(البتہ تحقیق تمہارے پاس تم ہی میں سے رسول آیا ہے)

تم ایک ہی جنس ہو، رسول بھی انسان ہے تم بھی انسان ہو، تم بڑی آسانی سے اس رسول کی بات سمجھ سکتے ہو اور اس سے استفادہ کرسکتے ہو،اگر رسول کوئی اور مخلوق ہوتا، تو بڑی دشواری ہوتی،

وَلَوْ جَعَلْنَاهُ مَلَكًا لَجَعَلْنَاهُ رَجُلًا(الأنعام:9)

اسی لئے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی کوئی امتیازی شان نہیں بنائی تھی، نووارد انسان کو پوچھنا پڑتا کہ (أیّکم فیکم محمد؟) تم میں محمد کون سے ہیں؟ اس میں معلم کے لئے تعلیم ہے کہ وہ اپنے آپ کو شاگردوں سے اتنا ممتاز اور عالیشان نہ سمجھے اور بنائے کہ طالب علم اسے کوئی اور مخلوق سمجھنے لگیں اور اس کے اور طلبہ کے مابین خلیج پیدا ہو، بلکہ ان میں گھل مل کرر ہے، تاکہ طلبہ اس سے بسہولت استفادہ کرسکیں۔

دوسری صفت:

{عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ }(اسے تمہاری تکلیف گراں معلوم ہوتی ہے)استاذ بھی نبی کا وارث ہے ۔ چاہیے کہ شاگرد کی تکلیف اسے ناگوار ہو، بعض اساتذہ شاگردوں کو تکلیف میں رکھنے اور ہمیشہ ان کو ذہنی ٹینشن میں مبتلا رکھنے میںہی اپنا کمال سمجھتے ہیں۔ یہ کمال نہیں بلکہ نقص ہے۔

تیسری صفت:

{حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ }(تمہاری بھلائی پر وہ حریص ہے)استاد کو بھی چاہیے کہ و ہ شاگردوں کی منفعت اور افادے پر حریص ہو۔ اسے جو کچھ آتا ہو اخلاص کے ساتھ طلبہ کی طرف منتقل کردے۔ جس طرح ممکن ہو۔ انہیں فائدہ پہنچانے کی سعی کرے ان کی بھلائی کی کوئی چیز ان سے نہ چھپائے۔

چوتھی صفت:

{ بِالْمُؤْمِنِينَ رَءُوفٌ}(مومنوں پر نہایت شفقت کرنے والا)استاد بھی شاگردوں کے لئے رؤف بنے کیوں کہ یہ طلبہ مؤمن بھی ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ طالب علم بھی تو عام مؤمنوں کے بنسبت یہ حضرات اس رأفت و شفقت کے زیادہ مستحق ہیں،رأفت، رحمت سے زیادہ نرمی اور شفقت کو کہتے ہیں۔

پانچویں صفت:

{رَحِيمٌ}(مہربان ہے)

معلم میں بھی مہربانی کی یہ صفت ہونی چاہیے۔ تعلیم میں رحم کا بڑا دخل ہے، اس لئے اﷲ تعالیٰ نے مقا م تعلیم پر اپنی صفت رحما نیت ذکر کی،اور ارشاد فرمایا: (الرَّحْمَنُ عَلَّمَ الْقُرْآنَ) یہ نہیں فرمایا:

(القہّار علّم القرآن یا الجبّار علّم القرآن)۔

معلّم ومربی کو چا ہیے کہ تعلیم اور تربیت کرتے وقت اپنی طبعیت اور مزاج وعا دت کو با لائے طاق رکھ کر ان نبوی صفا ت سے اپنے آپ کو متصف کرے ۔

لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ

علمی تکبر اور اس کا علاج

سیدمناظر احسن گیلا نی رحمہ اللہ اپنی کتاب (برّصغیر پا ک وہند میں مسلما نوں کا نظام تعلیم وتربیت ) میں تحریر فرماتے ہیں: با ت یہ ہے کہ عام حیوا نا ت کے مقا بلہ میں (الْإِنْسَان) ایک تعلیمی حقیقت ہے ، یعنی جن چیزوں کے علم سے خالی اور جا ہل ہو کر پیدا ہو تا ہے ، تعلیم کے ذریعے سے ان کے جا ننے کی صلا حیت آدمی ہی میں ہے۔ میں نے عر ض کیا تھا کہ قرآن کی پہلی نا زل شدہ آیتو ں میں قرأت ( خوا ند ) تعلیم با لقلم ( نو شت ) کا ذکر کرنے کے بعد {عَلَّمَ الْإِنْسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْ} اللہ نے انسان کو وہ با تیں سکھا ئی جنہیں وہ نہیں جا نتا) کی آیت میں اس طرف اشا رہ کیا گیا ہے ،لیکن اس کے بعد ارشاد ہے:{كَلَّا إِنَّ الْإِنْسَانَ لَيَطْغَى }خبر دار ! بلا شبہ انسان سرکش ہو جا تا ہے، (الانسان)ایک تعلیمی حقیقت ہے پھر ایک تنبیہی کلمہ (کلّا ) کے بعد فرماناالانسان سرکش ہو جا تا ہے ،ظا ہر ہے کہ محض کوئی اتفا قی با ت نہیں ہے ، بلکہ جو مشا ہدہ ہے اسی کا اظہار ہے ،یعنی نہ جا نی ہوئی چیزوں کے جا ننے کی جوں جوں آدمی میں صلاحیت بڑھتی جا تی ہے، دیکھا جا تا ہے کہ اسی نسبت سے اس میں طغیا نی وسر کشی کی لہریں بھی اٹھنے لگتی ہیں ،وساوس وشکوک ، تنقید واعتراض، یہ قصے ظا ہر ہیں کہ جا ہلوں اور کُنددماغوں میں پیدا نہیں ہوتے ، بلکہ یہ سارے عوارض علم کے ہیں ۔ شا ید یہ مبا لغہ نہ ہو کہ دما غوں پر جتنا اچھا اثر جس تعلیم سے زیا دہ پڑتا ہے اسی قدر اس تعلیم سے سرکشی اور طغیا نی کی تو لید بھی زیا دہ ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اپنی تمام خوبیوں کے سا تھ علم کا یہی وہ خطرناک پہلو ہے ، اس پہلو کی جا نب سے معمولی غفلت ہمیشہ خطرنا ک نتائج کو پیدا کرتی رہی ہے ۔اس وقت دوسرے ممالک سے بحث نہیں ، لیکن ہندوستا ن کی حد تک کہہ سکتا ہوں ،کہ جس زمانے سے اس ملک میں اسلامی تعلیم کا نظا م قا ئم کیا گیا ، اسی زما نے سے آخر وقت تک ، جب تک زندگی کے دوسرے شعبوں کی طرح تعلیمی شعبہ بھی مسلما نوں کا بربا د نہ ہوا تھا ؛یہ قرآنی نکتہ ان کی نگا ہوں سے اوجھل نہ رہا ۔

اسی کا نتیجہ تھا کہ دما غی تر بیت واصلا ح کے سا تھ ساتھ لزومی طور پر قلبی اصلاح کی طرف توجہ تعلیم کی ایک ناگزیر ضرو رت سمجھی جا تی تھی۔{أَنْ رَآهُ اسْتَغْنَى }(اس لئے آدمی سرکش ہو جا تا ہے کہ وہ اپنے آپ کو بے نیا ز پاتاہے ) کے الفاظ سے اس سبب کو ظا ہر کیا گیا تھا ، جس کی وجہ سے اہل علم میں یہ بیما ری پیدا ہو جاتی ہے ، گو یا پڑھ ، لکھ لینے کے بعد آدمی یہ با ور کرنے لگتا ہے کہ اب میں خود سوچ سکتا ہوں ، دوسروں سے مشورہ لینے کی مجھے کوئی حاجت نہیں ، حق وبا طل میں امتیاز میرا دماغ خود کرسکتا ہے ،علم کا یہی استغنا انسا نیت کی موت ہے ۔

الغرض مرض طغیا ن اور سبب مرض استغنا کے بعد إِنَّ إِلَى رَبِّكَ الرُّجْعَى علاج اس طغیا نی کا یہ کہ ( تیرے رب کی طرف وا پسی ہو )رجوع الیٰ الرّب کو اس طغیا نی کا واحد علا ج بتا یا گیا ہے ، اسی قرآنی حکم کی تعمیل کی شکل تھی کہ جن کے پاس ان کا رب تھا ،ان کی طرف رجوع کیا جاتا تھا

{وَاتَّبِعْ سَبِيلَ مَنْ أَنَابَ إِلَيَّ}۔ ( قال أحد السلف : من ترفّع بعلمہٖ ، وضعہ اللہ بعملہٖ)

دینی خدمت انجام دینے کے لئے علماء دین کی لازمی صفات

حضرت بنوری نوّر اللہ مرقدہ فر ماتے ہیں:بہت غور وخوض کے بعد ہم جس نتیجہ پر پہنچے ہیں وہ یہ ہے کہ اس موجودہ پُرفتن دور میں جب تک حاملین علم میں حسب ذیل صفا ت نہ ہو ں وہ کبھی بھی حفاظت دین کی خدمت کے اہل نہیں بن سکتے ،وہ صفا ت مندرجہ ذیل ہیں :

1              اخلاص                                                      2             صلاح وتقویٰ

3             کا مل علمی استعداد                                      4            صبر واستقلال

اس اجما ل کی تفصیل یہ ہے کہ اگر اخلا ص نہ ہو گا تو اللہ تعالیٰ کے یہا ں سے قبولیت کی خلعت عطا نہ ہوگی جو برکت کا ذریعہ ہے۔

اگر تقویٰ نہ ہو تو عوام پر اس کا اثر نہ ہوگا

اور اگر علمی استعداد نہ ہو تو مرض کا علاج نہ ہو سکے گا

اگر صبر واستقلال نہ ہوگا تو کا میا بی نہیں ہو سکتی۔انتہیٰ کلامہ

{وَجَعَلْنَا مِنْهُمْ أَئِمَّۃً يَهْدُونَ بِأَمْرِنَا لَمَّا صَبَرُوا وَكَانُوا بِآيَاتِنَا يُوقِنُونَ } قال العلما ء : با الصبر والیقین تنا ل الاما مۃ فی الدین)

عا لم دین کی زندگی کے مختلف مرا حل اور تصنیف وتا لیف کی اہمیت

علا مہ ابن الجو زی رحمہ اللہ اپنی کتاب( صید الخا طر ) میں تصنیف کی اہمیت وافا دیت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

رأيت من الرأي القويم أن نفع التصانيف أكثر من نفع التعليم بالمشافهۃ. لأني أشافه في عمري عدداً من المتعلمين، وأشافه بتصنيفي خلقاً لا تحصى ما خلقوا بعد.

یعنی تصنیف کا نفع با لمشافہ تعلیم دینے سے زیادہ ہے کیونکہ انسان با لمشافہ ایک مخصوص تعداد کو پڑھا سکتا ہے جب کہ تصنیف کے ذریعہ لا تعداد اور آئندہ آنے والی نسلوں کو پڑھا تا ہی رہے گا ۔

نیز لکھتے ہیں : (تصنيف العالم ولده المخلد) عالم کی تصنیف اس کے لئے ہمیشہ رہنے وا لا بیٹا (یاد گار ) ہے ۔

تصنیف کسے کہتے ہیں ؟

تصنیف کا معنیٰ ہے ( جعل الشئی فی صنفہٖ ) نوع بنوع بنانا ہر چیز کو اس کے نوع میں رکھنا ۔

مفید تصنیف کو نسی ہو تی ہے؟

علا مہ ابن الجوزی لکھتے ہیں :

وليس المقصود جمع شيء كيف كان، وإنما هي أسرار يطلع الله عز وجل عليها من شاء من عباده ويوفقه لكشفها، فيجمع ما فرق، أو يرتب ما شتت، أو يشرح ما أهمل، هذا هو التصنيف المفيد

تصنیف کا یہ معنیٰ نہیں کہ کیف ما اتفق کسی موضوع پر مواد کو جمع کیا جائے ، بلکہ یہ کچھ اسرار ہوتے ہیں، جسے اللہ تبارک وتعا لیٰ اپنے بندوں میں سے جس کو چا ہتا ہے ، اس پر مطّلع کردیتا ہے ، اور اسے ان رازوں سے پردہ اٹھانے کی توفیق دیتا ہے ۔ چنانچہ وہ یا تو متفرق مواد کو جمع کردیتا ہے یا بکھرے ہوئے مبا حث کو مرتب کردیتا ہے۔ یا غیر مشروح کی شرح کر لیتا ہے ۔ یہی مفید تصنیف کہلاتا ہے ۔

تصنیف کس عمر میں کی جائے ؟

ویسے تو تصنیف وتا لیف کے لئے خا ص عمر کی کوئی شرط نہیں بلکہ مصنّف میں مطلوبہ استعداد ، اخلا ص ، اور اس موضوع پر تصنیف کی ضرورت کا ہونا شرط ہے ، لیکن عام طور پر اکثر وأغلب ایک خاص عمر اس کے لئے مفیداور مناسب ہوتی ہے ۔

علا مہ ابن الجوزی سے سنئے !فر ما تے ہیں :

وينبغي اغتنام التصنيف في وسط العمر، لأن أوائل العمر زمن الطلب، وآخره كلال الحواس.وربما خان الفهم والعقل من قدر عمره، وإنما يكون التقدير على العادات الغالبۃ لا أنه لا يعلم الغيب فيكون زمان الطلب والحفظ والتشاغل إلى الأربعين، ثم يبتدىء بعد الأربعين بالتصانيف والتعليم هذا إذا كان قد بلغ ما يريد من الجمع والحفظ وأعين على تحصيل المطالب. فأما إذا قلت الآلات عنده من الكتب، أو كان في أول عمره ضعيف الطلب فلم ينل ما يريده في هذا الأوان، أخر التصانيف إلى تمام خمسين سنۃ. ثم ابتدأ بعد الخمسين في التصنيف والتعليم إلى رأس الستين، ثم يزيد فيما بعد الستين في التعليم ويسمع الحديث والعلم ويعلل التصانيف إلى أن يقع مهم إلى رأس السبعين، فإذا جاوز السبعين جعل الغالب عليه ذكر الآخرۃ والتهيؤ للرحيل. فيوفر نفسه على نفسه إلا من تعليم يحتسبه، أو تصنيف يفتقر إليه، فذلك أشرف العدد للآخرۃ. ولتكن همته في تنظيف نفسه، وتهذيب خلاله، والمبالغۃ في استدراك زلاته، فإن اختطف في خلال ما ذكرنا فنيۃ المؤمن خير من عمله.وإن بلغ إلى هذه المنازل فقد بينا ما يصلح لكل منزل.وقد قال سفيان الثوري: من بلغ سن رسول الله صلى الله عليه وسلم فليتخذ لنفسه كفناً

( یعنی تصنیف وسط عمر میں کرنی چا ہیے ۔اس لئے کے اوائل عمر طلب علم کا زمانہ ہے اور آخری عمر میں حواس کمزور ہو جا تے ہیں ۔اور عقل وفہم جواب دے دیتی ہے بہتر یہ ہے کہ عمر کے چا لیسویں سال تک تحصیل علم میں لگا رہے ، اس کے بعد پچاس سال کی عمر تک درس وتدریس اور تصنیف میں مشغول ہو جا ئے یہ اس صورت میں ہے کہ اس کے اندر کوئی علمی کمزوری نہ ہو،ورنہ پہلے وہ علمی کمزوری دور کرے ،اور تصنیف کو سا ٹھ سا ل کی عمر تک مؤخر کرے ، اور عمر کے ستر سال پو رے ہو نے کے بعد صرف آخرت کی طرف متو جہ ہو جائے )۔

کسی مو ضو ع پر تصنیف کب کی جا ئے

کسی مو ضوع پر کتا ب لکھنے کے لئے یہ ضروری ہے کہ پہلے اس مو ضو ع سے متعلق جملہ مواد کا مطا لعہ کیا جائے ۔ تا کہ اس کی تصنیف مؤثر اور جاندار ہو نے کے ساتھ ٹھو س مواد پر مشتمل ہو ۔ورنہ ،نہ تو اسے اپنی تصنیف کی خصوصیت معلوم ہو گی اور نہ ہی اس کو اس مو ضوع پر تصنیف شدہ سا بقہ کتب کی کوئی امتیا زی شان معلوم ہو گی بلکہ ہو سکتا ہے کہ کسی نے اس مو ضوع پر اس سے بدرجہ بہتر لکھا ہوجس کا اسے علم نہیں ۔

علا مہ زر کشی رحمہ اللہ اپنی کتا ب (البرھان ) میں لکھتے ہیں

واعلم أن بعض الناس يفتخر ويقول كتبت هذا وما طالعت شيئا من الكتب ويظن أنه فخر ولا يعلم أن ذلك غايۃ النقص فإنه لا يعلم مزيۃ ما قاله على ما قيل ولا مزيۃ ما قيل على ما قاله فبماذا يفتخر
وصلّی اللّٰہ علٰی محمدوعلٰی اٰلہ وصحبہ أجمعین

مرا جع ومصادر کتا ب

٭ تفسیر کبیر اما م رازی

٭ تفسیر ابن کثیر

٭ تفسیر قرطبی

٭ مقد مہ ابن خلدون

٭ ثلاث وثلا ثون  خطوۃ لتدریس ناجح

٭أدب الطلب ومنتھی الأرب۔ للشوکانی

٭ تذکرۃ السامع والمتکلم فی أدب العالم والمتعلّم

٭برّ صغیر پا ک وہند میں مسلما نوں کا نظام تعلیم وتر بیت

سیدمنا ظر احسن گیلانی صا حب

٭دینی مدارس کی ضرورت اور جدید تقا ضوں کے مطا بق نصاب ونظام تعلیم-منتخب از مقا لا ت بنوری رحمہ اللہ

تا لیف :محمدانور بدخشا نی صا حب

٭ صید الخاطر ۔ للامام ابن الجوزی

٭ الخصائص ابن جنی

٭ آداب العلما ء والمتعلّمین

٭ لا تحزن – دکتور عا ئض القرنی

٭المزھر فی علوم اللغۃ وأنواعہا – للسیوطی

٭الرسول المعلّم صلی اللہ علیہ وسلم – للشیخ أبی الفتّاح أبوغدّۃ

٭ راز حیات

٭ پرانے چرا غ-سیدأبو الحسن علی الندوی

٭ درر الأقوال من أفواہ الرجال

٭ عمدۃ القا ری – للعلا مۃ بدرالدین العیني

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے