صحن جامعہ میں منعقد ہونے والی فقید المثال

تقریب تکمیل صحیح بخاری کی روداد

مدارس اسلامیہ اسلام کے قلعہ ہیں ہر دور میں معاشرے کی اصلاح و بہبود کے لیے ان کی نمایاں حیثیت رہی ہے یقیناً ان مدارس کی بدولت ہی اسلامی اقدار تہذیب و ثقافت کے خدوخال نمایاں نظر آرہے ہیں۔ مدارس اسلامیہ سے فراغت پانے والے علماءکرام عوام الناس کی رشد و ہدایت کے لیے لیل و نہار مصروف کار ہیں اس کرہ ارض پر کئی ممتاز جامعات موجود ہیں جن میں سے جامعہ ابی بکر الاسلامیہ کسی تعارف کی محتاج نہیں ہے جس کی شہرت دنیا کے اطراف و نواحی پھیلی ہوئی ہے چار سو عالم اسکی دھوم مچی ہوئی ہے۔

جامعہ ابی بکر الاسلامیہ ہر سال فارغ التحصیل علماءکرام کے اعزاز میں تقریباً 29 سال سے پر وقار تقریب کا اہتمام کرتی آرہی ہے۔ اسی سلسلہ ذھبیہ کی ایک کڑی مورخہ 15 جون 2013 بروز ہفتہ کو صحن جامعہ میں منعقد ہونے والی عدیم النظر اور فقید المثال تقریب تکمیل صحیح بخاری بھی تھی۔

اس تقریب کی صدارت مدیر الجامعہ ڈاکٹر محمد راشد راندھاوا حفظہ اللہ نے فرمائی پروگرام کو دونشستوں میں تقسیم کیا گیا تھا۔

پہلی نشست:

اس پروقار تقریب کی پہلی نشست میں اسٹیج سیکریٹری کے فرائض فضیلۃ الشیخ ابو الزبیر محمد حسین رشید حفظہ اللہ استاد جامعہ ابی بکر نے بخوبی سرانجام دئیے۔ پروگرام کا باقاعدہ آغاز بعد از نماز ظہر قاری عبد اللہ شریف کی تلاوت سے ہوا۔ تلاوت کے بعد جامعہ ابی بکر کے ہونہار طالبعلم حافظ انیس محسن نے ’’طالب علم کے اوصاف حمیدہ‘‘ کے موضوع پر انگلش میں تقریر کی جس میں انہوں نے کہا کہ محدثین تلاش علممیں کئی مہینے سفر کیا کرتے تھے۔ بسا اوقات کھانے کو بھی کچھ نہ ملتا مگر انہوں نے اخلاص وجستجو کو ترک نہیں کیاہمیں بھی تحصیل علم میں مصائب کے وقت صبر و استقامت سے ڈٹ جانا چاہئے۔ اس کے بعد تقریر کے لیے جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ کے طالب علم عبدالمجید آئےجنہوں نے علم شرعی کی اہمیت و فضیلت پر ایک جاندار خطاب فرمایا سامعین یکسر جم کر بیٹھ گئے انہوں نے فرمایا کہ دیناوی مال ومتاع علوم و فنون انسان کے مرنے کے بعد اس کے لیے کارگر نہیں ہوتے موت کےبعد ان سب سے تعلق ٹوٹ جاتا ہے لیکن کتاب و سنت کا سیکھا اور سکھایا ہوا علم اس کو مرنے کے بعد بھی کام آتا ہے جیسا کہ حدیث شریف میں آیا ہے:کہ تین چیزیںایسی ہیں کہ انسان کے مرنے کے بعد بھی ان کا سلسلہ منقطع نہیں ہوتا ہے وہ ہیں نیک صالح اولاد نفع بخش علم اور صدقہ جاریہ۔ مزید فرمایا کہ اس علم کی بدولت انسان دنیا و آخرت دونوں ہی میں کامیاب و کامران ہوتا ہے، ان کے بعد جامعہ کے ابھرتے ہوئے خطیب محمد عرفان نے ’’قیام امن مگر کیسے؟‘‘ کے عنوان پر پُر جوش خطاب کیا جس میں انہوں نے کہا کہ دنیا میں ہر ایک امن کا متلاشی ہے لیکن جو طریقہ کا رہے اس سے وہ کوسوں دور ہے اسی وجہ سے کرپشن لوٹ کھسوٹ بیروزگاری ڈاکہ زنی، رہزنی، قتل و غارت اور بے راہ روی کا بازار گرم ہے اگر امن چاہتے ہو تو محمد عربیﷺ کے طریقے کو اپنانا ہو گا کہ حکومت ملتے ہی توحید کو نافذ کردیا۔بیت اللہ سےان بتوں کو نکال پھینکا جن کی مشرکین مکہ سالہا سال سے عبادت کرتے آرہے تھے اگر امن چاہتے ہوتو مشرک کے اڈوں کو ختم کرنا ہوگا جہاں اللہ کی بغاوت کے جھنڈے بلند ہورہے ہیں ان کو جہاد فی سبیل اللہ کے ساتھ زمین بوس کرناہوگا اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ جو لوگ ایمان لائے اوراپنے ایمان کو شرک کے ظلم سے مخلوط نہیں کیا ان کے لیے امن ہے اور وہی ہدایت پانے والے ہیں۔ طلبہ کے خطاب کے بعد خطیب بے مثال فضیلۃ الشیخ حافظ عبد الحمید ازہر حفظہ اللہ کو دعوت خطاب دیا گیا جن کا موضوع سخن ’’استقامت فی الدین‘‘تھا، حافظ صاحب نے موضوع پر لب کشائی کرتے ہوئے فرمایا: استقامت ایسا عظیم موضوع ہے جس کا حق تو ادا کیا ہی نہیں جا سکتا لیکن کہا جاتا ہے۔ ’’مالا یدرک کلہ لا یترک جلہ‘‘ استقامت یہ درحقیقت قرآن و سنت کی اصطلاح میں اگر غور کریں تو ایمان اور اسلام ہی کا دوسرا نام استقامت ہے وہ ایمان جس کی دعوت قرآن دیتا ہے جسے قرآن ایمان کہتا ہے جس کا قیامت کے دن میزان میں وزن ہونا ہے وہ ایمان استقامت کے بغیر ہو ہی نہیں سکتا۔

m پہلی استقامت یہ ہے کہ اللہ پر ایمان لایا جائے اور اس کے حکم سے رسولﷺ پر ایمان لایا جائے اور اس چیز پر ایمان لایا جائے جس کی وہ تعلیم دیں۔’’جو کچھ آپﷺ پر نازل ہوا اس پر بھی اور جو کچھ آپﷺ سے قبل نازل ہوا ایمان لاتے ہیں‘‘۔ (البقرۃ)

جس طرح قرآن آپﷺ پر نازل ہوا اسی طرح حدیث بھی آپﷺ پر نازل ہوئی۔ رسالت یہ ہے کہ قرآن اور جو کچھ آپ نے رسول ہونے کی حیثیت سے بیان فرمایا اس پر ایمان لایا جائے۔

m ایک استقامت یہ بھی ہے کہ آپﷺ پر ایمان لانے کے بعد جو تکلیفیں آئیں ان پر صبر کرنا جیسا کہ عمار، یاسر، سمیہ اور بلال نے برداشت کیا خباب کو دھکتے کوئلوں پر لٹایا جاتا تھا ہمارے قریبی اسلاف میں صوفی عبداللہ رحمہ اللہ گزرے ہیں جن کو انگریزوں نے قابل ذکر اذیتیں دی ان سے پوچھا گیا کہ ان ناقابل بیان اذیتوں پر آپ کیسے صبر کرتے تھے تو آپ جو اب میں فرماتے تھے کہ میں اس وقت ایاک نعبد و ایاک نستعین پڑھا کرتا تھا جب اللہ سے محبت کا تعلق جوڑا جائے تو یہ محبت ان سب اذیتوں کو ھیج کر دیتی ہے۔

ایک استقامت یہ بھی تھی کہ جب مدینہ میں اسلامی حکومت کا قیام ہوا تو پورا کفر اس کو مٹانے کے لیے نکلا جس کا قرآن نے نقشہ کھینچا کہ کلیجے منہ کوآگئے یہ خیال آئے کہ یہ قیصر و کسریٰ کے فتح کی باتیں تویوں ہی ہیں۔

لیکن ابو بکر، عمر، مقداد اور سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہم وغیرہ کا ایمان تو بڑا رہاہے استقامت پیدا ہورہی ہے۔تو کہنے لگےیہ تو وہی بات ہے جس کا اللہ اور اس کے رسول نے ہم سے وعدہ کیا تھا۔ اس واقعہ نے ان کے ایمان اور فرمانبرداری کو مزید بڑھا دیا۔(الاحزاب /22)

ایک استقامت سیدنا ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ نے بھی اختیار کی کہ صبح ہو یا شام، میں کا شانہ نبوت سے دور نہ رہوں، کھانے کو مل گیا تو بھی ٹھیک نہ ملا تو ایسے ہی صحیح، بھو ک کی وجہ سے گر پڑتے تھے لوگ سمجھتے تھے کہ ان کو دورہ پڑ گیا ہے لیکن دورہ نہیں بھوک کی شدت ہوتی تھی اس وجہ سے زیادہ ان سے روایات مروی ہیں۔

ایک استقامت یہ بھی ہے جو کہ امام اہل السنہ احمد بن حنبل نے اختیار کی تھی کہ جب بیرونی علوم و فلسفہ اسلامی حدود پر حملہ آور ہوئے، صفات اللہ کی غلط تاویلیں ہونے لگیں قرآن کو مخلوق کہا جانے لگا اور ان لوگوں کو حکومت کی پشت پناہی حاصل ہوگئی ان کی مخالفت کرنے والے کو جیل کی کال کوٹھڑی میں ڈالا جاتا اور پشت پر درے لگائے جاتے، ایسے نازک حالات میں امام احمد نےکلمہ حق بلند کیا آپ کو کوڑے مارے گئے لیکن آپ ڈٹے رہے یہ بھی استقامت ہے۔

ایک استقامت یہ بھی ہے کہ زمانے کے بدلتے رخ کی طرح خود بدل نہیں جانا بلکہ درست رہنا اور لوگوں کے بگاڑ کی اصلاح کرتے رہنا۔

حافظ صاحب کے ایمان افروز خطاب کے بعد معروف عالم دین الشیخ حافظ محمد شریف حفظہ اللہ (رئیس جامعہ مرکز التربیہ فیصل آباد) کو دعوت خطاب دیا گیا، حافظ صاحب نے اپنے مخصوص اندازمیں متخرجین اور زیر تعلیم طلبہ کو قیمتی پندونصائح کرتے ہوئے فرمایا: پڑھنے والے طلبہ شوق اور خوب محنت سے پڑھیں متخرج ہونے والے طلبہ یہ نہ سمجھیں کہ اب وہ عالم ہو چکے ہیں بلکہ دونوں کے لیے ضروری ہے کہ اپنے اندر بصیرت و تفقہ فی الدین حاصل کریں جس کا اللہ تعالیٰ نے’’لیتفقھو فی الدین‘‘ میں تذکرہ فرمایا اور نبیﷺ نے ’’من یرد اللہ بہ خیرا یفقھہ فی الدین ‘‘سے ذکر کیا۔

مطالعہ کو وسعت دیں ہمارے استاد حافظ محمد گوندلوی جن کتابوں کا مطالعہ کرنے کی تلقین کرتے تھے وہ فتح الباری، نیل الاوطار، محلی ابن حزم اور شیخین امام ابن تیمیہ اور امام ابن قیم کی کتب ہیں۔

دوسری بات یہ ہے کہ اس وقت دنیا میں ساڑے سات ارب آبادی ہے جن میں سے ایک ارب ستر کروڑ مسلمان باقی لاالہ الااللہ کی دعوت سے محروم ہیں آپ کے پاس کتاب و سنت کا علم ہے پوری دنیا میں اس دعوت کوعام کریں اور اللہ کی حجت کو قائم کردیں یہ آپ حضرات کی ذمہ داری ہے۔ کیونکہ نبیﷺ کے علم و عمل، دعوت اور اس ھم و غم کے وارث ہیں جس کا تذکرہ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا ہے:اگر یہ لوگ ایمان نہیں لاتے تو اس غم میں شاید آپ اپنے آپ کو ہلاک ہی کر ڈالیں گے۔(الشعراء /3)

ہمارے مربی مولانا یحییٰ عزیر میر محمدی فرماتے تھے کہ اللہ کے دین کی دعوت کا کام ہر وقت کرو ہر جگہ کرو، ہر ایک آدمی کے ساتھ محنت کرو اور ہر چیز لوگوں تک پہنچاؤ۔

اس کے علاوہ جس کو دعوت دیں اس کے لیے دعائیں بھی کریںکیونکہ یہ آپﷺکامعمولتھا۔ اسی طرح لیلۃ البعیر کے نام سے حدیث معروف ہے۔

آپ لوگوں کے روحانی طبیب ہیں مگر آپ سے کوئی مسئلہ پوچھنے کےلیے آئے تو اسکی بات بڑے اطمینان اور غور سے سنیں ہم جس کے وارث ہیں وہ تو ایک سوال پوچھنے والے صفوان بن عسال کو بھی کہا تھا کہ’’ مرحبا بطالب العلم ‘‘ایسا کرنے سے ظلمت و جہالت ختم ہوجائے گی۔

تعلیم کے ساتھ عملی تربیت بہت ضروری ہے۔ نبیﷺ نے عملی طور پر لوگوں کی تربیت فرمائی۔ انتظامیہ اور منتظمین سے گذارش ہے کہ طلبہ کو اپنی ذات، اپنےخاندان پر ترجیح دیں یہ بہت بڑا المیہ ہے کہ مدارس میں طلبہ کی تربیت کیوں نہیں ہوتی اس کے کئی اسباب ہیں جن میں سے بڑا سبب یہ ہے کہ ہم طلبہ کو وہ مقام نہیں دیتے جو ان کو دینا چاہیے محمد رسول اللہ ﷺ نے تو دودھ کا پیالہ ابو ہریرۃ کو پکڑایا اور سب سے پہلے صفہ والوں کو پلایا اس کے بعد آپﷺ نے پیا، آپ کی بیٹی فاطمہ رضی اللہ عنہا غلام طلب کرنے آئی توآپﷺ نے فرمایا میں اصحاب صفہ کی محتاجی دیکھ کر ان کی ضرورت کو پورا نہ کرو اور غلام تجھے دے دوں، اپنی تعلیم کے ساتھ تربیت کو مقصد بنائیں۔جہاں زیادہ نمبر والے طلبہ کو انعام دیا جاتا ہے وہاں تربیت پر بھی انعام ہونا چاہیے۔

حافظ صاحب کا خطاب قبل از مغرب تک جاری رہا آخر میں انہوں نے انتظامیہ جامعہ کا شکریہ ادا کیا اس کے ساتھ ہی پہلی نشست اپنے اختتام کو پہنچی۔

دوسری نشست:

اس فقید المثال پروگرام کی دوسری نشست کا آغاز نماز مغرب کے فوراً بعد ہوا۔ نقیب محفل فضیلۃ الشیخ ابو اسامہ محمد طاہر آصف حفظہ اللہ تھے۔ تلاوت کلام پاک کی سعادت قاری تاج الدین کے حصہ میں آئی، جبکہ عربی زبان میں نشید ابوبکر عاصم نے پیش کی۔ اس کے بعد صحیح بخاری کی آخری حدیث پر عالمانہ، فاضلانہ درس محدث عصر، متکلم اسلام، مؤلف کتب کثیرہ فضیلۃ الشیخ پروفیسر ڈاکٹر فضل الہٰی صاحب نے ارشاد فرمایا۔ جس کا خلا صہ درج ذیل سطور میں ملاحظہ فرمائیں۔

بعد حمد و ثناء حدیث کی سرکاری حیثیت باقاعدہ طور پر سیدنا عمر بن عبدالعزیز کے دور میں ہوئی، پہلے صحیح اور سقیم کی تمیز کے بغیر صرف احادیث کو جمع کیا جاتا، امام اسحاق بن راہویہ کے کہنے پر امام بخاری نے صحیح احادیث کو جمع کیا دنیا کے مختلف علاقوں کے سفر کیے ہر حدیث کو لکھنے سے پہلے اللہ کے حضور دستک دیتے تھے آخر کار سولہ سال کی محنت کے بعد یہ کتاب تیار کی۔ جس کانام انہوں نے ’’جامع الصحیح المسند المختصر من امور رسول اللہ و سنۃ و ایامہ‘‘ رکھا یہ کتاب جامع ہے جامع کا مطلب یہ ہے کہ اس کتاب میں زندگی کے جملہ معاملات کے بارے میں ہدایات دی گئی ہیں۔ اپنی کتاب کو 97 کتابوںمیں تقسیم کیا ہر کتاب کو ابواب میں تقسیم کیا کم و پیش چار ہزار ابواب ذکر کیے ہیں ہر باب میں آیات قرآنیہ، احادیث، اقوال اور معلق روایات ذکر کی ہیں۔ اگر کسی شخص نے کسی موضوع پر گفتگو کرنی ہے یا کچھ لکھنا ہے اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ صحیح بخاری کی فہرست کو دیکھے۔

امام بخاری نے اپنی کتاب کا آغاز کتاب الوحی سےکیا اور پھر کتاب التوحید پر اختتام کیا اس لیے کہ انسان کو پوری زندگی وحی کی روشنی میں توحید کے تقاضے پورے کرنے میں بسر کرنی چاہیے اور رسول اللہﷺ کا ارشاد گرامی ہے:’’ من کان آخر کلامہ لاالہ الا اللہ دخل الجنۃ‘‘ جس خوش نصیب نے مرتے وقت کلمہ توحید سے اپنا تعلق قائم رکھا وہ جنت میں ضرور جائے گا۔

صحیح بخاری کی دو سو سے زیادہ شروحات لکھی جا چکی ہیں

میزان: سورۃ الانبیاء کی اس آیت ’’ونضع الموازین القسط‘‘ میں موازین جمع کا صیغہ ذکر کیا گیا۔ ترازو تو ایک ہوگا مگر جمع کا صیغہ مختلف لوگوں کے اعتبار سے ہے اعمال جدا جدا ہونے کی وجہ سے آیا ہے۔

کتاب التوحید کےآخر میں اس باب کو ذکر کرنے کا مقصد یہ ہے کہ میزان کو یاد کر کے اپنے اعمال کو دیکھ لو جب اللہ کے حضور اعمال تولے جائیں گے، توکیا بنےگا میزان کو یاد کرکے اعمال کا محاسبہ کرو۔

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس ترازو کی ھیبت کو ظاہر کرنے کے لیے جمع کا صیغہ لایا گیا ہے اس کی دلیل یہ آیت ’’کذب قوم نوح المرسلین ‘‘ہے کہ قوم نوح نے صرف نوح کو جھٹلایا تھا لیکن اس میں مرسلین جمع کا صیغہ لایا گیا گویا کہ انہوں نے سارے رسولوں کی مخالفت کر دی۔

القسط:عدل و انصاف کے اظہار کے لیے قیامت کے دن ترازو لائیں گے، قسطاس رومی زبان میں عدل و انصاف کو کہتے ہیں اگر یہ قسط یقسط قسط سے آئے تو یہ ظلم کے معنی میں ہوگا اور اقسط یقسط اقساط سے آتا تو یہ عدل وانصاف کے معنی میں ہوگا۔ امام بخاری پہلے قرآن کی آیت لیکر آئے اس کے بعد احادیث لائے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں امام بخاری کا یہ طریقہ کار ہے جس کا معنی یہ ہے کہ جو حدیث کا منکر ہے وہ قرآن کا منکر ہے۔

سبحان کا معنی: اللہ تعالیٰ کو ہر عیب، ہر نقص کوتاہی اور ہر کمزوری سے پاک و منزہ ماننا۔

بحمدہ کامعنی: اللہ تعالیٰ کی تسبیح حمد کے ساتھ بیان کرنا اس لیے کہ اس نے مجھے حمد بیان کرنے کی توفیق عطا فرمائی۔ جس طرح اللہ تعالیٰ نےیہ نعمت عطا فرمائی ہر قسم کی حمد و تعریف سب اللہ کےلیے ہے اس میں ساری صفات جلال اور ساری صفات جمال موجود ہیں۔

العظیم کا معنی ہے کہ بہت بڑا، یعنی تسبیح وتحمید بیان کرنے والا اپنی کمزوری و عجز کا اعلان کر رہاہے کہ اس عظیم کی تسبیح و تحمید کا حق اداکرہی نہیں سکتا۔

فضیلت تسبیح: تسبیح و تحمید کی کتاب و سنت میں بہت اہمیت بیان کی گئی ہے قرآن کی سات سورتیں جن کی ابتداء تسبیح سے کی گئی ہے اور الحمد کے ساتھ پانچ سورتوں کی ابتداء ہوئی ہے۔ سولہ یا سترہ جگہون میں اللہ تعالیٰ نے آپﷺ کو تسبیح کا حکم دیا ہے اس کے علاوہ احادیث میں تسبیح کی بڑی فضیلت بیان ہوئی ہے۔

1۔سب سے زیادہ پیارے کلمے ’’سبحان اللہ وبحمدہ سبحان اللہ العظیم‘‘ہیں۔(مسلم)

2۔دن میں ایک بار سبحان اللہ وبحمدہ پڑھنے سے سمندر کی جھاگ کے برابر گناہ معاف ہوتے ہیں۔(متفق علیہ)

3۔سونے کا پہاڑ خرچ کرنے سے بہتر ہے۔

4۔ اس طرح جو روزگار کے بارے میں پریشان ہے وہ اس کا ورد کرے۔

آخر میں شیخ محترم نے انتظامیہ جامعہ کا شکریہ ادا کیا۔

امسال جامعہ ابی بکر سے فارغ ہونے والے طلبا کے احساسات و جذبات کے اظہار کے لیے عمر بن طریف کیمرونی کو دعوت سخن دی گئی۔ انہوں نے جامعہ، انتظامیہ جامعہ اور محسنین جامعہ کا خصوصی شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے ہماری علمی پیاس بجھانے کےلیے تمام تر سہولیات فراہم کیں اللہ تعالیٰ ہمیں جنت میں بھی ایسے جمع فرمائے۔ آمین

کلمۃ الطالب کے بعد جامعہ کے تعلیمی سیشن کے اختتام پر منعقد ہونے والے امتحانات کا رزلٹ فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر افتخار احمد شاہد حفظہ اللہ مدیر الامتحانات نے پیش کیا۔

متخرجین اور پوزیشن ہولڈرزکو انعامات دئیے گئے۔

جامعہ کے وکیل فضیلۃ الشیخ ضیاءالرحمن حفظہ اللہ نے کلمات استقبالیہ میں معزز مہمانان گرامی قدر، قابل قدر علماء کا تہہ دل سے شکریہ ادا کیا اور جامعہ کی ذیلی شاخوں مثلاً جامعہ عائشہ صدیقہ للبنات، حرمین کمپلیس، جامعہ انس بن مالک ہالا، مدرسہ محمد بن قاسم سکھرکا ذکر کیا۔

آخر میں صدارتی کلمات کے لیےحضرت الامیر جناب ڈاکٹر محمد راشد رندھاوا حفظہ اللہ مدیر جامعہ کو دعوت دی گئی۔ انہوں نے اس شاندار پروگرام کی ترتیب پر اساتذہ، طلباء جامعہ کا شکریہ ادا کیا اور باہر سے آنے والے تمام مہمانوں کا تہہ دل سے شکریہ ادا کیا۔ مختصر سی نصیحت کرتے ہوئے انہوں نے سب سے التماس کیا کہ سبحان اللہ وبحمدہ کےذکر کو اوڑھنا بچھونا بنا لیں۔

ڈاکٹر صاحب کے صدارتی کلمات کے ساتھ ہی یہ روح پرور عظیم الشان پروقار تقریب اختتام پذیر ہوئی۔ نماز عشاء کے بعد حاضرین مجلس کے لیے پر تکلف عشائیہ کا اہتمام بھی تھا۔ یوں حاضرین مجلس لذت کام و دھن سے سرشار ہو کراس تقریب کی خوش گواریادیں سمیٹتے ہوئے اپنے اپنے گھروں کو روانہ ہوئے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے