رَبِّ اجْعَلْ هَذَا بَلَدًا آمِنًا وَّارْزُقْ أَهْلَهُ مِنَ الثَّمَرَاتِ

اور رمضان المبارک کے مسعود لمحات کی آمد 

کسی بھی معاشرے کی بقاء کا انحصار امن اور فراوانی رزق پر ہوتا ہے اور بدقسمتی سے وطن عزیز انہی دونوں انعامات سے محروم ہو چکا ہے، قرآن کریم میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے اہل عرب پر اپنا احسان جتلاتے ہوئے انہی دو باتوں کا خاص طور پر ذکر کیا

:’’الَّذِيْٓ اَطْعَمَهُمْ مِّنْ جُوْعٍ   ڏ وَّاٰمَنَهُمْ مِّنْ خَوْفٍ‘

جس اللہ نے بھوک کی حالت میں انھیں کھانے کو دیا اور بدامنی سے انہیں محفوظ رکھا‘‘(سورۃ قریش:۴) یعنی بھوک کی حالت میں رزق کی فراہمی اور خوف کی حالت میں امن وامان کی فراہمی ، یہ دونوں اللہ تعالیٰ کی نعمتیں ہیں ۔اسی طرح دعائے ابراہیم کا محور بھی یہی دنوں أمور ہیں : فرمایا: ’

’ رَبِّ اجْعَلْ ھٰذَا بَلَدًا اٰمِنًا وَّارْزُقْ اَھْلَهٗ مِنَ الثَّمَرٰتِ

‘‘اے میرے رب! اس کو پر امن شہر بنادیجئے اور یہاں کے رہنے والوں کو قسم قسم کے پھلوں سے رزق عطا فرمائیے (البقرہ:۱۲۶)

اور ایک مقام پر امن کے لیے دعا کے ساتھ ساتھ شرک سے بچنے کی دعا بھی کی

: رَبِّ اجْعَلْ هٰذَا الْبَلَدَ اٰمِنًا وَّاجْنُبْنِيْ وَبَنِيَّ اَنْ نَّعْبُدَ الْاَصْنَامَ ‘‘

یعنی اے میرے پروردگار ! اس شہر (مکہ) کو پرامن بنادیجئے اور مجھے اور میرے بیٹوں کو اس بات سے بچائیے کہ ہم بتوں کی پرستش کریں۔(الابراھیم:۳۵)

سورۂ نحل میں اللہ تبارک وتعالیٰ ایک قوم کی حالت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں

: ’’ وَضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلًا قَرْيَةً كَانَتْ اٰمِنَةً مُّطْمَىِٕنَّةً يَّاْتِيْهَا رِزْقُهَا رَغَدًا مِّنْ كُلِّ مَكَانٍ فَكَفَرَتْ بِاَنْعُمِ اللّٰهِ فَاَذَاقَهَا اللّٰهُ لِبَاسَ الْجُوْعِ وَالْخَوْفِ بِمَا كَانُوْا يَصْنَعُوْنَ ‘

‘اللہ ایک بستی کی مثال دیتا ہے جو بڑی پرامن اور مطمئن تھی، اس کا رزق اس کو ہر جگہ سے بڑی فروانی کے ساتھ پہنچ رہا تھا ، پھر اس نے اللہ کی نعمتوں کی ناشکری شروع کر دی تو اللہ تعالیٰ نے ان کے کرتوت کی وجہ سے ان کویہ مزہ چکھایا کہ بھوک اور خوف ان کا پہننا اور اوڑھنا بن گیا(نحل: ۱۱۲)

ان آیات پر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے امن وسلامتی کو بہت بڑی نعمت قرار دیا ہے اور اس کی ناشکری کرنے والوں پر اپنی ناراضی کا اظہار کیا ہے۔ یعنی یہ بدامنی اور بے اطمینانی اللہ کی ناراضی پر دلالت کرتی ہے۔ اور جو معاشرہ مامون نہ ہو، جہاں کے ساکنین کو ہر وقت اپنی جان ومال کی فکر لگی رہے اور جہاں انہیں اپنی عزت وآبرو کے بارے میں ان دیکھے اندیشوں سے دوچار ہونا پڑے، وہاں بقا ایک بہت بڑا مسئلہ بن جاتی ہے۔بدقسمتی سے وطن عزیز اس وقت شدید بدامنی کا شکار ہے اور اس بد امنی کی وجہ سے ہم ہر اعتبارسے پستی کا شکار ہوتے جا رہے ہیں۔

دین اسلام کا فطری مزاج امن وسلامتی پر تعمیر ہے۔ اس کے ماننے والے مؤمن اور مسلم کہلاتے ہیں دیکھا جائے تو یہ دونوں نام اسلام کی امن پسندی کا مظہر ہیں۔ دین اسلام کے متبعین کا مظہر اول یعنی السلام علیکم بھی اسی سلامتی کا مظہر اول ہے ۔

اسلام کا مزاج یہ ہے کہ وہ ہمیشہ مسائل کے حل کے لیے بنیادی محرکات اور أسباب کو تلاش کرتا ہے اور اصل مرض کی شناخت کر کے سب سے پہلے اس کے علاج کی طرف توجہ دیتا ہے۔ زمانہ جاہلیت میں بدامنی اور لاقانونیت بھی تاریخ کے صفحات پر رقم ہے لیکن اسلام نے اس خوش اسلوبی سے اس کا علاج کیا کہ وہی لوگ جن کی پہچان وحشت اور جہالت تھی وہ دنیا کے لیے امن کے پیامبر بن گئے۔ اسلام کی برکت سے آپس میں شیروشکر بن گئے۔

لہٰذا اگر ہم پر امن معاشرے کا قیام چاہتے ہیں تو ہمیں سب سے پہلے بدامنی کے بنیادی محرکات اور اسباب کو تلاش کرکے ان کا سدباب کرنا ہوگا ، تب جاکر معاشرہ امن وسکون کا گہوارہ بنے گا۔

ے ان بنیادی محرکات میں سرفہرست جو عامل کارفرما ہے وہ ’’معاشی محرومی‘‘ ہے

معاشی محرومی کا احساس انسان کو اپنی خواہشات کو پورا کرنے کے لیے جائز وناجائز کا فرق کرنے پر مجبور کرتا ہے ۔ یہ حکومت وریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی رعایا کو معاش کے اسباب مہیا کرے۔ تاکہ کسی بھی انسان کے دل میں معاشی محرومی کا احساس پیدا نہ ہو۔ان معاشی أسباب میں نظام زکوٰۃوصدقات کو مکمل خدو خال کے ساتھ نافذکرنا ہی پہلا اور آخری حل ہے نظام زکوۃ کے مکمل مفید نتائج سے فیض یاب ہونے کی اساسی شرط اس کا حکومتی سطح پر قائم ہونا ہے عوام کا انفرادی طور پر ادا کرنا قابل مستحسن ضرور لیکن مطلوبہ نتائج کا حصول ناممکن ہے۔

ے دوسرا اہم عامل ’’بے لاگ عدل وانصاف کی فراہمی ‘‘ہے۔

اس لیے کہ ہمارے وطن عزیز میں مصلحت آمیز عدل و انصاف کی فراہمی نے جہاں بد امنی کو پھیلایا وہاں انسانی جان کی قدروقیمت کو بھی ختم کر دیا قاتل اور ڈکیت کو سزا اس لیے نہیں سنائی جاتی کہ اس سے فتنہ اور فساد پیدا ہوگا یہ انتہائی غلط اور خطرناک سوچ ہے ۔جہاں عدل وانصاف کی فراوانی ہوگی اورمظلوم کو ظالم کے خلاف سستا اور فوری انصاف ملے گا، اس کوشفاف عدالتوں کے ذریعہ اپنی زیادتی اور اپنے درد کا درماں ملے گا تو وہ قانونی راہوںپر چلے گا، وہ قانون کو ہاتھ میں لے کر بدامنی عام نہیں کریگا، اسلام نے عدل وانصاف پر بڑا زور دیا ہے :’’ان اللہ یأمر بالعدل والاحسان ‘‘ بے شک اللہ تعالیٰ عدل و انصاف کا حکم دیتا ہے۔ (سورۃ النمل)

مشہور ہے کہ حکومت کفر کے ساتھ چل سکتی ہے ، ظلم کے ساتھ نہیں۔

قرآن مجید اور فرامین رسالت سے کہیں اس امر کا ثبوت نہیں ملتا کہ مصلحت کی بنیاد پر عدل و انصاف کی فراہمی کو مؤخر کر دیاجائے وطن عزیز کے کئی خطے حکومت وقت کی طرف عدل و انصاف کی فراہمی کے لیے دیکھ رہے ہیں کہ کب مصلحت کی اجازت ہوتی ہے اور ان کے جان و مال کا تحفظ ممکن ہوتا ہے۔جس میں سر فہرست پشاور، کوئٹہ، کراچی اور قبائلی علاقہ جات قابل ذکر ہیں۔

ے تیسرا اہم عامل ’’ تعصب کی بنیاد پر قانون سازی اور عہدوں کی تقسیم‘‘ ہے

معاشرے میں بدامنی کے قیام کا تیسرا بڑا سبب کسی بھی تعصب کی بنیاد پر عہدوں کی تقسیم ہے اہلیت اور میرٹ کے قتل عام نے ان خارجی تخریب کاروں کو اس امر کی اجازت دی کہ وطن عزیز کے ہنرکاروں اور ذہانتوں کو اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کے لیے استعمال کر سکے ۔ اسلام نے سیاسی سطح پر کسی بھی طبقہ کو ماتحت رکھنے کی اجازت نہیں دی اور نہ ہی اسلام ذات پات، رنگ ونسل اور قبیلے کی بنیاد پر عہدوں کی تقسیم کا قائل ہے۔ بلکہ اس کے لیے اسلام نے صلاحیت اور اہلیت کو معیار بنایا ہے۔

المختصر آج ہمیں اپنے معاشرے کو پر امن اور متوازن بنانے کے لیے مدینہ منورہ اور مکہ مکرمہ کے اس معاشرے کو ضرور پیش نظر رکھنا ہوگا جو معاشرہ معاشرتی اور سماجی برائیوں کی آماجگاہ تھا اورظلم وستم اور جہالت کے اندھیروں میں ڈوبا ہواتھا لیکن نبی کریم ﷺ کی محنت اور تعلیم وتربیت کے نتیجے میں وہ ایک ایسا فلاحی ،پر امن اور متوازن معاشرہ بن گیا جس کی مثال نہ اس سے پہلے کی انسانی تاریخ میں ڈھونڈی جاسکتی ہے اور نہ اس کے بعد کی تاریخ سے اس کی کوئی مثال پیش کی جاسکتی ہے۔

اور حیران کن امر تو یہ ہے کہ اس بدامنی کا شکار صرف عبادت گاہیں ہی کیوںاور صرف مسلمان ہی کیوں؟ اہل اسلام کی تقریبات اور اجتماعات ہی کیوں ؟ کیا یہ اس حقیقت کی طرف اشارہ کرنے کے لیے کافی نہیں کہ ہم عالم کفر کی چہار اطراف یلغار کا شکار ہو چکے ہیں ذریت ابلیس اپنے جد کی مذموم قسم (ثم لآتینہم من بین ۔۔۔۔) کی تکمیل کے لیے سرگرم عمل ہے یہود و ہنود کا باہمی اشتراک اپنی پوری قوت کے ساتھ مصروف عمل ہے ۔

رمضان المبارک کے مسعود لمحات آنے کو ہیں برکات الٰہیہ اور انعامات ربانیہ کے نزول کے خوبصورت أوقات ایک مرتبہ پھر ہمارے دروازوں پر دستک دینے کو ہیں کیا ہم اپنے اصل کی طرف لوٹنے کی تیاری کر رہے ہیں؟ کیا ہمارے حکمران کم از کم جن کلمات پر حلف اٹھاتے ہیں ان کی پاسداری کے لیے اپنے آپ کو تیار کر چکے ہیں ؟

یقین کریں یہ بابرکات لمحات اگر آکر اسی طرح گزر گئے اور ہم انہی أحوال میں رہے جس میں ہم ابھی ہیں تو ہم سے زیادہ بدنصیب کوئی نہ ہوگا ۔ رحمت الٰہیہ تو ’’ھل من داع‘‘ کی صدا بار بار لگا رہی ہے ہم میں سے کون ہوگا جو اس صدائے ربانی پر لبیک کہتے ہوئے خود بھی اپنے آپ کو رب العالمین کی حفاظت میں دے اور امت مسلمہ کے لیے بھی دعا کرے۔ آمین اللہم آمین

ہم اپنے حکمرانوں سے التماس کرتے ہیں کہ وہ قرن اول کی ان مثالوں کو اپنے لیے لائحہ عمل بنائیں جن کی زندگی اسوۂ حسنہ کی اتباع کی بہترین تصویر تھی ۔ صدیق و فاروق و غنی و علی و ھادی کی ایک طویل فہرست ہے اللہ ہم سب کو توفیق مزید اور سدید عطا فرمائے کہ ہم ان خوبصورت لمحات کا حق ادا کر سکیں اور اگر حاکم وقت اور عوام دونوں نے ان مبارک اور مسعود لمحات کا حق ادا کر دیا تو یقین رکھیں کہ دعائے ابراہیمی کا حصول ناممکن نہیں بلکہ ممکن الحصول ہو سکتا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے