نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم أما بعد فأعوذ باللہ من الشیطان الرجیم بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ قال اللہ تعالیٰ: وَلَا تَهِنُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا وَاَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ     (سورۃ آل عمران 139)

آج اگر امت مسلمہ پر نظر دوڑائی جائے تو سورج کی روشنی سے زیادہ یہ چیز صاف دکھائی دے رہی ہے کہ امت مسلمہ ہر گرد نواہ سے مصائب و متاعب و مشاکل سے دوچار ہے اور ہر طرف امت مسلمہ کو پستی ہی پستی کا سامنا ہے۔ اور ہر جانب سے امت مسلمہ پر باطل قوتوں کی یلغار کا بوچھاڑ ہے آخر کیوں؟ وہ امت جو کل تک پوری دنیا پر حاکم تھی اور آج وہ محکومیت اور غلامی کی زندگی بسر کر رہی ہے آخر اس امت سے کونسا جرم اور گناہ صادر ہوا ہے جس کے بدولت پستی زوالی اور غلامی کی سزا بھگت رہی ہے جی ہاں اس امت کے زوال کے کچھ اسباب ہیں دوسرے لفظوں میں اس امت کے کچھ جرائم ہیں جس کی وجہ سے یہ غلامی پستی ذلت و رسوائی قتل و غارت بدامنی اورخوف اس کا مقدر بن چکی ہے ۔ آئیے قرآن سے پوچھتے ہیں وہ کونسے اسباب ہیں جس کی وجہ سے امت مسلمہ مصائب کی کشمکش میں ہے۔

سبب اول اس امت کے زوال کا وہ ہے ترک توحید اللہ جل و علی والانغماس والانہماک فی الشرک والتعانق بہ۔

توحید باری تعالیٰ کو پس پست ڈال دینا اور شرک کو گلے سے ملا کر اس میں غرق ہوجانا جیسا کہ اللہ رب العالمین نے سورۃ النحل کے اندر اس بات کی وضاحت فرمائی ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلًا قَرْيَةً كَانَتْ اٰمِنَةً مُّطْمَىِٕنَّةً يَّاْتِيْهَا رِزْقُهَا رَغَدًا مِّنْ كُلِّ مَكَانٍ فَكَفَرَتْ بِاَنْعُمِ اللّٰهِ فَاَذَاقَهَا اللّٰهُ لِبَاسَ الْجُوْعِ وَالْخَوْفِ بِمَا كَانُوْا يَصْنَعُوْنَ(النحل 112)

اور اللہ تعالیٰ ایک بستی کی مثال بیان کرتا ہے۔ جو امن و چین سے رہتی تھی اور ہر طرف سے اس کا رزق اسے بفراغت پہنچ رہا تھا۔ پھر اس نے اللہ کی نعمتوں کی ناشکری کی تو اللہ نے ان کے کرتوتوں کا مزا یہ چکھایا کہ ان پر بھوک اور خوف (کا عذاب) مسلط کردیا۔

مفسرین اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ ’’ قریۃ‘‘ سے مراد ’’مکۃ‘‘ ہے یعنی جب اللہ رب العالمین نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نبوت کا تاج پہنا کر توحید کی نعمت عطا کر کے اہل مکہ کی طرف بھیجا تو اہل مکہ نے نعمت توحید کا انکار کیا اور نعمت توحید کو ٹھکرادیا تو اللہ رب العالمین نے انکی معیشت کو تنگ کردیا خوشحالی کو بدحالی میں اور امن کو خوف میں بدل دیااگر اہل مکہ بیت اللہ کے پڑوس میں رہ کر توحید کا انکار کریں تو انکی یہ حالت ہو سکتی ہے اور بیت اللہ کا پڑوس انہیں کچھ فائدہ نہ دے سکے تو دوسروں کو بالاولی اس سے زیادہ بری حالت وہ سکتی ہے۔اس طرح گذشتہ قومیں زوال پذیر نیست و بابود کیوں ہوئی؟ ان کی ہلاکت و تدمیر کا جو مین سبب قرآن مجید نے بتلایا ہے وہ تر توحید جل و علا قوم عاد قوم ثمود قوم نوح قوم شعیب، جب انہوں نے توحید باری تعالیٰ سے اعراض کیا تو طرح طرح کی عصیان و طغیان میں کود پڑے اور قوم عاد نے یہاں تک جسارت کرتے ہوئےکہا:

فَاَمَّا عَادٌ فَاسْـتَكْبَرُوْا فِي الْاَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ وَقَالُوْا مَنْ اَشَدُّ مِنَّا قُوَّةً(فصلت 15)

ان میں سے جو قوم عاد تھی اس نے ملک میں ناحق تکبر کیا اور کہنے لگےہم سے بڑھ کر طاقتور کون ہے؟

اور کہیں یہ کہا:

لَوْ كَانَ خَيْرًا مَّا سَبَقُوْنَآ اِلَيْهِ (الاحقاف 11)

اگر یہ (دین) کوئی اچھی چیز ہوتا تو یہ (ایمان والے) اسے قبول کرنے میں ہم سے سبقت نہ لے جاتے۔

اس کا مالک بھی ہم ہوتے ہیں تو اللہ رب العالمین نے فرمایا:

فَكُلًّا اَخَذْنَا بِذَنْۢبِهٖ ۚ فَمِنْهُمْ مَّنْ اَرْسَلْنَا عَلَيْهِ حَاصِبًا ۚوَمِنْهُمْ مَّنْ اَخَذَتْهُ الصَّيْحَةُ ۚ وَمِنْهُمْ مَّنْ خَسَفْنَا بِهِ الْاَرْضَ ۚ وَمِنْهُمْ مَّنْ اَغْرَقْنَا ۚ وَمَا كَانَ اللّٰهُ لِيَظْلِمَهُمْ وَلٰكِنْ كَانُوْٓا اَنْفُسَهُمْ يَظْلِمُوْنَ     (العنکبوت 40)

ان میں سے ہر ایک کو ہم نے اس کے گناہ کی پاداش میں گھیر لیا۔ پھر ان ہلاک ہونے والوں میں کچھ ایسے بھی ہیں جن پر ہم نے پتھراؤ کیا اور کچھ ایسے جنہیں زبردست چیخ نے آ لیا اور کچھ ایسے جنہیں ہم نے زمین میں دھنسا دیا اور کچھ ایسے جنہیں ہم نے غرق کردیا۔ اللہ ان پر ظلم کرنے والا نہیں تھا بلکہ یہ لوگ خود ہی اپنے آپ پر ظلم کر رہے تھے۔

امت کے زوال کا دوسرا سبب:

’’ترک الامر بالمعروف والنہی عن المنکر ‘‘

امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو چھوڑ دینا۔ یہ ایک ایسا عظیم فریضہ ہے جس کے خاطر پروردگار عالم نے اس امت کو وجود بخشا جس کی وجہ سے یہ امت خیر امت کے لقب سے سرفراز ہوئی۔ فرمان الٰہی ہے:

كُنْتُمْ خَيْرَ اُمَّةٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ (آل عمران 110)

(مسلمانو! اس وقت) تم ہی بہترین امت ہو جنہیں لوگوں (کی اصلاح و ہدایت) کے لیے لاکھڑا کیا گیا ہے: تم لوگوں کو بھلے کاموں کا حکم دیتے ہو اور برے کاموں سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان لاتے ہو۔

ایک اور مقام پر فرمایا:

وَلْتَكُنْ مِّنْكُمْ اُمَّةٌ يَّدْعُوْنَ اِلَى الْخَيْرِ وَيَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ ۭوَاُولٰۗىِٕكَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ     (آل عمران 104)

اور تم میں سے کچھ لوگ ایسے ہونا چاہئیں جو نیکی کی طرف بلاتے رہیں ۔ وہ اچھے کاموں کا حکم دیں اور برے کاموں سے روکتے رہیں اور ایسے ہی لوگ مراد پانے والے ہیں۔

لیکن آج امت مسلمہ نے اس عظیم فریضہ کو پھیلا دیا اس لیے ذلت و رسوائی اور پستی کی عمیق گہرائیوں میں غرق ہو رہی ہے اور نبی علیہ الصلاۃ والسلام نے اپنے پیارے ارشادات میں فرمایا:

عن أبي سعيد الخدري رضي الله عنه قال سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول من رأى منكم منكرا فليغيره بيده فإن لم يستطع فبلسانه فإن لم يستطع فبقلبه وذلك أضعف الإيمان

رواه مسلم والترمذي وابن ماجه والنسائي ولفظه ( صحيح )

سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے فرماتے ہوئے ہوئے سنا تم میں سے جو بھی برائی دیکھے تو اسے چاہیے کہ وہ اسے اپنے ہاتھ سے روکے اگر ہاتھ سے روکنے کی طاقت نہیں تو زبان سے روکے اگر زبان سے نہیں تو اسے اپنے دل میں برا جانے اور یہ ایمان کے کمزوری کی علامت ہے۔

ایک اور حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:

حَدَّثَنِي الشَّعْبِيُّ أَنَّهُ سَمِعَ النُّعْمَانَ بْنَ بَشِيرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا يَقُولُ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَثَلُ الْمُدْهِنِ فِي حُدُودِ اللَّهِ وَالْوَاقِعِ فِيهَا مَثَلُ قَوْمٍ اسْتَهَمُوا سَفِينَةً فَصَارَ بَعْضُهُمْ فِي أَسْفَلِهَا وَصَارَ بَعْضُهُمْ فِي أَعْلَاهَا فَكَانَ الَّذِي فِي أَسْفَلِهَا يَمُرُّونَ بِالْمَاءِ عَلَى الَّذِينَ فِي أَعْلَاهَا فَتَأَذَّوْا بِهِ فَأَخَذَ فَأْسًا فَجَعَلَ يَنْقُرُ أَسْفَلَ السَّفِينَةِ فَأَتَوْهُ فَقَالُوا مَا لَكَ قَالَ تَأَذَّيْتُمْ بِي وَلَا بُدَّ لِي مِنْ الْمَاءِ فَإِنْ أَخَذُوا عَلَى يَدَيْهِ أَنْجَوْهُ وَنَجَّوْا أَنْفُسَهُمْ وَإِنْ تَرَكُوهُ أَهْلَكُوهُ وَأَهْلَكُوا أَنْفُسَهُمْ

صحيح البخاري (9/ 185)

سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں مثال اس کی جو اللہ کےحدود کی پاسداری کرتاہے اور اس کی جو اللہ کی حدود کو پامال کرتا ہے۔ اس قوم کی طرح جنہوں نے ایک کشتی میں قرعہ دازی کی تو ان میں سے کچھ اوپر بیٹھ گئے کچھ نیچے اور جب نیچے والے لوگوں کو پیاس لگی تو انہوں نے اوپر والوں سے پانی مانگا آخر یہ فیصلہ کیا کہ ہم اپنے حصہ میں ایک سوراخ کرتے ہیں اور وہاں سے پانی پیتے ہیں اور اوپر والوں کو تکلیف نہیں دینگے او ر اگر اوپر والوں نے نہیں چھوڑ دیااور منع کرنے کا ارادہ نہیں کیا تو سب کے سب ہلاک و برباد ہوجائینگے اور اگر انہوں نےان کو منع کیا تو سب کے سب بچ جائینگے۔

یعنی اگر ایک گناہ کر رہا ہے اور دوسرا اس کو دیکھتا ہے لیکن اس کو گناہ سے نہیں روکتا تو عذاب کے لپیٹ میں دونوں آجائینگے اگر اس نے اس کو منع کیا تو دونوں بچ جائینگے جیسا کہ بنی اسرائیل میں ہواتھا یوم السبت والوں کے ساتھ۔

ایک اور مقام پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:

عن حذيفة عن اليمان : عن النبي صلى الله عليه و سلم قال والذي نفسي بيده لتأمرن بالمعروف ولتنهون عن المنكر أو ليوشكن الله أن يبعث عليكم عقابا منه ثم تدعونه فلا يستجاب لكم (سنن الترمذي (4/ 468)

سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ضرور بالضرور تم نیکی کا حکم دو اور برائی سے روکے اگر ایسا نہ کیا تو قریب ہے اللہ تعالیٰتمہیں اس کی سزا دے پھر تم اللہ کو پکارو لیکن تمہاری دعا اور پکار قبول نہیں کی جائیگی۔

میرے مسلمان بھائیو! اندازہ لگاؤ ہماری دعائیں کیوں نہیں قبول ہوتیں۔ ہر آدمی کی یہی شکایت ہے کہ جناب دعائیں قبول نہیں ہوتیں۔ بھائیو اگر ہم امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو چھوڑ دینگے تو ہماری دعائیں کہاں سے قبول ہونگی اگر چاہتے ہو کہ ہماری دعائیں بارگاہ الٰہی میں قبول ہوں تو ہمیں امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے فریضہ کو سر انجام دینا پڑیگا اور جس قوم نے بھی اس فریضہ کو چھوڑ دیا اللہ نےنہیں ملعون قرار دے دیا ارشاد باری ہے:

لُعِنَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا مِنْۢ بَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ عَلٰي لِسَانِ دَاوٗدَ وَعِيْسَى ابْنِ مَرْيَمَ ذٰلِكَ بِمَا عَصَوْا وَّكَانُوْا يَعْتَدُوْنَ     كَانُوْا لَا يَتَنَاهَوْنَ عَنْ مُّنْكَرٍ فَعَلُوْهُ لَبِئْسَ مَا كَانُوْا يَفْعَلُوْنَ

بنی اسرائیل میں سے جو لوگ کافر ہوگئے ان پر داؤد اور عیسیٰ ابن مریم کی زبان سے لعنت کی گئی کیونکہ وہ نافرمان ہوگئے تھے اور حد سے آگے نکل گئے تھے۔وہ ان برے کاموں سے منع نہیں کرتے جو وہ کر رہے تھے اور جو وہ کرتے تھے، وہ بہت برا تھا۔(المائدہ 78،79)

حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

عَنْ قَيْسٍ قَالَ قَالَ أَبُو بَكْرٍ بَعْدَ أَنْ حَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّكُمْ تَقْرَءُونَ هَذِهِ الآيَةَ وَتَضَعُونَهَا عَلَى غَيْرِ مَوَاضِعِهَا (عَلَيْكُمْ أَنْفُسَكُمْ لاَ يَضُرُّكُمْ مَنْ ضَلَّ إِذَا اهْتَدَيْتُمْ) قَالَ عَنْ خَالِدٍ وَإِنَّا سَمِعْنَا النَّبِىَّ -صلى الله عليه وسلم- يَقُولُ:إِنَّ النَّاسَ إِذَا رَأَوُا الظَّالِمَ فَلَمْ يَأْخُذُوا عَلَى يَدَيْهِ أَوْشَكَ أَنْ يَعُمَّهُمُ اللَّهُ بِعِقَابٍ (سنن أبي داود (4/ 214)

قیس سے روایت ہے کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا ’’اے لوگو یقیناً تم اس آیت کی تلاوت ضرور کرتے ہوگے، اے ایمان والو اپنے آپ کو بچاؤ،گمراہ لوگ تمہیں کبھی نقصان نہیں پہنچائینگے ‘‘پھر فرمایا یقیناً میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنااگر لوگ ظالم کو ظلم کرتے ہوئے دیکھتے ہیں پھر بھی اس کو ظلم سے نہیں روکتے تو قریب ہے کہ اللہ رب العالمین اس کے گناہ کی وجہ سے سب کو عذاب دے۔

امت کے زوال کا تیسرا سبب:

ترک کتاب اللہ و سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم :

جیسا کہ اللہ رب العالمین کا ارشاد گرامی ہے:

وَمَنْ اَعْرَضَ عَنْ ذِكْرِيْ فَاِنَّ لَهٗ مَعِيْشَةً ضَنْكًا وَّنَحْشُرُهٗ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ اَعْمٰى قَالَ رَبِّ لِمَ حَشَرْتَنِيْٓ اَعْمٰي وَقَدْ كُنْتُ بَصِيْرًا قَالَ كَذٰلِكَ اَتَتْكَ اٰيٰتُنَا فَنَسِيْتَهَا ۚ وَكَذٰلِكَ الْيَوْمَ تُنْسٰى

اور جو میری یاد سے منہ موڑے گا تو اس کی زندگی تنگ ہوجائے گی اور قیامت کے دن ہم اسے اندھا کرکے اٹھائیں گے۔وہ کہے گا:اے میرے پروردگار! تو نے مجھے اندھا کرکے کیوں اٹھایا حالانکہ میں (دنیا میں) آنکھوں والا تھا ؟اللہ تعالیٰ فرمائے گا: جس طرح ہماری آیات تمہارے پاس آئیں تو تو نے انھیں بھلا دیا تھا، اسی طرح آج تو بھی بھلادیا جائے گا۔(طہ 124تا126)

’’الذکر‘‘ سے مراد قرآن مجید ہے اور دیگر اشیاء بھی مراد ہیں لیکن قرآن مجید بھی ذکر میں داخل ہے بلکہ قرآن مجید کا آیۃ نام ذکر ہے جیساکہ اللہ کا فرمان ہے:

اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَاِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُوْنَ(الحجر 9)

یقینا ہم نے ہی الذکر اتارا ہے اور یقینا ہم ہی اس کے محافظ ہیں۔

نبی علیہ الصلاۃ والسلام نے ارشاد فرمایا:

قَالَ عُمَرُ أَمَا إِنَّ نَبِيَّكُمْ -صلى الله عليه وسلم- قَدْ قَالَ :إِنَّ اللَّهَ يَرْفَعُ بِهَذَا الْكِتَابِ أَقْوَامًا وَيَضَعُ بِهِ آخَرِينَ (صحيح مسلم (2/ 201))

سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بلاشبہ اللہ رب العالمین اس کتاب قرآن مجید کے ذریعے کچھ لوگوں کو بلند و رفعت عطا فرماتے ہیں اور کچھ لوگوں کو ذلیل و خوار کردیتے ہیں۔

اور چشم فلک نے دیکھا عرب کے وہ بدو جو کل تک بکریوں کے چرواہے تھے اور جب انہوں نے قرآن مجید کو سر خم تسلیم کیا اور اپنے سینوں سے لگایا تو اللہ رب العالمین نے انہیں زمین سے لے کر آسمان تک پہنچا دیا رضی اللہ عنہم و رضوا عنہ کے لقب سے سرفراز کیا، کوئی صدیق بن گیاتو کوئی فاروق بنا کوئی ذوالنورین بن گیا تو کوئی حیدر قرار بن گیا کوئی اسداللہ بن گیا تو کوئی سیف من سیوف اللہ بن گیا اور کوئی مدینہ کے گلیوں میں ھب و دب کر رہا ہے اور اس کے قدموں کی آہٹ جنت میں سنائی دے رہی ہے کوئی غسیل الملائکہ بن گیا تو کسی کے ساتھ اللہ رب العالمین شہادت کے بعد از خود ہم کلام ہو رہے ہیں آخر یہ سب کیوں؟ اس لیے کہ انہوں نے قرآن مجید کی قیمت و منزلت و قدر کو پہچانا تھا اور اس پر کما حقہ عمل کیا اور اس کے برعکس جنہوں نے قرآن مجید ساحروں کا ہنوں اساطیر الاولین کہا تھا تو اللہ رب العالمین نے انہیں ذلیل و خوار ہلاک و برباد کرایا۔کسی کو تبت یدا ابی لھب و تب کہہ کر بردباد کا سرٹیفکیٹ دیا تو کسی کو جم غفیر کے سامنے دو معصوم بچوں کے ہاتھوں قتل کروا کے ذلیل و رسوا کر دیا۔تو اس لیے اے امت مسلمہ غفلت کی نیند سے بیدار ہو جاؤاگر چاہتے ہو ہمیں امن و سکون عزت و مرتبت ملے تو قرآن مجید اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت طیبہ کو سینے سے لگانا پڑیگا تو کامیابی تمہاری مقدر بن جائیگی۔

عَنْ مَالِكٍ أَنَّهُ بَلَغَهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ : تَرَكْتُ فِيكُمْ أَمْرَيْنِ ، لَنْ تَضِلُّوا مَا تَمَسَّكْتُمْ بِهِمَا : كِتَابَ اللَّهِ وَسُنَّةَ نَبِيِّهِ (الموطأ (رواية يحيى بن يحيى الليثي الأندلسي ) (2/ 480))

اے لوگو میں تمہارے درمیان دو چیزیں چھوڑ کر جارہا ہوں اگر تم نے انہیں مضبوطی سے تھامے رکھا تو کبھی بھی گمراہ نہیں ہونگے ایک اللہ کی کتاب دوسری اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ۔

امت کے زوال کا چوتھا سبب:

وہ ہے دنیا کو سب کچھ سمجھ لینا اور آخرت کو بھلا دینا وہ دینا جس کے بارے میں خالق کائنات فرماتے ہیں:

وَمَا الْحَيٰوةُ الدُّنْيَآ اِلَّا مَتَاعُ الْغُرُوْرِ(آل عمران 185)

اور یہ دنیا کی زندگی تو محض دھوکے کا سامان ہے۔

کہیں فرمایا:

يٰٓاَيُّهَا النَّاسُ اِنَّ وَعْدَ اللّٰهِ حَقٌّ فَلَا تَغُرَّنَّكُمُ الْحَيٰوةُ الدُّنْيَا وَلَا يَغُرَّنَّكُمْ بِاللّٰهِ الْغَرُوْرُ

لوگو! اللہ کا وعدہ سچا ہے لہذا تمہیں دنیا کی زندگی دھوکہ میں نہ ڈال دے اور نہ ہی اللہ کے بارے میں وہ دھوکہ باز (شیطان) تمہیں دھوکہ دینے پائے۔(فاطر 5)

اِنَّمَآ اَمْوَالُكُمْ وَاَوْلَادُكُمْ فِتْنَةٌ   ۭوَاللّٰهُ عِنْدَهٗٓ اَجْرٌ عَظِيْمٌ      (التغابن 15)

بلاشبہ تمہارے مال اور تمہاری اولاد ایک آزمائش ہیں اور اللہ ہی ہے جس کے ہاں بڑا اجر ہے۔

يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تُلْهِكُمْ اَمْوَالُكُمْ وَلَآ اَوْلَادُكُمْ عَنْ ذِكْرِ اللّٰهِ ۚ وَمَنْ يَّفْعَلْ ذٰلِكَ فَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْخٰسِرُوْنَ     (المنافقون 9)

اے ایمان والو! تمہارے اموال اور تمہاری اولاد تمہیں اللہ کی یاد سے غافل نہ کردیں اور جو لوگ ایسا کریں وہی خسارہ اٹھانے والے ہیں۔

نبی علیہ الصلاۃ والسلام کا ارشاد گرامی ہے:

عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- : لَوْ كَانَتِ الدُّنْيَا تَعْدِلُ عِنْدَ اللَّهِ جَنَاحَ بَعُوضَةٍ مَا سَقَى كَافِرًا مِنْهَا شَرْبَةَ مَاءٍ (سنن الترمذى (9/ 102)

اگر دنیا کی قیمت اللہ کے ہاں مچھر کے پَر برابر بھی ہوتی تو کافر کو ایک گھونٹ پانی کا نصیب نہیں کرتا۔

ایک اور حدیث میں فرمایا:

رب کعبہ کی قسم مالدار لوگ ہلاک ہوگئے سوائے ان کے جو اپنے مال کو اللہ کی راہ میں دائیں بائیں آگے پیچھے خرچ کرتا ہے۔

اے امت مسلمہ جس دنیا کو ہم نے سب کچھ رکھا ہے اس کی حقیقت کو قرآن و سنت تو اس طرح بتاتے ہیں کما مرّ لیکن پھر بھی ہم اس کو ہی کامیابی سمجھتے ہیں تو رسوائی اور ذلت نہیں ملے گی تو اور کیا ملے گا جیسا کہ سرور کونین علیہ الصلاۃ والسلام نے ارشاد فرمایا:

عَنْ ثَوْبَانَ مَوْلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : يُوشِكُ أَنْ تَدَاعَى عَلَيْكُمُ الأُمَمُ مِنْ كُلِّ أُفُقٍ كَمَا تَدَاعَى الأَكَلَةُ عَلَى قَصْعَتِهَا ، قَالَ : قُلْنَا : يَا رَسُولَ اللهِ ، أَمِنْ قِلَّةٍ بِنَا يَوْمَئِذٍ ؟ قَالَ : أَنْتُمْ يَوْمَئِذٍ كَثِيرٌ ، وَلَكِنْ تَكُونُونَ غُثَاءً كَغُثَاءِ السَّيْلِ ، تُنْتَزَعُ الْمَهَابَةُ مِنْ قُلُوبِ عَدُوِّكُمْ ، وَيَجْعَلُ فِي قُلُوبِكُمُ الْوَهْنَ . قَالَ : قُلْنَا : وَمَا الْوَهْنُ ؟ قَالَ : حُبُّ الْحَيَاةِ وَكَرَاهِيَةُ الْمَوْتِ.(مسند أحمد (5/ 278))

عنقریب ایک ایسا وقت آئیگا جس میں کافر قوتیں تم پر اس طرح ٹوٹ پڑینگی جس طرح بھوکے دستر خواں پر ٹوٹ پڑتے ہیں تو کسی کہنے والے نے کہا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کیا اس وقت ہماری تعداد کم ہوگی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بلکہ اس وقت تمہاری تعداد بہت زیادہ ہوگی لیکن تمہاری حیثیت وہ ہوگی جو سیلاب والے گھاس کی حیثیت ہوتی ہے۔ اور اللہ رب العالمین تمہارا رعب دشمنوں کے دلوں سے نکال دیگااور تمہارے دلوں میں ایک بیماری پیدا ہوگی جس کا نام ’’ وھن‘‘ ہے تو صحابہ نے استفسار کیا کہ اس بیماری کی شناخت کروا دیجئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دنیا سے محبت اور موت سے نفرت اے دیکھنے والے کیا آج ہماری حالت وہ ہی نہیں جو تاج دار بطحاء نے چودہ برس قبل بتادی تھی اور آج ہم دنیا کے مرض میں اسقدر مبتلا ہوگئے کہ ہمیں ہر چیز الٹی نظر آتی ہے۔ عالم جاہل نظرآتا ہے اور جاہل عالم نظر آتا ہے لیکن برائی دکھائی دیتی ہے اور برائی نیکی دکھا ئی دیتی ہے ذلت عزت نظر آتی ہے اور ذلت عزت نظر آتی ہے اور حتی کہ گناہ پر اتنا فخر کیا جاتا ہے گویا کہ حج کر کے آیا ہے اور دنیا کا مرض ہمارے اذہان میں اس قدر پیوست ہو چکا ہے۔ کہ علماء طبقہ کو اپنے القاب برے لگے ہیں اور اغیار کے القاب بہت اچھے لگتے ہیں۔ اگر آج کسی عالم کو پروفیسر ڈاکٹر کے القاب سے پکارا جائے تو وہ اسے اپنے لیے باعث فخر باعث عزت سمجھتا ہے۔ لیکن اس کے برعکس اگر کسی دنیاوی آدمی کو کسی کا سچ یا یونیورسٹی کے پروفیسر کو مولوی حضرات یا عالم صاحب سے پکارا جائے تو وہ اسے اپنے لیے معیوب سمجھتا ہے لیکن ہم ان کے جعلی القاب کو باعث فخر سمجھتے ہیں بلکہ حد کی انتہاء تو یہ ہے اگر کو ئی آدمی سرمایا دار ملک میں کام کاج کے حساب سے رہتا ہے اور جب وہ واپس اپنے وطن لوٹتا ہے تو ہم اس سے جا کر مل کر آتے ہیں محض اس لیے کہ وہ فلاں سرمایا دار کنیڑی میں رہتا ہے اگرچہ وہ وہاں پر ستو پیر ہی کیوں نہ ہو اور میری ادنی طالبعلم کی علماء کرام سے درخواست ہے کہ وہ اپنی منصب و مقام و رفعت و شان و عظمت کو پہنچانے اور دنیاوی لوگوں کے سامنے جھکنے سے اپنے آپ کو بچائیں اور ہر کسی کو دو ٹوک صاف اور کھری بات کہہ دیں خواہ وہ امیر سے امیر تر کیوں نہ ہو یا غریب و فقیر و اپہاج کیوں نہ ہو۔

اور اےمیری ملت کے اعلیٰ تر وہ علماء کرام کیا تمہارے کانوں پر سورہ عبس کا شان نزول دستک نہیں دے رہا۔ اور کیا تمہیں تاج دار بطحاء سید الاولین و الآخرین سید ولد آدم جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ دعا یاد نہیں رہی۔

اللَّهُمَّ أَحْيِنِي مِسْكِينًا ، وَأَمِتْنِي مِسْكِينًا ، وَاحْشُرْنِي فِي زُمْرَةِ الْمَسَاكِينِ

اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمیں اپنا کھویا ہوا واپس ملے تو ہمیں دنیا سے کنارہ کش ہو کر عبادت الٰہی کی طرف متوجہ ہونا پڑیگا۔ (سنن ابن ماجہ (5/ 240)

اب ہم ان اسباب کے علاج کا ذکر کرتے ہیں

۱۔ اے امت مسلمہ اگر چاہتے ہو تمہیں اپنا کھویا ہوا واپس مل جائے تو توحید کو گلے سے لگانا پڑیگا اگر ہم نے اس طرح کیا تو اللہ تعالیٰ ہمیں کامیابیوں سے ہم کنار کردینگے۔ جیسا کہ اللہ رب العالمین کا ارشاد گرامی ہے:

وَلَا تَهِنُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا وَاَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ

تم نہ سستی کرو اور نہ غمگین ہو تم ہی غالب رہو گے اگر تم ایماندار ہو ۔(آل عمران 139)

کہیں فرمایا:

اَلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَلَمْ يَلْبِسُوْٓا اِيْمَانَهُمْ بِظُلْمٍ اُولٰۗىِٕكَ لَهُمُ الْاَمْنُ وَهُمْ مُّهْتَدُوْنَ

جو لوگ ایمان رکھتے ہیں اور اپنے ایمان کو شرک کے ساتھ مخلوط نہیں کرتے۔ ایسوں ہی کے لئے امن ہے اور وہی راہ راست پر چل رہے ہیں ۔(سورۃ الانعام 82)

قارئین کرام امن انسانی زندگی کےلیے تمام قیمتی اہم اور اساسی چیز ہے۔ اگر امن ہے تو سب کچھ ہے امن نہیں تو کچھ نہیں ہے۔ امن کی قیمت اور اہمیت کا اندازہ ابراہیم علیہ السلام کے اس دعا سے لگائی جا سکتی ہے جو ابراہیم علیہ السلام نے بیت اللہ کی تعمیر سے فارغ ہو کر باشندان مکہ کے لیے اللہ سے مانگی تھی۔ اور اللہ تعالیٰ نے اس دعا کی منظر کشی قرآن مجید میں کچھ اس طرح فرمائی ہے۔

فرمان الٰہی ہے:

وَاِذْ قَالَ اِبْرٰهٖمُ رَبِّ اجْعَلْ ھٰذَا بَلَدًا اٰمِنًا وَّارْزُقْ اَھْلَهٗ مِنَ الثَّمَرٰتِ مَنْ اٰمَنَ مِنْھُمْ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ (البقرة 126)

اور جب ابراہیم علیہ السلام نے یہ دعا کی کہ:اے میرے پروردگار! اس جگہ کو امن کا شہر بنا دے۔ اور اس کے رہنے والوں میں سے جو کوئی اللہ پر اور روز آخرت پر ایمان لائیں انہیں پھلوں کا رزق عطا فرما۔

قارئین کرام سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے امن کو معاش پر مقدم کیا کیوں کہ معاش کا حصہ امن کے بغیر مشتمل ہے۔اگر امن ہوگا تو ہر کوئی آرام و سکون سے اپنی معاش کما سکتا ہے۔ ابراہیم علیہ السلام کی دعا کا اثر مکہ پر کچھ اس طرح ہوا اللہ رب العالمین نے فرمایا:

وَمَنْ دَخَلَهٗ كَانَ اٰمِنًا(آل عمران 97)

جو شخص اس گھر میں داخل ہوا وہ مامون و محفوظ ہوگیا۔

آج امن و سلامتی کا فقدان و بحران ہمارے معاشرے میں اس لیے ہے کہ ہم نے توحید باری تعالیٰ کو چھوڑ دیا اگر ہم دوبارہ توحید کو اپنے اوپر لازمی کرلیں تو وہی سیادت و قیادت ہماری مقدر بن جائیگی جیساکہ اللہ رب العالمین نے فرمایا:

وَعَدَ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْاَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ ۠ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِيْنَهُمُ الَّذِي ارْتَضٰى لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِّنْۢ بَعْدِ خَوْفِهِمْ اَمْنًا ۭ يَعْبُدُوْنَنِيْ لَا يُشْرِكُوْنَ بِيْ شَـيْــــًٔـا ۭ وَمَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذٰلِكَ فَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْفٰسِقُوْنَ (النور 55)

تم میں سے جو مومن ہیں اور نیک کام کرتے ہیں ان سے اللہ نے وعدہ کر رکھا ہے کہ وہ انھیں زمین میں ایسے ہی خلافت عطا کرے گا جیسے تم سے پہلے کے لوگوں کو عطا کی تھی اور ان کے اس دین کو مضبوط کرے گا جسے اس نے ان کے لئے پسند کیا ہے اور ان کی حالت خود کو امن میں تبدیل کردے گا۔ پس وہ میری ہی عبادت کریں گے اور میرے ساتھ کسی کو شریک نہ بنائیں گے اور جو اس کے بعد کفر کرے تو ایسے ہی لوگ فاسق ہیں ۔

لیکن کب فرمایا

يَعْبُدُوْنَنِيْ لَا يُشْرِكُوْنَ بِيْ شَـيْــــًٔـا

جب صرف میری عبادت کرینگے اور میرے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹہرائینگے اور جس نے اس کے بھی انکار کیا۔ تو وہ بھی فاسق ہیں۔

کہیں فرمایا:

وَمَنْ يَّتَّقِ اللّٰهَ يَجْعَلْ لَّهٗ مَخْرَجًاوَّيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ ۭ وَمَنْ يَّتَوَكَّلْ عَلَي اللّٰهِ فَهُوَ حَسْبُهٗ   ۭ اِنَّ اللّٰهَ بَالِغُ اَمْرِهٖ   ۭ قَدْ جَعَلَ اللّٰهُ لِكُلِّ شَيْءٍ قَدْرًا   (سورۃ الطلاق 2۔3)

اور جو شخص اللہ سے ڈرتا ہے اللہ اس کے لیے (مشکلات سے) نکلنے کی کوئی راہ پیدا کردے گا۔اور اسے ایسی جگہ سے رزق دے گا جہاں اسے وہم و گمان بھی نہ ہو اور جو شخص اللہ پر بھروسہ کرے تو وہ اسے کافی ہے اللہ اپنا کام پورا کرکے رہتا ہے۔ بلاشبہ اللہ نے ہر چیز کا ایک اندازہ مقرر کر رکھا ہے۔

اور کچھ آگے اس طرح فرمایا:

وَمَنْ يَّتَّقِ اللّٰهَ يَجْعَلْ لَّهٗ مِنْ اَمْرِهٖ يُسْرًا     (سورۃ الطلاق 4)

اور جو شخص اللہ سے ڈرے تو اللہ اس کےلئے اس کے کام میں آسانی پیدا کردیتا ہے۔

اور اسی طرح فرمایا:

وَمَنْ يَّتَّقِ اللّٰهَ يُكَفِّرْ عَنْهُ سَـيِّاٰتِهٖ وَيُعْظِمْ لَهٗٓ اَجْرًا     (سورۃ الطلاق 5)

اور جو شخص اللہ سے ڈرے اللہ اس کی برائیاں دور کردیتا ہے اور اسے بڑا اجر دیتا ہے۔

اور فرمایا:

اَلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ طُوْبٰى لَهُمْ وَحُسْنُ مَاٰبٍ   (سورۃ الرعد 29)

جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے نیک عمل کیئے ان کے لئے خوشحالی بھی ہے اور عمدہ ٹھکانا بھی۔

امت مسلمہ کے زوال کادوسرا علاج:

القیام بالامر بالمعروف والنہی عن المنکر

امر بالمعروف کا حکم دینا اور نہی عن المنکر سےروکنا:

اگر امت مسلمہ چاہتی ہے کہ اسے اپنی گم کی ہوئی عظمت و رفعت دوبارہ مل جائے تو اسے ایک کام ضرور کرنا پڑیگا وہ نیکی کا حکم دینا برائی سے روکنا ہے۔ کیونکہ نیکی کا حکم دینا برائی سے روکنا مومن کی شیوہ ہے۔ فرمان الٰہی ہے:

وَالْمُؤْمِنُوْنَ وَالْمُؤْمِنٰتُ بَعْضُهُمْ اَوْلِيَاۗءُ بَعْضٍ ۘ يَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَيُقِيْمُوْنَ الصَّلٰوةَ وَيُؤْتُوْنَ الزَّكٰوةَ وَيُطِيْعُوْنَ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ   ۭ اُولٰۗىِٕكَ سَيَرْحَمُهُمُ اللّٰهُ ۭاِنَّ اللّٰهَ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ     (سورۃ التوبہ71)

مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں ایک دوسرے کے مددگار ہیں جو بھلے کام کا حکم دیتے ہیں اور برے کام سے روکتے ہیں، وہ نماز قائم کرتے اور زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول کا حکم مانتے ہیں۔یہی لوگ ہیں، جن پر اللہ رحم فرمائے گا بلاشبہ اللہ سب پر غالب اور حکمت والا ہے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

امر بالمعروف والنہی عن المنکر کے بارے میں یہاں تک فرمایا:

عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ : إِيَّاكُمْ وَالْجُلُوسَ عَلَى الطُّرُقَاتِ فَقَالُوا مَا لَنَا بُدٌّ إِنَّمَا هِيَ مَجَالِسُنَا نَتَحَدَّثُ فِيهَا قَالَ فَإِذَا أَبَيْتُمْ إِلاَّ الْمَجَالِسَ فَأَعْطُوا الطَّرِيقَ حَقَّهَا قَالُوا وَمَا حَقُّ الطَّرِيقِ قَالَ غَضُّ الْبَصَرِ وَكَفُّ الأَذَى وَرَدُّ السَّلاَمِ وَأَمْرٌ بِالْمَعْرُوفِ وَنَهْىٌ ، عَنِ الْمُنْكَرِ(صحيح البخاري (3/ 173))

سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم راستوں میں بیٹھنے سے بچو صحابہ نے عرض کیا اےاللہ کے رسول ہمارے لیے ان مجلسوں کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے تو ہم وہاں بیٹھ کر باتیں کرتے ہیںتو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: اگر تم نے وہاں ضروری بیٹھنا ہے تو راستے کا حق دو صحابہ نہ استفسار کیا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم راستے کا حق کیا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نگاہوں کو پست رکھنا تکلیف دہ چیز کو راستے سے ہٹانا سلام کا جواب دینا نیکی کی تلقین کرنا برائی سے روکنا۔

اور امت کے زوال کا تیسرا علاج دنیا سے بے رغبتی آخرت کی تیاری آخرت کو دنیا پر ترجیح دینا ناکہ دنیا کو آخرت پر۔

جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پیارے صحابی سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:

عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عُمَرَ ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا ، قَالَ : أَخَذَ رَسُولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم بِمَنْكِبِي فَقَالَ كُنْ فِي الدُّنْيَا كَأَنَّكَ غَرِيبٌ ، أَوْ عَابِرُ سَبِيلٍ ، وَكَانَ ابْنُ عُمَرَ يَقُولُ إِذَا أَمْسَيْتَ فَلاَ تَنْتَظِرِ الصَّبَاحَ ، وَإِذَا أَصْبَحْتَ فَلاَ تَنْتَظِرِ الْمَسَاءَ وَخُذْ مِنْ صِحَّتِكَ لِمَرَضِكَ وَمِنْ حَيَاتِكَ لِمَوْتِكَ.(صحيح البخاري (8/ 110))

سیدناعبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے دو کندھوں میں پکڑ کر فرمایااے عبداللہ دنیا میں اس طرح زندگی بسر کرو گویا کہ تو ایک اجنبی یا مسافر کی طرح ہے اس کے بعد عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرمایا کرتے تھے جب تم صبح کرو تو شام کا انتظار نہ کیا کرو ’’ یعنی کہ شاید شام ہونے سے پہلے تمہیں موت آجائے ‘‘ اور اگر تم شام کرو تو صبح کا انتظار مت کرو ’’ ہو سکتا ہے صبح ہونے سے پہلے تمہیں موت آجائے‘‘ صحت کو مرض سے پہلے غنیمت جانو اور زندگی کو موت سے پہلے غنیمت سمجھو یعنی آدمی نیک اعمال کرو جب تک تمہیں اللہ رب العالمین نے صحت و عافیت دے رکھے ہے۔ ایسا نہ ہو کہ تم عمل کرنے میں سست ہو جاؤ اور تمہیں کوئی بیماری آجائے پھر عمل کر نہ پاؤاور جو عمل کرنا ہے اپنی حیاتی میں کر لو مرنے کے بعد عمل کا سلسلہ ختم ہو جائیگا حساب کا سلسلہ شروع ہو جائیگا۔ایک او رحدیث میں آتا ہے:

عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ السَّاعِدِيِّ ، قَالَ : أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى الله عَليْهِ وسَلَّمَ رَجُلٌ ، فَقَالَ : يَا رَسُولَ اللهِ ، دُلَّنِي عَلَى عَمَلٍ إِذَا أَنَا عَمِلْتُهُ أَحَبَّنِي اللَّهُ وَأَحَبَّنِي النَّاسُ ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى الله عَليْهِ وسَلَّمَ : ازْهَدْ فِي الدُّنْيَا يُحِبَّكَ اللَّهُ ، وَازْهَدْ فِيمَا فِي أَيْدِي النَّاسِ يُحِبُّكَ النَّاس.

سنن ابن ماجة (5/ 225)

سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور عرض کیا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم مجھے ایک ایسا عمل بتلا دیجیے جو میں کروں اللہ کا محبوب بن جاؤں اور لوگوں کا بھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا دنیا سے بے رغبتی اختیار کر لو اللہ کے محبوب بن جاؤ گےاور جو لوگوں کے پاس ہے اس سے بھی بے رغبتی اختیار کر لو تو لوگوں کے بھی محبوب بن جاؤ گے۔

یعنی اگر عزت چاہتے ہو بلندی محبوبی چاہتے ہو تو دنیا سے بے رغبتی اختیار کرنا پڑیگی۔ دنیا کا پوجاری نہیں ہونا پڑیگا اگر ہم نے آخرت کو اولین ترجیح دی اور دنیا کو ثانوی رکھا دوسرے الفاظوں میں دنیا کو آخرت پر ترجیح مت دینا تو ہم اللہ رب العالمین کے محبوب بن جائیں گے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

ان اللہ یحب العبد التقی الغنی الخفی

بیشک اللہ رب العالمین اس بندے کو پسند فرماتے ہیںجو متقی غنی ’’یعنی دنیا سے بے نیاز ‘‘ اور مخفی ہے ’’یعنی لوگوں سے چھپ کر اللہ کی رضا کی خاطر عمل کرتا ہے۔ اور اگر اللہ راضی ہو گئے تو ہماری دنیا اور آخرت سنور جائیگی دنیا کی ذلتیں پریشانیاں بدامنی خوف کو اللہ رب العالمین عزتوں بلندیوں امن و سکون میں بدل دینگے۔

جیساکہ فرمایا:

يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَقُوْلُوْا قَوْلًا سَدِيْدًا   يُّصْلِحْ لَكُمْ اَعْمَالَكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْ ۭ وَمَنْ يُّطِعِ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيْمًا   (سورۃ الاحزاب70،71)

اے ایمان والو! اللہ سے ڈرتے رہو اور بات صاف سیدھی کیا کرو۔(اس طرح) اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال کو درست کردے گا اور تمہارے گناہ معاف کردے گا۔ اور جس شخص نے اللہ اور اس کے رسول کا کہا مان لیا اس نے بڑی کامیابی حاصل کر لی۔

اے امت مسلمہ اگر امن چاہتے ہو عروج چاہتے ہو بلندی و رفعت چاہتے ہو تو کتاب اللہ و سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مضبوطی سے تھامنا پڑیگا۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

إِنَّ اللَّهَ يَرْفَعُ بِهَذَا الْكِتَابِ أَقْوَامًا وَيَضَعُ بِهِ آخَرِينَ (صحيح مسلم ـ (2/ 201))

اور ایک حدیث میں فرمایا:

تَرَكْتُ فِيكُمْ أَمْرَيْنِ ، لَنْ تَضِلُّوا مَا تَمَسَّكْتُمْ بِهِمَا : كِتَابَ اللَّهِ وَسُنَّةَ نَبِيِّهِ(الموطأ (رواية يحيى بن يحيى الليثي الأندلسي ) (2/ 480))

اور امام مالک نے فرمایا:

اس امت کے آخری لوگوں کی اصلاح اس چیز کے ذریعے ہی ممکن ہے جس کے ذریعے اس امت کے پہلے والے لوگوں کی ہوئی یعنی کتاب اللہ و سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ۔

آخر میں بارگاہ الٰہی انہی سے التجا ء ہے کہ پروردگار عالم ہمارے گناہوں کو معاف فرمائے اور ہمیں اپنے وطن گھر و بستی قبیلے خاندان میں دین پہنچانے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمارے حال پر رحم فرمائے۔

 

وھو ارحم الراحمین وباللہ التوفیق

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے