عورت اور جدید ذرائع ابلاغ کی لغوی و اصطلاحی تحقیق:

لغوی اعتبار سے عورت سے مراد ہر وہ امر جس سے شرم کی جائے اور انسان کے وہ اعضاء بھی جن کو حیاء سے چھپایا جاتا ہے، عورت/ عورات کہلاتے ہیں۔

لغوی اصطلاح میں جسم کے قابل ستر حصوں کو غیروں کی نظروں سے چھپانا اور چھپانے کی بہتر زیبِ تن صورت کپڑے ہی سے ہو سکتی ہے۔لہذا ستر کے لیے ایسے کپڑے پہننا ضروری ہیں جو واقعی چھپانے والے ہوں جو نہ شفاف ہوں اور نہ ایسے چست کہ ان سے جسم کے اُبھار اور خطوط جن کا چھپانا لازمی ہے، نمائیاں طور پر نطر آئیں گویا کہ عورت کا نہ صرف سارا جسم بلکہ اس کے حرکات و سکنات اور گفتار بھی ستر میں شامل ہیں جن کے لیے شریعت نے اصول و قواعد مقرر کیے ہیں۔(۱)

ذرائع ابلاغ سے مراد وہ علم یا ہنر جس کے ذریعے مختلف قسم کی اطلاعات کی تشہیر ہوتی ہے۔ مثلاً اخبارات، رسائل، ریڈیو اور ٹیلی وژن وغیرہ (۲)

جب ہم تاریخی تناظر میں عصر حاضر کے بدلتے ہوئے عالمی معاشرتی و ثقافتی حالات پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں صاف معلوم ہوتا ہے کہ مغرب اپنے اخلاقی اور روحانی دیوالیہ پن میں پستی کی انتہاکو پہنچ چکا ہے، کیونکہ جن بنیادوں پر مغربی تہذیب استوارہے وہ خالص مادی اور روحانی وبا طنی اثرات سے یکثر خالی ہے اور پھر المیہ یہ کہ بیمار مغرب شہ جائیکہ اپنا ہوش سنبھال کر اپنی اصلاح کی فکرکرے مسلمانوں کو اسلام دشمنی کے باعث مادی ترقی یعنی سائنس، ٹیکنالوجی، معیشت اور اقتصادیات وغیرہ کے میدانوں میں شکست دینے کے بعد اس کوشش میں ہے، کہ اسلامی ممالک بھی اس کے نقش قدم پر چل کر اس کی طرح دینی و اخلاقی طور پر مفلوج ہوں تاکہ مسلمان قوم عیاش، آرام پرست اور بے حس بن کر ہمیشہ ہمیشہ اس کی محکوم اور دست نگر رہے چنانچہ مغرب نے عورت کو آلہء کار بناکر مسلمان معاشروں کے اندر بے حیائی فحاشی اور عریانی کو فروغ دیا ہے جبکہ مسلمانوں کے نزدیک اسلام کی رو سے بے حیائی جفاء ہے اور جفاء باعث دوزخ ہے۔(۳)

اس مقصد کے حصول کی خاطر ایک مغرب عورت کے نمائش حُسن کومختلف روپ اور انداز میں پیش کر رہاہے اور دوسری طرف ہمارے جدیدذرائع ابلاغ مغرب کے معاون بن کر فیشن، ثقافت، گلیمبر، شوبز بزنس، موسیقی اور مخلوط مجالس کی آڑ میں جنسی جذبات کو بھڑکا رہے ہیں، جبکہ عفت و عصمت کی مناسبت سے اسلامی تعلیمات کے مطابق عورت کا دائرہ کا ر گھر کے اندر ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ الْأُولَى

اپنے گھروں میں وقار سے بیٹھی رہو اور جاہلیت کے سے بناؤ سنگھار نہ دکھاتی پھرو۔ (۴)

ہاں حاجات و ضروریات کے لیے ان کو نکلنے کی پوری اجازت ہے۔

قَدْ أَذِنَ لَكُنَّ أَنْ تَخْرُجْنَ لِحَوَائِجِكُنَّ(۵)

لیکن اس سے مراد یہ بھی نہیں کہ عورتیںجہاں چاہیں آزادی کے ساتھ پھریں اور مردانہ اجتماعات میں گھل مل جائیں جبکہ مرد کا دائرہ کار گھر سے باہر کی دنیا ہے جس کی تائید آیت کریمہ ھذا سے ہوتی ہے۔

اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَي النِّسَاۗءِ بِمَا فَضَّلَ اللّٰهُ بَعْضَھُمْ عَلٰي بَعْضٍ وَّبِمَآ اَنْفَقُوْا مِنْ اَمْوَالِهِمْ ۭ

مرد عورتوں کے جملہ معاملات کے ذمہ دار اور منتظم ہیں اس لیے کہ اللہ نے ایک کو دوسرے پر فضیلت دے رکھی ہے۔ اور اس لیے بھی کہ وہ اپنے مال خرچ کرتے ہیں۔(۶)

اسلام عورت کو وہی ذمہ داریاں دیتاہے جس مقصد کے لیے وہ پیدا کی گئی ہے اور یہ ذمہ داریاں عورت کی نفسیات جسمانی ساخت اور مزاج کے عین مطابق ہیں اسلام مرد و زن کے آزادانہ میل جول کو ناپسند کرتا ہے حتی کہ نماز بھی عورتوں کی وہی افضل و پسندیدہ قرار دی گئی ہے جو گھر کے اندر ادا کی جائے۔

ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔ کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک عورت کی سب سے زیادہ پسندیدہ نماز وہ ہے جو اپنے گھرمیں سب سے زیادہ اندھیری جگہ ادا کرے(۷)

تو پھر بزنس، مخلوط مجالس، مقابلہ موسیقی، مقابلہ حسن، اشتہارات، فلموں، ڈراموں سے لے کر دفاتر، کارخانوں، ہسپتالوں اور ذرائع ابلاغ تک نسوانی حسن کی نمائش اور بے حیائی کا جواز کیسے نکل سکتا ہے، حتی کہ اللہ تعالیٰ کے قول کے مطابق عورتوں کو عام چال میں بھی احتیاط کا حکم ہے۔

وَلَا يَضْرِبْنَ بِاَرْجُلِهِنَّ لِيُعْلَمَ مَا يُخْفِيْنَ مِنْ زِيْنَتِهِنَّ

اور اپنے پاؤں زمین پر مارتے ہوئے نہ چلیں کہ جو زینت انہوں نے چھپا رکھی ہے اس کا لوگوں کو علم ہوجائے۔ (۸)

لیکن دوسری صورت میں فی زمانہ خواتین کی صلاحیتوں سے استفادہ بھی ایک قومی ضرورت بن چکا ہے اس لیے اسلام کی مقرر کردہ حدودوقیود کے اندر رہ کر راستے تلاش کئے جا سکتے ہیں۔

اسلام عریانی و فحاشی، بے پردگی اور بے حیائی کو کسی صورت میں بھی برداشت نہیں کرتا، بلکہ حیاء اور پاک دامنی کا درس دیتا ہے، ایک حدیث میں ہے۔

اَلْحَيَاءُ مِنَ الإِيمَانِ

حیاء ایمان کا حصہ ہے۔(۹)

حیاء ایک ایسا وصف ہے جسے اخلاقیات میں اہم مقام حاصل ہے حیاء کا جذبہ اگر کسی میں موجود ہو تو اس کا دل و دماغ نیکیوں کی طرف مائل رہتا ہے اور اگر حیاء رخصت ہو جائے تو آدمی کے کردار پر بند نہیں باندھا جا سکتا اس لیے اس کو ایمان کا حصہ قراردیا گیا ہے یہی وجہ ہے کہ اسلام کا معاشرتی نظام افراد پر قانونی و اخلاقی پابندیاں عائد کرتا ہے اوریہ پابندیاں دنیا کے ہر معاشرے میں لگائی جاتی ہیں تاکہ افراد کی انفرادی غلطیوں کی سزا پورے معاشرے کو نہ ملے اور وہ اپنی ذاتی رجحانات سے معاشرے میں برائی کو نہ پھیلا سکے چنانچہ اسلام میں عورتوں سے متعلق واضح احکامات موجود ہیں جن کی بدولت ذرائع ابلاغ میں عورتون کے کردار پر روشنی پڑتی ہے وقت کا اہم تقاضا ہے کہ مسلم معاشرے کے ذرائع ابلاغ مغربی ذرائع ابلاغ جس نے عورت کے صنفی جذبات کا استحصال کیا ہے کی نکالی اور ان کی تہذیب، ثقافت و تمدن کو فروغ دینے کی بجائے دین اسلام کےعطاءکردہ اعلیٰ و ارفع مقاصد کی تبلیغ و اشاعت کا ذریعہ بنیں، کیونکہ امت مسلمہ اللہ تعالیٰ کی پسندیدہ اور منتخب امت ہے نہ انسانوں کا جم غفیر نہیں بلکہ یہ ایک خاص مقصد کے لیے اٹھائی گئی ہے اور فلاح انسانیت اور بندگی رب کا قیام اس کاخاص مقصد ہے جیسا کہ آیت کریمہ:

كُنْتُمْ خَيْرَ اُمَّةٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ

(مسلمانو! اس وقت) تم ہی بہترین امت ہو جنہیں لوگوں (کی اصلاح و ہدایت) کے لیے لاکھڑا کیا گیا ہے: تم لوگوں کو بھلے کاموں کا حکم دیتے ہو اور برے کاموں سے روکتے ہو۔(۱۰)

سے واضح ہے، قرآنی تعلیمات و احادیث کے قیمتی خزانے کی حامل اس امت کے پاس حیرت انگیز صلاحیت ہے کہ یہ موجودہ دور کے مسائل کو حل کر سکتی ہے اور بنی نوع انسان کو امن و انصاف فراہم کرکے قیادت و سیادت کا فریضہ ادا کرسکتی ہے جس کی وضاحت خالق کائنات نے یوں کردی ہے۔

وَكَذٰلِكَ جَعَلْنٰكُمْ اُمَّةً وَّسَطًا لِّتَكُوْنُوْا شُهَدَاۗءَ عَلَي النَّاسِ وَيَكُـوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَيْكُمْ شَهِيْدًا

اور ہم نے تم کو ایک ایسی جماعت بنادیا ہے جو (ہر پہلو سے) نہایت اعتدال پر ہے تاکہ تم (مخالف) لوگوں کے مقابلہ میں گواہ ہو اور تمھارے لیے رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم گواہ ہوں۔(۱۱)

یعنی تم (مسلمان) لوگوں کی قیادت اور ہمیشہ ان کی رہنمائی حق اور خیر کے راستے کی طرف کرتے رہیں معلوم ہوا کہ دنیا اخلاقی بے راہ روی اور سماجی خود کشی کی جس راہ پر گامزن ہے امت مسلمہ ہی دنیا کو اس تباہی و بربادی سے بچا سکتی ہے لیکن آج امت مسلمہ کی یہ حالت ہے کہ یہ ذہنی جمود، مادی پریشانیوں، عقلی انحطاط اور علمی افلاس میں مبتلا ہے کیونکہ مغربی ذرائع ابلاغ کا اطلاعاتی سیلاب مسلمانوں کو انکی تعلیم، انداز فکر، طرزحیات، روایات، مذہبی اور اخلاقی اقدار سے بے گانہ کر رہا ہے مغربی ذرائع ابلاغ کی باگ ڈور یہودیوں کے ہاتھ میں ہے اور وہ نہیں چاہتے کہ مسلمان دنیا کی قیادت کے لیے اٹھ کھڑا ہو۔

فرنگ کی رگ جان پنجہ یہود میں ہے (علامہ اقبال)

مسلمانوں سے ان کی عداوت پر قرآن شاہد ہے:

لَتَجِدَنَّ اَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَةً لِّلَّذِيْنَ اٰمَنُوا الْيَھُوْدَ وَالَّذِيْنَ اَشْرَكُوْا

یقیناً آپ ایمان والوں کا سب سے زیادہ دشمن یہودیوں اور مشرکوں کو پائیں گے ۔(۱۲)

حقیقت یہ ہے کہ مغربی ذرائع ابلاغ کی پیش کردہ خیالی دنیا نے مسلمانوں کو نہ صرف عیش و آرام کا عادی بنا دیا ہے بلکہ ان کی روح و دل کو مردہ کر دیا ہے حتی کہ عربی معاشروں کے مسلمان بھی اپنے عقائد، رسم و رواج اور دینی فرائض کو پس پشت ڈال رہے ہیں۔ مسلمانوں کے دشمن جانتے ہیں کہ عالم رنگ و بو میں معدے کے گرفتار اور شہوت کے شکار اور نسوانی حسن کے پر ستار افراد کی کوئی قدر و قیمت نہیں ہوتی، چنانچہ یہ ادارے مسلمانوں کو سہل پسند بنا کر ان کی پوشیدہ توانائیوں کا پامال کرہے ہیں اس مقصد کے لیے انہوں نے عورت کی نسوانیت کا بھر پور استحصال کیا ہے، ریڈیو پر گانے بجانے ہوں یا اخبارات کی رنگین تصویریں یا ٹیلی ویژن پر خواتین کے متحرک سراپے، ذرائع ابلاغ نے فلموں، ڈراموں، خبروں اور اشتہاروں میں ہر جگہ یہ طے کر لیا ہے کہ ہر نو جوان کے ذہن پر عورت کو سوار کر کے چھوڑنا ہے یہ ایک اہم تدبیر ہے مسلم معاشرے میں مغربیت کے فروغ کی، سید ابوالاعلیٰ مودودی لکھتے ہیں کہ ’’ مغرب کی تہذیب کے علمبرداروں نے ’’ عورت بگاڑ تحریک‘‘ شروع کر کے ہماری خانہ بربادی کے لیے سرگرمی سے کام شروع کر رکھا ہے پہلے اس نے ارباب دولت جاہ کے خاندانوں کو نشانہ بنایا ہے اور اب انکی مدد سے درمیانی اور غریب طبقے کی خواتین کو گھروں سے نکال کر تفریح و نشاط کی محفلوں کی رونق بنانے، مردوں کی حوس انگیزی کے لیے ثقافتی اسٹیج پر رقص کرانے اور فیشن پرستی اور عریانی پسندی کی رو چلانے کی مہم جاری ہے اسی خرابیء احوال کے لیےترقی نسواں اور مساوات مردو زن کے خوبصورت عنوانات تحریر کئے جاتے ہیں۔ مسلمان معاشروں کی اخلاقی اور معاشرتی تباہی کے منصوبہ کی علمبرداری بھی یہودی فتنہ گر بڑے گہرے سازشی انداز میں کر رہے ہیں۔ (۱۳)

عورتوں کو آزادیء نسواں اور مردوں کے شانہ بشانہ کام کرنے کا پر فریب نعرہ دے کر مغربی داناؤں نے خاتون خانہ کو یوتھ فیسٹیول، کھیلوں، شوبزنس، ناچ گھروں، نائٹ کلبوں اور عالمی مقابلہ ء حسن میں لاکھڑا کیا ہے جہاں عورت اپنی فطری شرم وحیا سے عاری ہو کر تماش بینوں کے لیے ایک تماشہ بن گئی ہے۔ ذرائع ابلاغ اس تماشے کو پیش کرنے میں پیش پیش ہیں، موجودہ ذرائع ابلاغ نے عورت کی بے حیائی اور آوارگی کو فن، آرٹ، ثقافت، گلیمر، جیسے خوبصورت نام دئیے ہیں تاکہ کسی کو اس آزادی پر اعتراض نہ ہو اور یہ آزادی آرٹ اور شوبزنس کے حوالے سے جائز قرار دے دی جائے۔ اسی پر بس نہیں بلکہ جدید معاشرے میں عریانی و فحاشی اور بے حیائی پھیلانے میں بصری ذرائع ابلاغ نے گھر گھر نقب لگائی ہے ہر پروگرام میں عورتیں کھلے بال، کھلے بازو، باریک لباس، ننگی پنڈلیوں اور نیم عریاں سینے کی نمائش کرتی دکھائی دیتی ہیں جبکہ اسلام میں  باریک پوشاک کے بارے میں سخت وعید وارد ہے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ اسماء بنت ابی بکر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اس حال میں کہ اس نے تنگ اور باریک لباس پہنا ہوا تھا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے رخ موڑ لیا اور فرمایا اے اسماء عورت جب جوان ہو جائے تو اس کے لیے مناسب نہیں کہ سوائے چہرے اور ہتھیلیوں کے دوسرے اعضاء نظر آئیں۔ (اور یہ واقع پردے کے حکم سے پہلے کا ہے) (۱۴)

اسی طرح مختلف پروگراموں میں مخلوط مجالس، مخلوط رقص اور مخلوط نقل و حرکت کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔ مردوں اور عورتوں کے آزادانہ اختلاط نے عورتوں میں حسن کی نمائش کے جذبے کو اجاگر کیا ہے، چنانچہ اب خوشبوئیات، زیورات، نیم عریاں لباس اور میک اپ سے مزین خواتین مردوں کی ہر محفل میں صنفی میلانات کو بھڑکا رہی ہیں، جو حکم خداوندی سے کھلم کھلا بغاوت کے مترادف ہے۔

ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ عورت جب نا محرم مرد کے سامنے آتی ہے تو شیطان کے روپ میں آتی ہے۔ (۱۵)

ستم ظریفی یہ کہ کسی بھی تجارتی کا روبار کے اشتہار کو دیکھ لیجئے عورت کی برہنہ تصویر اس کا جزو لانیفک ہو گی گویا عورت کے بغیر کوئی اشتہار اشتہار نہیں ہو سکتا، ہوٹل، ریسٹورینٹ، شوروم کوئی جگہ آپ کو ایسی نہ ملے گی جہاں عورت اس غرض سے نہ رکھی گئی ہو کہ مرد اس کی طرف کھینچ کر آئیں۔(۱۶)

جس سے اس امر کی وضاحت ہو تی ہے کہ دور حاضر میں عورت ایک بڑے فتنہ کی صورت اختیار کر گئی ہے جو دنیا کی تباہی و بربادی کا ذریعہ بن رہی ہے اور یہ صرف آج کا فتنہ نہیں بلکہ عیش کو شی کا مرکزی اساس ہمیشہ کے لیے عورت ہی رہی ہے تاریخ عالم کے حوالے سے یونانیوں میں جب نفس پرستی اور شہوانیت عروج پر پہنچ گئی تو طوائف کلچر کو فروغ حاصل ہوا اسی طوائف کلچر کو روم کے تمدنی عروج کے دور میں بھی فروغ ملا بقول سید مودودی تاریخ اس امر کی گواہ ہے کہ اس دور کے بعد یونانی قوم کو زندگی کا کوئی دوسرا دور پھر نصیب نہیں ہوا اور بہیمی خواہشات سے اس قدر مغلوب ہو جانے کے بعد روم کا قصر عظمت ایسا متزلزل ہو کر گرا کہ پھر اس کی ایک اینٹ اپنی جگہ پر قائم نہ رہی۔(۱۷)

آج یورپ بھی اسی ہولناک بربادی کی طرف رواں دواں ہے فرق صرف یہ ہے کہ یونان اور روم کی تباہی قومی اورعلاقائی تھی لیکن یورپ اپنی تباہی کے ساتھ دنیا کے ایک بڑے خطے کو بھی ساتھ پیوند خاک کرے گا، اسی لیے برربادی کی اسی عظیم فتنہ میں پڑنے سے بچنے کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو آگاہ کر کے ارشاد فرمایا کہ میں کو ئی فتنہ اپنے بعد مردوں کے لیے عورتوں سے بڑھ کر نقصان دہ نہیں چھوڑ رہا۔ (۱۸)

مطبوعہ ذرائع ابلاغ میں اخبارات اور رسائل عورتوں کی بڑی بڑی غیر خبری تصاویر شائع کر کے بے مقصدیت کو فروغ دے رہے ہیں شیونگ کریم، بلیئرڈ، چائے، سگریٹ، ٹوتھ پیسٹ اور کھاد کے اشتہار میں بھی خواتین کی موجودگی کامیابی کی ضمانت تصور کی جاتی ہے، ذرائع ابلاغ کے ذریعے عورتوں کی نمائش ایک کاروبار کی شکل اختیار کر گئی ہے۔ اس قبیح اور پر خطر و شر انگیز فعل میں حسن خلق اور عصمت و عفت سے عاری سرمایہ دار گروہ کا ہاتھ ہے جو متاع قلیل کے عوض میں اپنی عاقبت تباہ کر رہے ہیں جن کے بارے میں سید ابو الاعلیٰ مودودی لکھتےہیں:

خود غرض سرمایہ داروں کا ایک لشکر ہے جو ہر ممکن تدبیر سے عوام کی شہوانی پیاس کو بھڑکانے میں لگا ہوا ہے اور اس ذریعے سے اپنے کاروبار کو فروغ دے رہا ہے روزانہ اور ہفتہ وار اخبارات، مصور جرائد اور نصف ماہی اور ماہوار رسالے انتہا درجے کے فحش مضامین اور شرمناک تصویریں شائع کرتے ہیں کیونکہ اشاعت بڑھانے کا یہ سب سے مؤثر ذریعہ ہے اس کام میں اعلیٰ درجہ کی ذہانت فنکاری اور نفسیات کی مہارت صرف کی جاتی ہےتاکہ شکار کسی طرف سے بچ کر نہ جاسکے۔ (۱۹)

حالانکہ تصویر کی قباحت، نحوست اور اس کی تحریم کے بارے میں شریعت میں واضح احکامات موجود ہیں۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جبرئیل علیہ السلام فرماتے ہیںکہ تین چیزیں اگر کسی گھر میں موجود ہوں تو فرشتہ اس گھر میں کبھی نہیں جاتا ان میں سے ایک کتا دوسری جنبی اور تیسری ذی روح کی تصویر۔ (۲۰)

مزید ستم بالائے ستم یہ کہ ذرائع ابلاغ کے ذریعے عورتوں کی طرف سے بازؤوں، سینے، پنڈلیوں اور زلفوں کی کھلی نمائش سے معاشرے میں بد نظری اور جنسی راہ روی کو فروغ ملا ہے، حقیقت یہ ہے کہ بدکاری کی ترغیب فرنگی تہذیب کی بھونڈی نقل ہے جو مسلم معاشروں میں ذرائع ابلاغ کے ذریعے جان بوجھ کر ایک سوشے سمجھے منصوبے کے تحت فروغ دی جا رہی ہے نیز ذرائع ابلاغ پر عورتوں کے جسمانی حسن کی نمائش سے ایک طرف تو عورتوں کے فطری شرم و حیا کے تقاضوں کو دبایا جا رہاہے اور عیش و آرام پوشی کو مقصد تخلیق آدم بتایا جا رہا ہے اور دوسری طرف معاشرے میں بد نظری کے ساتھ ساتھ بدکاری بد اعتقادی معاشرتی و نفسیاتی مسائل اور جنسی بیماریاں بھی پیدا ہو رہی ہیں لہذا عورت کو مغربی ذرائع ابلاغ جیسے صنفی جذبات کے استحصال سے بچانے اور اسے باوقار حسن و خوبی اور عزت و تکریم کی زیور سے آراستہ کرنے کے لیے اسلام کی عطا کردہ سنہری اصولوں پر کار بند رہنے کی جدوجہد کرنی ہوگی تاکہ ان کے اپنانے سے موجودہ ہولناک تباہی سے بچنے کی کوئی کارگر صورت نکل آئے اور یہ مظہر من الشمس ہے کہ عورت کو یہ سعادت اسلامی معاشرے ہی سے نصیب ہو سکتی ہے۔

عورت اسلامی معاشرے میں:

تاریخی نقطہ نظر سے یہ امر واضح ہے کہ طلوع اسلام سے قبل عورت کو معاشرے میں باعزت مقام حاصل نہ تھا بلکہ عورت کو نفرت و حقارت سے دیکھا جاتا تھا یہاں تک کہ لڑکی کے پیدا ہوتےہی اسے زندہ دفنا دیا جاتا تھا جس کا قرآن میں یوں ذکر ہے۔

وَاِذَا الْمَوْءٗدَةُ سُىِٕلَتْ،بِاَيِّ ذَنْۢبٍ قُتِلَتْ

اور زندہ درگور لڑکی سے پوچھا جائے گا،کہ وہ کس جرم میں ماری گئی تھی؟(۲۱)

علامہ شبلی نعمانی اس بارے میںلکھتےہیں: کہ زمانہ جاہلیت میں عورتیں انسان اور حیوان کےدرمیان ایک مخلوق سمجھی جاتی تھی جن کا مقصد صرف نسل انسانی کی ترقی اور مرد کی خدمت کرنا تھا اس لیے لڑکیوں کی پیدائش باعث ندامت سمجھی جاتی تھی اور ان کے پیدا ہوتے ہی زندہ دفن کر دیا جاتا تھا۔(۲۲)

بازاروں میں جانوروں کی طرح اس کی خرید و فروخت ہوتی وہ مرد کے تابع تھی اس کی کوئی مستقل حیثیت نہ تھی اور نہ ہی اس کے کوئی معاشرتی حقوق تھے اسلام نے سب سے پہلے عورت کی محکومی کے خلاف صدائے احتجاج بلند کیا اور عورت کو معاشرے میں عزت و احترام بخشا اور کہا کہ سارے انسان ایک اللہ کے بندے اور ایک ماں باپ کی اولاد ہیں لہذا بحیثیت انسان مرد اور عورت یکساں عزت و احترام کے مستحق ہیں۔(۲۳)

اسلام نے مالی، دیوانی، جوجداری اور قانونی حقوق میں عورت کو مرد کے برابر رکھا ہے عورت مرد کی طرح مال و جائیداد کی مالک بن سکتی ہے اور اسے فروخت بھی کر سکتی ہے۔ ارشاد الٰہی ہے:

لِلرِّجَالِ نَصِيْبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدٰنِ وَالْاَقْرَبُوْنَ ۠ وَلِلنِّسَاۗءِ نَصِيْبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدٰنِ وَ الْاَقْرَبُوْنَ مِمَّا قَلَّ مِنْهُ اَوْ كَثُرَ ۭ نَصِيْبًا مَّفْرُوْضًا

مردوں کے لیے اس مال سے حصہ ہے جو والدین اور قریبی رشتہ دار چھوڑ جائیں (اسی طرح) عورتوں کے لیے بھی اس مال سے حصہ ہے جو والدین اور قریبی رشتہ دار چھوڑ جائیں ۔ خواہ یہ ترکہ تھوڑا ہو یا زیادہ ہو ۔ ہر ایک کا طے شدہ حصہ ہے۔ (۲۴)

اسی طرح قصاص لے سکتی ہے ہر قسم کا دعویٰ دائر کر سکتی ہے اسے خلع کا حق دیا گیا ہے غرض اس میں کوئی شک نہیںکہ عورت اپنے انسانی حقوق میں مرد کے برابر ہے عورت ایک علیحدہ مستقل شناخت رکھتی ہے لیکن صنفی اعتبار سے فطرت نے اسے مرد سے جدا کر دیا ہے چنانچہ اسلام نے خاندانی زندگی میں مرد کو برتری دے کر عورت کو نان نفقہ، رہائش، مہر، حفاظت اور تعلیم و تربیت وغیرہ کے بہت سے حقوق دیئے ہیں۔ ان حقوق کی ادائیگی میں مرد کوتاہی کرے تو عورت عدالت سے رجوع کر سکتی ہے۔

وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِيْ عَلَيْهِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ ۠ وَلِلرِّجَالِ عَلَيْهِنَّ دَرَجَةٌ   ۭ وَاللّٰهُ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ

اور عورتوں کے بھی مناسب طور پر مردوں پر حقوق ہیں جیسا کہ مردوں کے عورتوں پر ہیں ۔ البتہ مردوں کو ان پر ایک درجہ حاصل ہے۔ اور (یہ احکام دینے والا) اللہ تعالیٰ صاحب اختیار بھی ہے اور حکمت والا بھی۔ (۲۵)

دستور کے مطابق یعنی جو شریعت سے معلوم ہو مثلاً نکاح وغیرہ کے حقوق ادا کرنا اور حسن سلوک سے رہنا اور مردوں کو عورتوں پر فوقیت ہے یعنی مردوں کا حق اور مرتبہ زیادہ ہے ۔ ایک حدیث میں ہے کہ ایمان والوں میں سب سے کامل ایمان اس شخص کا ہے جس کےاخلاق سب سے اچھے ہوں اور جو اپنے بچوں سے زیادہ لطف و محبت سے پیش آئے۔ (۲۶)

اسلامی نظام معاشرت میں عورت کو گھر کی اور مرد کو باہر کی ذمہ داری اٹھانی ہے اس لیے دونوں کے دائرہ کار اور ذمہ داریوں میں بڑا فرق ہے عورت پر گھریلو اخراجات کی ذمہ داری ڈالنے کی بجائے اسلام میں اسے معاشی ضمانت دی ہے اور سماجی و معاشرتی لحاظ سے اسے بہت اعلیٰ مقام عطا کیا ہے وہ گھر کی مالکہ اور منتظم ہے اسے باہر کی دنیا آباد کرنے کی فکر میں گھر نہیں اجاڑنا چاہیے اسلام کے نزدیک عورت شمع محفل نہیں چراغ خانہ ہے اور اسکا نبیادی فریضہ بچوں کی تعلیم و تربیت اور ان میں اعلیٰ اخلاقی صفات پیدا کرنا ہے اسلام کہتا ہے کہ خانگی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے بعد عورت اپنے حالات اور ذوق کے لحاظ سے زندگی کے دیگر میدانوں میں بھی دلچسپی لے سکتی ہے لیکن اسلام کے متعین کردہ حدود و قیود کے ساتھ۔

اسلام نے ایک طرف تو عورت کے تما م حقوق ازروئے قانون محفوظ کر دئے ہیں اور دوسری طرف پورے معاشرے کو اس سے بہتر سے بہتر سلوک کا حکم دیا ہے اسلام معاشرے میں ایسی فضاء پیدا کرنا چاہتا ہے جس سے عورت جس حیثیت سے بھی زندگی بسر کرے وہ عزت و احترام کےساتھ رہے معاشرے میں عورت کی چار نمایاں حیثیتیں ہیں ماں، بیوی، بہن اور بیٹی اسلام نے ان سب حیثیتوں کو نمایاں اور اہم مقام دیاہے اور ان تمام میں ماں کو سب رشتوں سے افضل قرار دیاہے سیدنا ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر کہنے لگا کہ مجھے کس کے ساتھ حسن معاملہ اور محبت کرنا بہتر ہے فرمایا ماں کے ساتھ اس نےکہا پھر کس کے ساتھ فرمایا کہ ماں کے ساتھ اس نے کہا پھر کس کے ساتھ فرمایا ماں کے ساتھ اس نے کہا پھر کس کے ساتھ فرمایا باپ کے ساتھ۔(۲۷)

غرض اسلام نے عورتوں کو معاشرے میں باعزت مقام دیا ہے اور ان پر گھریلو امور اور تربیت اولاد کی ذمہ داری ڈالی ہے تاکہ وہ ایسے بااخلاق افراد تیار کریں جو معاشرے کےلیے بہترین افراد ثابت ہو سکیں۔

اسلام میں مخلوط تعلیم یا معاشرے میں آزادانہ اختلاط مرد و زن کی قطعاً گنجائش نہیں، کیونکہ جہاں بھی یہ اجازت دی گئی ہے ان معاشروں میں بھیانک نتائج سامنے آئے ہیں مثلاً تحفظ نسب، جس کی اسلام نے ضمانت دی ہے یورپی معاشروں میں اس کی کوئی گارنٹی نہیں رہتی ڈاکٹر اسپنسر گزشتہ صدی کا بہت بڑا فلاسفر ہوا ہے اب تو یورپ کی آبادی بہت زیادہ ہے اس وقت صرف چالیس، پینتالیس لاکھ تھی وہ کہتا ہے کہ یورپی قانون پر لعنت ہو کہ پینتالیس لاکھ میں سےیقین کے ساتھ پینتالیس آدمی بھی حلال نہیں نکالے جا سکتے یہاں کا قانون ایسا گندہ ہے مگر اسلام نسب کی حفاظت کرتا ہے قرآن و سنت میں اس کے متعلق بہت سے قانون موجود ہیں۔ (۲۸)

اسلام عورت کی عفت و عصمت کے بارے میں بڑا حساس واقع ہوا ہے اسی لیے اسلام نے عورت و مرد کے لیے علیحدہ میدان کا ر تجویز کیے ہیں کیونکہ دونوں کی قوتیں صلاحیتیں اور مزاج ایک دوسرے سے مختلف ہیں عورت کے مزاج رجحان اور نفسیات کا تقاضا ہے کہ اس پر مرد کے کم بوجھ ڈالا جائے سید جلال الدین عمری لکھتے ہیں کہ ’’عورت گھر کی مالکہ ہے وہاں اسے باپ بھائی، شوہر، اولاد اور خاندان والوں کی محبت بھی حاصل ہوتی ہے اور اس کے حقوق و اختیارات بھی محفوظ ہوتے ہیں عورت اگر گھر کی ذمہ داری نہ اٹھائے تو وہ ان حقوق کا دعویٰ نہیں کرسکتی اس کے بعد اسے زندگی گزارنے کے لیے ایک ایسے میدان میں کام کرنا ہو گا جو حقیقت میں اس کا میدان نہیں ہے اور جہاں سے اپنے سے زیادہ طاقتور حریف کا قدم قدم پر مقابلہ کرنا پڑے گا۔‘‘(۲۹)

اسی لیے اسلام کہتا ہے کہ عورت کے لیے عزت و احترام کا مقام باز ارنہیں بلکہ گھر ہے، کیونکہ گھر ہی ایسی جگہ ہے جہاں عورت کی عزت و آبرو محفوظ ہوتی ہے اسلام عورتوں کو ایسا احترام فراہم کرتا ہے کہ انہیں ترقی اور جدیدیت کے نام سے فریب دے کر مختلف تفریحوں آرٹ، ثقافتی مجلسوں، شوبزنس اور قومی اداروں میں مردوں کی تفریح اور نگاہ ہوس کی تسکین کے لیے استعمال نہ کیا جائے۔

محترمہ ام زبیر لکھتی ہے ’’ عورت کو جن مصلحتوں کے تحت اسلام نے حجاب شرعی میں رکھا ہے ان میں ایک بڑی مصلحت یہ بھی ہے کہ کم از کم وہ سینہ تو نور ایمان سے منور رہے جس سے ایک مسلمان بچہ دودھ پیتا ہے کم از کم وہ گود تو کفر اور فساد اخلاق و اعمال سے محفوظ رہے جس میں ایک مسلمان پرورش پاتا ہے۔ مگر افسوس کہ اب یہ قلعہ بھی ٹوٹ رہا ہے۔فرنگیت کی وبا(ٹی وی کی صورت) گھروں کےاندر بھی پہنچ رہی ہے۔ (۳۰)

یہی وجہ ہے جہ مغرب کی عورت نے جب گھر سےقدم باہر رکھا تو اس نے اپنی گھریلو زندگی اور اپنے گھریلو اقتدار کو بھی کھو دیا اور باہر کی دنیا میں بھی ایک ’’ شو پیس‘‘ بن کر رہ گئی، نتیجہ یہ ہے کہ وہ تباہی اور ذلت کے اس موڑ پر پہنچ چکی ہے جہاں سے اس کی واپسی ناممکن ہے۔ اس نے نہ صرف اپنی ذات کو نقصان پہنچایا بلکہ معاشرے کو بھی تباہ و برباد کر دیا ہے اب اس کے پاس ایک ہی راستہ ہے کہ وہ رب ذوالجلال کے عطاءکردہ حدود و قیود کو اپنا لیں کیونکہ اسلام عورت کو وہ مقام دیتا ہے جس کا بدل دنیا کے کسی مذہب اور نظام میں نہیں اور اس ارفع و اعلیٰ مقام کے حصول کے لیے اسلام نے اسے واضح احکام دیئے ہیں جن میں سے چند ذیل ہیں:

مسلمان عورتوں سے متعلق قرآن و حدیث کے احکامات:

قرآن پاک اور احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں متعدد بار مسلمان عورتوں کے لیے احکامات بیان کیے گئے ہیں جن میں انہیں ان تمام فرائض سے سبکدوش کر دیا گیا ہے جو بیرون خانہ کےامور سے تعلق رکھنے والے ہیں۔ اسلام نے عورت کو گھر کی ملکہ بنایا ہے اور کسب مال کی ذمہ داری شوہر پر ہے جیساکہ مذکور ہوا لیکن بعض  صورتوں میں جبکہ معاشی قلت، بیماری، معذروی یا سر براہ خاندان کی وفات و مفلسی کی صورت ہو اور عورت باہر کام کرنے پر مجبور ہوجائے تو ایسی صورت میں گنجائش ہے کہ عورت گھر سے باہر کام کر سکتی ہے۔ حدیث پاک میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تم کو اجازت دی ہے کہ تم اپنی ضروریات کے لیے گھر سے نکل سکتی ہو۔ (۳۱)

ساتھ ہی باہر نکلنے کی صورت بھی بتادی :

وَقُلْ لِّلْمُؤْمِنٰتِ يَغْضُضْنَ مِنْ اَبْصَارِهِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوْجَهُنَّ

اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم مومن عورتوں سے کہہ دو کہ اپنی نگاہوں کو باز رکھیں اور شرمگاہ کی حفاظت کریں۔(۳۲)

يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِكَ وَبَنٰتِكَ وَنِسَاۗءِ الْمُؤْمِنِيْنَ يُدْنِيْنَ عَلَيْهِنَّ مِنْ جَلَابِيْبِهِنَّ ۭ ذٰلِكَ اَدْنٰٓى اَنْ يُّعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ ۭ وَكَانَ اللّٰهُ غَفُوْرًا رَّحِيْمًا

اے نبی! اپنی بیویوں، اپنی بیٹیوں اور مومنوں کی عورتوں سے کہہ دیجئے کہ وہ اپنی چادروں کے پلو اپنے اوپر لٹکا لیا کریں ۔ اس طرح زیادہ توقع ہے کہ وہ پہچان لی جائیں اور انھیں ستایا نہ جائے اور اللہ تعالیٰ معاف کرنے والا، رحم کرنے والا ہے۔(۳۳)

اِنِ اتَّــقَيْتُنَّ فَلَا تَخْـضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَيَطْمَعَ الَّذِيْ فِيْ قَلْبِهٖ مَرَضٌ وَّقُلْنَ قَوْلًا مَّعْرُوْفًا

اگر تم اللہ سے ڈرتی ہو تو (کسی نامحرم سے) دبی زبان سے بات نہ کرو، ورنہ جس شخص کے دل میں روگ ہے وہ کوئی غلط توقع لگا بیٹھے گا لہذا صاف سیدھی بات کرو۔(۳۴)

وَقَرْنَ فِيْ بُيُوْتِكُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَــبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ الْاُوْلٰى

اور اپنے گھروں میں قرار پکڑے رہو، پہلے دورِ جاہلیت کی طرح اپنی زیب و زینت کی نمائش نہ کرتی پھرو۔(۳۵)

وَاِذَا سَاَلْتُمُوْهُنَّ مَتَاعًا فَسْـَٔــلُوْهُنَّ مِنْ وَّرَاۗءِ حِجَابٍ ۭ ذٰلِكُمْ اَطْهَرُ لِقُلُوْبِكُمْ وَقُلُوْبِهِنَّ ۭ

اور جب تمہیں ازواج نبی سے کوئی چیز مانگنا ہو تو پردہ کے پیچھے رہ کر مانگو ۔ یہ بات تمہارے دلوں کے لئے بھی پاکیزہ تر ہے اور ان کے دلوںکے لئے بھی۔ (۳۶)

وَلَا يُبْدِيْنَ زِيْنَتَهُنَّ اِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلٰي جُيُوْبِهِنَّ ۠ وَلَا يُبْدِيْنَ زِيْنَتَهُنَّ

اور اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں مگر جو از خود ظاہر ہو جائے۔ اور اپنی اوڑھنیاں اپنے سینوں پر ڈال لیا کریں اور اپنے بناؤ سنگھار کو ظاہر نہ کریں۔ (۳۷)

وَلَا يَضْرِبْنَ بِاَرْجُلِهِنَّ لِيُعْلَمَ مَا يُخْفِيْنَ مِنْ زِيْنَتِهِنَّ

اور اپنے پاؤں زمین پر مارتے ہوئے نہ چلیں کہ جو زینت انہوں نے چھپا رکھی ہے اس کا لوگوں کو علم ہوجائے۔ (۳۸)

ان آیت کریمہ کے علاوہ اس ضمن میں چنداحادیث کا حوالہ بھی ملاحظہ ہو: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو عورتیں کپڑے پہن کر بھی ننگی رہیں (یعنی کپڑے تنگ اور باریک ہوں) وہ جنت میں ہرگز داخل نہیں ہونگی اور نہ اس کی خوشبو پائیں گی۔ (۳۹)

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہ عورت سراپا پردہ ہے جب وہ گھر سے نکلتی ہے تو شیطان اسے گھورتا ہے اور وہ اللہ کی رحمت کے قریب اس وقت ہوتی ہے جب اپنے گھر میں ہو، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے جو عورت عطر لگا کر مردوں کے درمیان سے گزرے وہ آوارہ قسم کی عورت ہے۔ (۴۰)

ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ کسی عورت کے لیے حلال نہیں کہ وہ بلا خاوند یا کسی محرم مثل باپ، بیٹا، بھائی وغیرہ کے حج کرے۔ (۴۱)

کیونکہ حج کی ادائیگی میں طویل سفر پر جانا پڑ جاتاہے جس کی وجہ سے خرابی پڑنے کا قوی احتمال ہے لہذا اس سے بچنے کی خاطر یہ شرط عائد کی گئی، شیخ ولی الدین کے مطابق حدیث میں سیدنا جابررضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا کہ خبردار کوئی مرد کسی جوان عورت کے ساتھ تنہائی میں رات بسر نہ کرے بجز شوہر اور محرم کے۔ (۴۲)

اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عورتوں کو مساجد جانے سے مت روکو لیکن ان کے لیے گھر بہترین جگہ ہے۔ (۴۳)

غرض ان قرآنی آیات اور احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ عورت کا حقیقی دائرہ کار گھر کی چار دیواری ہے جہاں اس نے سکون و اطمینان سے اپنے فرائض انجام دینے ہیں گویا عورتوں کا بن ٹھن کر باہر نکلنا چست اور عریاں لباس پہننا مخلوط مجالس میں شرکت کرنا اور پری پیکر بن کر مردوں کو دعوت نظارہ دینا اسلام کےنزدیک سخت ناپسندیدہ ہے۔ اسلام چاہتا ہے کہ انسان کا اخلاق اور عصمت محفوظ رہے۔

مندرجہ بالا احکامات کسی انسانی فکر و فلسفہ کی پیداوار نہیں بلکہ رب کائنات کے نازل کردہ ہیں لہذا ان پر عمل کرنا ایک سچے مسلمان کا فرض ہے کیونکہ ان احکامات کے بغیر ایک منظم خاندان پاکیزہ معاشرے اور اعلیٰ تہذیب کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔

المراجع والمصادر

(۱) المنجد عربی اردو ص 691 دارالاشاعت کراچی

(۲)نفیس الدین، ابلاغ عامہ اور دور جدید کراچی

(۳)شیخ ولی الدین محمد الخطیب التبریزی، المشکوٰۃ المصابیح، ج 2 ص 431 جامع مسجد دہلی

(۴)القرآن (الاحزاب 32)

(۵)صحیح مسلم باب اباحۃ الخروج للنساء القضاء حاجۃ الانسان، ج2،ص 215 آرام باغ کراچی

(۶)القرآن (النساء 34)

(۷)سنن ابی داؤد کتاب الصلوٰۃ، ج 1 ، ص 84 کراچی

(۸)القرآن ( النساء31)

(۹)مشکوٰ ۃ المصابیح ،ج 2، ص 43

(۱۰)القرآن (آل عمران 110)

(۱۱)القرآن (البقرۃ 143)

(۱۲)القرآن (المائدۃ 82)

(۱۳)سید ابوالاعلیٰ مودودی، عورت اسلام کی نظر میں، ص 1 مکتبہ منصورہ لاہور

(۱۴)مشکوٰۃ المصابیح کتاب اللباس ، ج 2 ، ص 377

(۱۵)سنن ابی داؤد ، ج 1 ص 92

(۱۶)سید ابوالاعلیٰ مودودی ، پردہ، ص 17 لاہور

(۱۷)سید ابوالاعلیٰ مودودی ، پردہ، ص 18 لاہور

(۱۸)صحیح بخاری ، کتاب النکاح، باب الاکفاء فی المال، ج 2،ص 763 قدیمی کتب خانہ کراچی

(۱۹)سید ابوالاعلیٰ مودودی ،عورت اسلام کی نظر میں، ص1 7 لاہور

(۲۰)صحیح مسلم ، ج 2، ص 119

(۲۱)القرآن ( التکویر 9)

(۲۲)شبلی نعمانی، سیرت النبوی صلی اللہ علیہ وسلم ، ج4،ص 286

(۲۳)شبلی نعمانی، سیرت النبوی صلی اللہ علیہ وسلم ، ج4،ص 286

(۲۴)القرآن (النساء 7)

(۲۵)القرآن ( البقرۃ 228)

(۲۶)مشکوٰۃ المصابیح ، ج 2 ، ص 282

(۲۷)تجرید الصحیح البخاری ، ص 487، محمد سعید اینڈ سنز تاجران کتب مولوی مسافر خانہ کراچی

(۲۸)صوفی عبد الحمید سواتی، معالم القرآن فی دروس القرآن، ج 2، ص 169 گجرانوالہ

(۲۹)سید جلال الدین عمری، عورت اور اسلام ص 24

(۳۰)ماہنامہ فاران، امہ زبیر ، ص 49 کراچی

(۳۱)صحیح مسلم باب اباحۃ الخروج النساء بقضاء الحاجۃ  الانسان، ج2،ص1 25

(۳۲)القرآن ( النور 31)

(۳۳)القرآن ( الاحزاب 59)

(۳۴)القرآن ( الاحزاب 32)

(۳۵)القرآن ( الاحزاب33)

(۳۶)القرآن ( الاحزاب 53)

(۳۷)القرآن ( النور 31)

(۳۸)القرآن ( النور 31)

(۳۹)صحیح مسلم ،ج 2، ص 205

(۴۰)سنن الترمذی ،ج 2، ص 102

(۴۱)صحیح بخاری، ج 1، ص 434

(۴۲)مشکوٰۃ المصابیح، کتاب النکاح باب النظر وبیان العورات ، ج 2، ص 268

(۴۳)سنن ابی داؤد، کتاب الصلوٰۃ ،ج 1، ص 84

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے