رمضان المبارک ایک ایسا مہینہ کہ جس میں اللہ جنت کے دروازے کھول دیتا ہے۔ جہنم کے دروازے بند کر دیتا ہے اور شیطان کو جکڑ دیتا ہے تاکہ وہ اللہ کے بندوں کو اس طرح گمراہ نہ کرسکے جس طرح عام دنوں میں کرتا ہے۔ ایسا مہینہ کہ جس میں اللہ سب سے زیادہ اپنے بندوں کو جہنم سے آزادی کا انعام دیتا ہے، جس میں خصوصی طور پر اللہ اپنے بندوں کی مغفرت کرتا اور ان کی توبہ اور دعائیں قبول کرتا ہے۔ تو ایسے عظیم الشان مہینے کا پانا یقیناً اللہ کی بہت بڑی نعمت ہے اور اس نعمت کی قدر و منزلت کا اندازہ آپ اسی بات سے کرسکتے ہیں کہ سلف صالحین رحمہم اللہ چھ ماہ تک یہ دعائیں کرتے تھے کہ یا اللہ ہمیں رمضان المبارک کا مہینہ نصیب فرما، پھر جب رمضان المبارک کا مہینہ گزرجاتا تو اس بات کی دعا کرتے کہ اے اللہ ہم نے اس مہینے میں جو عبادات کیں توا نہیں قبول فرما کیوں کہ وہ اس بات کو جانتے تھے کہ یہ مہینہ کس قدر اہم ہے۔(لطائف المعارف ص 280)

لہذا ہمیں بھی اس مہینے کو غنیمت سمجھتے ہوئے اس کی برکات سے بھر پور فائدہ اٹھانا چاہیے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین جب رمضان المبارک کا مہینہ شروع ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کے آنے کی بشارت سناتے اور انہیں مبارک باد دیتے۔ جیساکہ سیدنا ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان المبارک کی آمد کی بشارت سناتےہوئے فرمایا: تمہارے پاس ماہ رمضان آ چکا جو کہ بابرکت مہینہ ہے اللہ تعالیٰ نےتم پر اس کے روزے فرض کیے ہیں اس میں جنت کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کر دئیے جاتے ہیں اور اس میں سرکش شیطان جکڑ دئیے جاتے ہیں اور اس میں اللہ کی ایک ایسی رات ہے جو ہزار مہینوں سے افضل ہے جو شخص اس کی خیر سے محروم رہ جائے وہی دراصل محروم ہوتاہے۔

(النسائی :2106، صحیح الجامع الصغیر للالبانی:55)

جہنم سے آزادی:

اس مبارک مہینے میں اللہ تعالیٰ اپنے بہت سارے بندوں کو جہنم سے آزادی نصیب کرتاہے۔ جیساکہ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بیشک اللہ تعالیٰ ہر افطاری کے وقت بہت سے لوگوں کو جہنم سے آزاد کرتا ہے اور ایسا ہر رات کرتاہے۔

(ابن ماجہ 1643، صحیح الجامع الصغیر للالبانی : 2170)

اور سیدنا ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بیشک اللہ تعالیٰ (رمضان المبارک میں) ہر دن ہر رات بہت سے لوگوں کو جہنم سے آزاد کرتا ہے اور ہر دن ہر رات ہر مسلمان کی ایک دعا قبول کی جاتی ہے۔ (صحیح الترغیب والترہیب للالبانی : 1002)

ان احادیث کے پیش نظر ہمیں اللہ تعالیٰ سے خصوصی طور پر یہ دعا کرنی چاہیے کہ وہ ہمیں بھی اپنے ان خوش نصیب بندوں میں شامل فرما لے جنہیں وہ اس مہینے میں جہنم سے آزاد کرتا ہے کیونکہ یہی اصل کا میابی ہے۔

سیدناابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب ماہ رمضان کی پہلی رات آتی ہے تو شیطانوں اور سرکش جنوں کو جکڑ دیا جاتاہے۔ جہنم کے دروازے بند کر دئیے جاتے ہیں اور اس کا کوئی دروازہ کھلا نہیں چھوڑا جاتا اور جنت کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں اور اس کا کوئی دروازہ بند نہیں چھوڑا جاتا اور ایک اعلان کرنے والا پکار کر کہتا ہے: اے خیر کے طلبگار آگے بڑھ اور اے شر کے طلبگار اب تو رک جا۔

(الترمذی و ابن ماجہ، صحیح الترغیب والترہیب للالبانی : 998)

ایک رات۔۔۔۔ ہزار مہینوں سے بہتر:

سیدنا انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب ماہ رمضان شروع ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بیشک یہ مہینہ تمہارے پاس آچکا ہے اس میں ایک ایسی رات ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے اور جو شخص اس سے محروم ہو جاتا ہے وہ مکمل خیر سے محروم ہوجاتا ہے اور اسکی خیر سے تو کو ئی حقیقی محروم ہی محروم رہ سکتا ہے۔

(ابن ماجہ: 1644، صحیح الترغیب والترہیب: 1000)

رمضان میں عمرہ حج کے برابر:

سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک انصاری خاتون کو فرمایا:جب ماہ رمضان آجائے تو تم اس میں عمرہ کرلینا کیونکہ اس میں عمرہ حج کے برابر ہوتاہے۔ (بخاری 1782، مسلم 1256)

ایک روایت میں اس حدیث کے الفاظ یہ ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک انصاری خاتون سے، جسے ام سنان کہا جاتا تھا، کہا: تم نے حج کیوں نہیں کیا؟تو اس نے سواری کے نہ ہونے کا عذر پیش کیا، اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: رمضان میں عمرہ کرنا میرے ساتھ حج کی قضاء ہے۔ (البخاری: 1863، مسلم: 1256)

یعنی جو شخص میرے ساتھ حج نہ کر سکا وہ اگر رمضان میں عمرہ کرلے تو گویا اس نے میرے ساتھ حج کر لیا۔

مغفرت اور اجر عظیم کا وعدہ:

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: جس نے حالت ایمان میں اللہ سے حصول ثواب کی نیت سے رمضان المبارک کے روزے رکھے اس کے سابقہ گناہ معاف کر دئیے جاتے ہیں۔ (متفق علیہ)

اس کا مفہوم یہ ہے کہ وہ نیت صادقہ اور یقین کامل کے ساتھ محض اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کے اجر و ثواب کو حاصل کرنے کی خاطر، دل کی خوشی کے ساتھ اور روزوں کو بوجھ سمجھ کر نہیں بلکہ رمضان المبارک کے ایام کو غنیمت تصور کرتے ہوئے روزے رکھے۔ اگر وہ اس کیفیت کے ساتھ روزے رکھے گا تو اس کے سابقہ گناہ معاف کر دئیے جاتے ہیں۔

روزہ کا اجر صرف اللہ تعالیٰ کو معلوم ہے:

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ابن آدم کا ہر عمل کئی گناہ تک بڑھا دیا جا تا ہے، ایک نیکی دس نیکیوں سے برابر حتیٰ کہ سات سوگنا تک بڑھا دی جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ سوائے روزے کے جو کہ صرف میرے لیے ہوتاہے اور میں اس کا بدلہ دوں گا۔ کیونکہ وہ میری وجہ سے اپنی شہوت اور اپنے کھانے کو چھوڑتا ہے۔ (مسلم:1151)

(سوائے روزے کے جوکہ صرف میرے لیے ہوتاہے) سے مراد یہ ہے کہ مومن کے باقی نیک اعمال مثلاً نماز، صدقہ اور ذکر تو ظاہری ہوتے ہیں اور فرشتے انہیں نوٹ کر لیتے ہیں جبکہ روزہ ایسا عمل نہیں جوظاہر ہو بلکہ صرف نیت کرنے سے ہی انسان روزے کی حالت میں چلاجاتا ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ روزہ صرف میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا اور شاید یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے روزے کو بے مثال قرار دیاہے۔

سیدنا ابو امامہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم مجھے کوئی حکم کریں جس پر میں عمل کروں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم روزہ رکھا کرو کیونکہ اس کے برابر کوئی عمل نہیں۔ (النسائی 2220)

یعنی شہوت کو ختم کرنے، نفس عمارہ اور شیطان کا مقابلہ کرنے میں اور اجر وثواب میں روزے جیسا کوئی عمل نہیں۔ اور چونکہ روزے کا اجر و ثواب بہت زیادہ ہے اور اس کی مقدار کا علم صرف اللہ تعالیٰ کو ہے اس لیے جب روزہ دار قیامت کے روز اللہ تعالیٰ سے ملے گا تو اللہ تعالیٰ روزے کا اجر و ثواب دے گا تو اسے بے انتہاء خوشی ہوگی۔ جیساکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا: روزہ دار کے لیے دو خوشیاں ہیں ایک افطاری کے وقت اور دوسری اللہ تعالیٰ سے ملاقات کے وقت۔ (مسلم: 1151)

روزہ ڈھال ہے:

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: روزہ ڈھال ہے اور تم میں سے کوئی شخص جب روزہ کی حالت میں ہوتو ناشائستہ بات نہ کرے اور لڑائی جھگڑے سے پرہیز کرے اور اگر کوئی شخص اسے گالی گلوچ کرے یا اس سے لڑائی کرے تو وہ کہے: میں روزہ دار ہوں۔ (مسلم:1151)

روزہ ڈھال ہے سے مراد ہے کہ روزہ شہوت اور گناہ سے روکتا ہے اور اسی طرح جہنم سے بچاتا ہے جیساکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاارشاد ہے: روزہ جہنم کی آگ سے ڈھال ہے جیساکہ تم میں سے کوئی شخص جنگ سے بچنے کے لیے ڈھال لیتا ہے۔ (النسائی 2231، ابن ماجہ 1639)

باب الریان:

جنت میں ایک دروازہ کا نام باب الریان ہے یہ دروازہ صرف روزہ داروں کے لیے مخصوص ہوگا۔ جیساکہ سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: بیشک جنت میں ایک دروازہ ہے جسے باب الریان کہا جاتا ہے اس سے قیامت کے دن صرف روزہ دار ہی داخل ہوں گے ان کے علاوہ کوئی اور اس سےداخل نہیں ہوگا اور پکار کر کہاجائے گا، کہاں ہیں روزہ دار؟ تو وہ کھڑے ہو جائیں گے اور ان کے علاوہ کوئی اور اس سے جنت میں داخل نہ ہوگا اور جب وہ سب کے سب جنت میں چلے جائیں گے تو اس دروازہ کوبند کر دیا جائے گا۔ (مسلم 1152)

روزہ شفاعت کرے گا:

قیامت کے دن روزہ، روزہ دار کے حق میں شفاعت کرے گا اور اسکی شفاعت قبول کی جائے گی۔ جیساکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:روزہ اور قرآن دونوں بندے کے حق میں روز قیامت شفاعت کریں گے۔ روزہ کہے گا: اے میرے رب میں نے اسے کھانے سے اور شہوت سے روکے رکھا، اس لیے تو اس کے حق میں میری شفاعت قبول کرلے اور قرآن کہے گا: میں نے اسے رات کو سونے سے روکے رکھا، لہذا تو اس کے حق میں میری شفاعت قبول کر لے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: چنانچہ ان دونوں کی شفاعت قبول کر لی جائے گی۔ ( صحیح الترغیب و الترہیب: 984)

روزہ دار کے منہ کی بدبو اللہ کے نزدیک کستوری سے بھی زیادہ اچھی ہے۔ جی ہاں روزہ دار کے منہ کی بو اللہ کے نزدیک کستوری سے بھی زیادہ اچھی ہے۔جیساکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی جان ہے روزہ دار کے منہ کی بو اللہ کے نزدیک کستوری سے بھی زیادہ اچھی ہے۔ (البخاری: 1904، مسلم: 1151)

روزہ جنت میں لے جانے والے اعمال میں سے ہے:

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دیہاتی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اس نے کہا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم مجھے کوئی ایسی چیز بتائیںجس پر میں عمل کروں تو جنت میں داخل ہوجاؤں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تو اللہ کی عبادت کر اور اس کے ساتھ کسی کو شریک مت بنا۔ فرض نماز قائم کر، فرض زکوٰۃ ادا کر اور رمضان کے روزے رکھ، یہ سن کر دیہاتی نے کہا اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے میں ہمیشہ نہ اس سے زیادہ کروں گا نہ اس سے کم۔ پھر جب وہ چلا گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو آدمی اہل جنت میں سے کسی شخص کودیکھنا چاہتا ہو وہ اسے دیکھ لے۔ (البخاری: 1397)

روزہ خوروں کا انجام:

سیدنا ابو امامہ الباہلی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا: میں سویا ہوا تھا کہ خواب میں میرے پاس دو آدمی آئےجنہوں نے میرے بازوؤں کو پکڑ کر مجھے اٹھالیا اور ایک دشوار چڑھائی والے پہاڑ تک لے جا کر مجھے اس پر چڑھنے کے لیے کہا۔ میں نے کہا: میں اس پر نہیں چڑھ سکتا۔ انہوں نے کہا: ہم اسے آپ کے لیے آسان بنادیں گے، چنانچہ میں نے اس پر چڑھنا شروع کیا حتیٰ کہ پہاڑ کی چوٹی پر پہنچ گیا تو میں نے وہاں چیخنے اور چلانے کی آوازیں سنیں میں نے دریافت کیا یہ چیخ و پکار کیسی ہے؟

انہوں نےجواب دیا کہ یہ جہنمیوں کی آہ و بکا کا شور ہے۔ پھر مجھے اس سے آگے لے جایا گیا جہاں میں نے کچھ لوگوں کو الٹا لٹکے ہوئے دیکھا جن کی باچھیں چیر دی گئی تھی اور ان سے خون سے بہہ رہا تھا۔ میں نے پوچھا یہ کون لوگ ہیں؟ جواب ملا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو روزوں کے ایام میں کھایا پیا کرتے تھے۔ (صحیح الترغیب والترہیب: 1005)

و آخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے