دوسری جنگ عظیم کے بعد اگرچہ یکے بعد دیگرے مسلم ممالک آزاد ہوگئے تھے مگر استعماری طاقتوں کے پھیلائے ہوئے ثقافتی، سیاسی، اقتصادی اور تعلیمی مکر وفریب کے جال میں دوبارہ پھنس گئے ان سازشی اور شاطر طاقتوں نے اکثر مسلمان ممالک پر بد ترین قسم کی آمرانہ اور ملحدانہ مغرب نواز حکومتیں مسلط کر دیں جنہوں نے نو آزاد مسلمان عوام کو دوبارہ غلامی قبول کرنے کے لیے تیار کرنا شروع کر دیا اور ان کو اسلامی تہذیب و تمدن اور اسلامی اقدار سے پھر محروم کر دیا اور ان کی اسلامی غیرت و حمیت کو پھر سے دیس نکالا دے دیا گیااس کے ساتھ ساتھ ان نام نہاد مسلمان حکمرانوں نے اغیار کا آلہ کار بن کر مسلمانوں کو ہر میدان میں اپاہج بنانا شروع کر دیا، استعماری طاقتوں نے بھی مسلمانوں کو ان کے اسلامی تشخص و امتیاز اور اسلامی شناخت سے محروم کرنے کے لیے تمام وسائل جھونک دیے استعماری طاقتوں اور ان کے آلہ کار حکمرانوں کو اسلام کے نام سے چِڑ ہے۔ دنیا میں جہاں کہیں بھی اسلام کی ہلکی سی روشنی نظر آتی یادین و اخلاق کی معمولی سی کرن ٹمٹماتی ہے تو یہ دونوں طاقتیں اپنی پوری قوت کے ساتھ اس کو ختم کرنے کے لیے چڑھ دوڑتی ہیں اور اپنے تمام تر شیطانی ہتھکنڈوں کو بروئے کار لانے میں جُت جاتی ہیں۔ تاکہ کہیں سے بھی نور ہدایت کی روشنی آنے نہ پائے اور دنیا میں امن و سلامتی معدوم ہی رہے اور ہر طرف ظلم و جہالت کا ہی راج رہے، فلسطین ، کشمیر، الجزائر، افغانستان، عراق، برما، مصر اور شام کے انسانوں کے ساتھ صرف اس لیے ظلم و وحشت اور درندگی کے کھیل کھیلے گے وہ اسلام کے مانے والے ہیں جبکہ ان میں بعض ممالک مغربی جمہوریت کا تمغہ بھی سجا ئے ہوئے ہیں اس کے باوجود اسلامی فکر رکھنے والوں پر عرصہ حیات تنگ کردیا گیا لیکن اس عالمگیر فساد اور ظلم کے گھٹا ٹوپ اندھیروں کی موجودگی میں بھی اللہ تعالیٰ نور کی کرنیں دکھاتا رہتا ہے اور ایمانی قندیلیں روشن ہوتی رہتی ہیں کیونکہ’’ وَاللَّهُ مُتِمُّ نُورِهِ وَلَوْ كَرِهَ الْكَافِرُونَ. ‘‘ کے مناظر ظہور پذیر ہوتے رہتے ہیں۔ ایسے ہی ایک نور کی کرن بارہویں صدی ہجری کے وسط میں جزیرہ نما عرب سے امام محمد بن عبدالوہاب اور امیر محمد بن سعود کے ذریعہ ابھری تھی جس سے پورے عالمِ عربی میں دینی بیداری کی عام لہر پیدا ہوگی پھر شاہ عبدالعزیز نے اس خالص دعوتِ توحید کو آگے بڑھاتے ہوئے حجاز میں امن و امان قائم کیا اور عوام میں پھیلے شرک و بدعات کے بَد عقائد کی اصلاح کے لیے دن رات محنت کی۔ توحید الٰہی کی برکت تھی کہ سعودی حکومت کو اللہ تعالیٰ نے دنیاوی مال ودولت سے بھی مالا مال کر دیا کیونکہ رب تعالیٰ کا وعدہ اور سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی دعابھی یہی ہے۔
وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ رَبِّ اجْعَلْ هَذَا بَلَدًا آمِنًا وَارْزُقْ أَهْلَهُ مِنَ الثَّمَرَاتِ مَنْ آمَنَ مِنْهُمْ بِاللهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ (سورۃ البقرہ 126)
اور یہ کہ ابراہیم علیہ السلام نے دعا کی : ” اے میرے رب ، اس شہر کو امن کا شہر بنا دے اور اس کے باشندوں میں سے جو اللہ اور آخرت کو مانیں ، انھیں ہر قسم کے پھلوں کا رزق دے ۔
اللہ تعالیٰ نے سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی دعا کو شرف قبولیت بخشا کہ توحید کی برکت سے اس شہر کو ہی نہیں بلکہ پورے ملک کو امن و سلامتی کا گہوارہ بھی بنا دیا اور وادئ غیرذی زرع (غیر کھیتی والی) ہونے کے باوجود دنیا بھر کے پھل اور میوہ جات کی فروانی فرمادی۔
جب اللہ تعالیٰ نے اس مملکت کو سیال سونے کی دولت سے مالا مال کیا تو اس کے تمام فرمارواؤں نے پوری دنیا کے مسلمانون میں دینی شعور کوعلی منہج نبوہ آگے بڑھانے میں بھر پور حصہ لیا، دنیا کے تمام خطوں میں بسنے والے مسلمانوں کی شرعی، اخلاقی اور مادی سر پرستی اور اسلامی دعوت کو عام کرنے کی طرف توجہ دی اور تعلیمی و دعوتی منصوبوں کی تکمیل میں بے دریغ مالی، معنوی و اخلاقی مدد فراہم کی۔ یہ الگ بات ہے کہ بعض نام نہاد صحافیوں نے عصبیت کی عینک چڑھائی ہوئی ہے اور ان کودن میں بھی اندھرانا (شب کور) ہو جاتا ہے اور ان کو پوری دنیا افریقہ، ایشیا، امریکہ اور یورپ میںمساجد اور مدارس نظر نہیں آتے جو کہ سعودی حکومت کے تعاون سے بنے ہیں اور انہی کی سر پرستی سے چل بھی رہے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ حرمین شریفین کی توسیع ایک ایسا منصوبہ ہے کہ جوان کی اسلام دوستی کا منہ بولتا ثبوت ہے اسی طرح قرآن کریم کی طباعت اور خاص طورپر سینکڑوں مختلف زبانوں میں تراجم اور ان کی مفت تقسیم ایساکارنامہ ہے کہ جس کی مثال ملنا مشکل ہے۔ اور مسلمان نوجوانوں کی تعلیم و تربیت کے لیے اپنی دینی درسگاہوں کے دروازے کھولنا بھی اسلام سے محبت کی دلیل ہے۔
مارچ 1928 میں شیخ حسن البناء نے اپنے چھ رفقاء کے ساتھ اسلامی جذبہ عمل سے سرشار ہوکر اسلامی طرز فکر اور طریقہ حیات کے لیے اخوان المسلمین کے نام سے ایک اسلامی اور اصلاحی تحریک کا آغاز کیا اور 1939 میں سیاسی جدوجہد بھی شروع کردی گئی۔ مصطفی نحاس کے دور حکومت میں شیخ حسن البناء نے اسماعلیہ کے حلقہ سے انتخابات میں حصہ لینے کا پختہ ارادہ کیا مگروزیراعظم نحاس کے کہنے پر یہ ارادہ ترک کر دیا اس کے بدلے نحاس نے اخوان سے مصالحانہ رویہ اختیار کیا۔ 1949 میں شیخ حسن البناء کی شہادت کے بعد اخوان المسلمین کی بھاگ دوڑ اور نظم و نسق احمد الباقوری کے ہاتھ میں آئی اس کے بعد 1951 میں حسن الہقیبی کو اخوان کا مرشد عام مقرر کیا گیا اخوان المسلمین کے اہم قائدین میں سید قطب شہید کا نام بھی آتا ہے جو اس زمانے میں مصر کے سب سے بڑے اسلامی مفکر اور ادیب تھے اخوان المسلمین کا دورشیخ عمر تلمسانی سے ہوتا ہوا سیّد محمد حامد ابو النصر تک پہنچا ہے جو کہ اخوان کے چوتھے مرشد عام تھے۔ اخوان المسلمین پر مصر میں ہر دور حکومت ہی دور ابتلاء رہا اخوان پر طرح طرح کے ظلم ڈھائے گئے ان کی آواز کو دبانے کی ہرممکن کوشش کی گئی مگر یہ جماعت مسلسل آگے بڑھتی گئی یہاں تک 2012 کے انتخابات میں مصر کی سب سے بڑی جماعت کے طور پر کامیاب ہونے پر اسرائیل اور مغرب کو بہت زیادہ تکلیف ہوئی اور جنرل السیسی بھی اپنے آقاؤں کو خوش کرنے کے لیے میدان میں کود پڑا اور گزشتہ دنوں مصر میں بدمعاش جنرل السیسی کے حکم سے جو کچھ ہوا انتہائی افسوس ناک اور قابل مذمت ہے بے گناہ نہتے شہریوں کا ناحق قتل عام ظلم کی انتہاء اس ظالم کو ظلم سے روکنے کے لیے حدیث رسول ﷺ پر عمل کرنا ضروری ہے ’’اُنصر اخاک ظالما او مظلوما‘‘ جنرل السیسی جو کہ اغیار کا وفادار سگ بچہ ہے اس سے ایسی ہی امید رکھی جا سکتی تھی کیونکہ وہ انہی کا تربیت یافتہ تنخواہ دار ہے۔ جنرل السیسی نے 2006 میں امریکا میں قائم انتہائی اہم فوجی کالج جو ریاست پنسلوانیا کے ایک چھوٹے سے قصبہ کا رلائل میں قائم ہے ایک سالہ تربیت حاصل کر چکا ہے جنرل السیسی کا اسلامی سوچ رکھنے والی حکومت کا اس طرح برطرف کرنا کسی طرح بھی احسن قدم نہیں ہوسکتا اور نہ ہی اسکی حمایت کی جا سکتی ہے۔ مگر سوچنے کی بات یہ ہے کہ 2012 میں ڈاکٹر محمد مرسی نے مغربی جمہوریت کے پلیٹ فارم سے صدارتی انتخاب جیتا اور مصرکے دارالحکومت قاہرہ کے تحریر اسکوائر میں ان کے حق میں نعرے لگانے والوں نے فوج کےخلاف بھی نعرے لگائے مگر ایک سال میںیہ سب کچھ کیسے اور کیوں بدل گیا؟اس کا سادہ جواب تو یہ ہے کہ محمد مرسی امریکی منصوبے کا حصہ ہی نہیں تھے کیونکہ حسنی مبارک کے بیمار ہونے کے بعد مرسی ان کے مفادات کو تحفظ نہیں دے سکتے تھے پس انہوں نے تو صرف اخوانیوں کے درینہ خواب کو وقتی تعبیر دینا تھی کہ اسلام سے پہلے اسلام آباد پر قبضہ ہونا چاہیےمگر یہ بات یاد رہنی چاہیے کہ مغربی جمہوریت سے کبھی اسلام نافذ نہیں ہو گا اور نہ ہی پوری دنیا سے کٹ اپ ہو کر جیساکہ افغانستان میں طالبان نے کیا تھا اور الجزائر میں اسلامی فرنٹ نے کیا تھا، یہ غلطی مرسی حکومت نے بھی دہرائی کہ ملک کے اندر اور باہر سے اپنے دشمن پیدا کرلیے یہ موجودہ دور کی بد قسمتی ہے کہ جس کو بھی اقتدار ملتا ہے وہ مطلق العنان بن بیٹھتا ہے۔ چاہے وہ صدام ہو، مرسی ہو، طالبان یا کرنل قذافی یا بشار الاسد ہو،یا کوئی اور۔ مرسی نے سب سے بڑی غلطی یہ کی کہ اس نے سعودی عرب جو کہ اخوانی حکومت کی ہر طرح کی مدد بھی کر رہا تھا اس کو چھوڑ کر ایران کی گود میں جا بیٹھا اور اندرونی طور پر النور سلفی جماعت جو مصر کی دوسری بڑی سیاسی جماعت ہے ان سے بالکل علیحدگی اختیار کر لی گئی اس مرسی حکومت کو ختم کرنے میں جتنا امریکہ، اسرائیل اور فوج کا کردار ہے اس سےبڑھ کر خود مرسی کی اپنی خارجی اور داخلی پالیسیاں بھی ہیں یہ ٹھیک ہے کہ مرسی نے ایک سال میں کئی ایک اصلاحات کیں مگر مکمل طور پر نافذ نہ ہوسکیں۔ اور اب دیگر اسلامی حکومتوں کو مرسی حکومت سے سبق سیکھنا چاہیے اور اغیار کی مکاری پر بھی نظر رکھنی چاہیے اور مستقبل میں آنے والی اسلامی حکومتوں کو ان تمام حالات پر نظر رکھتے ہوئے آگے بڑھنا چاہیے وہی قومیں ہمیشہ کامیاب ہوتی ہے جوکہ ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھتی ہیں۔
اخوان قیادت کو چاہیے کہ وہ اپنے داخلی اور خارجی تعلقات پر نظر ثانی کریں تاکہ بدامنی اور خانہ جنگی کی آگ جوکہ اس وقت عراق، یمن، لیبیا اور شام میں پھیل رہی ہے کہیں مصر بھی اس کی لپیٹ میں نہ آجائے امریکہ اور اسرائیل کی اصل خواہش بھی یہی ہے کہ شدت پسندوں کی آڑ میں اسلام پسندوں کو تنہا کیا جائے تاکہ زیادہ شدت سے کچلنا آسان ہوجائے اور مسلسل خانہ جنگی سے عوامی حمایت بھی بتدریج کم ہو جائے اور عالم اسلام نیست و نابود ہو جائے۔
مصر میں حکومت کی تبدیلی کے اثرات شام میں بھی نظر آ رہے ہیں کہ وہاں بھی خانہ جنگی اور بدامنی زوروں پر ہے ظالم جابر صدر بشارالاسد جو کہ مغرب کا آلہ کار ہے اس نے اپنے اقتدار کو بچانے کے لیے غوطہ سے دمشق تک انسانی لاشوں کا ڈھیر لگا دیاہے۔معصوم بچوں کا قتل عام جاری ہے خواتین کی لاشیں سڑکوں پر گھسیٹ کر ان کی بے حرمتی کی جارہی ہے حتی کہ اللہ کے گھر مساجد کو وحشیانہ بمباری کا نشانہ بنایا جارہاہے کچھ ہی دنوں پہلے غوطہ کے عوام پر کیمیائی بم برسائے گئے ہیں جس سے ڈھائی ہزار انسانوں کو موت کی نیند سلا دیا گیا ہے۔ ان حالات کی وجہ سے بیس لاکھ سے زیادہ مسلمانوں کو اپنی سرزمین چھوڑنے پر مجبور کیا گیا اور انہیں مہاجر کیمپوں میں جانوروں کی سی زندگی گزارنا پڑ رہی ہے انسانی حقوق کی تنظیموں، اقوام متحدہ اور او۔آئی۔سی میں کوئی حرکت نہیں ہے ان کے کان پر جُو تک نہیں رینگ رہی۔ مغرب کی آلہ کار ملالہ پر قاتلانہ حملہ ہو تو پوری دنیا میں انسانی حقوق کی تنظیمیں حرکت میں آجائیں جبکہ شام اور مصر میں سیکڑوں بچوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا اس لیے کہ یہ بچے اور ان کے والدین مغرب کے آلہ کار نہیں تھے۔ مصر اور شام میں انسانیت سوز مظالم پر مسلمان حکمرانوں کی آنکھیں کھل جانی چاہئیں اور ان کو مغربی سازشیں سمجھ لینا چاہیے ورنہ ایک کے بعد ایک مسلم حکومت کو ختم کر دیا جائے گا۔