1۔عَنْ اَنَسِ بْنِ مَالِكٍ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ سَوُّوا صُفُوفَكُمْ فَإِنَّ تَسْوِيَةَ الصُّفُوفِ مِنْ إِقَامَةِ الصَّلَاةِ
(صحيح البخاري باب اقامۃ الصف من تمام الصلاۃ (3/ 150)
أخرجہ مسلم فی الصلاۃ باب تسويۃ الصفوف وإقامتھا رقم 433
سنن ابی داؤد کتاب الصلاۃ باب تسویۃ الصفوف
سنن ابن ماجہ کتاب الصلاۃ باب اقامۃ الصفوف
سنن الدرامی کتاب الصلاۃ باب فی اقامۃ الصفوف )

جناب انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کہ صفیں سیدھی کر لو! صفوں کی درستگی میں نماز کی ادائیگی ہے۔

2۔عَنْ أَبِى هُرَيْرَةَ عَنِ النَّبِىِّ – صلى الله عليه وسلم – أَنَّهُ قَالَ: وَأَقِيمُوا الصَّفَّ فِى الصَّلاَةِ ، فَإِنَّ إِقَامَةَ الصَّفِّ مِنْ حُسْنِ الصَّلاَةِ
بخاري باب اقامۃ الصف من تمام الصلاۃ (3/ 219 )
صحیح مسلم باب تسویۃ الصفوف و إقامتھا
سنن الکبری باب اقامۃ الصفوف وتسویتھا

جناب ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نماز میں صف بندی کرو! صف بندی نماز کا حسن ہے۔

3۔عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ عَنْ رَسُولِ اللہِ -صلى الله عليه وسلم- قَالَ:رُصُّوا صُفُوفَكُمْ وَقَارِبُوا بَيْنَهَا وَحَاذُوا بِالأَعْنَاقِ فَوَالَّذِى نَفْسِى بِيَدِهِ إِنِّى لأَرَى الشَّيْطَانَ يَدْخُلُ مِنْ خَلَلِ الصَّفِّ كَأَنَّهَا الْحَذَفُ
سنن أبي داود باب تسویۃ الصفوف (1/ 251)
السنن الكبرى للبيهقي باب اقامۃ الصفوف و تسویتھا (3/ 100)

سیدنا انس سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اپنی صفوں کو ملاؤ! ایک دوسرے سے مل جاؤ! اور گردنیں برابر کرو! قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے میں شیطان کو دیکھتا ہوں کہ وہ صف کے شگاف میں بکری کے بچے کی شکل میں داخل ہوتا ہے۔

4۔عَنْ أَنَسٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ -صلى الله عليه وسلم:أَتِمُّوا الصُّفُوفَ فَإِنِّى أَرَاكُمْ خَلْفَ ظَهْرِى
صحيح مسلم باب تسویۃ الصفوف و إقامتھا (2/ 30)
السنن الکبری باب اقامۃ الصفوف وتسویتھا

سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ بیشک نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ صفیں مکمل کرو! میں تمہیں پیچھے سے دیکھتا ہوں۔

5۔عَنْ أَنَسٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَقُولُ اسْتَوُوا اسْتَوُوا اسْتَوُوا
سنن النسائي باب کم مرۃ یقول استووا (3/ 308)

سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ بیشک نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے برابر ہو جاؤ! برابر ہو جاؤ! برابر ہو جاؤ!

6۔عَنِ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قال:سَوُّوا صُفُوفَكُمْ لَا تَخْتَلِفُ قُلُوبُكُمْ
سنن الدارمي باب فضل من یصل الصف فی الصلاۃ (2/ 804)

سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ بیشک نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے کہ اپنی صفیں برابر کرو! تاکہ تمہارے دل مختلف نہ ہوں۔

7۔عَنْ أَنَسٍ بِهَذَا الْحَدِيثِ قَالَ إِنَّ رَسُولَ اللهِ -صلى الله عليه وسلم- كَانَ إِذَا قَامَ إِلَى الصَّلاَةِ أَخَذَهُ بِيَمِينِهِ ثُمَّ الْتَفَتَ فَقَالَ: اعْتَدِلُوا سَوُّوا صُفُوفَكُمْ . ثُمَّ أَخَذَهُ بِيَسَارِهِ فَقَالَ:اعْتَدِلُوا سَوُّوا صُفُوفَكُمْ
سنن أبي داود باب تسویۃ الصفوف (1/ 252)

سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو دائیں طرف توجہ کرتے اور فرماتے برابر ہوجاؤ! صفیں سیدھی کر لو ! پھر بائیں طرف(بھی) ایسا ہی عمل کرتے۔

8۔عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ ، أَنَّهُ سَمِعَ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم يَقُولُ : إذَا قُمْتُمْ إلَى الصَّلاَةِ فَاعْدِلُوا صُفُوفَكُمْ ، وَسُدُّوا الْفُرَجَ ، فَإِنِّي أَرَاكُمْ مِنْ وَرَاءِ ظَهْرِي.
مصنف ابن أبي شيبة باب فی سد الفرج فی الصف (1/ 379)

سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے ہو تو صفیں برابر کرو! ان کو سیدھا کرو ! شگاف بند کرو ! میں اپنے پیچھے سے دیکھتا ہوں۔

9۔عَنْ أَبِى الْقَاسِمِ الْجَدَلِىِّ قَالَ سَمِعْتُ النُّعْمَانَ بْنَ بَشِيرٍ يَقُولُ أَقْبَلَ رَسُولُ اللہِ صلى الله عليه وسلم عَلَى النَّاسِ بِوَجْهِهِ فَقَالَ : أَقِيمُوا صُفُوفَكُمْ. ثَلاَثًا وَاللہِ لَتُقِيمُنَّ صُفُوفَكُمْ أَوْ لَيُخَالِفَنَّ اللہُ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ . قَالَ فَرَأَيْتُ الرَّجُلَ يُلْزِقُ مَنْكِبَهُ بِمَنْكِبِ صَاحِبِهِ وَرُكْبَتَهُ بِرُكْبَةِ صَاحِبِهِ وَكَعْبَهُ بِكَعْبِهِ.
سنن أبي داود باب تسویۃ الصفوف (1/ 249)
السنن الكبرى للبيهقي باب إقامۃ الصفوف و تسویتھا (3/ 143)

سیدنا ابو القاسم الجدلی سے مروی ہے کہ میں نے نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے سنا وہ کہتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کی طرف منہ کیا اور تین بار فرمایا صفیں سیدھی کرلو! واللہ! تم صفیں سیدھی کرو گے(تو ٹھیک ہے) ورنہ اللہ پاک تمہارے دلوں میں اختلاف پیدا کر دیں گے(راوی کا بیان ہے)کہ میں دیکھا کہ (نمازی) آدمی اپنے ساتھی کے کندھے سے کندھا،گٹھنے سے گٹھنا اورٹخنے سے ٹخنہ ملاتا۔

10۔عَنْ أَبِي مَسْعُودٍ قَالَ كَانَ رَسُولُ اللہِ صَلَّى اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَمْسَحُ عَوَاتِقَنَا وَيَقُولُ اسْتَوُوا وَلَا تَخْتَلِفُوا فَتَخْتَلِفَ قُلُوبُكُمْ وَلْيَلِيَنِّي مِنْكُمْ أُولُو الْأَحْلَامِ وَالنُّهَى
سنن النسائي باب یقول الامام إذا تقدم فی تسویۃ الصفوف (3/ 306)

سيدناابو مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے کندھوں کو پکڑ کر فرماتے سیدھے ہو جاؤ! برابر ہو جاؤ! اختلاف نہ کرو! لین آگے پیچھے نہ ہوا کرو ورنہ تمہارے دلوں میں اختلاف پیدا ہوں گے اور میرے قریب عقلمند لوگ کھڑے ہوا کریں۔

وضاحت و تفہیم:

کتب حدیث میں صف بندی کی تاکید کے بارے میں مندرجہ ذیل الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔

اقیموا، سووا، اتموا، رصوا، اعتدلوا، استوا، تقاربوا، حاذوا، سدوا، تراصوا اور اعدلوا

بعض نسخوں میں تبادلوا بھی ہے۔ ان تمام الفاظ کا مدعیٰ و مفہوم وجوب و فرضیت ہے۔اس موضوع کی اگر تمام احادیث جمع کی جائیں تو بہت بڑا دفتر تیار ہو سکتا ہے میں نے صرف ان چند حوالہ جات پر ہی اکتفا کیا ہے تاکہ مسئلے کی اہمیت کا اندا زہ لگانا آسان ہو جائے۔

المیہ: عام لوگ صف بندی سے بہت دل چراتے ہیں اور پاؤں سے پاؤں ملا کر کھڑے ہونا پسند نہیں کرتے اور اگر ان کے پاؤں سے پاؤں ملائے جائیں تو وہ اپنے پاؤں کھینچ لیتے ہیںحتی کہ بعض لوگ اپنے پاؤں کے اوپر پاؤں رکھ لیتے ہیں جیسے یہ پاؤں کا ملانا کوئی بہت بڑا جرم ہے۔ہائے یہ کس قدر حکم نبوی سے نفرت ہے میرے مولا!

مسئلہ: اگر لا علمی کی بنا پر ایسا کیا جائے تو اتنی سختی نہیں ہے اور اگر حقیقت مسئلہ سامنے آجانے کے باوجود صف بندی نہ کی جائے تو اس کی نماز باجماعت نہیں ہو گی۔ضد چھوڑ کر حق بات کو تسلیم کرنے کی عادت اپنانی چاہیے یقیناً اس پر اللہ تعالیٰ راضی ہو گا۔

وضاحت:

بعض لوگ کہتے ہیں کہ دو آدمیوں کے درمیان چار انگشت کا فاصلہ رہنا چاہیے۔بعض ایک بالشت کے فاصلے پر کھڑے ہونا صحیح سمجھتے ہیں اور ستم کی بات ہے کہ بعض اوقات تو آدمیوں کے درمیان اتنا فاصلہ ہوتاہے کہ ایک متوسط جسم کا آدمی بخوبی ان کے درمیان کھڑا ہو سکتا ہے یہ تمام صورتیں حدیث کے خلاف ہیں ۔

غلو نہ کریں:

بعض اوقات ایسا بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ پاؤں سے پاؤں ملانے والے بھی اس قدر غلو کرتے ہیں کہ دوسرے آدمی کے ساتھ پاؤں ملانے کی خاطر وہ اپنے پاؤں کھولتے جاتے ہیں یہ فعل بھی اچھا نہیں ہے بلکہ دونوں آدمیوںکو اپنے اپنے کندھوں کے مطابق پاؤں کھولنے چاہئیں اس صورت میں کسی کو مزید تکلیف کی ضرورت ہی پیش نہ آئے گی پھر یہ بھی صحیح نہیں ہے کہ بعض لوگ صرف رکوع میں جاکر پاؤں ملانے کی زحمت کرتے ہیں۔

تنبیہ:

بعض لوگ اپنے کو ٹیڑا کر کے ٹخنوں سے ٹخنے ملانے کی کوشش کرتے ہیں وہ بھی صرف رکوع کی حالت میں،یہ بھی درست نہیں ہے کیونکہ ٹخنوں سے ٹخنے کا ملنا خلاف فطرت ہے ہر ذی عقل و دانش اس چیز کو صحیح قرار دے گا۔ہاں پاؤں سیدھے کرنے کا یہ طریقہ ہے کہ اپنے پاؤں کی اندر والی جانب کو سیدھا رکھ کر پاؤں کا جتنا حصہ ملتا ہے اتنا ہی ملا دیا جائے اورحدیث میں جو کعب کا لفظ آیا ہے اس کا معنی ہے پاؤں کی چھوٹی انگلی (جس کو چیچی کہا جاتا ہے) کا سر نہیں بلکہ اس کا جوڑ دوسرے آدمی کی چھوٹی انگلی کے جوڑ سے ملایا جائے تو اس صورت میں پاؤں سیدھے ہوجائیں گے اورصف بھی سیدھی ہوجائے گی۔

ذمہ داری:

أئمہ مساجد اور قراء حضرات کی یہ ذمہ داری ہےکہ وہ اس وقت تک نماز ہی شروع نہ کریں جب تک صفیں درست نہ کی جائیںاور تمام لوگ بنیان مرصوص (مضبوط دیوار) کی طرح یک جان ویک کالب نہ ہو جائیں۔سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ (وفات 23ھ)کا یہی معمول تھا۔

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ ، أَخْبَرَنَا نَافِعٌ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ كَانَ يَأْمُرَ رِجَالا بِتَسْوِيَةِ الصُّفُوفِ ، فَإِذَا جَاءُوهُ فَأَخْبَرُوهُ بِتَسْوِيَتِهَا كَبَّرَ بَعْدُ. (الموطأباب تسوية الصف (1/ 170)

سیدنافاروق اعظم رضی اللہ عنہ نےکچھ آدمیوں کی تقرری ہی اسی کام کے لیے فرما رکھی تھی جب وہ واپس آکر اطلاع کرتے کہ جناب امیر! صفیں سیدھی ہو گئی ہیں تو پھر وہ تکبیر تحریمہ کہتے تیسرے خلیفہ راشد سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کا بھی یہی دستور و طریقہ تھا وہ اپنے خطبہ میں فرمایا کرتے تھے۔

إِذَا قَامَتْ الصَّلَاةُ فَاعْدِلُوا الصُّفُوفَ وَحَاذُوا بِالْمَنَاكِبِ فَإِنَّ اعْتِدَالَ الصُّفُوفِ مِنْ تَمَامِ الصَّلَاةِ ثُمَّ لَا يُكَبِّرُ حَتَّى يَأْتِيَهُ رِجَالٌ قَدْ وَكَّلَهُمْ بِتَسْوِيَةِ الصُّفُوفِ فَيُخْبِرُونَهُ أَنْ قَدْ اسْتَوَتْ فَيُكَبِّرُ (مؤطا امام محمد ص 88)

جب نماز کھڑی ہو جائے یعنی اقامت ہو جائے تو صفیں درست کرلو! اور کندھے بھی برابر کرو! کیونکہ صفوں کی درستگی نماز کی تکمیل ہے جب ان کے مقرر کردہ افراد آکر اطلاع کرتے کہ صفیں سیدھی ہو گئی ہیں تو پھر وہ تکبیر تحریمہ کہہ کر نماز شروع کرتے تھے۔

ان حوالہ جات کی روشنی میں گذارش یہ ہے کہ نمازی حضرات صفوں کو درست کیا کریں اور درمیان میں خالی جگہ ہرگز نہ چھوڑیں۔نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کی روشنی میں تمام صفوں کو بند کردیا جائے ورنہ دلوں میں نفرت کا پیدا ہونا لازمی ہے۔قلوب و اذہان پر شیطان کی گرفت مضبوط ہوجائے گی نماز میں وساوس و اوہام آنے شروع ہو جائیں گے پھر خیالات کی پراگندگی ذہنوں میں تعصب و تنفر پیدا کرے گی جذبہ خیر سگالی کا شیرازہ بکھر جائے گا،گروہی عصبیت،مذہبی لبد ومنافرت اور مسلکی دوریاں جنم لیں گیاور آہستہ آہستہ انتشار وافتراق اور تشتت واختلاف کے مہیب وبھیانک اثرات پوری قوم کو اپنی لپیٹ اور گرفت میں لے لیں گے اور نفرت کی خلیج وسیع تر ہوتی چلی جائے گی اور تاریخ اس امر پر المناک ،کربناک اور خطر ناک شہادتیں آج بھی فراہم کر رہی ہے۔ اللہ پاک ہمیں اس حکم پر عمل کرنے کی توفیق عنایت فرمائیں ۔

تنبیہ :

بعض نمازی بڑے تندمزاج ہوتے ہیں ، ادھر امام صاحب صفوں کی درستگی میں مشغول ومعروف ہوتے ہیں ادھر وہ اندر ہی اندر غصہ پیتے رہتے ہیں اور عدم ضبط اور فقدان تحمل کی بناء پر بول اٹھتے ہیں کہ قاری صاحب! مولوی صاحب! آپ نماز شروع کریں صفیں درست ہوتی رہیں گی لوگ خودبخود مل جائیں گے ۔ ایسے لوگ امام صاحب کی ذمہ داریوں سے واقف نہیں ہیں۔ صفوں کی درستگی امام وقت کی ذمہ داری ہے کسی آدمی کو دن کے فرائض غضب کرنے کی ہرگز اجازت نہیں ہے ۔ رسول رحمت صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے خلفاء راشدین کایہی دستور تھا جیسا کہ ابھی گزرا ہے لہٰذا جو ائمہ مساجد اپنی یہ ذمہ داری پوری کررہے ہیں وہ سنت نبوی کے مطابق نماز پڑھاتے ہیں وہ یقیناً اللہ پاک کے ہاں اجر وثواب کے حقدار ہیں مگر المیہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں توحید وسنت کا کوئی مقام واحترام ہی نہیںہے جب بھی کسی سے بات کی جائے کہ حدیث کی روشنی میں تو مل کر کھڑا ہونا ضروری ہے تو فوراً کہہ دیا جاتاہے کہ ہمارے امام ،بزرگ اور بڑے فرمائیں گے تو ہم مان لیں گے کیونکہ ہم فقہ کے قائل ہیں۔ العیاذ باللہ

یادرکھنا کہ علی الاخلاق فقہیات کی ہم مخالفت نہیں کرتے ، فقہیات کا پڑھنا وسعت علم کے لیے بہت ضروری ہے ہم جو مخالفت کرتے ہیں تو اس اندھی وبہری تقلید کی کرتے ہیں جس کے سامنے حدیث کو گاجر مولی کی طرح کاٹ کر پھینک دیا جاتاہے علوم سنت کی توہین وتحقیر کی جاتی ہے پھر بعض اوقات اس کی تضحیک کی جاتی ہے اس بارے میں ایک، دو ، چار نہیں بلکہ سینکڑوں امثلہ پیش کی جاسکتی ہیں فی الحال یہ میرا موضوع نہیں ہے۔

مسئلہ :

صف ہمیشہ امام کے پیچھے سے شروع ہوتی ہے جیسا کہ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

وَسِّطُوا الإِمَامَ وَسُدُّوا الْخَلَلَ
( سنن أبی داؤد ، کتاب الصلاۃ ، باب مقام الامام من الصف ، ج:1،ص:99 )

اور پھر جانبین کی طرف بڑھتی چلی جائے آنے والے آدمی کو دیکھنا چاہیے کہ کس جانب نمازی کم ہیں تو وہ اس جانب کھڑا ہوجائے۔

مسئلہ :

اس میں کوئی شک نہیں کہ امام کی دائیں جانب کھڑا ہونے میں کچھ نہ کچھ افضلیت ہے مگر ہمارے نمازی حضرات کی یہ عادت ہے کہ دائیں جانب میں کھڑے ہوتے جائیں گے حتی کہ بائیں طرف چند آدمی ہوں گے یہ دیکھ کر بڑی کوفت ہوتی ہے جب ان سے بات ہوتی ہے تو فوراً کہتے حدیث میں آتا ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

إِنَّ اللہَ وَمَلاَئِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى مَيَامِنِ الصُّفُوفِ
( سنن ابی داؤد ، کتاب الصلاۃ ، باب من یستحب ان یلی الامام فی الصف ، ص:98)

بیشک اللہ پاک اور ان کے فرشتے داہنی طرف کی صفوف پر رحمت بھیجتے ہیں۔ یعنی اللہ پاک رحمت بھیجتے ہیں اور فرشتے رحمت بھیجنے کی دعا کرتے ہیں۔

یہ حدیث ضعیف ہے کیونکہ اس حدیث کو بیان کرنے میں عثمان بن ابی شیبہ کو یا معاویہ بن ہشام کو وہم ہوگیا ہے کیونکہ جناب سفیان کےدیگر کئی تلامذہ یہ لفظ بیان نہیں کرتے جیسا کہ شیخ عبدالرؤف سندھو نے صلوٰۃ الرسول کی احادیث کی تخریج کرتے ہوئے اس کی وضاحت کی تھی وہ فرماتے ہیں کہ جناب سفیان سے یہ حدیث عبدالرزاق،عبداللہ بن ولید، ابو احمد زبیری، قبیصہ بن عقبہ، حسین بن حفص اور عبد اللہ بن عبدالرحمان اسجعی نے بھی روایت کی ہے ان تمام تلامذہ نے میامن الصفوف کی بجائے یصلون الصفوف نقل کیا ہے یعنی اللہ پاک اور ان کے فرشتے صفوں کو ملانے والوں پر رحمت بھیجتے ہیں (سنن ابن ماجہ،ابواب اقامۃ الصلوٰۃ، باب فضل میمنۃ الصف)

مقصدیہ ہے کہ کسی جگہ صف میں خلل اور سوراخ تھا تو جو لوگ آگے بڑھ کر اس کو بند کر دیتےہیں تو وہ رحمت کے حقدار بن جاتے ہیں۔ امام بیہقی،شیخ البانی وغیرہ کی بھی یہی تحقیق ہے۔

دوسری حدیث: سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کی ایک حدیث بھی اس بارے میں پیش کی جاتی ہے اس کے الفاظ یہ ہیں:

علیکم بالصف الاول و علیکم بالمیمنۃ

کہ پہلی صف میں اور دائیں جانب کھڑے ہوا کرو اس حدیث کو طبرانی نے ذکر کیا ہے مگر اس حدیث کی سند میں اسماعیل بن مسلم مکی ہے وہ بھی ضعیف ہے۔سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے ایک دوسری سند سے مروی حدیث میں ہے کہ جو شخص مسجد کی بائیں جانب کو اس طرف کم لوگ ہونے کی وجہ سے آباد کرے گا اس کے لیے دو اجر ہیں۔

اس حدیث کو بھی طبرانی نے ذکر کیا ہے مگر یہ الفاظ بھی کمزور و ضعیف ہیں کیونکہ اس میں بقیہ اور ابن جریج ہیں یہ دونوں ہی مدلس ہیں انہوں نے یہاں تحدیث یا سماع کی صراحت نہیں کی۔اس سے ملتی جلتی ایک حدیث سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے کہا گیا:

إِنَّ مَيْسَرَةَ الْمَسْجِدِ تَعَطَّلَتْ ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى الله عَليْهِ وسَلَّمَ : مَنْ عَمَّرَ مَيْسَرَةَ الْمَسْجِدِ كُتِبَ لَهُ كِفْلاَنِ مِنَ الأَجْر
سنن ابن ماجة کتاب إقامۃ الصلاۃ، باب فضل میمنۃ الصف (2/ 139)

کہ مسجد کی بائیں جانب تو خالی ہو گئی ہے (لوگ ثواب کی نیت سے دائیں طرف کھڑے ہوتے ہیں) تو آپ نے فرمایا: کہ جس نے مسجد کی بائیں کو آباد کیا اس کو دو گنا ثواب ملے گا۔

یاد رہے کہ یہ حدیث بھی ضعیف ہے کیونکہ اس کی سند میں لیث بن ابی سلیم راوی ہے وہ ضعیف ہے۔مزید بحث کے لیے کتاب المجروحین، تخریج احیاء علوم الدین، مصباح الزجاج اور فتح الباری دیکھی جائے۔

تنبیہ:

میمنۃ المسجد کو ایک خاص حد تک افضلیت حاصل ہے مگر صف کو خراب نہ کیا جائے کہ سارے ہی دائیں طرف کھڑے ہو جائیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے