اب سے کوئی چار ہزار سال پہلے جد الانبیاءجناب ابراھیم خلیل اللہ ایک پہاڑ کی اوٹ میں کھڑے ہو کر یہ دعا کر رہے تھے۔

رَبَّنَآ اِنِّىْٓ اَسْكَنْتُ مِنْ ذُرِّيَّتِيْ بِوَادٍ غَيْرِ ذِيْ زَرْعٍ عِنْدَ بَيْتِكَ الْمُحَرَّمِ ۙ رَبَّنَا لِيُقِيْمُوا الصَّلٰوةَ فَاجْعَلْ اَفْىِٕدَةً مِّنَ النَّاسِ تَهْوِيْٓ اِلَيْهِمْ وَارْزُقْهُمْ مِّنَ الثَّمَرٰتِ لَعَلَّهُمْ يَشْكُرُوْنَ   (سورۃ ابراہیم 37)

اے میرے پروردگار! میں نے اپنی کچھ اولاد اس بےکھیتی کی وادی میں تیرے حرمت والے گھر کے پاس بسائی ہے۔ اے ہمارے پروردگار! یہ اس لئے کہ وہ نماز قائم رکھیں پس تو کچھ لوگوں کے دلوں کو ان کی طرف مائل کر دے۔ اور انھیں پھلوں کی روزیاں عنایت فرما تاکہ یہ شکر گزاری کریں ۔

دلوں کے میلان اور رزق کی دعا کے ساتھ اپنی شریک حیات ھاجرہ علیہا السلام اور بڑھاپے میں (رَبِّ هَبْ لِي مِنَ الصَّالِحِينَ )(اے میرے رب! مجھے نیک بخت اولاد عطا فرما) کی تعبیر و قبولیت کے نتیجہ میں ملنے والے سہارے اور دل کے سرور اسماعیل علیہ السلام کو بے آب و گیاہ وادی مکہ میں چھوڑ کر خود بہت دور جا رہے تھے کچھ کجھوریں اور تھوڑا سا پانی بہم پہنچا سکے تھے جس پر ان دونوں نفوس کا مدار حیات تھا مگر یہ سامان کب تک چلتا آخر ختم ہو گیا اور یہ بات تو ابراہیم علیہ السلام بھی جانتے تھے مگر رب تعالیٰ سے مدد حاصل کرنے کے لیے اور کمال توکل کا لازمہ ہونے کے ناطے انسان کو دنیاوی اسباب مقدور بھر اختیار کرنے چاہیں یہی پیغام ابراہیم علیہ السلام دے رہے تھے رب تعالیٰ کے فیصلہ پر شکر و رضا سے سر تسلیم خم کرنے والوں کو یقیناً اللہ ضائع نہیں کرتا یہی وہ حسن یقین تھا جس کا اظہار ام اسماعیل نے (اذا لا یضیعنا اللہ ابدا) اگر اللہ کا حکم ہے تو پھر وہ ہرگز ہمیں ضائع نہیں کرے گا۔ کے الفاظ کے ساتھ کرتے ہوئے عجیب اطاعت ووفا شعاری کی مثال قیامت تک آنے والیں حوا کی بیٹیوں کے لیے قائم کی اللہ تعالیٰ نے نہ صرف زمزم زمزم کے چشمہ کی شکل میں پانی کا انتظام کیا بلکہ قیامت تک صفا و مروہ کے درمیان بیقراری میں اٹھنے والے ام اسماعیل کے پاؤں کے نشان یوں محفوظ فرمائے کہ بیت اللہ کی طرف آنے والے ہر حاجی اور عمرہ کرنے والے کے لیے انہی نشانات کے پیچھے چلنا ضروری قرار دے دیا۔

پھر بیت اللہ کی دیواریں بھی اٹھائی گئیں اور اللہ کے حکم کی تعمیل میں ’’واذن فی الناس بالحج‘‘ سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے حج کا عالمی اعلان فرما دیا ابراہیم علیہ السلام کا آتش نمرود میں بے خطر کود جانا پھر بیوی اور بچے کو بے آب و گیاہ میں چھوڑ کر چلے جانا پھر اسماعیل علیہ السلام کی صورت میں اپنا کلیجہ کاٹنے پر ناصرف آمادہ ہونا بلکہ عملی کوشش بھی کر ڈالنا بیت اللہ تعمیر کر کے اعلان حج کرنا یہ سب ایک ہی پیغام ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہر حکم پر سر تسلیم خم محبت و اطاعت میں عقل کو لگام اچھا ہے کہ دل کے ساتھ رہے پاسبان عقل لیکن کبھی کبھی تو اسے تنہا بھی چھوڑ دے۔ ابراہیم علیہ السلام کا یوں ایک ملک سے دوسرے ملک عراق سے شام پھر مصر اور فلسطین پھر حجاز مقدس تشریف لے جانا یہ سب رب کے حکم پہ اقامت توحید کے لیے تھا کہ جس کا انعام رب تعالیٰ نے ’’إِنِّي جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ إِمَامًا‘‘ میں تمہیں لوگوں کا امام بنا دوں گا کی صورت میں دیا۔ اسماعیل علیہ السلام جب تک زندہ رہے مکہ میں سیادت و سرداری بھی ان کی رہے پھر ان کے بارہ بیٹوں میں سے نابت اور قیدار زیادہ مشہور ہوئے اور پھر 21 صدیوں تک کے لیے زمام اقتدار بنو جرھم کے ہاتھ میں چلی گئی مگر حاجیوں کا مال ظلم کے ذریعے ہتھیا لینا جب انہوں نے وطیرہ بنا لیا تو معاملہ بنو خزاعہ کے ہاتھ آگیا پھر قریش آئے یہاں تک کے رسول کریم تشریف لے آئے۔ ابراہیم علیہ السلام کی دعا سے اہل مکہ کو رزق کی فروانی رہی امن جیسی نعمت سے بھی سر فراز رہے رب تعالیٰ نے باور کروایا’’الذی اطعمہم من جوع وامنہم من خوف‘‘ امن و استقرار یہ دو ایسی نعمتیں ہیں کہ جن کے بغیر مال و دولت کی فراوانی اور دیگر نعمتوں کا مزہ کر کرہ ہو کر رہ جاتا ہے رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت مبارکہ سے قبل جزیرۃ العرب میں امن و امان نام کی کوئی چیز نہ تھی جنگل کا قانون تھا اور لوگ حجاز کی چھوٹی سی حکومت کی طرف امید بھری نظروں سے دیکھتے مگر مایوس رہتے کہ یہ حکومت اپنے نازک کندھوں پہ عدل و انصاف کا بڑا بھاری بوجھ اٹھانے سے قاصر تھی پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک بعثت سے ظلم و طغیان کا خاتمہ ہوا نہ صرف جریرۃ العرب امن کا گہوارہ بن گیا بلکہ چہار دانگ عالم شمع رسالت کے پروانے امن و ہدایت کی روشنی کے ساتھ پھیل گئے۔ مگر آہستہ آہستہ قرون اولیٰ کے دور ہو جانے اور وقت گزرنے کے ساتھ ظلم و عدوان کی ایسی ہوا چلی کہ پھر حجاج کرام کہ قافلے لٹنے لگے شرک پھیل گیا یہاں تک کہ مصر میں بدوی و رفاعی عراق میں سیدنا علی المرتضیٰ، سیدناحسین بن علی اور امام ابو حنیفہ، عبدالقادر جیلانی یمن میں ابن علوان سے مرادیں مانگی جانے لگیں نوبت یہاں تک آ پہنچی کہ مکہ وطائف میں ابن عباس اور دیگر اصحاب رسول سے حاجت روائی کے لیے دعائیں مانگی جانے لگیں اور خود امام الہدیٰ سیدا لمرسلینﷺ کی مسجد کے آس پاس شرکیہ استغاثہ و استعانت کی صدائیں بلند ہونے لگیں خلافت عثمانیہ کا دور دورہ تھا ترکوں کا سکہ چل رہا تھا نجد چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں بٹ کر خانہ جنگی کی عملی تصویر بنا ہوا تھا۔ ترکوں کے زیر اہتمام مصر سے آنے والی رقوم مزاروں کے مجاوروں پہ تقسیم ہوتی تھی راستے غیر محفوظ ہو گئے تھے یہاں تک کہ ہندوستان میں مخصوص مسلک کے مفتیان کرام حج کی فرضیت ہی ساقط فرما چکے تھے ان حالات میں عیینہ کی وادی میں امام محمد بن عبدالوہاب توحید کی دعوت لیکر اٹھے لوگوں کو صحیح عقیدہ کی طرف بلایا وہاں کے امیر عثمان بن مسلم کو ساتھ ملا کر دعوت کے کام کو آگے بڑھایا مگر حدود اللہ میں سے ایک حد کے نفاذ کی وجہ سے احیا ء و قطیف کا عیاش حاکم آپ کے خلاف ہو گیا جس نے آپ کے قتل کا حکم صادر کر دیا عثمان بن مسلم استقامت نہ دکھا سکھا اور شیخ کو انتہائی کسمپرسی کے عالم میں عیینہ چھوڑنا پڑا اور پیادہ تپتے صحراؤں کا سفر طے کرتے ہوئے درعیہ پہنچے درعیہ کے امیر محمد بن سعود نے خوشدلی سے شیخ کا استقبال کیا یوں آل سعود کا آل شیخ کے ساتھ تعاونوا علی البر والتقوی پر معاہدہ ہو گیا جو بحمد اللہ اب بھی قائم ہے اور آل سعود جدید سعودی عرب کو ترقی کی راہ پہ گامزن کیے ہوئے امن استحکام کا پھریرا لہرا رہا ہے۔ توحید کا لہراتا ہوا علم استعمار کے ساتھ ساتھ صوفی افکار کے دلدادہ تقلید جامد کے رسیا اور خانقاہی مزاج رکھنے والے مسلمانوں کو بھی ایک آنکھ نہیں بھاتا یہی وجہ ہے کہ فرنگی سامراج خانقاہی مزاج ترکی و مصری مدتوں شیخ کی شخصیت اور دعوت کو بدنام کرنے میں لگے رہے۔ دجل و فریب کا مظاہرہ کرتے ہوئے بارہویں صدی ہجری کی اس عظیم تحریک کو اس کے روح و رواں امام محمد سے منسوب کرنے کی بجائے ان کے والد عبدالوہاب کی طرف منسوب کر کے اس کے ڈانڈے دوسری صدی ہجری کی ایک خارجی تحریک رستمی وہابیت سے جاملائے کیونکہ اگر اس تحریک کو امام محمد بن عبدالوہاب سے منسوب کیا جاتا تو یہ تحریک اپنے نام ’’محمدیت‘‘ یا محمدیہ کی وجہ سے مسلمانوں میں بہت جلد قبول عام حاصل کر لیتی یوں اس تحریک کو غیروں نے پامال کرنے میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی اس کے لیے برٹش آرمی کے کمانڈر سیڈلیر کا سفر نامہ ہندوستان سے ریاض تک اگر پڑھ لیا جائے کی کافی ہے پھر درعیہ کے کھنڈرات کو ابراہیم پاشا نے کیوں مسمار کیا۔ اس تحریک کو اپنوں نے فراموش کیا اور غیروں نے خوب بد نام کیا ہنوز یہ سلسلہ جاری ہے کبھی انہدام بقیع پہ نوحہ کرتے ہوئے مذمتی بیز لگائے جاتے ہیںکبھی مزاروں اور قبوں کے خاتمہ پر سعودی حکومت مطعون ٹھرتی ہے پھر یہی نہیں نظریاتی اعتبار سے اس محمدی تحریک کے حامیوں پہ کیچڑ اچھالا جاتا ہے کہ جناب انہیں ریال ملتے ہیں قلم کو تلوار بنا کر اور اس کی نوک پر پگڑیاں اچھال کر صحافت کے بازار میں بھاؤ بڑھایا جاتا ہے بغض صحابہ کا مخصوص عقیدہ رکھنے والوں کی آبیاری کرتے ہوئے انہیں شیر بنا کر پیش کیا جاتا ہے اور بغض معاویہ میں سعودی عرب کی ہر نیکی برائی نظر آنے لگتی ہے مصر میں ہونے والے ستم کی کوئی بھی تایید نہیں کر سکتا مگر جذباتی ہونے کے بجائے حقائق کو دیکھیں کہ اخوانیوں کو اقتدار دلانے والی سب سے بڑی حلیف جماعت (النور) کو مصر کے اقتدار میں اخوانیوں نے کتنا حصہ دیا وقت نکل جانے پہ کیا آنکھیں نہ پھیر لی گئیں سعودی عرب نے امداد بھی کی تائید بھی مگر اقتدار ملنے کے ساتھ انہی کے پاؤں تلے سے جمہوریت کے نام سے رداء اقتدار کھینچنے کی باقاعدہ منظم کوشش شروع کی گئی اور خبردار کرنے کے باوجود ان کے دشمنوں سے محبت کی پینگیں بڑھائی گئیں ایران سے قربت اور سعودیہ سے دوری بڑھی مصر میں جو کچھ ہو رہا ہے یہ ظلم کی داستان ہے یہ خون مسلم کی ارزانی ہے جو ذراسی ناعاقبت اندیشی کا کڑوا ثمر ہے اللہ ان کی مدد فرمائے ہم دوست اور دشمن کو سمجھیں سعودی حکمرانوں کے جرائم میں سے ایک کالم نگاریہ جرم بھی گنواتا ہے کہ انہوں نے نواز شریف کو پناہ دی جبکہ انہی کے ہم مسلک بریلویوں سے نفرت کی جاتی رہی۔ گویا کالم نگار تحت اللفظ یہ خواہش کا اظہار کر رہا ہے کہ نواز شریف کو پناہ نہیں دینی چاہیے تھی بلکہ ایٹم بم کی تخلیق کے باقی کرداروں کی طرح انہیں بھی پھانسی لگنے کے لیے چھوڑ دینا چاہیے تھا نیز پوری دنیا سے لوگ سعودی عرب جاتے ہیں کیا کبھی کسی کو صرف اس لیے ویزہ دینے سے سعودی عرب نے انکار کیا ہے کہ وہ بریلوی ہے یا کوئی اور بلکہ ایرانی بھی حرم جاتے ہیں اور جو کچھ ماضی میں وہ کر چکے ہیں وہ بھی کوئی افسانہ نہیں حقیقت ہے پھر بھی حرم کے دروازے سب پر کھلے ہیں تو نواز شریف کو مہمان بنانے پہ برہمی چہ معنی دارد اور اگر معیار ہی کی بات ہے تو یہی اخبار پیپلز پارٹی کو رگیدتا ہے بے نظیر کی کردار کشی کرتا ہے مگر جب بات پیسے اور مال کی ہوتی ہے تو اپنے اخبار کا آدھا فرنٹ پیج اشتہار کے مخصوص کر دیتا ہے بے نظیر کی تصویر چھاپتا ہے جمہوریت کا چیمپئن بتاتا ہے اور مال بناتا ہے یہ صفحہ قارئین کی امانت بھی ہے اور مخصوص نقطہ نظر کی وجہ سے یہ اخبار خریدنے والوں کے لیے اذیت کا باعث بھی۔ مگر آپکی اپنی بیان کردہ مثال شاید آپکے لیے قابل عمل ٹھری ہے۔ باغیاں بھی خوش رہے راضی رہے صیاد بھی۔ انہیں یہ بھی تکلیف ہے کہ سلفیوں کو جامعہ اسلامیہ میں داخلہ دیا جاتا ہے یہاں وہ اس بات پہ خوش نہیں کہ پاکستانی بھائی تعلیم کے لیے وہاں جاتے ہیں جہاں نہ صرف تعلیم کا بار سعودی حکومت اٹھاتی ہے بلکہ آمدورفت رہائش و طعام کے اخراجات کے ساتھ اسکالر شپ بھی دی جاتی ہے اور اب تو نیٹ پہ فارم پُر کیا جاتا ہے جس میں مسلکی تفریق کا کوئی خانہ نہیں۔ آپ تنقید کر رہے ہیں ٹھیک مگر حقائق کو مسخ نہ کریں شاہ عبد اللہ کی بیماری اور معذوری کا مذاق اڑاتے ہوئے کالم نگار یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ اللہ پاک ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔ آج کا جُگت گو کل خود بھی لطیفہ بن سکتا ہے۔مصر سے بہت پہلے آپ کے پڑوس شام میں لگی ہوئی آگ کے بجھانے میں اخوانیوں کا کیا کردار رہا۔ لاکھوں نفوس کے قاتل بشار الاسد کی پشت پناہی کرنے والوں کے خلاف آپکے قلم میں اتنی شدت کیوں نہیں پاکستان سے دینی تعلیم حاصل کر کے واپس ایران لوٹنے والے جو اسی پاداش میں تختہ دار پہ کھینچنے گئے کہ وہ کسی سلفی ادارہ سے پڑھ کر گئے تھے اور ان کی مخبری کرنے والے مخصوص سیاسی افکار کے حامل لوگ تھے۔ تل ابیب سے ماسکو تک مدینہ منورہ کے خلاف سازشوں میں مصروف ہے استعمار اپنے گماشتوں کے ذریعے سعودی عرب کو گھیرنا چاہتا ہے ہم صرف یہ کہیں گے کہ

’’وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلَى أَلَّا تَعْدِلُوا‘

‘   کسی قوم کی عداوت تمہیں خلاف عدل پر آمادہ نہ کر دے ۔ توحید کی دعوت دینے والوں کا سعودی عرب سے تعلق مال سے زیادہ مآل سے ہے یہاں عقیدت کا راستہ عقیدہ کے ساتھ وابستہ ہے ریالوں اور ڈالروں کی ریل پیل تو 1938ء میں سعودیہ میں پیڑول دریافت ہونے کے بعد آہستہ آہستہ شروع ہوئی مگر اہل توحید تو اس سے بہت پہلے کہ ان سے جڑے ہوئےہیں۔ ٹی وی چینلز نے پرانے میراثیوں کی ذمہ داری سنبھال لی ہے امریکہ کا ایک جہاز امدادی سامان لے کر آئے تو ہر چینلز پہ چوبیس گھنٹے اڑتا نظر آتا ہے جبکہ سعودی عرب کا سفیر اپنے دیگر ساتھیوں سمیت ایام عید سیلاب زدگان میں گزار دے سعودی عرب بے پناہ امداد فراہم کرے تو انہیں جائز کوریج بھی نہ دی جائے مگر وہ شکوہ نہ کریں بلکہ امداد دے کر بھی ڈھنڈورا نہ پیٹیں۔ ڈپلومیٹک مشن کا عضو قربان کروائیں لیکن سعودی ٹی وی پہ خبر نہ چلائیں کہ پاکستان کی بدنامی نہ ہو ہر مشکل گھڑی میں پاکستان کا ساتھ دینے والے سعودی عرب کے خلاف استعماری ایجنٹ تو لکھیں یا بولیں تو سمجھ آتی ہے مگر جوش حق گوئی میں اپنوں کا قلم بہک جائے تو بہت تکلیف کی بات ہے ہر وہ بات جو پاکستان اور سعودی عرب کے مفادات کے مخالف ہو اس سے استعماری طاقتیں خوش ہوتی ہیں اور ہمیں یہ سب چیزیں سامنے رکھنی ہیں سعودی عرب کی حکومت کے کئی جرائم ہیں جن میں سے پوری دنیا میں دین کی نشر و اشاعت اور توحید خالص کے ابلاغ کے لیے مختلف دینی مراکز و مساجد کی تعمیر اپنے شہریوں کے حقوق کی پاسداری تنفیذ شریعت، خدمت حرمین شریفین، حجاج کرام کے لیے محفوظ اور مامون راستے مظلوم مسلمانوں کی ہر جگہ مدد جیسے برمی مسلمانوں کو اپنے ملک میں پناہ دینا اور بہت سے دیگر جرائم جنکی تفصیل ہم ان شاءاللہ اس ماہ کے مجلہ میں قارئین کی نذر کر رہے ہیں اس دعا کے ساتھ کہ اللہ ان معاملات میں پاکستان کو بھی سعودی عرب کا ہم نوا بنا دے دونوں ملکوں کو اللہ حاسدوں کے حسد اور اشرار کے شر سے محفوظ رکھے ، اور دیگر تمام عالم اسلام کی حفاظت فرمائے۔ آمین۔

شکیل آفریدی کے وزن میں کچھ لوگ محترمہ عافیہ صدیقی کو تول ر ہے ہیں اندھیرا اور اجالا برابرکیسے ہو سکتا ہے غدار اور وفادار کیسے برابر ہو سکتے ہیں۔ طالبان سے مذکرات کے نام پہ استعماری ایجنٹوں کے پیٹ میں بل پڑ رہے ہیں بہرحال حل یہی ہے کہ یہ طاقت پاکستان کے لیے استعمال ہو ۔ زلزلوں کا ایک سلسہ شروع ہوا ہے اللہ پاک اہل بلوچستان کی مدد فرمائے۔ اور وہاں امدادی کاروائیوں میں مصروف عمل سب سے پہلے پہنچنے والی ’’فلاح انسانیت فاؤنڈیشن‘‘ اور دیگر احباب و اداروں کو ہمت بھی دے اور جزائے خیر سے نوازے۔ رکاوٹ بننے والوں کو ہدایت نصیب فرمائے۔ ہم سب کو آزمائشوں سے محفوظ رکھے۔ چرچ میں بم دھماکے اور دیگر خود کش دھماکے اصل میں مذکرات کو سبوتاژ کرنے کی سوچی سمجھی اسکیم ہے اللہ سمجھنے کی توفیق کے ساتھ سب کی حفاظت فرمائے۔ آمین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے