دور حاظر کو بنظر غائر دیکھا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ کیسے کیسے نت نئے فتنے، برائیاںہیںجو ہمارے لئے اور ہمارے ایمان کے لئے ناسور ہوتے جارہےہیں۔ان فتنوں اور برائیوں سے بچنے کے شریعت نے کئی اسباب بتلائے ہیں، جن کو اگر اختیار کر لیا جائے تو یقیناً ایسے فتنوں سے بچا جاسکتا ہے ۔ یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ بیماریاں دو قسم کی ہیں ۔ (1) جسمانی بیماریاں (2) روحانی بیماریاں

(1) جسمانی بیماریاں جیسے بخار وغیرہ اس کے حوالے سے شریعت نے ہمیں ایک عقیدہ دیا کہ کوئی بیماری متعدی نہیں ہوتی ۔چناچہ سیدنا ابو ھریرہ رضی اللہ عنہسے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’کوئی بیماری متعدی نہیں ہوتی اور یہ ماہ صفر کی نحوست ، شگون لینا اور الو کا بولنا کوئی نہیں ‘‘ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جب یہ فرمان سنایاتو ایک دیہاتی کہنے لگاکہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا بات ہے کہ اونٹ میدان میں ہرنوں کی طرح ہوتے ہیں، ان کے ساتھ ایک خارشی اونٹ آکر ملتا ہے تو ان کو بھی خارشی بنا دیتا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پہلے اونٹ کو خارش کہاں سے آئی۔(صحیح بخاری :5775 ،صحیح مسلم :2220 ،ابو داؤد :3911 ،مسند احمد : 7620 ،)

بہرحال اس حدیث یہ بات واضح ہے کہ کوئی بیماری متعدی نہیں اگرچہ بعض اس میں اختلاف بھی کرتے ہیں اور ان کا اختلاف کس نوعیت کاہے، اس تفصیل کا یہ مقام نہیں ۔

(2) روحانی بیماری اس سے مراد گناہ ، برائیاں ، فتنے و غیرہ ہیں ۔ یہ متعدی ہوتے ہیں ، یعنی اگر ایک اچھا نیک شخص بری صحبت میں بیٹھے تو اسکی صحبت یقینی طور پر اس پر اثر انداز ہوگی ۔ لہٰذا یہ بات واضح ہے کہ آج فتنوں اور برائیوں کے پھیلنے کے اسباب میں سے ایک سبب یہ بھی ہے کہ ہم نے اپنی صحبتوں کے لئے کوئی معیار مقرر نہیں کیا اگر کیا بھی ہے تو اس حد تک کہ اس کی دنیوی حیثیت و شہرت کیا ہے باقی اس کے ذاتی اخلاق و کردار دینداری ہماری صحبتوں کے انتخاب میں کبھی ترجیحی حیثیت اختیار نہیں کرتی یہی وجہ ہے کہ ہم دین سے دور اور دنیا سے لو لگاتےجا رہے ہیں ، ہم اس مضمون میں اچھی صحبت کے فوائد اور بری صحبت کے نقصانات بیان کریں گے :۔

اچھی صحبت اور بری صحبت کی مثال :

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اچھی صحبت اور بری صحبت کو ایک عظیم مثال کے ساتھ سمجھایا چناچہ آپ علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں:

’’عَنْ أَبِي مُوسَى رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ” مَثَلُ الجَلِيسِ الصَّالِحِ وَالسَّوْءِ، كَحَامِلِ المِسْكِ وَنَافِخِ الكِيرِ، فَحَامِلُ المِسْكِ: إِمَّا أَنْ يُحْذِيَكَ، وَإِمَّا أَنْ تَبْتَاعَ مِنْهُ، وَإِمَّا أَنْ تَجِدَ مِنْهُ رِيحًا طَيِّبَةً، وَنَافِخُ الكِيرِ: إِمَّا أَنْ يُحْرِقَ ثِيَابَكَ، وَإِمَّا أَنْ تَجِدَ رِيحًا خَبِيثَةً ” (صحیح بخاری : 5534 ، صحیح مسلم :2628 )

یعنی : ابوموسی رضی اللہ عنہ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اچھے اور برے ساتھی کی مثال اس شخص کی سی ہے جو مشک لئے ہوئے ہے اور بھٹی دھونکنے والا ہے، مشک والا یا تو تمہیں کچھ دیدے گا یا تم اس سے خرید لوگے یا اس کی خوشبو تم سونگھ لوگے(یعنی ہر صورت فائدہ ہی فائدہ ہے ) اور بھٹی والا یا تو تمہارے کپڑے جلادے گا یا تمہیں اس کی بدبو پہنچے گی۔(یعنی ہر صورت میں نقصان ہی نقصان ہے ۔)

یہی روایت سنن ابو داؤد (4829 ) وغیرہ میں انس رضی اللہ عنہسے بھی مروی ہے ۔

اچھی صحبت اور اس کے فوائد :

مذکورہ بالا حدیث کی روشنی میں اچھی صحبت کے فوائد اور بری صحبت کے نقصانات کو سمجھا جا سکتا ہے لیکن ہم اسے مزید ذیلی سطور میں بیان کررہے ہیں۔

عالم کی صحبت کے فوائد :

ایک عالم کی صحبت کے بڑے فوائد ہیںکہ انسان اس سے بہت کچھ دینی معلومات کے حوالے سے سیکھ کر نہ صرف اسے خود اختیار کر سکتا ہے بلکہ دوسروں کی نجات کا سبب بھی بن سکتا ہے ۔اس حوالے سے ایک عظیم واقعہ جو صحیح مسلم اور کتب تفاسیر میں بھی موجود ہے :

’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم سے پہلے ایک بادشاہ تھا جس کے پاس ایک جادوگر تھا جب وہ جادوگر بوڑھا ہو گیا تو اس نے بادشاہ سے کہا کہ اب میں بوڑھا ہو گیا ہوں تو آپ میرے ساتھ ایک لڑکے کو بھیج دیں تاکہ میں اسے جادو سکھا سکوں ،بادشاہ نے ایک لڑکا جادو سیکھنے کے لئے جادوگر کی طرف بھیج دیا ،جب وہ لڑکا چلا تو اس کے راستے میں ایک راہب تھا، وہ لڑکا اس راہب کے پاس بیٹھا اور اس کی باتیں سننے لگا جو کہ اسے پسند آئیں ،پھر جب بھی وہ جادوگر کے پاس آتا اور راہب کے پاس سے گزرتا تو اس کے پاس بیٹھتا (اور اس کی باتیں سنتا) اور جب وہ لڑکا جادوگر کے پاس آتا تو وہ جادوگر اس لڑکے کو (دیر سے آنے کی وجہ سے) مارتا، اس لڑکے نے اس کی شکایت راہب سے کی۔ راہب نے کہا کہ اگر تجھے جادوگر سے ڈر ہو تو کہہ دیا کر کہ مجھے میرے گھر والوں نے روک لیا تھا اور جب تجھے گھر والوں سے ڈر ہو تو تو کہہ دیا کر کہ مجھے جادوگر نے روک لیا تھا۔(میرے پاس آتے رہنا) اسی دوران ایک بہت بڑے درندے نے لوگوں کا راستہ روک لیا (جب لڑکا اس طرف آیا) تو اس نے (دل میں )کہا کہ میں آج جاننا چاہوں گا کہ جادوگر افضل ہے یا راہب افضل ہے ۔اور پھر ایک پتھر پکڑا اور کہنے لگا :اے اللہ! اگر تجھے جادوگر کے معاملہ سے راہب کا معاملہ زیادہ پسند یدہ ہے تو اس درندے کو مار دے ، تاکہ لوگوں کا آنا جانا ہو اور پھر وہ پتھر اس درندے کو مار کر اسے قتل کر دیا اور لوگ گزرنے لگے پھر وہ لڑکا راہب کے پاس آیا اور اسے اس واقعے کی خبر دی۔ راہب نے اس لڑکے سے کہا :اے میرے بیٹے! آج تو مجھ سے افضل ہے ،کیونکہ تیرا معاملہ اس حد تک پہنچ گیا ہے کہ جس کی وجہ سے تو عنقریب ایک مصیبت میں مبتلا کر دیا جائے گا پھر اگر تو (کسی مصیبت میں) مبتلا کر دیا جائے تو کسی کو میرا نہ بتانا۔

اب وہ لڑکا مادر زاد اندھے اور کوڑھی کو صحیح کر دیتا تھا بلکہ لوگوں کا ساری بیماری سے علاج بھی کر دیتا تھا بادشاہ کا ایک ہم نشین اندھا ہو گیا، اس نے لڑکے کے بارے میں سنا، تو وہ بہت سے تحفے لے کر اس کے پاس آیا اور اسے کہنے لگا :اگر تم مجھے شفا دے دو تو یہ سارے تحفے جو میں یہاں لے کر آیا ہوں وہ سارے تمہارے لئے ہیں۔ اس لڑکے نے کہا: میں تو کسی کو شفا نہیں دے سکتا، شفاء تو اللہ تعالیٰ دیتا ہے ،اگر تو اللہ پر ایمان لے آئے تو میں اللہ تعالیٰ سے دعا کروں گا کہ وہ تجھے شفاء دے دے ۔پھر وہ (شخص) اللہ پر ایمان لے آیا تو اللہ تعالیٰ نے اسے شفاء عطا فرما دی۔ پھر وہ آدمی بادشاہ کے پاس آیا اور اس کے پاس بیٹھ گیا جس طرح کہ وہ پہلے بیٹھا کرتا تھا۔ بادشاہ نے اس سے کہا: کس نے تجھے تیری بینائی واپس لوٹا دی؟ اس نے کہا: میرے رب نے ۔اس نے کہا: کیا میرے علاوہ تیرا اور کوئی رب بھی ہے ؟اس نے کہا: میرا اور تیرا رب اللہ ہے۔ پھر بادشاہ اس کو پکڑ کر اسے سزائیں دینے لگا تو اس نے بادشاہ کو لڑکے کے بارے میں کہا پھر جب وہ لڑکا آیا تو بادشاہ نے اس لڑکے سے کہا :کیا تیرا جادو اس حد تک پہنچ گیا ہے کہ اب تو مادر زاد اندھے اور کوڑھی کو بھی صحیح کرنے لگ گیا ہے اور ایسے ایسے کرتا ہے؟ لڑکے نے کہا :میں تو کسی کو شفا نہیں دیتا بلکہ شفاء تو اللہ تعالیٰ دیتا ہے ۔بادشاہ نے اسے پکڑ کر سخت سزائیں دیں،یہاں تک کہ بچے نے راہب کے بارے میں بادشاہ کو بتا دیا ۔

راہب آیا تو اس سے کہا گیا کہ تو اپنے مذہب سے پھر جا، راہب نے انکار کر دیا پھر بادشاہ نے آرا منگوایا اور اس راہب کے سر پر رکھ کر اس کا سر چیر کر اس کے دو ٹکڑے کر دئیے ۔پھر بادشاہ کے ہم نشین کو لایا گیا اور اس سے بھی کہا گیا کہ تو اپنے مذہب سے پھر جا اس نے بھی انکار کر دیا بادشاہ نے اس کے سر پر بھی آرا رکھ کر سر کو چیر کر اس کے دو ٹکڑے کروا دئیے۔ پھر اس لڑکے کو بلوایا گیا ،وہ آیا تو اس سے بھی یہی کہا گیا کہ اپنے مذہب سے پھر جا اس نے بھی انکار کر دیا تو بادشاہ نے اس لڑکے کو اپنے کچھ ساتھیوں کے حوالے کرکے کہا اسے فلاں پہاڑ پر لے جاؤ اور اسے اس پہاڑ کی چوٹی پر چڑھاؤ ،اگر یہ اپنے مذہب سے پھر جائے، تو اسے چھوڑ دینا اور اگر انکار کر دے ،تو اسے پہاڑ کی چوٹی سے نیچے پھینک دینا۔ چنانچہ بادشاہ کے ساتھی اس لڑکے کو پہاڑ کی چوٹی پر لے گئے، اب اس لڑکے نے کہا اے اللہ تو مجھے ان سے کافی ہے جس طرح تو چاہے مجھے ان سے بچا لے، اس پہاڑ پر فورا ایک زلزلہ آیا جس سے بادشاہ کے وہ سارے ساتھی گر گئے، اور وہ لڑکاچلتے ہوئے بادشاہ کی طرف آگیا ۔بادشاہ نے اس لڑکے سے پوچھا: تیرے ساتھیوں کا کیا ہوا؟ لڑکے نے کہا: اللہ پاک نے مجھے ان سے بچا لیا ہے ۔بادشاہ نے پھر اس لڑکے کو اپنے ساتھیوں کے حوالے کر کے کہا،اگر یہ اپنے مذہب سے نہ پھرے تو اسے ایک چھوٹی کشتی میں لے جا کر سمندر کے درمیان میں پھینک دینا ۔بادشاہ کے ساتھی اس لڑکے کو لے گئے ،اب اس لڑکے نےپھروہی کہا اے اللہ! تو جس طرح چاہے مجھے ان سے بچا لے۔ (اللہ نے اس کی دعا قبول کی )وہ کشتی بادشاہ کے ان ساتھیوں سمیت الٹ گئی اور وہ سارے کے سارے غرق ہو گئے۔ اور وہ لڑکا چلتے ہوئے بادشاہ کی طرف آگیا۔ بادشاہ نے اس لڑکے سے کہا :تیرے ساتھیوں کا کیا ہوا؟ اس نے کہا: اللہ تعالیٰ نے مجھے ان سے بچا لیا ہے ۔پھر اس لڑکے نے بادشاہ سے کہا: تو مجھے قتل نہیں کر سکتا جب تک کہ اس طرح نہ کرو، جس طرح کہ میں تجھے حکم دوں ۔بادشاہ نے کہا: وہ کیا؟ اس لڑکے نے کہا :سارے لوگوں کو ایک میدان میں اکٹھا کرو اور مجھے سولی کے تختے پر لٹکاؤ، پھر میرے ترکش سے ایک تیر کو پکڑو، پھر اس تیر کو کمان کے حلہ میں رکھو ،اور پھر کہو :بسم اللہ رب ھذا الغلام ۔ یعنی : اس اللہ کے نام سے جو اس لڑکے کا رب ہے ۔پھر مجھے تیر مارو، اگر تم اس طرح کروگے، تو مجھے قتل کرسکتے ہو۔

بادشاہ نے لوگوں کو ایک میدان میں اکٹھا کیا اور پھر اس لڑکے کو سولی کے تختے پر لٹکا دیا پھر اس کے ترکش میں سے ایک تیر لیا پھر اس تیر کو کمان کے حلہ میں رکھ کر کہا:بسم اللہ رب ھذا الغلام ۔یعنی : اس اللہ کے نام سے جو اس لڑکے کا رب ہے۔ پھر وہ تیر اس لڑکے کو مارا ،وہ تیر اس لڑکے کی کنپٹی میں جا گھسا۔ لڑکے نے اپنا ہاتھ تیر لگنے والی جگہ پر رکھا اور مر گیا ۔سب لوگوں نے یہ منظر دیکھ کر کہا: ہم اس لڑکے کے رب پر ایمان لائے ،ہم اس لڑکے کے رب پر ایمان لائے، ہم اس لڑکے کے رب پر ایمان لائے، بادشاہ کو اس کی خبر دی گئی، اور اس سے کہا گیا ،تجھے جس بات کا ڈر تھا اب وہی بات آن پہنچی کہ لوگ ایمان لے آئے ۔ بادشاہ نے گلیوں کے دھانوں پر خندق کھودنے کا حکم دیا ،پھر خندقیں کھودیں گئیں اور ان خندقوں میں آگ جلا دی گئی بادشاہ نے کہا جو آدمی اپنے مذہب سے پھرنے سے باز نہیں آئے گا ،اسے اس خندق میں ڈلوادیا جائے گا ،لوگ خندقوں میں کودنے لگے یہاں تک کہ ایک عورت آئی ،اور اس کے ساتھ ایک بچہ بھی تھا، وہ عورت خندق میں گرنے سے گھبرائی، تو اس عورت کے بچے نے کہا :اے امی جان صبر کر کیونکہ تو حق پر ہے ۔‘‘ (صحیح مسلم : 3005 ،ترمذی : 3340،مصنف عبدالرزاق :9751 ،مسند احمد :23931 ،مسند بزار :2090 ،المعجم الکبیر : 7320 ،صحیح ابن حبان : 873 ،شعب الایمان : 1518 ، )

اس واقعے کو بار بار پڑھا جائے تو اس میں بڑی سبق آموز نصیحتیں ہیںاور ساتھ ہی اس واقعے سے اچھی صحبت کے فوائد بھی واضح ہوگئے اگر ہم اپنے بچوں کو اس طرح علماء کی صحبت میں بیٹھنے کے مواقع دیں تو جس طرح یہ بچہ خود تو دولت توحید سے مالا مال ہوا ہی ، ساتھ کتنے ہی لوگوں کے اصلاح عقیدہ کا سبب بن گیا،تو یقیناً ہمارے بچے بھی نت نئے فتنوں اور شعبدہ بازوں کے چنگل سے محفوظ رہ سکتے ہیں ۔

اور خداانخواستہ اگر یہ بچہ اسی جادوگر کے زیر تربیت رہتا تو جادو سیکھنا ویسے ہی کفر ،اور نہ جانے مزید کتنے ہی گھروں میں فساد برپا کرنے کا سبب بن جاتا؟؟

اسی طرح ایک عالم کی صحبت کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قیامت کی نشانیاں بیان کرتے ہوئے فرمایا:اعمال میں جلدی کرلو اندھیری رات کی طرح فتنوں کے آنے سے پہلے پہلے ،آدمی صبح کو مومن ہوگا اور شام کو کافر ،اور شام کو مومن ہوگا اور صبح کوکافر ، آدمی اپنے دین کو دنیا کے فائدے کے بدلے بیچ دے گا ۔(صحیح مسلم : 118، ترمذی : 2195 ،مسند احمد : 8030، المعجم الاوسط :2774، صحیح ابن حبان : 6704،مسند ابی یعلی :6515   )

اسی طرح اس مفہوم کی روایت دیگر صحابہ سے بھی ثابت ہیں۔

اب انسان سوچتا ہے کہ عقل انسانی تو دن بدن ترقی کرتی جارہی ہے تو بھلا یہ کیونکر اور کیسے ممکن ہے کہ لوگوں کا شعور اتنا گر جائے لوگ ایک دن میں متعدد بار اپنا دین بدلیں گے تو اسکی ایک وجہ تو حدیث میں مال کا فتنہ بیان ہوئی دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ علم اٹھ جائے گا چناچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ علم اٹھ جائے گا اورجہالت ،زنا اور شراب نوشی بڑھ جائے گی ،اادمی کم ہوجائیں گے اور عورتیں بڑھ جائیں گی حتی کہ 50 عورتوں کا ایک ہی نگران ہوگا ۔(صحیح بخاری :5231 )

اب علم کیسے اٹھے گا ؟دوسری حدیث میں فرمایا: اللہ تعالی لوگوں کے سینوں سے کھینچ کر علم نہیں نکالے گا بلکہ علم چلاجائے گا علماء کے چلے جانے سے ،حتی کہ کوئی عالم باقی ہی نہیں رہے گا ،پھر لوگ اپنے رہبر و پیشوا جہال کو بنالیں گے ،(کہا جاسکتا ہے کہ دین کے معاملے میں تو جاہل ہوںگے لیکن دنیاوی امور میں تیز ترار ہوں گے )لوگ ان سے مسائل پوچھیں گے اور وہ بغیر علم کے فتوی دیں گے ،ایسے لوگ خود بھی گمراہ ہونگے اور لوگوں کو بھی گمراہ کر ڈالیں گے ۔(صحیح بخاری : 100،صحیح مسلم :2673، ترمذی : 2652 ،سنن ابن ماجہ : 52 )

اس حدیث سے علماء کی صحبت کی اہمیت بالکل واضح ہوگئی ،ساتھ ہی یہ بھی واضح ہوگیا کہ غیر عالم کو وہ حیثیت و مرتبہ دے دینا جو ایک عالم کا ہونا چاہئے اور ایسے لوگوں کی صحبت اختیار کرنا گمراہی کا سبب ہے ۔

نیک انسان کی صحبت :

عالم کی صحبت کے فوائد تو احادیث کی روشنی میں واضح ہوگئے ،اب ایک ایسا انسان جو عالم تو نہیں مگر نیک ہے اس کی صحبت بھی مفید ہے، چناچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:

الْمُؤْمِنُ مِرْآةُ الْمُؤْمِنِ (سنن ابوداؤد : 4918)

یعنی مومن دوسرے مومن کے لئے آئینہ کی طرح ہے ۔

اب ایک مومن دوسرے مومن کے لئے آئینہ کی طرح کیسے ہوگا ظاہر سی بات ہے کہ جب اس کی صحبت اختیار کرے گا اور ایک آئینہ سے تشبیہ میں جو بلاغت ہے وہ بھی ملاحظہ فرمائیے :

(1) آئینہ کا کام اصلاح کرناہے لہذا یہی کام مومن کا ہے کہ وہ بھی اپنے مومن بھائی کی اصلاح کرتا رہے ۔

(2) آئینہ جس میں خامی ہوتی ہے اسی کو بتلاتا ہے، ایسا نہیں کرتا کہ خامی کسی میں اور آئینہ جا کر کسی کو بتلا رہا ہو۔یہی کام مومن کا ہوناچاہئے ۔

(3) آئینہ میں ایک وصف یہ بھی ہے کہ جتنی خامی ہوتی اتنی دکھاتا ہے زیادہ نہیں ۔ایک مومن کو بھی ایسا ہونا چاہئے ۔

(4)آئینہ میں جب بھی دیکھا جائے تو وہ اصلاح کے لے تیار ہے ،تو ایک مومن کو بھی ایسا ہی ہونا چاہئے کہ ہمہ وقت غیر شرعی معاملے میں اپنے ساتھی کی اصلاح کے لئے تیار رہے

قارئین خود ہی اندازہ لگاسکتے ہیں کہ جب ایسے مومن کی صحبت اختیار کی جائے گی اور ہر مومن ایسا بننے کی کوشش کرے گا تو ایسی صحبت کس حد تک مفید ثابت ہوسکتی ہے۔

اسی طرح ایک نیک مومن انسان کی صحبت کے حوالے سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان بھی قابل غور ہے ،چناچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

لَا تُصَاحِبْ إِلَّا مُؤْمِنًا، وَلَا يَأْكُلْ طَعَامَكَ إِلَّا تَقِيٌّ(سنن ابوداؤد : 4832 ، ترمذی : 2395 )

یعنی : آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سوائے مومن آدمی کے کسی کی صحبت مت اختیار کر، اور تیرا کھانا سوائے پرہیزگار کے کوئی نہ کھائے۔

لہذا ہماری حد درجہ ترجیحی بنیادوں پر یہ کوشش ہونی چاہئے کہ ہماری صحبت اور ہمارے اہل مجلس علماء ہوں ،یا کم از کم نیک صالح مومن کی صحبت ضرور اختیار کی جائے۔

بری صحبت اور اس کے نقصانات :

جس طرح ہمیں اچھی صحبت اختیار کرنے کا جذبہ ساتھ ہی حد درجہ بری صحبت سے دور رہنے کی کوشش کرنی چاہئے ۔ کیونکہ انسان کی شخصیت کے لئے بڑی متاثر کرتی ہے۔مثلاً:

ایک صحابی مالک بن دخشن رضی اللہ عنہ انہیں بعض صحابہ منافق سمجھتے تھے اور پھر خود اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے گواہی دی کہ یہ منافق نہیں بلکہ سچے صحابی ہیں ۔(صحیح بخاری : 425 ،صحیح مسلم : 33)

حدیث میں یہ بھی وضاحت ہے کہ صحابہ نے انہیں منافق سمجھنے کی وجہ بتلائی کہ انکی توجہ منافقین کی طرف ہے نیز شارحین نے بھی اس کی وضاحت کی ہے کہ مالک بن دخشن رضی اللہ عنہ کا بعض منافقین سے ملاقات کا سلسلہ تھا اسی وجہ سے بعض صحابہ انہیں منافقین میںسے شمار کرنے لگے۔

اب اندازہ لگائیے کہ ایک صحابی رسول مالک بن دخشن رضی اللہ عنہ جو بدری صحابی ہیں اور وہ صحابی ہیں جو مسجد ضرار کو جلانے والوں میں سے ہیں ،جن کے ایمان میں ذرا بھی شک ہمارے ایمان کے لئے نقصان دہ ہے ۔ایسے صحابی کی شخصیت بھی بعض صحابہ کی نظر میں بظاہر مشکوک ہوسکتی ہے جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم    نے فوراًختم کردیا ،تو آج ہم جو کہتے ہیں کہ ہم تو ٹھیک ہیں جس کے پاس بیٹھتے ہیں وہ غلط ہیں اس میں ہمارا کیا قصور؟؟ یا اگر ہم اہل بدعت کے پاس اٹھتے ،بیٹھتے ہیں تو کیا ہوا ہم تو اپنے ایمان پر قائم ہیں ایسے نادانوں کو اس واقعے سے سبق حاصل کرنا چاہئے ۔

بری صحبت کے نقصانات کو پیچھے گزری حدیث کی روشنی میں بھی سمجھا جاسکتا ہے ۔

اسی طرح جب ابوطالب کی وفات کا وقت قریب آیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس تشریف لائے تو ابوجہل اور عبداللہ بن امیہ بن مغیرہ کو ان کے پاس موجود پایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اے چچا لَا اِلٰہ اِلَّا اللہ کا کلمہ کہہ دو میں اللہ تعالیٰ کے سامنے اس کی گواہی دوں گا ابوجہل اور ابن امیہ کہنے لگے کیا تم عبدالمطلب کے دین سے پھر رہے ہو؟ مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم باربار کلمہ تو حید اپنے چچا ابوطالب کے سامنے پیش کرتے رہے اور یہی بات دھراتے رہے بالآخر ابوطالب نے لَا اِلٰہ اِلَّا اللہ کہنے سے انکار کردیا اور آخری الفاظ یہ کہے کہ میں عبدالمطلب کے دین پر ہوں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تک مجھے روکا نہیں جائے گا میں تو برابر دعائے مغفرت کرتا رہوں گا اس پر اللہ تعالیٰ نے آیت

[مَا كَانَ لِلنَّبِيِّ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْ ا اَنْ يَّسْتَغْفِرُوْا لِلْمُشْرِكِيْنَ وَلَوْ كَانُوْ ا اُولِيْ قُرْبٰى مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَھُمْ اَنَّھُمْ اَصْحٰبُ الْجَحِيْم ]

نازل فرمائی نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور مومنوں کے لئے یہ بات مناسب نہیں کہ مشرکوں کے لئے مغفرت کی دعا کریں اگرچہ وہ رشتہ دار ہوں جبکہ ان پر یہ ظاہر ہوگیا ہو کہ وہ دوزخی ہیں اور اللہ تعالیٰ نے ابوطالب کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خطاب فرماتے ہوئے یہ آیت نازل فرمائی

[اِنَّكَ لَا تَهْدِيْ مَنْ اَحْبَبْتَ وَلٰكِنَّ اللّٰهَ يَهْدِيْ مَنْ يَّشَا ءُ وَهُوَ اَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِيْنَ]

یعنی بے شک تو ہدایت نہیں کر سکتا جسے تو چاہے لیکن اللہ تعالیٰ ہدایت کرتا ہے جسے چاہے اور وہ ہدایت والوں کو خوب جانتا ہے۔(صحیح بخاری : 3884 ،صحیح مسلم :24 )

یہاں بھی دیکھیں کہ بری صحبت کس قدر نقصان دہ ثابت ہوئی ۔ابوجہل اور ابن امیہ کی صحبت ابو طالب کے کفر کا سبب بن گئی ،باوجود اس کے کہ ابو طالب نے ساری زندگی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ دیا مگر وہ ساتھ کسی کام نہیں آئے گا ۔کیونکہ اصل ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  پر ایمان لانا اسے ہی ابوطالب نے اختیار نہ کیا ۔

لہذا کفار و منافقین ، گناہگاروں کی صحبتیں بری صحبتیں ہیں جن سے بچنا انتہائی ضروری ہے اسی لئے قرآن مجید میں ایسی صحبتوں میں بیٹھنا جہاں شریعت کا مذاق اڑایا جارہا ہو اس محفل میں بیٹھنا انہیں میں شمار ہوگا ۔

اپنا جائزہ :

یہاں یہ پہلو بھی قابل غور ہے کہ انسا ن کو اپنا جائزہ بھی لینا چاہئے کہ اس کا اپنا طرز عمل کیسا کہ لوگ اس کی صحبت کے حریص و مشتا ق ہیں یا بیزار ۔

کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے : اس دنیا سے انسان جاتا ہے تو یا تو وہ مستریح (راحت پانے والا )ہوتا ہے یا مستراح (کہ جس سے لوگ راحت پاجائیں )پھر صحابہ کے پوچھنےپر نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس کی وضاحت فرمائی کہ مومن آدمی دنیا کی تکالیف سے راحت پاکر اللہ کی رحمت کی طرف راحت پالیتا ہے ،اور گنا ہ گار آدمی جب اس دنیا سے جاتا ہے تو لوگ شہر ،درخت اور جانوروں کوبھی اس(کے شر ) سے راحت پالیتے ہیں ۔ (صحیح بخاری : 6512 ، صحیح مسلم : 950)

ہمیں اپنا اخلاق اور کردار نبی صلی اللہ علیہ وسلم جیسا بنانا ہوگاکہ لوگ ان کی صحبت کے مشتاق تھے جیسا کہ قرآن مجید نے گواہی دی :

[فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللّٰهِ لِنْتَ لَھُمْ ۚ وَلَوْ كُنْتَ فَظًّا غَلِيْظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِكَ ۠]

یعنی : اللہ کی یہ کتنی بڑی نعمت ہے کہ (اے پیغمبر آپ ان کے حق میں نرم مزاج واقع ہوئے ہیں ۔ اگر آپ (خدانخواستہ) تند مزاج اور سنگ دل ہوتے تو یہ آپ کے پاس سے سب منتشر ہوجاتے۔(آل عمران : 159)

اسی طرح صحیح بخاری میں ایک عورت کاواقعہ موجود ہے: سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہافرماتی ہیں کہ ایک حبشی عورت جو کسی عرب کی لونڈی تھی۔ ایمان لائی اور مسجد (کے قریب) میں اس کی ایک جھونپڑی تھی جس میں وہ رہتی تھی ،سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ وہ ہمارے پاس آکر ہم سے باتیں کرتی اور جب وہ اپنی بات سے فارغ ہو جاتی تو یہ اشعار پڑھاکرتی تھی :

ٱ ويوم الوشاح من تعاجيب ربنا
ألا   إنه من بلدة الکفر أنجاني

یعنی : اور ہار والا دن پروردگار کی عجائبات قدرت میں سے ہےہاں اسی نے مجھے کفر کے شہر سے نجات عطا فرمائی!

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں : جب اس نے بہت دفعہ یہ کہا تو اس سے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہانے پوچھا۔ ہار والا دن؟ (یعنی اس کا کیا پس منظر ہے ؟ ) اس نے کہا :میرے آقا کی ایک لڑکی باہر نکلی اس پر ایک چمڑے کا ہار تھا، وہ ہار اس کے پاس سے گر گیا تو ایک چیل گوشت سمجھ کر اس پر جھپٹی اور لے گئی۔ لوگوں نے مجھ پر تہمت لگائی اور مجھے سزادی۔ حتی کہ میرا معاملہ یہاں تک بڑھا کہ انہوں نے میر ی شرمگاہ کی بھی تلاشی لی۔ لوگ میرے ارد گرد تھے اور میں اپنی مصیبت میں مبتلا تھی۔ کہ دفعتا ًوہ چیل آئی جب وہ ہمارے سروں پر آگئی تو اس نے وہ ہار اوپر سے پھینک دیا۔ لوگوں نے اسے لے لیا تو میں نے کہا: تم نے اسی کی تہمت مجھ پر لگائی تھی، حالانکہ میں اس سے بالکل بری تھی۔(صحیح بخاری : 3835 ،کتاب مناقب الانسار ، باب ایام الجاھلیۃ )

اس واقعہ سے بھی یہ واضح ہے کہ اگرآج کے مسلمان اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور اس دور اوّل جیسا اخلاق وکردار اختیار کریں تو لوگ اس طرح صحبت کے حریص و مشتاق اور ایسی صحبت پر فخر کیا کرتے ہیں ۔جیسے یہ عورت اپنے ایک بہت بڑے غم کہ اس پر چوری کا نہ صرف الزام لگایا گیا بلکہ اس کی ستر تک کی تلاشی لی اور ایک پاکدامن عورت کے لئے یہ یقیناً ناقابل فراموش سانحہ ہے لیکن اس عورت کو صحبت اسلام ایسی بھانے لگی کہ اب یہ عورت اس واقعے پر بھی رنجیدہ نہیں ہے ۔

صحبت آخرت میں :

ہمیں ایک اہم دعا بھی کرنی چاہئے کہ اللہ آخرت میں اچھی ہی صحبت عطافرمائے ،جیسا کہ ایک صحابی ربیعہ بن کعب الاسلمی رضی اللہ عنہ سے جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا تھا ،مانگو تمہاری کیا خواہش ہے ؟ اس صحابی ربیعہ بن کعب الاسلمی رضی اللہ عنہ کا جذبہ دیکھئے کہ کہتا ہے : أَسْأَلُكَ مُرَافَقَتَكَ فِي الْجَنَّةِ. یعنی میں جنت میں آپکی رفاقت کا طالب ہوں ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : پھر اس میںکثرت سجود کے ساتھ میری معاونت کرو ۔(صحیح مسلم : 489، سنن ابوداؤد : 1320)

دعا ہے کہ اللہ تعالی دنیا و آخرت میں اچھی صحبتیں عطافرمائے اور بری صحبتوں سے محفوظ رکھے ۔ (آمین )

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے