پاکستان ماہ مقدس رمضان المبارک کی ستائسویں شب المطابق 14 اگست 1947ء کو معرض وجود میں آیا تھا جس کے قیام کے وقت برصغیر کے مسلمانوں نے اللہ تعالیٰ سے یہ عہد کیا تھا کہ اے اللہ ہم تیرے عطا کردہ اس خطہ کی سرزمین پر صرف اور صرف تیرے ہی قانون یعنی کتاب و سنت کے مطابق زندگی گزاریں گے ہماری تجارت معاشرت اور سیاست سب کچھ تیرے ہی قانون کے مطابق ہو گئی اور یہ نعرہ بھی بلند کیا گیا کہ یہ اسلامی ریاست خالصۃ اسلامی نظریہ کی بنیاد پر ظہور پذیر ہو گی اور جس کے بارے میں یہ بھی کہا گیا کہ قرآن و سنت کے زندہ اور جاوید قانون پر مبنی ریاست پاکستان دنیا کی بہترین ریاست ہوگی اور اس وقت کے مسلمانوں کے جذبات و احساسات پاکستان کے حصول کے لیے اس قدر سچے اور کھرے تھے کہ انہوں نے حقیقتاً اس مشن کے لیے اس قدر قربانیاں دی کہ تاریخ اسلامی اس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے لاکھوں مسلمانوں نے گھر سے بے گھر ہونا گوارہ کیا خاک و خون میں تڑپتے جگر گوشوں کو ٹکڑے ٹکڑے ہونا قبول کیا عفت اور عصمت کے تقدس کی بے حرمتی کو سہہ لیا تاکہ صبح آزادی سے ہمکنار ہو کر اللہ تعالیٰ کے قانون کے مطابق زندگی بسر کر سکیں۔ وگرنہ عبادات اور بعض ذاتی زندگی کے معاملات میں تو مسلمان ہندوستان میں بھی عمل پیرا تھے اور اظہار رائے کی بھی کچھ نہ کچھ آزادی تھی۔ حصول پاکستان کا بنیادی مقصد تو انفرادی اور اجتماعی زندگی میں مکمل طور پر اسلامی احکامات و حدوداللہ کا عملی نفاذ تھا جبکہ قصاص انہی حدود میں سے ایک حد ہے جیساکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے۔

يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِصَاصُ فِي الْقَتْلٰي ۭ اَلْحُــرُّ بِالْحُــرِّ وَالْعَبْدُ بِالْعَبْدِ وَالْاُنْـثٰى بِالْاُنْـثٰى ۭ فَمَنْ عُفِيَ لَهٗ مِنْ اَخِيْهِ شَيْءٌ فَاتِّـبَاعٌۢ بِالْمَعْرُوْفِ وَاَدَاۗءٌ اِلَيْهِ بِاِحْسَانٍ ۭ ذٰلِكَ تَخْفِيْفٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَرَحْمَـةٌ ۭ فَمَنِ اعْتَدٰى بَعْدَ ذٰلِكَ فَلَهٗ عَذَابٌ اَلِيْمٌ   ؁ (البقرة: 178)

اے ایمان والو! قتل کے سلسلے میں تم پر قصاص فرض کیا گیا ہے اگر قاتل آزاد ہے تو اسے بدلے آزاد ہی قتل ہو گا غلام کے بدلے غلام اور عورت کے بدلے عورت ہی قتل کی جائے گی پھر اگر قاتل کو اس کا بھائی (مقتول کا وارث) قصاص معاف کر دے تو معروف طریقے سے خون بہا کا تصفیہ ہونا چاہیے اور قاتل یہ رقم بہتر طریقے سے مقتول کے وارثوں کو ادا کر دے یہ (دیت کی ادائیگی) تمہارے پروردگار کی طرف سے رخصت اور اس کی رحمت ہے اس کے بعد بھی جو شخص زیادتی کرے اسے دردناک عذاب ہو گا۔

اور رسول اکرمﷺ کا ارشاد گرامی ہے: لَا يَحِلُّ دَمُ امْرِئٍ مُّسْلِمٍ، يَّشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَأَنِّي رَسُوْلُ اللهِ، إِلَّا بِإِحْدٰى ثَلَاثٍ: الثَّيِّبُ الزَّانِي، وَالنَّفْسُ بِالنَّفْسِ، وَالتَّارِكُ لِدِيْنِهِ الْمُفَارِقُ لِلْجَمَاعَةِ (صحیح مسلم 3/ 1302)

کسی مسلمان کا قتل جائز نہیں جبکہ وہ یہ گواہی دیتا ہو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور یہ کہ میں اللہ کا رسول ہوں مگر تین حالتوں میں اس کا قتل جائز ہوگا پہلی یہ کہ شادی شدہ بدکاری کی صورت میں دوسری یہ کہ قصاص کی حالت میں (قتل کے بدلے قتل) اور تیسری یہ کہ دین اسلام کو چھوڑنے اور مسلمانوں سے الگ ہونے کی شکل میں۔

اسلام ہی امن وامان اور سلامتی کا دین ہے اس لیے اسلامی حدود کو رائج فرماتا ہے تاکہ معاشرہ امن و سلامتی کا گہوارہ بن سکے اور یہ اس وقت ممکن ہو گا جب معاشرہ میں عدل و مساوات کا نظام قائم ہوگا اور قصاص کے لغوی معنی کسی چیز کے اثر کو تلاش کرنا ہے۔

اصطلاحی معنی: جرم کا بدلہ ایسے لینا کہ قصاص لینے والا ویسی ہی سزا مجرم کو دے جیسا جرم اس نے انجام دیا ہو۔

ایک دوسری تعریف کے مطابق جرم اور سزا کے درمیان مساوات کو قصاص کہا جاتا ہے اللہ تعالیٰ کے نظام سے بڑھ کر امن عالم کا داعی اور کون ہو سکتا ہے اور جو لوگ بے بنیاد اور غلط پروپیگنڈہ کرتے ہیں کہ اسلامی قوانین ظالمانہ ہیں وہ اسلام کی حقانیت سے آگاہ ہی نہیں بلکہ احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں وہ رب و رحیم و کریم کے اس فرمان پاک کو سمجھ ہی نہیں پائے

۔ وَلَكُمْ فِي الْقِصَاصِ حَيَاةٌ يَّا أُوْلِي الْأَلْبَابِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ (البقرة: 179)

اے ارباب دانش! قصاص کے حکم میں (اگرچہ ایک جان کی ہلاکت کے بعد دوسرے جان کی ہلاکت گوارہ کر لی گئی ہے لیکن یہ فی الحقیقت یہ ہلاکت نہیں ہے) یہ تمہارے لیے زندگی ہے۔

ان سب وضاحتوں کے باوجود اغیار کی اسلام دشمنی فہم و ادراک سے بالاتر ہے ہی مگر اپنوں کی مجرمانہ کوشش کہ اسلامی قوانین کو ختم کر دیا جائے کہ موجودہ تہذیب و تمدن میں ایسی سزائیں وحشیانہ ظالمانہ اور انسانی عزت و شرف کے منافی ہیں جبکہ مذکورہ بالا سوچ بھی ایک بیمار عقل و شعور سے عاری اور باسی ذہن کی سوچ ہو سکتی ہے جوکہ اسلامی نظام عدل کو سمجھ ہی نہیں پایا اسلامی عدل و انصاف کی خیروبرکات چودہ سو سال پہلے بھی دیدنی تھی اور آج ہی مختلف ممالک جن میں سر فہرست سعودی عرب اور برونائی میں دیکھی جا سکتی ہے اور یہ حقیقت ہے کہ جن ممالک میں سزائے موت پر عملدآمد ہوتا ہے وہاں سنگین جرائم کی شرح کم ہو جاتی ہے۔ مگر ہماری موجودہ حکومت بھول بھی گئی ہے کہ چند سال قبل پرویز مشرف کی حکومت نے مجرمانہ میڈیا مہم چلا کر حدوداللہ میں تبدیلی کر کے ایساظالمانہ قانون ملک میں نافذ کر دیا گیا تھا جو ملک کے اسلامی تشخص پر آج بھی بدنما دھبہ ہے آج یہ افراتفری قتل و غارت، بدامنی، مہنگائی، بے روزگاری اور امن و سکون کا غارت ہونے کا سبب وہی ’’حقوق نسواں بل‘‘ ہے جس میں اللہ تعالیٰ کی حدود کی پامال کیاگیا تھا۔

اے حکمرانو! اور عوامی نمائندوں بشمول صدر مملکت جب آپ منتخب ہو کر حکومتی ایوانوں میں جاتے ہو تو سب سے پہلے آپ حلف اٹھاتے ہوئے یہ کہتے ہو ’’میں حلف اٹھاتا ہوں میں اسلامی نظریہ کے تحفظ کی ضرور جدوجہد کروں گا جو کہ قیام پاکستان کی بنیاد ہے‘‘۔

مگر حلف اٹھانے کے بعد سب کچھ بھول جاتے ہو بلکہ بعض تو ڈالروں کی چمک دھمک دیکھ کر ایمان بیچنے کے لیے بھی تیار ہو جاتے ہیں۔ کیا آپ کو آخرت کا ڈر نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی زمین پر اور اللہ تعالیٰ ہی کے عطاکردہ اس زور سلطنت سے آپ اللہ ہی کے نظام کو ’’نعوذ باللہ‘‘ ظالمانہ کہہ رہے ہو۔ اور آپ کو اللہ تعالیٰ کا ذرابرابر بھی ڈر نہیں ہے یاد رکھو آٹھ اکتوبر کا زلزلہ کوئی بہت دور کی بات نہیں اب بھی وقت ہے کہ ہوش کے ناخن لو اور سنبھل جاؤ حدوداللہ میں تبدیلی سے باز آجاؤ وگرنہ قوم کی تباہی کے آپ سب خود ہی ذمہ دار ٹھہروگے۔

یہ بھی یاد رہنا چاہیے کہ ’’من حیث القوم‘‘ ہمارے دکھوں، پریشانیوں اور پستیوں کا علاج صرف اور صرف محسن انسانیتﷺ کے لائے ہوئے ’’نظام حیات‘‘ میں مضمر ہے۔

حکمرانوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ جن اغیار کے کہنے پر یہ اسلامی قانون سزائے موت میں ترمیم کرنا چاہتے ہیں ان کے اپنے ممالک یعنی امریکہ میں یہ قانون موجود ہے اس وقت دنیا کے 245 ممالک میں سے 64 ممالک میں سزائے موت کا قانون رائج ہے۔ امریکہ کی 14 ریاستوں میں سزائے موت کا قانون نافذ ہے اور امریکہ پاکستان میں سزائے موت غیر انسانی دلوا کر ختم کروانا چاہتا ہے۔مگر یہ دشمنان اسلام سزائے موت کی تبدیلی سے دراصل توہین رسالتﷺ جیسے سنگین جرم کی سزا کو معطل کرنا چاہتے ہیں اور حکمراں طبقہ اللہ اور اس کے پیارے حبیبﷺ کو ناراض کرکے مغربی آقاؤں کی خوشنودی حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ سزائے موت کو معطل کرنا دراصل قاتلوں کی حوصلہ افزائی کرنا ہے اور مقتول کے ورثاء کے زخموں پر نمک پاشی ہے اگر حکومت نے اس خدائی قانون پر تنفیذ کے احکامات صادر نہ کیے تو ملک میں قتل و غارت گری بھی بڑھے گی اور عوام قانون کو خود ہاتھ میں لے کر فیصلے کرنے میں بھی آزاد ہونگے۔ موجودہ حکومت نے سزائے موت کے فیصلے پر عملدآمد کا فیصلہ کیا ہے مگر ابھی تک عمل ہوتا ہوا دیکھا نہیں گیا۔ وزیراعظم کے مشیر برائے امور خارجہ نے اگرچہ کہا کہ سزائے موت کے قانون کو ابھی ختم نہیں کیا جا سکتا۔ مگر اس پر عملدآمد بھی تو نہیں ہو رہا ماورائے عدالت مجرموں کو قتل کیا جا رہا ہے جبکہ اسلامی طریقہ سزائے موت سے حکومت خوف زدہ ہے۔اور سزائے موت میں تبدیلی کرنے والوں کو معلوم ہونا چاہیے اسلام مجرم کے ساتھ انسانی ہمدردی اور انسانی حقوق کے نام یہ سزا کم یا ختم کرنا تودور کی بات ہے کہ سزا کم کرنے کی بھی حوصلہ شکنی کرتا ہے بلکہ سزا کو عبرت آموز بنانے کا حکم دیتا ہے جیساکہ حدوداللہ قائم کرتے وقت ارشاد ہے کہ

: وَلْيَشْهَدْ عَذَابَهُمَا طَائِفَةٌ مِّنَ الْمُؤْمِنِيْنَ (النور: 2)

اور مومنین کی ایک جماعت ان کی سزا کے اجراء کے وقت موجود ہونی چاہیے۔

یہ قاتل کے لیے بھی ہمدردی کہ اسے کم از کم سزا دی جارہی کیونکہ دنیا کی سزا بہرحال آخرت کے مقابلے میں کم ہے اور مقتول کے ورثاء کے ساتھ بھی انصاف ہے۔

قال اللہ تعالیٰ: وَلَكُمْ فِي الْقِصَاصِ حَيٰوةٌ يّـٰٓــاُولِي الْاَلْبَابِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ   (البقرة: 179)

اے عقل و خرد والو!تمہارے لیے قصاص میں زندگی ہے تاکہ تم قتل ناحق سے بچو۔

تبدیلی کرنے والوں کو یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ انہی اغیار کے کہنے پر صدر صدام حسین نے بھی اپنے دور حکومت میں سزائے موت کو تبدیل کر دیا تھا مگر حالات کی ستم ظریفی دیکھیں کہ صدام حسین کی پھانسی سے چند روز قبل سزائے موت کے قانون کا دوبارہ اجراء کیا گیا اور بعد میں پھر اس کو معطل کر دیا۔

رہی بات حدوداللہ میں تخفیف اور تبدیلی کا اختیار تو اسلامی قوانین مثلاً حدود، قصاص اور توہین رسالتﷺ کے قوانین میں معافی کا قانون اخلاقی اور شرعی طور پر کسی کو بھی حاصل نہیں حتی کہ انبیاء علیہم السلام کو بھی نہیں تو کسی ملک کے صدر یا وزیراعظم، اعلیٰ یا ادنیٰ شخص کو کیسے حاصل ہو سکتا ہے۔ رسول اللہﷺ کے عہد مبارک میں بنو مخزوم قبیلہ کی عورت نے چوری کی تو سیدنا اسامہ رضی اللہ عنہ نے سفارش کرنا چاہی تاکہ اس کی سزا کو تبدیل کر دیا جائے تو رسول رحمتﷺ نے اس عورت کو معاف کرنے کی بجائے یہ تاریخی کلمات ارشاد فرمائے:

أَتَشْفَعُ فِي حَدٍّ مِنْ حُدُودِ اللَّهِ لَوْ أَنَّ فَاطِمَةَ بِنْتَ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، سَرَقَتْ لَقَطَعَ مُحَمَّدٌ يَدَهَا (صحيح البخاري (8/ 160)

کیا تم اللہ تعالیٰ کی حدود کے بارے میں سفارش کرتے ہو؟ اگر فاطمہ بنت محمدﷺ بھی چوری کرتی تو میں محمدﷺ اس کا ہاتھ بھی کاٹ دیتا۔

مذکورہ بالا تفصیل سے عیاں ہوتا ہے کہ اسلامی سزاؤں میں ترمیم و تغیر کا کسی کو حق حاصل نہیں جب اختیار بھی حاصل نہیں تو اس قانون کو تبدیل کر کے اللہ کے غیظ و غضب اور عذاب کو دعوت نہ ہی دی جائے تو یہ سارے پاکستانیوں کے لیے اچھا ہی ہوگا ورنہ حکومتی مشنری اور اس کے کل پرزے اللہ رب العزت کے غیظ و غضب میں خش و خاک کی طرح بہہ جائیں گے۔

ارباب اقتدار سے اہل اسلام کا مطالبہ ہے کہ ملکی مفادات اور مخصوص مذہبی ثقافتی اور سماجی ڈھانچے کو پیش نظر رکھتے ہوئے سزائے موت کے قانون کو فی الفور نافذ کیا جائے۔ ان حالات میں حکمران طبقہ کے ساتھ اہم ذمہ داری علما اور مشائخ عظام کی بنتی ہے کہ وہ اہل وطن کی علمی و فکری رہنمائی اپنے گفتارو کردار سے فراہم کریں مگر صد افسوس حاملین علم نبوت کی اکثریت اپنے مقام و مرتبہ سے بے خبر ہے انہوں نے اپنی تمام تر توانائیاں جماعتی، گروہی اور مسلکی تعصب پھیلانے اور نفرتوں کو پروان چڑھانے حسد بغض اور ایک دوسرے کی کردار کشی میں صرف کر رکھی ہیں ان سب سے اللہ کے لیے اپیل ہے کہ آپس میں محبت اور اخوت کی فضا کو پیدا کریں اپنے دل جوڑنے کے بعد عوام کے دلوں کو جوڑیں اور ان کی منہج نبوت کے مطابق سیرت و کردار سازی کریں اور انہیں حدود اللہ کی خیر وبرکات سے آگاہ کریں اور انہیں بتائیں کہ درحقیقت قصاص میں ہی ہم سب کی زندگانی ہے پھر کوئی بھی حکمران ان شاءاللہ کسی حدود اللہ میں تبدیلی نہیں کر سکے گا اگر کرے گا تو اللہ تعالیٰ کی مدد سے اس کا ہاتھ پکڑ لیا جائے گا اللہ سے دعا ہے کہ ہمیں اسلا می قوانین پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے