گھر ایک چھوٹی مملکت کے مانند ہوتا ہے۔جس میں گھر کا ہر ایک فرد اپنے مرتبے کی مناسبت سے ذمہ داریوں کی ادئیگی پر فائز ہوتا ہے۔اگر ایک بھی فرد اپنی ذمہ داریوں کو ٹھیک سے انجام دینے میں کوتاہی برتتا ہے تو اس مملکت کی بنادیں کمزور ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔ جن کا اثر بچوں پر پڑتا ہے۔

والدین اس گھر کے سربراہان ہوتے ہیں، والدین ہی ایک گھر کے نظام کی منصوبہ بندی کرتے ہیں۔ایک دوسرے کی عمر کے فرق کے ساتھ ساتھ ہر فرد کی دوسرے سے مختلف شخصیت کے اور عزتِ نفس کا خیال رکھ کر ایک دوسرے کو سمجھنے اور ان کی مدد کرنے اور مختلف قسم کے اختلافات کو صحیح منصوبہ بندی کے ساتھ سلجھانے کی خصوصیات شخصیت میں نمایاں کرنا والدین کی ذمہ داریوں میں سے ایک بہت اہم ذمہ داری ہے۔

بچّے آپس کے اختلافات اور جذبات اور موڈ کا اظہار، کسی بھی قسم کی صورتحال پر ردّ ِعمل یا ری ایکٹ کرنااپنے بڑوں سے ہی سیکھتے ہیں۔اگر بڑے تحمل وبرداشت کے ساتھ مختلف حالات میں فہم اور سمجھداری سے معاملات کو سلجھاتے ہیں توبچے بھی ایک تحمل مزاج قوّتِ فیصلہ کے کردار کے حامل فرد بنتے ہیں۔

اگر بڑے ہر صورتِحال میں مسا ئل کا حل نکالنے کے بجائے ایک دوسرے پر صورتِحال کی ذمہ داری عائد کرنے کے عادی ہوں اور ایک دوسرے کو اُس مشکل کا ذمہ دار اور قصوروار گردانیں تو بچہ بھی مشکل کا حل نکالنے کے بجائے ایک دوسرے کو اُس مشکل کا قصوروار ٹہرا کر دوسرے کو مورودلالزام ٹہرانا سیکھتا ہے۔ایسے معاملات میں ایک صفت جو سب سے بڑھ کر بچّے کی شخصیت کا خاصا بنتی ہے وہ ہوتی ہے، اپنے سامنے کسی بھی شحصیت کو دل سے اُسکے مرتبے کے مطابق عزّت کے قابل نہ سمجھنا۔کیوںکہ اس نے اپنے گھر میں مشکل حالات میں غیرمناسب روّیوں کے ساتھ اختلافات دیکھے ہوتے ہیںجن میں اکثر بڑے ایک دوسرے کے مرتبے کو نظر انداز کر کے صرف الزام تراشی اور لڑائی جھگڑے سے ہی مسائل کو حل کرتے پائے جاتے ہیں اور ایسی صورتحال میں بچّے ڈرے سہمے خاموش تو ہوتے ہیںمگر سن اور سمجھ سب رہے ہوتے ہیں۔

سب سے بڑا نقصان شخصیت پر جب ہوتا ہے جب بچّے اس قدر شدید انتشار کے بعد گھر کا ماحول پرفضاء اور خوش ومطمئن پاتے ہیں۔ان کا نازک ذہن یہ تو نہیں سمجھ پاتا کہ یہ سب صرف اس لئے ہوا کہ مسئلہ کچھ خاص تھا ہی نہیں بات صرف بڑوں کے غلط رویّوںکی وجہ سے بڑی بنی اور جب سارے بڑے اپنا اپنا غصہ اور ناکامی ایک دوسرے پر دل کھول کر اتار چکے تو خود ہی تھک کر بیٹھ گئے اور ماحول پھر سے نارمل ہو گیا۔ اس کے برعکس بچّے یہ سمجھتے ہیں کہ یہ نارمل بلکہ پہلے سے بھی بہتر ماحول اس شددپسندانہ روّیہ کے ساتھ مسئلے کا حل نکالنا تھا۔

اس سوچ کا آغاز ایک بڑی غلط شحصیت کا آغاز ہوتا ہے جو چپ چاپ بچّوںمیںوقت کے ساتھ منظّم ہوتی جاتی ہے۔ نتیجتاً بچہ ایک شددپسندانہ ردّ ِعمل کا حامی بن کربڑ ا ہوتا ہے۔ اور جیسے جیسے اسکی ذمّہ داریوں کے دورشروع ہوتے جاتے ہیں یہ خصوصیات سامنے آتی جاتی ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے