اللہ کی توفیق سے ہم قرآن مجید کو اس کی زبان میں سمجھنے کے لیے سلسلہ وار دروس کا آغاز کر رہے ہیں جس کا مختصر تعارف ذیل میں پیش کیا جا رہا ہے۔

1۔ مقصد فہم قرآن

تمام تعریفات، حمد و ثناء اللہ وحدہ لاشریک کی ذات کو لائق و زیبا ہیں اور درود و سلام اور اللہ کی بے شمار رحمتیں نازل ہوں ہمارے پیارے نبی جناب محمد رسول اللہﷺ کی ذات مبارکہ و مطہرہ پر ان کی آل و اصحاب رضوان اللہ علیہم اجمعین پر۔ وبعد

اللہ تبارک وتعالیٰ نے ساری کائنات اور اس میں موجود تمام مخلوقات کو لفظِ کن کہہ کر پیدا کیا اور پھر مقصد تخلیق جن و انس کے بارے میں ارشاد فرمایا:

وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِيَعْبُدُوْنِ

اور میں نے جنات اور انسانوں کو صرف اس لئے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں۔ (الذاریات 56)

پھر ان دو مخلوقات کی ہدایت و راہنمائی کے لیے اللہ کے پیغمبر آتے رہے اور اللہ تعالیٰ کا پیغام صحیفوں اور کتابوں کی صورت میں پہنچاتے رہے اور پھر اللہ کے آخری پیغمبر جناب محمد رسول اللہﷺ اللہ کی آخری کتاب قرآن مجید دیکر مبعوث کئے گئے۔ جس کے بعد نبوت و رسالت کا ایک طویل سلسلہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بند کر دیا گیا اور نبی مکرمﷺ کے لائے ہوئے دین کو حجۃ الوداع کے موقع پر تکمیل کی مہر ثبت کر دی۔

اَلْيَوْمَ اَ كْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِيْ وَرَضِيْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِيْنًا

آج کے دن میں نے تمہارا دین تمہارے لیے مکمل کردیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کردی اور تمہارے لیے بحیثیت دین، اسلام کو پسند کیا ہے۔ (المائدۃ 3)

2۔ قرآن کا مقام و مرتبہ

قرآن مجید کا اصل مقام و مرتبہ تو اللہ رب العزت کی ذات اقدسہ ہی جانتی ہے کیونکہ مخلوق اس کا احاطہ کرنے سے قاصر ہے ہمارے لیے قرآن کی عظمت و جلالت کو سمجھنے کے لیے سورۃ الحشر کی یہ آیت مبارکہ ہی کا فی ہے۔

ارشاد ربانی ہے:

لَوْ اَنْزَلْنَا هٰذَا الْقُرْاٰنَ عَلٰي جَبَلٍ لَّرَاَيْتَهٗ خَاشِعًا مُّتَصَدِّعًا مِّنْ خَشْيَةِ اللّٰهِ ۭ وَتِلْكَ الْاَمْثَالُ نَضْرِبُهَا لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُوْنَ

اگر ہم اس قرآن کو کسی پہاڑ پر نازل کرتے تو آپ دیکھتے کہ وہ اللہ کے خوف سے دبا جا رہا ہے اور پھٹا پڑتا ہے۔ اور یہ مثالیں ہم لوگوں کے سامنے اس لئے بیان کرتے ہیں کہ وہ غور و فکر کریں۔ (الحشر 21)

3۔ قرآن مجید کی تلاوت کرنا، سمجھنا اور غور و فکر کرنا:

اَلَّذِيْنَ اٰتَيْنٰھُمُ الْكِتٰبَ يَتْلُوْنَهٗ حَقَّ تِلَاوَتِهٖ ۭ اُولٰۗىِٕكَ يُؤْمِنُوْنَ بِهٖ ۭ وَمَنْ يَّكْفُرْ بِهٖ فَاُولٰۗىِٕكَ ھُمُ الْخٰسِرُوْنَ   (البقرۃ 121)

جن لوگوں کو ہم نے کتاب دی ہے وہ اسے اسطرح پڑھتے ہیں جیسا کہ اسے پڑھنے کا حق ہے۔ یہی لوگ (حقیقتاً) اس (قرآن) پر ایمان لاتے ہیں۔ اور جو اس کتاب کا انکار کرتا ہے تو ایسے ہی لوگ خسارہ اٹھانے والے ہیں۔

مندرجہ بالا آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے (قراءۃ) کا لفظ استعمال نہیں کیا۔ جس کے معنی صرف پڑھنا (To Read) کےہیں بلکہ یہاں ’’یتلوا‘‘ کا لفظ استعمال کیا جس کے لفظی معنی پیچھے آنا (To Follow) ہیں یعنی جب انسان کوئی عبارت پڑھتا ہے سمجھ کر تو الفاظ کے پیچھے پیچھے معانی بھی اس کے ذہن میں آتے ہیں اس سے پتہ چلا کہ بغیر سمجھے قرآن مجید پڑھنا اس کا حق تلاوت نہیں بلکہ سمجھنا شرط ہے۔ جبکہ نام نہاد علماء نے عام مسلمانوں کو یہ باور کرا دیا ہے کہ قرآن مجید کو سمجھنا مشکل ہی نہیں بلکہ نا ممکن ہے جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے اللہ رب العزت سورۃ القمر میں ارشاد فرماتے ہیں:

وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْاٰنَ لِلذِّكْرِ فَهَلْ مِنْ مُّدَّكِرٍ

ہم نے اس قرآن کو نصیحت حاصل کرنے کے لئے آسان بنا دیا ہے۔ پھر کیا ہے کوئی نصیحت قبول کرنے والا ؟ (سورۃ القمر 17، 22، 32، 40)

نبی مکرمﷺ کے آجانے کے بعد نبوت کا سلسلہ ختم ہو چکا ہے آپ دعوت الی اللہ کی تمام کو ذمہ داری اس امت محمدیہ پر ہے جس میں ہم سب شامل ہیں۔

رب تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ:

وَلْتَكُنْ مِنْكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ (آل عمران: 104)

اور تم میں سے کچھ لوگ ایسے ہونے چاہئیں جو نیکی کی طرف بلاتے رہیں۔ وہ اچھے کاموں کا حکم دیں اور برے کاموں سے روکتے رہیں اور ایسے ہی لوگ مراد پانے والے ہیں۔

اس آیت مبارکہ پر عمل پیرا ہو کر ہم ان بدنصیبوں کی فہرست سے نکل سکتے ہیں جن کے بارے میں کل قیامت کے دن رسول اللہ گواہی دیں گے۔

وَقَالَ الرَّسُوْلُ يٰرَبِّ اِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوْا ھٰذَا الْقُرْاٰنَ مَهْجُوْرًا (الفرقان 30)

اور رسول اللہ کہیں گے: پروردگار! میری قوم کے یہی لوگ ہیں جنہوں نے اس قرآن کو نشانہ تضحیک بنا رکھا تھا۔

4۔ عربی گرامر اور تدبر قرآن

جو کچھ بھی ہم اس سلسلے میں پڑھیں گے وہ محض عربی زبان یا قرآن کی گرامر کے طور پر نہیں بلکہ اس لیے پڑھیں گے کہ کلام اللہ کو سمجھ کر اس پر عمل کریں۔ (ان شاءاللہ) کیونکہ رب تعالیٰ نے کم و پیش ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء و رسل کو صرف اس مقصد کے لیے بھیجا تھا کہ وہ اللہ کی مخلوق کو اس کا پیغام سمجھائیں اور پھر اپنی زندگیوں کو اپنے خالق و مالک کی مرضی اور منشاء کے مطابق ڈھال سکیں۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:

اَفَلَا يَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ اَمْ عَلٰي قُلُوْبٍ اَقْفَالُهَا

کیا یہ لوگ قرآن میں غور نہیں کرتے یا ان لوگوں کے دلوں پر قفل چڑھے ہوئے ہیں۔ (محمد 24)

ان شاءاللہ ہم اس عربی/ قرآنی گرامر کے ذریعے قرآن کو سمجھنے کی کوشش کریں گے خلوص نیت کے ساتھ پڑھیے ان شاءاللہ یہ لمحات بھی عبادت کا حصہ ہونگے۔ اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔ (جاری ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے